حمایت علی شاعر
’تشنگی کا سفر‘ میری طویل افسانوی اور تمثیلی نظموں کا مجموعہ ہے۔ یہ نظمیں میں نے ۵۲ء سے ۶۳ء کے دوران لکھی تھیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب میں ریڈیو پاکستان سے متعلق تھااوربہ یک وقت کئی شعبوں میں کام کرتا تھا ۔ صدا کاری (اناؤنسر ،کمنٹریٹر ، نیوز ریڈر اور ڈرامہ آرٹسٹ) مسودہ نگاری(نغمات ، گیت، غنائیے، ڈرامے ، فیچر اور دوسروں کیے لیے تقاریر لکھنا) اور پروڈکشن۔ یہ ملازمت سالانہ کانٹریکٹ کی بنیاد پر ہوتی اور جن ادیبوں ، شاعروں اور فنکاروں کو اس زُمرے میں شامل کیا جاتا انہیں ریڈیو کی اصطلاح میں ’اسٹاف آرٹسٹ‘ کہا جاتا جن دنوں میں نے یہ ملازمت اختیار کی اُن دنوں کراچی ریڈیو پر احمد فراز ، سلیم احمد اور عبدالماجد سے لے کر چراغ حسن حسرت، بہزاد لکھنوی اور رفیع پیرزادہ تک سبھی اسٹاف آرٹسٹ ہوتے تھے میں چونکہ ہندوستان میں بھی نشریات کا تجربہ رکھتا تھا اس لیے مجھے فوری یہ ملازمت مل گئی مگر اسے میری طبیعت کی سیمابیت کہیے کہ نوجوانی کے باغیانہ جذبات۔۔۔ میں افسرانِ بالا کی مستقل خوشنودی حاصل نہ کر پاتا اور کسی نہ کسی بہانے میری ملازمت ختم ہو جاتی ۔ پھر عارضی طور پر میں کبھی انجمن ترقی اردو میں کام کرتا یا کسی اخبار میں۔۔۔ اور پھر کسی کرم فرما کی توجہ سے مجھے دوبارہ ریڈیو کا کانٹریکٹ مل جاتا۔ میری زندگی میں یہ واقعات چونکہ نئے نہیں تھے اس لیے مجھے چنداں فکر بھی نہ ہوتی۔ شاید کچھ بزرگوں اور دوستوں کو یاد ہو کہ ۱۹۵۰ء میں آل انڈیا ریڈیو حیدر آباد سے یکایک ملازمت ختم ہو جانے اور کوئی ذریعہ معاش نہ ہونے کے سبب میں نے اخبار فروشی بھی کی تھی مگر یہ وہ دور تھا کہ ایک خاص ذہنی ہم آہنگی کی وجہ سے دور دراز رہنے والے ادیب بھی ایک دوسرے سے بہت قریب ہوتے تھے چنانچہ میری زندگی کے اس معمولی واقعہ پر جب قمر ساحری اور وہاب حیدر نے احتجاج کیا تو نہ صرف دکن کے ادیبوں اور صحافیوں نے آواز اٹھائی بلکہ مرزا ادیب نے’ادبِ لطیف‘(لاہور) میں ، فکر تونسوی اور نریش کمار شاد نے ’نقوش‘(جالندھر) میں، ساحر لدھیانوی اور پرکاش پنڈت نے ’شاہراہ‘(دہلی )میں اور عادل رشید ، کیفی اعظمی اور خواجہ احمد عباس نے’ شاہد‘’نئی زندگی‘ ’بلٹز‘ اور’کراس روڈس‘ (بمبئی) میں متواتر احتجاجی کالم لکھے۔ یہی نہیں بلکہ حیدر آباد دکن کے ایک صحافی اور میرے بچپن کے دوست ممتاز اختر نے تمام احتجاجی تحریروں کو جمع کر کے اپنے ہفتہ وار’پرواز‘ کا ایک نمبر بھی شائع کر دیا۔ ظاہر ہے کہ ایسے ماحول میں نہ صرف اپنے مسائل سے نبرد آزما ہونے کا حوصلہ بڑھتا بلکہ دوسروں کے مسائل میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی آرزو بیدار رہتی ۔
