کوہاک (Kohak) کا خط
’’دی جوک‘‘ پر ڈی اے این جونس کا ’’ریویو آف بکس نیویارک‘‘ میں شائع شدہ تبصرہ اور اس تبصرے پر ارازم وی کوہاک (Erazim V. Kohak) کا خط۔
’’دی جوک‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے ارازم وی کوہاک نے ۱۳؍ اگست ۱۹۷۰ء کو نیویارک ’’ریویو آف بکس‘‘ کے مدیران کے نام اپنے خط میں لکھا:
ڈی اے این جونس نے ملن کنڈیرا کے ناول ’’دی جوک‘‘ پر تفصیلی اور پرسپیکٹو انداز سے جائزہ لکھ کر پڑھنے والوں کی ایسی خدمت کی ہے جس کو میں ایک چیک کی حیثیت سے قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں، لیکن میرے خیال میں وہ ایک مشکوک ترجمے کو پیشِ نظر رکھنے کی وجہ سے قدرے گمراہ ہوگئے۔ اس ترجمے میں چیک پس منظر بہت سطحی ہے۔ پہلی بات ’’دی جوک‘‘ میں ’’ڈیوبک لبریلائیزیشن‘‘ (Dubeck Liberalization) کو پیش نہیں کرتا ہے جیسا کہ ڈی اے این جونس کی تحریر سے ظاہر ہوتا ہے۔ کنڈیرا نے قلمی نسخہ ۱۹۶۵ء میں ڈیوبک سے بہت پہلے مکمل کرلیا تھا۔ جس زمانے کے بارے میں اس نے لکھا ہے وہ ’’نوروٹنی (Novotny) برسوں‘‘ کا زمانہ ہے۔
کنڈیرا کی کتاب کا مطالعہ جیسا کہ جونس کرتے نظر آئے ہیں، امریکی نظریۂ معاشرتی ارتقا کے عام پیمانوں کے مطابق نہیں کیا جاسکتا۔ کوئی مثال انقلابی تڑپ کی جو آزادی کے زوال سے دب گئی یا کمیونسٹ جبر جو آزادی کی تحریک کے زیرِ اثر معتدل ہوگیا— چیک صورتِ حالات اور اس کے حقائق پر صادق نہیں آسکتی۔ کسی ایسی مثال کی ضرورت پڑتی ہے جو خاصی پیچیدہ، گنجلک ہو اور تھوڑی تبدیلیوں کے ساتھ ان تمام ممالک پر لاگو ہوسکے جہاں کمیونسٹ پارٹی اقتدار میں آئی اور شہریوں پر لامحدود قیود اور پابندیوں کو عائد کرنے میں کامیاب ہوئی۔
اس طرح کی مثال کے تین مرحلے ہوں گے اور ان کی نوعیت تاریخی ہوگی۔ اوّلین مرحلہ اقتدار میں آنے کے فوری بعد کا مرحلہ جو حقیقی انقلابی عزائم سے معمور تھا۔ ڈی اے این جونس کا رویہ اس مرحلے کے لیے موافقانہ ہے اور کنڈیرا کا بھی کچھ ایسا ہی ہے، لیکن کنڈیرا کے برعکس جونس کے احساسات دوسرے مرحلے کے معاملے میں ناموافق ہیں۔ اس دوسرے مرحلے کے دوران کا وقت ہے جس میں کنڈیرا کا ناول خلق ہوتا ہے۔ یہ مرحلہ ایک انداز سے ۱۹۵۸ء سے ساٹھ کی دہائی کے وسط تک محیط ہے۔ اس مرحلے کو آزادی یا لبرالائی زیشن کے مرحلے سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔ یہ زوال کا، جبر کا، خوش فہمیوں کے ازالے کا اور برہمی کا مرحلہ ہے۔ انقلابی عزائم کی اس شکستگی کا سبب آزادی کی زوال پذیری نہیں تھی، بلکہ ان کی اپنی اندرونی منطق تھی۔ مشکل مقاصد کی تکمیل کے لیے سخت پابندیِ احکام کی ضرورت تھی اور نتیجے کے طور پر انقلاب اس پر مجبور تھا کہ آزادی کو اپنے قابو میں لے کر چلے اور چلائے۔ وہ وقتی اقدامات کی اجازت نہیں دے سکتا تھا— انقلاب اپنے ہی بوجھ تلے دب کر مرگیا— انقلاب والوں نے اپنے حمایتیوں کو اپنے سماجی نقشے کے مطابق چلانے میں ہر طرح کے جبر اور سختی کو اپنے لیے روا بنالیا۔ حمایتی— ریاست اور حکومت کے بیوروکریٹ بن کر رہ گئے۔ ایک ایسا عہد تشکیل پایا جو بے رحم جبریت سے عبارت تھا جس کو کنڈیرا نے اپنے ناول میں تصویر کیا۔ ۔۔۔۔۔انتخاب کرنے پر مجبور ہوئی تو ڈیوبک کی سیکریٹری جنرلی کے تحت چیک پارٹی نے آزادی اور سوشلزم کا انتخاب کیا۔ ماسکو نے طاقت کا انتخاب کیا۔ نتیجے کے طور پر کرنلوں (Colonels) کی حکمرانی جس کو ماسکو نے ملک ملک، ہر اُس ملک میں رائج کیا جو سوشلزم کے مرحلے پر پہنچا۔ یہ مرحلہ سخت گیری میں تو پہلے مرحلے جیسا ثابت ہوا، لیکن عوامی حمایت سے بالکل ہی محروم رہا۔
چیک مصنفوں جیسے کنڈیرا، اسکوویکی، واکولک— اور ساتھ ہی چیک فلمیں بنانے والوں نے دوسرے عہد کی عکاسی کی۔ جن کے فٹ نوٹ ٹینکوں (tanks) نے تحریر کیے، وہ سامنے نہ آسکے— ’’دی جوک‘‘ کا کلیدی پرسپیکٹیو دوسرے مرحلے سے جڑا ہے۔ (جونس کی تحریر کے برخلاف) حقیقی زندگی میں اور کنڈیرا کے ناول دونوں میں، قدیم رواج برے وقت سے گزرے ’نوروٹنی‘ عہد میں جو عہد تھا ’’اتھاری ٹیریانزم‘‘ (Authori- tarianism) کی زوال پذیری کا۔
Erazim V. Kohak
Associate Professor of Philosophy
Boston University
——————————
The New York Times; January 11, 1970, according to Ludvik, Optimism was the Opium of the people, by Michael Berman.
لڈوک کے خیال میں ’’رجائیت‘‘ اوپٹی میزم افیون تھی۔ تحریر: مائیکل برمن۔
’’دی جوک‘‘ چالیس سالہ ملن کنڈیرا کا پہلا ناول ہے، لیکن اس کی پہلی تصنیف نہیں۔ اس کی نظموں کا مجموعہ ’’مونو لوگس‘‘ (خود کلامیاں) ایک ہی ’محبت کی شاعری‘ کی کتاب ہے جو اسٹالن کے دورِ اقتدار میں چیکو سلواکیا میں شائع ہوئی۔ اس کے مختصر افسانوں کے تین مجموعے ’’ریڈی کلس لوز‘‘ (Ridiclous Loves) وہاں پر برسوں سے ’’بیسٹ سیلر‘‘ سب سے زیادہ فروخت ہونے والے، رہے تھے۔ لیریکل (نغمگی) اور بیان کی مہارت جس کا مظاہرہ وہ کرچکا تھا، واضح طور پر اس کے ناول میں آگئی۔
