دنیائے شاعری کی پوری تاریخ کا ایک سرسری جائزہ بھی یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ اقبال دنیا کے سب سے زیادہ باخبر باشعور اور صاحب علم شاعر تھے فلسفے میں فلسفیانہ مہارت کے علاعہ وقت کے دیگر علوم و فنون کی ترقیات پر ان کی نظر بہت وسیع اور گہری تھی۔ مشرق و مغرب کے شعرا اور ان کے کمالات سے وہ اچھی طرح واقف تھے اقبال نے اپنی متعدد نظموں اور اشعار میں جا بہ جا مفکروں کے ساتھ ادیبوں اور شاعروں کے متلعق بھی تنقیدی تبصرے کیے ہیں جو بہت دلچسپ ہیں اور نہایت فکر انگیز ہیں۔ یہ حقائق واضح کرتے ہیں کہ اقبال ایک عظیم فن کار ہونے کے علاوہ ایک عظیم ناقد کا ذہن بھی رکھتے تھے اور اسلوب بیان پر انہیں جو بے پناہ قدرت تھی اس کا اظہار ان اہم تنقیدی نکات میں بھی بہت ہی مبصرانہ طور پر ہوا ہے جو متعدد اشعار میں بکھرے ہوئے ہیں خود اپنے طرز کلام اور مقاصد شاعری کے متعلق اقبال نے کئی معنی خیز بیانات دیے ہیں‘ ضرورت ہے کہ ان سب بیانات کو ایک ترتیب سے جمع کر کے تجزیہ و تبصرہ کے ذریعے وہ صحیح نتائج نکالے جائیں جو شاعر کا مقصور حقیقی ہیں۔ اس طرح ہمارے سامنے ا قبال کا فن بلاکل روشن ہو جائے گا ۔ اور اس سے ان کے فن شاعری کے مطالعے میں وہ مدد ملے گی جو کسی اور ذریعے سے نہیں مل سکتی۔ اس لیے کہ اقبال کے اپنے شعر کے متعلق تنقیدی بیانات شاعرانہ تعلیاں نہیں ہیں نہ یہ کوئی تفنن طبع اور من کی موج ہے بلکہ یہ بہت ہی سنجیدہ‘ سچے اور پکے خیالات ہیں جو ایک بامقصد شارع نے اپنے بسیط فن نظام کے اسرار و رموز پر سے پردہ اٹھانے کے لیے پیش کیے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ اقبال کا تصور فن ان کے ان افکار کا ایک ضروری حصہ ہیں جن کے ابلاغ کے لیے انہوںنے شاعری کا ذریعہ اظہار اختیار کیا۔ اقبال کے فن اور تصور فن کے درمیان پوری پوری مطابقت ہے۔ یہ ایک بے حد خیال انگیز اور نتیجہ خیز واقعہ ہے۔ اس سے شاعر کے ذہن اور فکر کی اس ہم آہنگی کا بین ثبوت ملتا ہے۔ جس پر اقبال کا فنی کمال اور کارنامہ مبنی ہے ۔ اور جس سے بڑی کوئی بنیاد اور کسوٹی عظمت فن کی مقصود نہیں۔ اس سلسلے میں بال جبریل کی دو غزلوں کے دو اشعار نہایت حقیقت افروز ہیں:
کمال جوش جنوں میں رہا میں گرم طواف
خدا کا شکر الامت رہا حرم کا غلاف
٭٭٭
حرم کے پاس کوئی عجمی ہے زمزمہ سنج
کہ تار تار ہوئے جامہ ہائے احرامی