کراچی میں ہر چند ایسی فضا نہیں تھی مگر چند ہم خیال دوستوں کی رفاقت دل میں ایک امنگ ضرور پیدا کیے رہتی چنانچہ کراچی میں جب کبھی مجھ پر ایسی افتاد پڑی، میں حوصلہ مندی کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرتا رہا۔یہاں میں نے زندگی اس عالم میں شروع کی تھی کہ جسم پر تن کے کپڑوں اور رہنے کیلئے ایک جھونپڑی کے سوا کچھ نہ تھا۔ کراچی کی لمبی لمبی سڑکوں پر اکثر پیدل گھومتا اور بھٹیار خانوں میں ایک یا دو وقت کھانا کھاتا۔ کبھی کبھی فاقے بھی کرنا پڑتے۔ اپنے کپڑے خود دھوتا اور اکثر بغیر استری کے پہن لیتا۔ ظاہر ہے کہ ایسے عالم میں شہر کے سفید پوشوں کے درمیان میرا گزر ممکن نہ تھا۔ ریڈیو کے افسران بالا بھی ایک نظر دیکھ کر منہ پھیر لیتے تھے۔ اس کاردعمل میری اُس دور کی شاعری میں موجود ہے۔ دل میں باغیانہ جذبات سلگتے رہتے اور میں انہیں اپنے اشعار میں منتقل کر کے اپنی دانست میں یہ سمجھ لیتاکہ میں نے انقلاب کے لیے زمین ہموار کر لی۔ دراصل یہ نوجوانی کی رومانوی سوچ تھی جو مجھے خوش فہمی میں مبتلا کر کے مطمئن ہو جایا کرتی تھی۔
اُس دور کی زندگی کا ایک واقعہ سناؤں جس نے میرے اندر ایک نئے احساس کو جنم دیا۔ میری بیوی شہر کے ایک اسکول میں ادیب فاضل کا امتحان دے رہی تھی اور میں اپنی بیٹی جاوداں اور بیٹے روشن خیال کو لیے صدر کی سڑکوں پر اُن کا دل بہلا رہا تھا۔ فٹ پاتھ پر کسی دوکان میں کوئی چیز دیکھ کر روشن خیال مچل گیا ۔ میں دوکان دار سے بات کرنے لگا اور جاوداں میری انگلی چھوڑ کر کچھ آگے نکل گئی۔ جیسے ہی مجھے خیال آیا تو میں نے دیکھا کہ وہ تھوڑے سے فاصلے پر سڑک کے کنارے کھڑی ہوئی ایک کار کو دیکھنے میں مصروف ہے۔ کار میں کچھ پیارے پیارے بچے بیٹھے ہوئے تھے اور جاوداں ہچکچائی ہوئی نظروں سے اُنہیں دیکھ رہی تھی۔ میں قریب گیا تو وہ مجھے کہنے لگی : ’ابو۔۔۔ یہ بڑے لوگ ہیں نا؟‘
جاوداں کا یہ فقرہ مجھے تیر کی طرح لگا۔ میں نے اُسے احساس کمتری سے نکالنے کے لیے کہا۔ ’نہیں بیٹی۔۔۔ یہ بچے بھی تمہاری طرح ہیں۔ چلو، اِن سے باتیں کرو‘