کسی طور سے بھی سمبولسٹ (علامتی) نہ ہونے کے باوجود ’’دی جوک‘‘ بے شمار سطحوں پر نمایاں رہا۔ کردار، کردار رہے اور ساتھ ہی اس وقت کی چیکو سلوویک معاشرے کے نمائندے (ٹائپ) بھی مانے گئے۔ پلاٹ ایسے ناولوں کے پلاٹ سے موازنے کے لائق ثابت ہوا جو مرکوز ہوتے ہیں اپنے ہیروؤں کے اندر کی دنیاؤں پر اور بونس کے طور پر یہ ناول قریباً بیس برسوں کے چیکو سلوواکیائی معاشرے کی مختصر تاریخ مہیا کرتا ہے۔
آخر میں اس ناول میں گناہ پر غوروفکر اور تدارک کے امکانات کا تصور اور واقعات کے عقب میں تاریخ کی کارفرمائی کا شعور، اس ناول کو توجہ کے لائق بناتا ہے۔
یہ کتاب مشتمل ہے چار ضمیر متکلم کی صورت بیان ہوئی اور ایک دوسری میں ُبنی ہوئی کہانیوں پر: لڈوک کی، ہیلینا کی اور دیگر دو کی۔ ہم اکثر واقعات اور کرداروں کو جو ہوتے ایک ہی ہیں، مختلف نقطہ ہاے نظر سے دیکھ پاتے ہیں، جب کہ ہر نقطۂ نظر اپنا اپنا منفرد انداز اور فلسفہ اپنائے ہونے کے باوجود بہم مربوط ہوکر دل چسپ، ہم کو مطمئن کردینے والا مکمل وجود، ہمارے سامنے لاتا ہے۔ ’’دی جوک‘‘ بنیادی طور پر ایک المیہ ہے۔
’’یوں ہے جیسے پارٹی کوئی انسانی وجود تھی جو مجھے اپنے راز بتا دیتی جب میرے پاس کسی سے کہنے کے لیے کچھ نہ ہوتا۔‘‘ مایوس کن حد تک اکیلی پڑجانے والی ہیلینا اعتراف کرتی ہے۔
کنڈیرا کی قدردانی کے لیے یہی بہت ہے کہ وہ اپنے ہیرو کو اپنے جیسا ’ہٹا ہوا‘ دانش ور نہیں دکھاتا ہے (ایک آدمی جس کے پاس جوابات ہیں)۔ لڈوک یہ سمجھتا ہے کہ وہ خود ہر ممکنہ اقدام کر رہا ہے وقت کو اس کے زخموں کو بھرنے سے روکنے کے لیے، لیکن نفرت نے اس کی زندگی سے دیگر تمام جذبات کے لیے گنجائش باقی نہیں رکھی۔ اپنے حالات کی اس ناموزونیت کا شعور اس مرحلے پر نقطۂ عروج تک پہنچتا ہے جب وہ اپنے بچپن کے دوست کو حملۂ قلب کے شکنجے میں مبتلا دیکھتا ہے۔ ناول کے آخر میں وہ (کنڈیرا) نئی نسل سے مطمئن نہیں محسوس ہوتا۔ کم از کم اس کے دو نمائندوں سے جن کو ناول کے آخر میں متعارف کراتا ہے۔ ان کا صرف اور صرف اپنے آپ سے غرض رکھنا اتنا ہی گھٹیا لگتا ہے جتنا اس کے ہم عصروں کا رویہ پارٹی سے رہا۔ وہ (لڈوک) نتیجہ نکالتا ہے کہ ہمیں تاریخ کو قصوروار ٹھہرانا چاہیے نہ کہ انسانوں کو— جرائم کا— ’’دی جوک‘‘ اب اس سے متعلق نہیں رہتا۔ اب وہ تاریخ کا ’’جوک‘‘ بن جاتا ہے اور آدمی تاریخ سے کس طرح فرار ہوسکتا ہے؟
ترجمہ (انگریزی) اصل کے مزاج کو پیدا کرنے میں بڑی حد تک کامیاب ہے، لیکن اس میں کہیں کہیں پورے جملے، پیراگراف اور ایک مثال پورے ایک باب کو حذف کرنے کی ملتی ہے۔