پہلے شعر میں بداہتہً شاعر کے ذہن اور تصور کی تصویر کشی ہے ۔ جوش جنوں مخصوص تصور خودی کا عملی اظہار ہے اور اس اظہا رکا موقع و مرکز ظاہر ہے کہ حرم کعبہ ہے جو حقیقی و علامتی دونوں طور پر شاعر کے افکار و خیالات کا قبلہ مقصود ہے ۔ اس لیے کہ اس کے پسندیدہ نظریہ حیات دین اسلام کا منبع و مامن ہے لیکن اس منبع و مامن کے ساتھ عقیدت و محبت کے کمال جوش جنوں کے باوجود اس کا ادب و احترام ایک سلیقہ نظم و ضبط اور اعتدال و احتیاط پیدا کرتا ہے چنانچہ قبلہ مقصود کے عشق کی تمام وارفتگیوں کے درمیان بھی شاعر کو اتنا ہوش اور تحمل ہے کہ وہ صرف حرم کے گرد طواف ہی کرتا رہا۔ حرم کے غلاف پر دست درازی کی جسارت اس نے نہ کی۔ جنون عشق کا یہ ادب عشق کی اصلیت و عظمت کی دلیل ہے ۔ اس جذبہ محبت کی صداقت و رفعت پاکیزگی اور گہرائی کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔ یہ جام شریعت اور سندان عشق کو ساتھ ساتھ لے کر چلنے کا وہ زبردست فکری توازن ہے جو اقبال کی سب سے بڑی فنی طاقت ہے۔
دوسرا شعر ظاہر کرتا ہے کہ اقبال کی شاعری کا یہ اشاریہ ہے ۔ یہاں بھی زمزمہ سنجی کا موقع و مرکز حرم کعبہ ہی ہے لیکن فرق یہ ہے کہ کمال جوش و جنوں میں گرم طواف رہنے کے باوجود حرم کا غلاف تو سلامت رہا تھا جبکہ حرم کے پاس زمزمہ سنجی سے تمام طواف کرنے والوں کے جامہ ہائے احرام تار تار ہو جاتے ہیں غلاب کعبہ کی سلامتی اور جامہ احرام کی دریدگی کے درمیان یہ فرق حرم کے گرد طواف اور حرم کے پاس زمزمہ سجنی کا فرق نہیں ہے بلکہ شاعری کے سیاق و سباق میں طواف اور زمزمہ سنجی تو ایک دوسرے کے مترادف ہیں۔ لہٰذا فرق جو کچھ ہے وہ غلاف اور احرام پر الگ الگ مرتبت ہونے والے اثرات میں ہے جو طواف اور زمزمہ سنجی بلکہ یوں کہیے کہ زمزمہ سنج طواف کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں۔ غور کرنے کی بات ہے کہ کعبہ کا غلاف تو سلامت رہتا ہے مگر حاجی کا جامہ احرام تار تار ہو جاتا ہے۔ کمال جوش جنوں حج کرنے والے کے رگ و پے میں بجلی بن کر دوڑ رہا ہے اس کا طواف اور زمزمہ سنجی دونوں اسی برقی کیفیت میں ہیں۔ زمزمہ سنجی کے عالم میں نوائے اقبال اور عالم طواف میں اس کی حرکت خودی دونوں مل کر فضا میں بجلی کی لہریں دوڑا رہی ہیں۔ اوران کے زیر اثر پورے ماحول پر تاب کاری طاری ہے اس حالت میں غلاف کعبہ تو اپنی جگہ سالم رہتا ہے مگر جامہ احرام کی دھجیاں اڑ جاتی ہیں۔ یعنی مرکز حج اپنی جلالت شان کے ساتھ قائم و دائم ہے جبکہ حاجی جوش جنوں میں اپنا گریباں چاک کر رہا ہے۔
اس صورتحال سے جہاں اقبال کے فن کی تاثیر معلوم ہوتی ہے وہیں ان کے ذہن کی استقامت بھی نظر آتی ہے۔ اقبال اپنی شاعری کے جادو سے آگاہ ہیں وہ جانتے ہیں کہ ان کے اشعار اپنی سحر آفرینی سے لوگوں کو دیوانہ بنا رہے ہیں۔ ان کے اندر انتہائی جوش و جذبہ پیدا کر رہے ہیں۔ ان کی خفیہ حسیات کو بیدار کر رہے ہیں۔ ان کے سوئے ہوئے جذبہ عشق کو جگا رہے ہیں۔ ان کے اندر حوصلہ و ولولہ پیدا کر رہے ہیں۔ یہ ایک انتہائی غیر معمولی واقعہ ہے ہ ایک شاعر کے نغمات سے آرزوئیں بیدار ہو رہی ہیں۔ عزم ابھر رہا ہے ۔ ہمت بلند ہو رہی ہے ۔ جنون عمل پیدا ہو رہا ہے ۔ اور حقیقت کی جستجو اتنی شدید ہو رہی ہے کہ اس پر پڑا ہوا جامہ احرام تنگ ہو کر پارہ پارہ ہونے لگا ہے۔ ذوق و شوق کی یہی وہ انتہا ہے جو کسی بھی فن کار کا مطمح نظر اور منتہائے مقصود ہو سکتی ہے۔ اقبال کا فن یقینا اس انتہا کو پہنچ چکا ہے لیکن اس انتہا کو صحیح رخ پر رکھنے کے لیے اس کے پیچھے وہ عظیم ذہن بھی کام کر رہا ہے جو کمال جوش و جنوں میں بھی ایک حد کے اندر ایک نقطے پر گرم طواف ہے اور اپنے آپ کو قابو میں رکھ کر اپنے قبلہ مقصود کی پاسبانی کر رہا ہے۔
اس فن کا تصور خود فن کار کی نگاہ میں کیا ہے؟ ذیل کے اشعار اسی سوا ل کے جواب پر روشنی ڈالتے ہیں:
دید تیری آنکھ کو اس حسن کی منظور ہے
بن کے سوز زندگی ہر شے میں جو مستور ہے
٭٭٭
زندگی مضمر ہے تیری شوخی تحریر میں
تاب گویائی سے جنبش ہے لب تصویر میں
٭٭٭
لطف گویائی میں تیری ہمسری ممکن نہیں
ہو تخیل کا نہ جب تک فکر کامل ہم نشیں
(مرزا غالب …بانگ درا)
دانہ خرمن نما ہے شاعر معجز بیاں
ہونہ خرمن ہی تو اس دانے کی ہستی پھر کہاں
(صدائے درد…بانگ درا)
قوم گویا جسم ہے افراد ہیں اعضائے قوم
منزل صنعت کے رہ پیما ہیں دست پائے قوم
محفل نطم حکومت چہرہ زیبائے قوم
شاعر رنگین نوا ہے دیدہ بینائے قوم
مبتلائے درد کوئی عضو ہو روتی ہے آنکھ
کس قدر ہم درد سارے جسم کی ہوتی ہے آنکھ
(شاعر…بانگ درا)
٭٭٭
عطا ایسا بیاں مجھ کو ہوا رنگین بیانوںمیں
کہ بام عرش کے طائر ہیں میرے ہم زبانوں میں
اثر یہ بھی ہے اک میرے جنون فتنہ ساماں کا
مرا آئینہ دل ہے قضا کے رازدانوں میں
(تصویر درد…بانگ درا)
٭٭٭
تھی حقیقت سے نہ غفلت کی فکر کی پرواز میں
آنکھ طائر کی نشیمن پر رہی پرواز میں
٭٭٭
ہو بہو کھینچے گا لیکن عشق کی تصویر کون؟
اٹھ گیا ناوک فگن مارے کا دل پر تیر کون؟
(داغ …بانگ درا)
٭٭٭
مرے اشعار اے اقبال کیوں پیارے نہ ہوں مجھ کو
مرے ٹوٹے ہوئے دل کے یہ درد انگیز نالے ہیں
(غزل …بانگ درا)
٭٭٭
لطف کلامکیا جو نہ ہو دل میں درد عشق
بسمل نہیں ہے تو تو تڑپنا بھی چھوڑ دے
(غزل…بانگ درا)
٭٭٭
اقبال کا ترانہ بانگ درا ہے گویا
ہوتا ہے جادہ پیما پھر کارواں ہمارا
(ترانہ ملی …بانگ درا)
٭٭٭
مجھ میں فریاد جو پنہاں ہے سنائوں کس کو؟
تپش شوق کا نظارہ دکھائوں کس کو؟
(رات اور شاعر… بانگ درا)
٭٭٭
شاعر دل نواز بھی بات اگر کہے کھری
ہوتی ہے اس کے فیض سے مزرع زندگی ہری
شان خلیل ہوتی ہے اسو کے کلام سے عیاں
کرتی ہے اس کی قوم جب اپنا شعار آزری
اہل زمیں کو نسخہ زندگی دوام ہے
خون جگر سے تربیت پاتی ہے جو سخنوری
گلشن دہر میں اگر جوئے مئے سخن نہ ہو
پھول نہ ہو ‘ کلی نہ ہو‘ سبزہ نہ ہو ‘ چمن نہ ہو
(شاعر…بانگ درا)
٭٭٭
محل ایسا کیا تعمیر عرفی کے تخیل نے
تصدق جس پہ حیرت خانہ سینا و فارابی
فضائے عشق پر تحریر کی اس نے نوا ایسی
میسر جس سے ہے آنکھوں کو ابتک عشق عنابی