جیسے ہی میں جاوداں کو لے کر ان بچوں کی طرف بڑھا۔ بچے ڈر گئے اور جلدی سے کار کا شیشہ چڑھا لیا۔ شاید میری ہیئت ایسی ہو مگر مجھے اس کا احساس نہیں تھا۔ میں نے ان بچوں سے اپنی بیٹی کا تعارف کرانا چاہا۔ وہ سہمی سہمی نظروں سے مجھے دیکھتے رہے اور ابھی میں ان سے مخاطب ہی تھا کہ بچوں کے والدین آ گئے اور صاحب نے تشویش اور حقارت سے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ’کون ہے تو۔۔۔ یہاں کیا کر رہا ہے؟‘
مجھے غصہ آ گیا، مگر میں نے ضبط کرتے ہوئے جواب دیا۔’جناب۔۔۔ میری بچی آپ کے بچوں کو دیکھ کر احساس کمتری میں مبتلا ہو رہی تھی۔ میں نے چاہاکہ ان کا آپس میں تعارف کرا دوں ۔۔۔تا کہ ۔۔۔‘
ابھی میں جملہ مکمل بھی نہ کر پایا تھا کہ وہ کار میں بیٹھ گئے اور غصے اور نفرت سے میری طرف دیکھتے ہوئے گاڑی اسٹارٹ کر دی۔جاوداں نے میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا اور میں دل ہی دل میں تلملا کر رہ گیا۔ وہ سوالیہ نظریں اور کار کے اسٹارٹ ہونے کی آواز عرصے تک میری آنکھوں میں چمکتی اور میرے کانوں میں گونجتی رہی اور میں نے طئے کر لیا کہ اپنے بچوں کو اس احساس میں مبتلا نہیں ہونے دوں گا جس نے میری رگوں میں زہر بھر دیا ہے۔ اب سوچتا ہوں تو مجھے اپنے اس ارادے میں خود غرضی کا جذبہ بھی شامل نظر آتا ہے ۔ ہمارے معاشرے میں صبح و شام ایسے کتنے دل شکن واقعات ہوتے رہتے ہیں ۔ ان کے بارے میں ہمارے سوچنے کا انداز ہمدردانہ سہی مگر قدرے رسمی ہوتا ہے اور ہم عملاً اس کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھاتے ۔ شاید ہمارے انفرادی عمل سے معاشرے کے یہ مسائل حل بھی نہ ہوں ۔ اس کے لیے تو اجتماعی عمل کی ایک مستقل تحریک چاہیے جس کا شعور ابھی ہمارے عوام میں نہیں۔ کراچی ویسے بھی تجارتی شہر ہے اور زیادہ تر ان لوگوں سے آباد ہے جن کا رشتہ زمین سے ٹوٹ چکا ہے ۔ زمین سے رشتہ ٹوٹ جانے سے بہت سی اقدار بھی ٹوٹ جاتی ہیں اور معاشی بنیادوں کی ناہمواری انسان کو خود غرض بنانے لگتی ہیں ۔ ایسے عالم میں اگر سیاسی حالات بھی متوازن نہ ہوں تو معاشرہ ایک ہمہ گیر بے چینی کا شکار ہو جاتا ہے اور اٹل حقیقتوں پر اس کا یقین کمزور پڑنے لگتا ہے ۔ ’ایسی صورت میں صرف تہذیب اور تاریخ ہی انسان کا سہارا بنتی ہے اور جب یہ سہارا بھی باقی نہ رہے تو ا نسان اپنی ذات میں محدود تر ہونے لگتا ہے اور زندگی علاقائی اور خاندانی حدود میں سمٹنے لگتی ہے ۔ کراچی کے مختلف محلوں کے نام خود اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ شہر کتنے خانوں میں تقسیم ہے ۔ اس کا تشخص اپنی اکائی کھوتا جارہا ہے اور تہذیبی وحدت نہ ہونے کی وجہ سے مختلف اکائیاں صرف تجارتی رشتوں میں منسلک ہیں ۔ ظاہر ہے کہ یہ رشتے سو دوزیاں کی بنیاد پر قائم ہوتے ہیں اور ضروریات کے کچے دھاگوں میں بندھے رہتے ہیں۔