دی لندن ٹائمز لٹریری سپلیمنٹ کی اشاعتوں میں مترجم اور غصے میں بھرے ہوئے کنڈیرا کے مابین خطوط کا تبادلہ ہوا اور یہ چیز روشنی میں آئی کہ مدیر/ مرتب نے حذف کرنے کا اقدام کنڈیرا سے اجازت حاصل کرنے کی دو ناکام کوششوں کے بعد از خود کیا۔ صاف ظاہر ہے کہ مدیروں کے ذہنوں میں یہ مقصد رہا ہوگا کہ ناول کو پڑھنے میں آسان سے آسان بنایا جائے۔ حذف شدہ باب کا مثال کے طور پر موضوع تھا ’’جدید معاشرے میں فوک موسیقی کا مقام‘‘۔
خوش بختی سے مذکورہ محذوفات کے باوجود ’’دی جوک‘‘ کا مخصوص ذائقہ باقی رہا۔ چیکو سلوواکیا میں لبرالائیزیشن کے مرحلے کو اور اُس کے پس منظر کو ناول بہت حد تک اُجاگر کرنے میں کامیاب ہے۔ ’’غیر انسانیت پر یہ انسانی حسیات سے معمور نظر ڈالتا ہے۔‘‘
’’دی جوک‘‘ نمایاں نفسیاتی مشاہدے اور ادبی امتیاز کی تصنیف ہے۔
(تبصرہ نگار اور ناقد میکائل برمن ہارورڈ میں شعبۂ سلاوک لینگویجز اور ادب میں ٹیچنگ فیلو ہیں۔)
——————————
ملن کنڈیرا: فکریات (مرکزی) تھیم
(۱)
کمیونسٹ پارٹی کا اقتدار پر قبضہ
ملن کنڈیرا کی ابتدائی فکشنی تخلیقات کی جڑیں ۱۹۴۸ء کے حکومت پر قبضے (coup) کے واقعے میں موجود ملتی ہیں۔ اس واقعے کے حوالے کے علاوہ اس کی جانب واضح اشاروں سے ملن کنڈیرا کا فکشن بھرا پڑا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے ملن کنڈیرا کا ذہن اندر ہی اندر اس واقعے کو بار بار ہوتا دیکھ رہا ہے، اس کا سرد و گرم بھگت رہا ہے، اس کے اندر جی رہا ہے، زخم زخم ہورہا ہے، مر رہا ہے۔ اس واقعے نے ملن کنڈیرا کے ایک اوب سیشن (Obsession) کی صورت اختیار کرلی ہے۔
یہ صرف اور صرف ملن کنڈیرا کا معاملہ نہیں تھا، نہ ہی کسی قلم کار یا فن کار کا معاملہ تھا اور نہ ہی کسی ایک فرد کا معاملہ، درحقیقت یہ ایک پوری نسل کا معاملہ تھا۔ یہ ایک خطۂ ارض کی آغوش میں پرورش پانے والی زندگی کا جو تاریخ بننے جارہی تھی، ایک نوع کی دائمی واپسی کا معاملہ۔
حقائق کی مسلسل جانچ پڑتال کے دوران اصنافِ ادب کی قلبِ ماہیت ہوتی جارہی تھی۔ کہاوت، داستان، پریوں کی کہانیاں، تلمیح، رمز، کنایہ روپ بدلتے حالات۔
(۲)
سینی سیزم ہے بھی اور نہیں بھی
انقلاب کے خواب نے انقلابیوں کو ایک ایسی تعبیر سے دوچار کردیا تھا کہ خواب کا شیشہ کرچی کرچی ہوگیا تھا۔ پشیمانی ان کی تقدیر بن گئی تھی۔ اس پشیمانی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سینک (Cynic) رویے کا قاری ملن کنڈیرا کے ناولوں اور دیگر تحریروں میں آسانی سے مشاہدہ کرسکتا ہے۔ پلاٹ کی بُنتوں میں یہ سینک رویہ کارفرما ملتا ہے۔ کرداروں میں ایک کردار اس رویے کا نمائندہ ملتا ہے اور وہی کردار ناول کا سب سے فعال کردار ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر یہ ’’دی جوک‘‘ میں جاہن لڈوک جو ناول کے سات حصوں میں سے تین حصوں میں مرکزی حیثیت اختیار کیے ہوئے اور باقی حصوں کو بھی متأثر کرتا ہے۔ قدرت، فطرت، وقت، حالات اور تقدیر اس کے ساتھ ستم ظریفی میں مصروف نظر آتے ہیں۔ اس کا ہر اقدام اس کے خلاف سفاک نوعیت کے مذاق پر منتج ہوتا ہے۔
حیرانی کی بات یہ ہے کہ ملن کنڈیرا کی فکشن کی فضا مجموعی طور پر تاریک، تنگ اور گھٹی نہیں ہوتی۔ اس کے برخلاف روشن اور طرب ناک رہتی ہے۔
(۳)
کمیونسٹ اقتدار مکمل جبریت سے عبارت تھا
کمیونسٹ حکومت نے زراعت کو اجتماعیت کے روپ میں ڈھالا، صنعتوں کو قومیایا، شہریوں کے کام بھی متعین کیے، میڈیا کو حکومت کے قابو میں کیا، تصنیف و تالیف کے معاملات کو تحویل میں لیا، شادی بیاہ کو پارٹی ڈسپلن کے محور میں داخل کیا۔ اس جبریت میں تھوڑی بہت آزادی کی سبیل باقی رہ گئی۔ اس آزادی کا تعلق، محبت اور جنسی رشتوں سے ہے۔ اسی سبب سے ملن کنڈیرا کے فکشن میں جنسی ملاپ کا عنصر قدرے زیادہ ملتا ہے۔
ناول ’’دی جوک‘‘ میں جنسی ملاپ کی جو صورت دیکھنے یا پڑھنے کے لیے ملتی ہے اس میں مرد و زن کی نیتوں میں بہت زیادہ اور واضح فرق ہے۔ مرد انتقاماً جنسی عمل کا ارتکاب کررہا ہوتا ہے، جب کہ عورت اس عمل سے اپنی دیرینہ ضرورت پوری کررہی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ عورت اپنے شوہر سے بے وفائی کی مرتکب ہونے کے علاوہ غیر قانونی اور غیر واجب تعذیر جنسی عمل کررہی ہوتی ہے۔
ملن کنڈیرا کا اسلوب: بیانیوں میں لہجے کا تنوع
بہ ظاہر ملن کنڈیرا کا اسلوب سادہ اور واقعاتی ہے۔ کرداروں کی آواز اور لہجہ، لفظیات ہر کردار کے لیے منفرد، مختصر اور قابلِ شناخت۔
لڈوک کا بیانیہ خود مرکزیت اور براہِ راست اظہار پر مشتمل ہے۔ ہیلینا کا ہر جملہ چھوٹے ثانوی جملوں میں بٹا ہوا جو ایک دوسرے میں داخل ہوتے ہوئے اور خلط ملط ہو جاتے ہیں۔ اس سے بیانیے میں نسائیت کا ذائقہ اور شعور کی رو (stream of consciousness) کی تکنیک کا تأثر آمیز ہوتا ہے۔
ملن کنڈیرا کے اسلوب پر بات کرنا مناسب ہی نہیں لگتا، کیوںکہ قاری کا واسطہ ترجمے سے ہوتا ہے۔