(عرفی…بانگ درا)
٭٭٭
حسن آئینہ حق اور دل آئینہ حسن
دل انسان کو ترا حسن کلام آئینہ
حفظ اسرار کا فطرت کو ہے سودا ایسا
رازداں پھر نہ کرے گی کوئی پیدا ایسا
(شیکسپئیر… بانگ درا)
٭٭٭
نالہ ہے بلبل شوریدہ ترا خام ابھی
اپنے سینے میں اسے ذرا تھام ابھی
(غزل …بانگ درا)
٭٭٭
سینہ روشن ہو تو ہے سوز سخن عین حیات
ہو نہ روشن ت سخن مرگ دوام ہے ساقی
(غزل …بال جبریل)
جمیل تر ہیں گل و لالہ فیض سے اس کے
نگاہ شاعر رنگین نوا میں ہے جادو
(غزل …بال جبریل)
مری مشاطگی کی کیا ضرورت حسن معنیٰ کو
کہ فطرت خود بخود کرت ہے لالے کی حنا بندی
(غزل …بال جبریل)
مرے ہم صفیر اسے بھی اثر بہار سمجھے
انہیں کیا خبر کہ کیا ہے یہ نوائے عاشقانہ
(غزل …بال جبریل)
نہ زباں کوئی غزل کی نہ زباں سے باخبر میں
کوئی دل کشا صدا ہو عجمی ہو یا کہ تازی
(غزل …بال جبریل)
اب کیا جو فغاں میری پہنچی ہے ستاروں تک
تو نے ہی سکھائی تھی مجھ کو یہ غزل خوانی
(غزل …بال جبریل)
یہ کون غزل خواں ہے پر سوز و نشاط انگیز
اندیشہ دانا کو کرتا ہے جنون آمیز
(غزل …بال جبریل)
٭٭٭
یوں داد سخن مجھ کو دیتے ہیں عراق و پارس
یہ کافر ہندی ہے بے تیغ و سناں خونریز
(غزل …بال جبریل)
وہ حرف راز کہ مجھ کو سکھا گیا ہے جنوں
خدا مجھے نفس جبرئیل دے تو کہوں
(غزل …بال جبریل)
حدیث بادہ زمینا وجام آتی نہیں مجھ کو
نہ کر خارا شگافوں سے تقاضا شیشہ سازی کا
(غزل …بال جبریل)
جہان صوت و صدا میں سما نہیں سکتی
لطیفہ ازلی ہے فغان چنگ و رباب
(غزل …بال جبریل)
خوش آ گئی ہے جہاں کو قلندری میری
وگرنہ شعر مرا کیا ہے شاعری کیا ہے؟
(غزل …بال جبریل)
میری نوائے پریشاں کو شاعری نہ سمجھ
کہ میں ہوں محرم راز درون مے خانہ
(غزل …بال جبریل)
تھا ضبط بہت مشکل اس سیل معانی کا
کہہ ڈالے قلندر نے اسرار کتاب آخر
(غزل …بال جبریل)
٭٭٭
تیری قندیل ہے ترا دل
تو آپ ہے اپنی روشنائی
(غزل …بال جبریل)
راز حرم سے شاید اقبال باخبر ہے
ہیں اس کی گفتگو کے انداز محرمانہ
(غزل …بال جبریل)
مقام گفتگو کیا ہے اگر میں کیمیا گر ہوں
یہی سوز نفس ہے اور میری کیمیا کیا ہے
(غزل …بال جبریل)
نوائے صبح گاہی نے جگر خوں کر دیا میرا
خدایا جس خطا کی یہ سزا ہے وہ خطا کیا ہے
(غزل …بال جبریل)
عطار ہو‘ رومی ہو‘ رازی ہو‘ غزالی ہو
کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ سحر گاہی
(غزل …بال جبریل)
مجھے آہ و فغان نیم شب کا پھر پیام آیا
تھم اے رہرو کہ شاید پھر کوئی مشکل مقام آیا
(غزل …بال جبریل)
پیر حرم نے کہا سن کے مری رویداد
پختہ ہے تیری فغاں اب نہ اسے دل میں تھام
(غزل …بال جبریل)
اندھیری شب ہے جدا اپنے قافلے سے ہے تو
ترے لیے ہے مراشعلہ نوا قندیل
(غزل …بال جبریل)
مرے حلقہ سخن میں ابھی زیر تربیت ہیں
وہ گدا کہ جانتے ہیں رہ رسم و کج کلاہی