دنیا کے ہر تجارتی شہر میں رشتوں کی نوعیت یہی ہوتی ہے مگر ایسا شہر جو نو آبادکاروں سے آباد ہو’وادیِ سینا‘ کی مثال ہو جاتا ہے کہ قوم تو اُمتِ موسیٰ کہلاتی ہے اور پوجا کرتی ہے سامری کے ’گوسالہ‘ کی ۔ جسے دیکھیے دولت کے پیچھے بھاگ رہا ہے ۔ کراچی کا المیہ بھی یہی ہے ۔ ایسے شہر میں متوسط طبقہ بڑی الجھن میں مبتلا رہتا ہے۔ وہ دو پاٹوں کے بیچ دھیرے دھیرے پستا چلا جاتا ہے او رغیر محسوس طور پر ایک دن اپنا تشخص کھو بیٹھتا ہے ۔ حتیٰ کہ وہ اس تہذیب میں بھی ضم ہونے سے رہ جاتا ہے جو اس کا رشتہ نئی سر زمین سے جوڑ سکے۔ مجھ ایسے آدمی کے لیے کراچی میں اک اور بھی مسئلہ تھا۔۔۔ اور وہ یہ کہ تجارتی ماحول کی گہما گہمی اور نفسی نفسی سے دل گھبرانے لگے تو کہاں جاؤں ؟ بمبئی میں جب کبھی یہ وحشت دل کا بوجھ بنتی تو بھاگ کر اورنگ آباد چلا جاتا تھااور وہاں کی محدوداور خاموش فضا میں کچھ دن سکون کے سانس لے لیتا مگر یہاں مضافات سے کوئی ایسا تعلق نہ تھا۔ چنانچہ جب حیدر آباد سندھ میں ر یڈیو اسٹیشن کھلنے کی نوید ملی تو میں پہلا شخص تھا جس نے ٹرانسفر کی درخواست دے دی اور ۱۹۵۵ء میں حیدرآباد آ گیا۔حیدر آباد میں مجھے اپنی صلاحیتوں کو فروغ دینے کا اچھا موقع ملا۔ ریڈیو اور شہر کے ادیبوں میں ایسی یگانگت تھی کہ ہمارا ماحول ادبی محفلوں سے جگمگاتا رہتا۔ مجھے بھی گویا ایک نئی زندگی ملی تھی۔ میں بھی ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا۔
وہ دور ، لکھنے پڑھنے کے اعتبار سے میری زندگی کا اہم ترین دور تھا۔ میں نے اُس دور میں نہ صرف شعر کہے بلکہ متعدد منظوم اور منثور ڈرامے بھی لکھے ۔ ’ارژنگ‘ کے تحت مختلف ثقافتی خدمات بھی سرانجام دیں ۔ دو ماہی رسالہ’شعور‘ بھی شائع کیا۔پہلے مجموعۂ کلام ’آگ میں پھول‘ کی اشاعت پر بھی اِسی دوران توجہ دی اور سب سے اہم کام یہ کیا کہ اپنی ادھوری تعلیم مکمل کر لی۔ کچھ عرصے سچل کالج میں پڑھایا اور استاد مکرم ڈاکٹر غلام مصطفی خان کی نگرانی میں پی ایچ ڈی کے نلیے اپنا تحقیقی مقالہ لکھنا شروع کر دیا مگر اِسے زندگی کی ستم ظریفی کہیے کہ اپنے عہد کا جبر۔۔۔ کہ معاشی مسائل نے پھر مجھے اپنے دام میں الجھا لیا اور میں نے فلموں میں نغمہ نگاری شروع کر دی۔