قاری کے لیے ملن کنڈیرا میں زبان و بیاں کے علاوہ اور بھی کچھ موجود ہے۔ اس بہت کچھ کا رشتہ پلاٹ سے ہے۔ پلاٹ قاری کی دل چسپی کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ کردار پلاٹ کی فضا کو دل کش، دل چسپ بناتے ہیں۔ کردار خیال آفریں ہوتے ہیں۔ پلاٹ کے محور اور فضا میں کرداروں کے علاوہ خود ملن کنڈیرا اپنی تمام تر ذہانت، دانش اور فلسفے کے ساتھ ہمہ وقت موجود رہتا ہے۔ ملن کنڈیرا ہی کرداروں کو ہمہ وقت سوچنے، غور کرنے اور اپنے مقاصد اور نیت کا جائزہ لینے اور تجزیہ کرنے میں مصروف رکھتا ہے۔ کسی نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ ملن کنڈیرا حکایت بیان کرنے والا قلم کار نہیں ہے، ذہین اور تجزیہ کرنے والا مصنف ہے۔
ملن کنڈیرا اپنے کرداروں کے اندرون، باطن سے اس حد تک واسطہ رکھتا ہے کہ ان کی خارجی تصویر کشی سے یکسر غافل ہوجاتا ہے۔ وہ اپنے کرداروں کی ظاہری صورت، چہرہ مہرہ، آنکھیں، بالوں کی رنگت، آنکھ کی پتلیوں کے رنگ، قد، کاٹھی، موٹے یا پتلے بدن کا ذکر نہیں کرتا اور کرتا ہے تو شاذ شاذ۔ اس کے باوجود یہ نہیں کہا جاسکتا کہ کردار ٹائپ ہیں، گوشت پوست کے بنے ہوئے آدمی نہیں ہیں۔ یہی وہ خصوصیت ہے جس کی اساس پر ملن کنڈیرا ایک اپنے رنگ کا اچھوتا اور منفرد ناول نگار ہے۔
اس ضمن میں یہ سوچا جاسکتا ہے کہ ہم زندگی میں کسی کسی کو اس کی کسی اچھائی یا برائی کی بنیاد پر علامتی گروہ میں داخل کرلیتے ہیں۔ اس سے ہم یہ مراد نہیں لیتے کہ وہ گوشت پوست کا آدمی نہیں ہے بس نرا حاتم طائی ہے یا کنجوس مکھی چوس ہے، فرشتہ ہے، شیطان ہے وغیرہ وغیرہ۔
اوپر ہم نے کرداروں کے بنیادی عناصر کی جانب جو اشارہ کیا ہے، ان بنیادی عناصر کو شناخت کرنے والے اور کوئی نہیں، کردار خود ہیں۔ اسی طرح ناول کی اصل کہانی کو بھی توڑ پھوڑ کر اس کا ایک آمیزہ تیار کرکے اس کے عناصر کو اہم کرداروں کے واحد متکلم بیانیوں کے ذریعے قاری تک پہنچایا گیا ہے۔
ملن کنڈیرا: مسئلہ نام کا
٭۔ مائلان (Maelan) نہیں میلان (Meelan)۔ (اطالوی)
٭۔ مِلن (Milan) میلاں (Meelan) نہیں۔ (برطانوی)
٭۔ میلان (Mee-lan) مہلان (Mih-lan) ملانو (Milano)۔ (اطالوی)
٭۔ میلان اطالوی میں بھی غلط ہے اور انگریزی میں بھی۔
٭۔ دولت مند امریکی ملن کو ملاوون بولیں گے۔
٭۔ پاکستان میں معلوم نہیں کس طرح ’ملان‘ آگیا۔
٭۔ میری ذاتی پسند ’ملن‘ ہے نہ ملان اور نہ می لان۔
٭۔ Milan میں واویل i یا a کو خواہ مخواہ طول دینا مجھے مناسب نہیں لگتا۔
ملن کنڈیرا کی کہانی: ڈنکن وہائٹ کی زبانی