(غزل …بال جبریل)
حادثہ وہ جو ابھی پردہ افلاک میں ہے
عکس اس کا مرے سینہ ادراک میں ہے
(غزل …بال جبریل)
نہ ستارے میں ہے نے گردش افلاک میں ہے
تیری تقدیر مرے نالہ بے باک میں ہے
(غزل …بال جبریل)
کیا عجب ! مری نوا ہائے سحر گاہی سے
زندہ ہو جائے وہ آتش کہ تری خاک میں ہے
(غزل …بال جبریل)
چمن میں تلخ نوائی مری گوارا کر
کہ زہر بھی کبھی کرتا ہے کار تریاقی
(غزل …بال جبریل)
عزیز تر ہے متاع امیر و سلطاں سے
وہ شعر جس میں ہو بجلی کا سوز براقی
(غزل …بال جبریل)
٭٭٭
تلاش اس کی فضائوں میں کر نصیب اپنا
جہان تازہ مری آہ صبح گاہ میں ہے
(غزل …بال جبریل)
ترکی بھی شیریں تازی بھی شیریں
حرف محبت ترکی نہ تازی
(غزل …بال جبریل)
تیرے نفس سے ہوئی آتش گل تیز تر
مرغ چمن ہے یہی تیری نوا کا صلہ
(غزل …بال جبریل)
رہے نہ ایبک و غوری کے معرکے باقی
ہمیشہ تازہ و شیریں ہے نغمہ خرد
(غزل …بال جبریل)
صاحب ساز کو لازم ہے کہ غافل نہ رہے
گاہے گاہے غلط آہنگ بھی ہوتا ہے سروش
(غزل …بال جبریل)
صفت برق چمکتا ہے مرا فکر بلند
کہ بھٹکتے نہ پھریں ظلمت شب میں راہی
(غزل …بال جبریل)
کر بلبل و طائوس کی تقلید سے توبہ
بلبل فقط آواز ہے طائوس فقط رنگ
(غزل …بال جبریل)
٭٭٭
پریشان کار و ہار آشنائی
پریشاں تر مری رنگیں نوائی
(رباعیات…بال جبریل)
کوئی دیکھے تو میری نے نوازی
نفس ہندی مقام نغمہ سازی
(رباعیات…بال جبریل)
جمال عشق و مستی نے نوازی
جلال عشق ومستی نے نیازی
(رباعیات…بال جبریل)
ہے یہی میری نماز ہے یہی میرا وضو
میری نوائوں میں ہے میرے جگر کا لہو
(دعا ‘مسجد قرطبہ …بال جبریل)
فلسفہ و شعر کی اور حقیقت کیا ہے
حرف تمنا جسے کہہ نہ سکیں رو برو
(دعا ‘مسجد قرطبہ …بال جبریل)
ہے مگر اس نقش میں رنگ ثبات دوام
جس کو کیا ہو کسی مرد خدا نے تمام
(مسجد قرطبہ…بال جبریل)
رنگ ہو یا خشت و سنگ چنگ ہو یا حرف صوت
معجزہ فن کی ہے خون جگر سے نمود
(مسجد قرطبہ…بال جبریل)
٭٭٭
تیری فضا دل افروز‘ میری نوا سینہ سوز
تجھ سے دلوں کا حضور‘ مجھ سے دلوں کی کشود
(مسجد قرطبہ…بال جبریل)
شوق مری لے میں ہے شوق مری نے میںہے
نغمہ اللہ ہو ‘ میرے رگ و پے میں ہے
(مسجد قرطبہ…بال جبریل)
کعبہ ارباب فن! سطوت دیں مبیں
تجھ سے حرم مرتبت اندلسیوں کی زمیں
(مسجد قرطبہ…بال جبریل)
نقش ہیں سب ناتمام خون جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام خون جگر کے بغیر
(مسجد قرطبہ…بال جبریل)
٭٭٭
باد صبا کی موج سے نشو و نمائے خار و خس
میرے نفس کی موج سے نشو و نمائے آرزو
خون دل و جگر سے ہے میری نوا کی پرورش
ہے رگ ساز میں رواں صاحب ساز کا لہو
(ذوق و شوق … بال جبریل)
٭٭٭
خدا اگر دل فطرت شناس دے تجھ کو
سکوت لالہ و گل سے کلام پیدا کر
(جاوید کے نام…بال جبریل)
رمز و ایما اس زمانے کے لیے موزوں نہیں