فلم انڈسٹری میں جانے والا ہر سنجیدہ آدمی کچھ تعمیری عزائم بھی ساتھ لیکر جاتا ہے اور اپنی دانست میں یہ سمجھتا ہے کہ وہ کسی تبدیلی کا عنوان بن جائے گا چنانچہ میں نے بھی نغمہ نگاری اور مکالمہ نویسی سے لے کر فلمسازی اور ہدایت کاری تک ہر شعبۂ فلم کو نہایت سنجیدگی سے اپنایا اور اپنے حدود میں روایت سے کسی حد تک مختلف کام بھی انجام دئیے ان خدمات کا صلہ مجھے کچھ ایوارڈز کی صورت میں بھی ملا مگر رفتہ رفتہ مجھے محسوس ہونے لگا کہ میں جو کچھ پا رہا ہوں ، اس سے زیادہ کھو بھی رہا ہوں ۔
ٹھہرے ہوئے پانی میں پتھر پھینکنے سے کچھ لہریں ضرور پیدا ہو جاتی ہیں مگر کوئی ایسا تموّج پیدا نہیں ہوتا کہ پانی کا رخ بدل جائے۔۔۔ پاکستان کی فلم انڈسٹری میں ہم چند خوش فہم لوگوں کی شمولیت بھی اسی مثال کے مصداق تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ لاحاصل سے زیادہ’ حاصل کاغم‘ میری روح کا المیہ بن گیا
روٹی کے لیے طاق پہ رکھ دوں گا کتابیں جینا مجھے اِس طرح گوارا تو نہیں تھا
لٹا دیا ہے غمِ آب و تاب میں کیا کیا وگرنہ خواب تھے چشمِ پُر آب میں کیا کیا
روشنی کے زاویوں پر منحصر ہے زندگی آپ کے بس میں نہیں ہے آپ کا سایہ یہاں
یہ اور اس قسم کے بہت سے شعر اُسی دور کی یادگار ہیں۔جیسا کہ میں نے ’آگ میں پھول‘ کے دوسرے ایڈیشن کے دیباچے میںـ لکھا ہے
’سچ پوچھئے تو عمر کے یہ سنہری سال میں نے ایک ایسے برزخ میں کاٹے جس کے بعد حقیقی ادبی زندگی کی آس ایک موہوم خوش فہمی اور خود فریبی سے زیادہ نہ تھی اور جیسا کہ میں نے عرض کیا۔ مجھے اس زیاں کا احساس بھی تھا مگر یہی سوچ کے خاموش ہو رہتا کہ وقت نے یہ سنگین مذاق صرف میرے ساتھ تو نہیں کیا ہے ۔ تاریخ میں میرے جیسے کتنے شاعر و ادیب اپنے حالات سے مجبور ہو کر بازار میں جا بیٹھے ، چاہے وہ بازار کسی بادشاہ کے دربار میں لگا ہو یا فلمی دنیا کے مصنوعی محل دو محلوں میں ۔’میں سوچتا کہ اس جال سے نکل بھاگوں مگر جس زمین پر یہ جال بچھا ہوا تھا وہ ایک دلدل سے کم نہ تھی۔ میری ہر کوشش مجھے کچھ اور زمین میں اتار دیتی ۔ ایسے عالم میں علم وادب کے خواب طوفان سے ساحل کا نظارہ کرنے کے مترادف ہوتے اور میں ایک کربناک حسرت کے ساتھ آنکھیں بند کر لیتا‘
’مٹی کا قرض‘ کی ترتیب کے دوران میں اسی کرب میں مبتلا تھا۔ میری آخری فلم ’گڑیا‘ ادھوری تھی اور میرے دل میں فلم انڈسٹری چھوڑ دینے کا ارادہ تکمیل کو پہنچ چکا تھا۔ اُن دنوں کی ایک ’غزل‘
پندارِ یوسفی سہی، پندار ہی تو ہے بازار کی یہ شئے سرِ بازار ہی تو ہے