ناول اسٹالینی ذہنیت پر ایک شان دار حملہ ہے۔ اس عہد کے دوران جس کو نوروٹنی برسوں کا نام دیا جاتا ہے، یہ ناول زبردست کامیابی سے ہم کنار ہوتا ہے۔ ’’دی جوک‘‘ فرانس میں ۱۹۶۸ء میں شائع ہوا۔ یوکے میں اس کے ایک سال بعد روسی ٹینکوں کی چیکو سلواکیا میں آمد کے ساتھ ہی ملن کنڈیرا کی پریشانیاں بڑھنی شروع ہوئیں۔ وہ پارٹی سے نکالا گیا۔ حیوسیک کی نام نہاد نورمالائیزیشن (Normalisation) کی پالیسی کے تحت اس کی تصنیفات پر پابندی عائد کردی گئی۔ تاہم اس کے ناول چلتے رہے۔ اس کی شہرت بیرونی دنیا میں پھیلتی رہی۔ ۱۹۷۳ء میں ’’لائف از ایلس ویئر‘‘ (Life is Elswhere) فرانس میں شائع ہوئی اور اس کو بہترین غیر ملکی کتاب ہونے کا ’پرکس میڈیکس‘ (Prix Medicis) انعام ملا۔ اس سے اگلے سال فلپ روتھ (Philip Roth) نے اس کو امریکی قاریوں کے وسیع حلقے میں روشناس کیا۔ اس نے ملن کنڈیرا کی کتاب ’’لاف ایبل لورس‘‘ (Laughable Lovers) کو پنگوئن (Penguin) کی پیپر بیکس (paperbacks) کے سلسلے میں چھپوایا۔
۱۹۷۵ء میں اس کو رے نس کی یونی ورسٹی میں لیکچر دینے کی دعوت ملی۔ حاکموں نے اسے جانے کی اجازت دی۔ وہ اپنی بیگم ویرا (Vera) کے ساتھ چلا گیا اور واپس نہیں آیا۔ پیرس میں اس نے وہ ناول لکھے جن کی کامیابی نے اس کو اکابرین کے مرتبے پر فائز کیا۔ اس کا ناول ’’بک اوف لافٹر اینڈ فورگیٹنگ‘‘ فرانس میں دھوم مچانے میں کامیاب ہوا۔
’’دی نیویورک ٹائمز‘‘ میں جون اپڈائیک (John Updike) نے تعریف و تحسین سے معمور تبصرہ کیا۔ برطانیہ میں روتھ (Roth) نے ملن کنڈیرا سے انٹرویو کیا۔
’’بک اوف لافٹر اینڈ فورگیٹنگ‘‘ نے ملن کنڈیرا کو نقادوں کے حلقے میں کامیابی اور سرخ روئی دلائی۔ قاریوں میں پسندیدگی سے نوازا۔ ’’دی اَن بیئرایبل لائٹ نس اوف بینگ‘‘ نے خاصی کمرشل کامیابی سے ہم کنار کیا۔ یہ ناول ’بیسٹ سیلر‘ ثابت ہوا۔ حالات کا طنز دیکھیے کہ ملن کنڈیرا ایک ایسی زبان میں لکھ رہا تھا جس کو اس کے لوگوں میں بہت کم افرادجانتے تھے۔ کنڈیرا کے اپنے قیاس کے مطابق اسّی کی دہائی تک اس کے پڑھنے والوں میں مشکل سے ایک ہزار ’چیک‘ ہوں گے۔
’’دی اَن بیئرایبل لائٹ نس اوف بینگ‘‘ کی اشاعت کے بعد ملن کنڈیرا نے یہ محسوس کیا کہ اس نے اپنا اوور ڈوز (overdose of myself) لے لیا ہے۔ اس نے انٹرویوز دینے ترک کردیے اور عوامی زندگی (public life) سے گریزاں ہوگیا۔ اپنی کتابوں کی اشاعت میں روک تھام شروع کردی۔ اپنی کتابوں کو مزید فلموں کی صورت میں دینے پر بھی پابندی لگا دی۔ اسے وہ فلم پسند نہیں آئی تھی جو فلپ کوف مین (Philip Kofman) نے ’’دی اَن بیئرایبل لائٹ نس اوف بینگ‘‘ پر بنائی تھی (۱۹۸۸ء)۔ حالیہ دنوں میں اس نے اپنی کتابوں کو ’’ای بکس‘‘ (E-books) کے طور پر شائع کرنے سے منع کردیا۔
ولیم فوکنر نے کہا تھا کہ اس کا جذبہ (ambition) تھا کہ ایک عام (private) فرد رہوں تاریخ سے الگ، تاریخ پر کوئی نشان نہ چھوڑنے والا ماسوا مطبوعہ کتابوں کے۔ یہ ملن کنڈیرا کا اسّی کے عشرے کے بین بین کی حالت پر منطبق ہونے والا بیان ہے۔ اس نے اپنی کتابوں کے فرانسیسی میں ترجموں پر نظرِ ثانی کرنی شروع کردی اور ان کو اصل ٹیکسٹ ہونے کا اعلان کرنے لگا۔ اس نے ’’دی جوک‘‘ سے ماقبل چھپی ہوئی کتابوں کو غیر مستند قرار دے دیا۔
ملن کنڈیرا کے چیک نقادوں کو اس کے یہ اقدامات پسند نہیں آئے۔ انھوں نے اس پر گرفت کی اور خیال ظاہر کیا کہ وہ اپنے بین الاقوامی پڑھنے والوں سے اپنا ماضی مخفی رکھنا چاہتا ہے۔ خاص طور اپنی غیر معمولی لگن کو جو وہ کمیونزم کے لیے رکھتا تھا۔ اس معاملے میں ملن کنڈیرا کے دفاع کے لیے ’’دی جوک‘‘ اور ’’دی بک اوف لافٹر اینڈ فورگیٹنگ‘‘ جیسے ناول کو پیش کیا جاسکتا ہے۔ ان ناولوں میں اس کی نوجوانی کی سیاسی وفاداریاں جھلکی پڑ رہی ہیں۔
جو کچھ بھی سوچا جائے یا کہا جائے، ملن کنڈیرا فرانسیسی زبان میں نیا جنم لیتا ہوا محسوس ہوگا، جب قاری اس کی تصنیف ’’آرٹ اوف دی ناول‘‘ پڑھے گا۔ ۱۹۸۶ء میں شائع ہونے والی یہ کتاب فرانسیسی زبان میں ہے۔ اس کو ادبی تنقید کی کتاب کے طور پر پڑھا جاتا ہے۔ ۱۹۹۵ء میں براہِ راست فرانسیسی زبان میں لکھا ہوا ناول ’’سلونیس‘‘ (Slowness) شائع ہوا۔
ملن کنڈیرا پر یہ الزام کہ وہ اپنے ماضی پر پردہ ڈال رہا ہے اور کچھ چھپانے کی کوشش کررہا ہے، سنجیدگی اختیار کرجاتا ہے جب ایک چیک جریدے ’’ریسپکٹ‘‘ میں خبر یا اسکینڈل شائع ہوتا ہے کہ ۱۹۵۰ء میں اس نے پولیس مخبر کا کام کیا۔ اس الزام کے عقب میں ایک پائلٹ میرو سلاف ڈوراسک (Miroslav Doracek) کے اعترافی بیانات سامنے آتے ہیں۔ یہ اینٹی کمیونسٹ ایجنٹ ہوتا ہے جس کو موت کی سزا ہوتی ہے، لیکن اس کو بائیس برس کی جیل میں بدل دیا جاتا ہے۔ وہ چودہ برس کی سزا کاٹ کر سوئیڈن میں باقی عمر گزارتا ہے۔
ملن کنڈیرا اس الزام کو سختی سے مسترد کرتا ہے۔ گواہ، گواہی نہیں دیتے یا ان میں سے کچھ فوت ہوجاتے ہیں۔ قلم کاروں کا ایک گروپ ملن کنڈیرا کا دفاع کرتا ہے۔ ان میں نوبیل انعام یافتہ مصنف بھی شامل ہیں، جیسے گیبریل گارسیا مارکیز اور دیگر۔ ملن کنڈیرا الزام کو مصنف کے قتل کے مترادف قرار دیتا ہے۔
ملن کنڈیرا کے خلاف کوئی بھی الزام ثابت نہیں ہوتا۔
میں نے روزنامہ ’’ٹیلی گراف‘‘ کے شعبے کتاب پر تبصرہ مؤرّخہ مئی ۲۰۱۵ء سے اقتباس اور قدرے آزاد ترجمہ پیش کیا ہے۔ تبصرہ نگار ہیں جناب ڈنکن وائٹ (Duncan White)۔