میرے اندرونی خلجان اور میرے غم و غصہ کاآخری اظہار ہے
میں بھی اَنا پرست ہوں اقرار کیا کروں میرے لبوں پہ آج بھی انکار ہی تو ہے (مٹی کا قرض)
اور میں اپنی فلم ادھوری چھوڑ کے فلم انڈسٹری سے باہر آ گیا اور پھر تلاشِ معاش میں سرگرداں ہو گیا۔ کبھی ٹیلیویژن اور کبھی مختلف کانٹریکٹ۔۔۔ جن میں نیشنل سیونگس کے نغموں سے لے کر طباعت کے ٹھیکے تک شامل تھے۔ زندگی کی اس طویل ، متنوع اور مسلسل جدوجہد میں میں نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ اس کا مختصر تجزیہ یہ ہے کہ میں توا پنی ذات میں ادھورا رہ گیا مگر اپنے بچوں کو۔۔۔ تکمیل ذات کی خاطر۔۔۔ اعلیٰ تعلیم دلا دی۔ اب دیکھیے اُن کی زندگی انہیں کس منزل تک پہنچاتی ہے۔ میرے چار بیٹے ہیں اور چار بیٹیاں(تازہ ایڈیشن کی اشاعت تک تمام بچے نہ صرف ’اعلیٰ تعلیم‘ سے آراستہ ہو گئے بلکہ اپنی عملی زندگی میں آکر اپنے بچوں کو بھی اعلیٰ تعلیم سے سرفراز کر چکے ہیں)ظاہر ہے کہ یہ کامیابیاں میری تنہا کوششوں کا حاصل نہیں، میری ہر کامیابی میں حقیقی اعزاز کی مستحق میری شریکِ حیات ہے جس نے زندگی کے کٹھن سے کٹھن مرحلے میں مسکراتے ہوئے میرا ساتھ دیا اور مثالی انداز میں اپنے بچوں کی تربیت کی۔ اس پہلو سے میں جب بھی اپنے بارے میں سوچتا ہوں تو کچھ دیر کے لیے اپنی ذات کے تشنۂ تکمیل رہ جانے کا غم بھی بھول جاتا ہوں اور اپنے بچوں میں اپنی ذات کو بٹا ہوا دیکھ کر یوں خوش ہو لیتا ہوں کہ
میں اِک اکائی کے مانند ہر عدد میں ہوں (ہارون کی آواز)
یا جیسا کہ میں نے اپنی بیٹی جاوداں میر پر لکھی ہوئی نظم میں کہا ہے
نئے خدوخال سے ہمارے جسد کی تشکیل ہو رہی ہے ادھورا پن ختم ہو رہا ہے، ہماری تکمیل ہو رہی ہے
(آگ میں پھول)
بادی النظر میں اسے بھی خود فریبی کا اک بہانہ کہیے ورنہ حقیقت بہر حال اپنی جگہ ایک المیہ ہے کہ معاشی وسائل کے بہ آسانی بہم نہ ہونے کی وجہ سے کتنی ہی شخصیتیں ادھوری رہ جاتی ہیں کتنے لوگ اپنے اصلی چہرے کھو بیٹھتے ہیں اور ساری زندگی مصنوعی چہرے لگائے پھرتے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ میں زندگی کے ہاتھوں ایسا کھلونا نہیں بنا۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ جہاں بینی کے ساتھ میں نے ہمیشہ خود بینی کو بھی مقدم سمجھا ہے اسی عمل نے مجھے نامکمل رہ جانے کا احساس دیا اور اسی عمل نے میرے اندرتکمیل کی لگن کو ابھی تک تازہ رکھا ہے۔
’تشنگی کا سفر‘ میری زندگی کا بھی استعارہ ہے اور میری شاعری کا بھی۔ شاعری میں نظم ، غزل اور ثلاثی کے علاوہ طویل نظمیں اور منظوم اور نثری ڈرامے بھی میرے تخلیقی اضطراب کے ضامن ہیں یہ اور بات کہ اپنی بیشتر تخلیقات پر میں عرصہ دراز تک نظر ثانی کر سکا نہ انہیں طباعت کے لیے دے سکا ۔ اب اس طرف توجہ کی تو اپنی ’مجرمانہ غفلت‘ کا احساس ہوا۔
فی الحال جو کتابیں مرتب کی ہیں ان میں’آگ میں پھول‘ اور ’تشنگی کا سفر‘ ایک ساتھ طبع ہو رہی ہیں۔ دوسری کتابیں بھی انشاء اللہ جلد ہی منظر عام پر آ جائیں گی۔ ’تشنگی کا سفر‘ (حسب ترتیب )دو افسانوی اوردو تمثیلی نظموں پر مشتمل ہے ۔افسانوی نظمیں ’شعلۂ بے دود‘ اور ’بنگال سے کوریا تک‘ ۔۔۔ ’آگ میں پھول‘ کے پہلے ایڈیشن ۱۹۵۶ء میں شامل تھیں۔ دوسرے ایڈیشن سے یہ نظمیں نکال کر میں نے طویل نظموں کے اس مجموعے میں شامل کر دی ہیں۔ ’شعلۂ بے دود‘ ۵۲ء میں لکھی گئی تھی اور اسی سال’ادب لطیف(لاہور) جولائی کے شمارے میں شائع ہوئی۔ ’بنگال سے کوریا تک ‘ ۵۲ء اور ۱۹۵۴ء کے دوران لکھی گئی اور اس کے مختلف حصے کراچی کے مختلف رسائل ۔ ۔ اردو کالج کے مجلہ ’برگِ گل‘ (پہلا شمارہ ۱۹۵۲ء )مرتبہ، ابن انشاء اور اے آر ممتاز
ماہنامہ’ مشرب‘ (مئی ۱۹۵۳ء) ایڈیٹر، اختر انصاری اکبرآبادی
ڈائجسٹ ’روحِ ادب‘ (۱۹۵۳ء) مرتبہ، پروفیسر ممتاز حسین
ماہنامہ ’سیارہ‘ (ستمبر ۱۹۵۳ء )ایڈیٹر، پروفیسر ممتاز حسین اور
’نیادور‘(شمارہ ۳،۴) ایڈیٹر، ڈاکٹر جمیل جالبی
میں شائع ہوتے رہے۔ بعد ازاں پوری نظم وامق جونپوری کے زیر ادارت ماہنامہ’شاہراہ‘ دہلی کے شمارہ نمبر۳ (بسلسلہ سالنامہ) مارچ ۱۹۵۴ء میں شائع ہوئی ۔ پھر یہی نظم ۱۹۶۲ء میں ساہتیہ اکیڈیمی حیدر آباد (آندھرا پردیش) کے زیر اہتمام شائع ہونے والی کتاب ’حیدر آباد کے شاعر‘ کی جلد دوم میں سلیمان اریب نے منتخب کی۔ اس نظم کا موضوع ’جنگ‘ ہے اور یہ دوسری جنگ عظیم کے پس منظر سے شروع ہو کر کوریا کی لڑائی (تیسری جنگ عظیم کے امکانات) پر ختم ہوتی ہے ۔
’آگ میں پھول‘ کے پہلے ایڈیشن میں ’میں اور میرا فن‘ کے زیر عنوان اپنے مضمون میں چند باتیں میں نے اس نظم کے بارے میں بھی لکھی تھیں۔’تکنیک کے اعتبار سے میں نے اس میں ایک تجربہ کرنے کی کوشش کی ہے ۔۔۔ اکثر جگہ کیفیات کے اظہار میں میں نے اس میں ’مسلسل غزل‘ کی تکنیک استعمال کی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ نظم کے اندازِ بیان میں ایک خاص ملائمت پیدا ہو گئی ہے ۔یہ ملائمت ایک ایسی نظم کے لیے بہت ضروری تھی جس میں کہانی یادداشت کے طور پر ابھرتی ہو۔۔۔ یہ نظم ایک اور طریقے سے بھی کہی جا سکتی تھی ، یعنی مثنوی کے انداز میں۔۔۔ لیکن چونکہ میرا موضوع ایک تاریخی المیے سے اکتسابِ فکر کرتا ہے اس لیے کہانی کے تسلسل سے زیادہ اُن مخصوص واقعات کو میں نے اہمیت دی جو نظم کے بنیادی خیال کو تقویت پہنچاتے ہیں۔
ایک اور بات جو آپ اس نظم میں محسوس کریں گے۔ ایک ’تاریخی غلطی‘ ہے۔ جب اس کہانی کا مرکزی کردار میدانِ جنگ سے اپنے وطن بنگال واپس آتا ہے تو وہاں قحط کی تباہیاں دیکھتا ہے ۔ حالانکہ بنگال میں قحط ۱۹۴۲ء میں پڑا تھااور گزشتہ عالمگیر جنگ ۴۵ء میں ختم ہوئی۔ تین سال کے عرصہ میں ظاہر ہے کہ قحط کے آثاراُس طرح باقی نہیں رہے ہوں گے جس طرح نظم میں پیش کئے گئے ہیں مثلاً
میرے ٹیگورؔ کی زمیں پر آج لاشوں ڈھانچوں کا بس گیا تھا جہاں
اِس قدر تھا کریہہ ہر منظر جیسے قئے کر چکا ہو قبرستاں
دراصل بنگال کے قحط کا جنگ سے تعلق میرا بنیادی موضوع ہے اور یہ واقعہ ہے کہ بنگال کا قحط قدرتی نہیں بلکہ’ مصنوعی‘ تھا اور اس کا عالمگیر جنگ کی تباہ کاریوں سے بھی ’ایک تعلق‘ ضرور تھا خیر، میری نظم میں بنگال اور کوریا جغرافیائی حدود کے پابند رہ کر بھی ایک سمبل کے طور پر آئے ہیں۔ بنگال۔۔ ایک ایسا مقام جو جنگ سے دور رہ کر بھی اُتنا ہی تباہ ہو گیا جتنا کوریا۔۔ یعنی تازہ ہیرو شیما اِس بنیادی خیال کے پیش نظر میں نے چند برسوں کے فرق کو نظر انداز کر دیا جو بہت ضروری تھا‘۔
تمثیلی نظموں میں ’بدلتے زاوئیے‘ (تمثیلی غنائیہ)۱۹۵۷ء یا ۱۹۵۸ء میں لکھا گیا تھا اور اُنہیں دنوں ریڈیو پاکستان حیدر آباد سے (قدرے ترمیم کے ساتھ) نشر بھی ہوا لیکن ابھی تک غیر مطبوعہ ہے۔
’شکست کی آواز‘ (یک کرداری، تمثیلی نظم)۱۹۶۲ء میں لکھی گئی تھی اور ’فریبِ آگہی‘ کے نام سے دو تین بار نشر ہو چکی ہے ۔ اشاعت کے لیے دیتے وقت جب میں نے اس پر نظر ثانی کی تو اس کا عنوان بدل دیا چنانچہ ۱۹۶۵ء میں یہ نظم’شکست کی آواز‘ کے عنوان سے ’فنون‘ لاہورمیں شائع ہوئی۔ اس تمثیلی نظم کا بنیادی خیال ایک فرانسیسی ادیب’مارسل بائنل‘ کی کہانی سے ماخوذ ہے۔
’تشنگی کا سفر‘ میں اِن نظموں کو شامل کرتے وقت میں نے ’خوب سے خوب تر کی جستجو میں‘ کہیں کہیں کچھ تبدیلیاں بھی کر دی ہیں جسے’خود تنقیدی‘ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔
حمایت علی شاعر
۱۹۸۰ئ (شعبۂ اردو،سندھ یونیورسٹی ، جام شورو) ٭میرا تیسرا مجموعہ کلام ’تشنگی کا سفر‘(۱۹۸۱ء) اپنی شریکِ حیات معراج نسیم کے نام معنون ہے۔شاعرؔ