اور آتا بھی نہیں مجھ کو سخن سازی کا فن
(خانقاہ…بال جبریل)
٭٭٭
جو کو کنار کے خوگر تھے ان غریبوں کو
تری نوا نے دیا ذوق جذبہ ہائے بلند
(تمہید…ضرب کلیم)
٭٭٭
ارتباط حرف و معنی؟ اختلاط جان و تن؟
جس طرح اخگر قبا پوش اپنی خاکستر سے ہے
(جان و تن…ضرب کلیم)
٭٭٭
نہ جدا رہے تو اگر تب و تاب زندگی سے
کہ ہلاکی امم ہے یہ طریق نے نوازی
(غزل…ضرب کلیم)
٭٭٭
سرد و شعر و سیاست ‘ کتاب و دین و ہنر
گہر ہیں ان کی گرہ میں تمام یک دانہ
ضمیر بندہ خاکی سے ہے نمود ان کی
بلند تر ہے ستاروں سے ان کا کاشانہ
اگر خودی کی حفاظت کریںتو عین حیات
نہ کر سکیں تو سراپا فسون و افسانہ
ہوئی ہے زیر فلک امتوں کی رسوائی
خودی سے جب ادب و دیں ہوئے ہیں بیگانہ
(دین و ہنر…ضرب کلیم)
٭٭٭
عشق اب پیروی عقل خدا داد کرے
آبرو کوچہ جاناں میںنہ برباد کرے
کہنہ پیکرمیں نئی روح کو آباد کرے
یا کہن روح کو تقلید سے آزاد کرے
(ادبیات…ضرب کلیم)
٭٭٭
یہی کمال ہے تمثیل کا کہ تو نہ رہے
رہا تو تو نہ سوز خودی نہ ساز حیات
(تیاتر…ضرب کلیم)
٭٭٭
مجھے خبر نہیں شاعری ہے یا کچھ اور
عطا ہوا ہے مجھے ذکر و فکر و جذب و سرور
(امید…ضرب کلیم)
٭٭٭
جس روز دل کی رمز مغنی سمجھ گیا
سمجھو تمام مرحلہ ہائے ہنر ہیں طے
(سرود…ضرب کلیم)
٭٭٭
اے اہل نظر ذوق نظر خوب ہے لیکن
جو شے کہ حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا
مقصود ہنر سوز حیات ابدی ہے
یہ ایک نفس یا دو نفس مثل شرر کیا
جس کے دل دریا متلاطم نہیںہوتا
اے قطرہ نیساں وہ صدف کیا وہ گہر کیا
شاعر کی نوا ہو کہ مغنی کانفس ہو
جس سے چمن افسردہ ہو وہ باد سحر کیا
بے معجزہ دنیا میں ابھرتی نہیںقومیں
جو ضرب کلیمی نہیںرکھتا وہ ہنر کیا
(فنون لطیفہ…ضر ب کلیم)
٭٭٭
نہ ہو جلال تو حسن و جمال بے تاثیر
نرا نفس ہے اگر نغمہ ہو نہ آتش ناک
(جلال و جمال…ضرب کلیم)
٭٭٭
فطرت کو دکھایا بھی ہے دیکھا بھی ہے تو نے
آئینہ فطرت میں دکھا اپنی خودی بھی
(مصور…ضرب کلیم)
٭٭٭
کھل تو جاتا ہے مغنی کے بم و زیر سے دل
نہ رہا زندہ و پائندہ تو کیا دل کی کشور
ہے ابھی سینہ افلاک میں پنہاں وہ نوا
جس کی گرمی سے پگھل جائے ستاروں کا وجود
جس کی تاثیر سے آدم ہو غم و خوف سے پاک
اور پیدا ہوا یازی سے مقام محمود
مہ و انجم کا یہ حیرت کدہ باقی نہ رہے
تو رہے اور ترا زمزمہ لاموجود
جس کو شروع سمجھتے ہیں فقیہان خودی
منتظر ہے کسی مطرب کا ابھی تک وہ سرود
(سرود حلال…ضرب کلیم)
٭٭٭
نہ میرے ذکر میں ہے صوفیوں کا سوز و سرور
نہ میرا فکر ہے پیمانہ ثواب و عذاب
خدا کرے کہ اسے اتفاق ہو مجھ سے
فقیہہ شہر کہ ہے محرم حدیث و کتاب
اگر نوا میں ہے پوشیدہ موت کا پیغام
حرام میری نگاہوں میں نالے و چنگ و رباب
(سرودحرام…ضرب کلیم)
٭٭٭
مشرق کے نیستاں میں ہے محتاج نفس نے
شاعر تیرے سینے میں نفس ہے کہ نہیں ہے
تاثیر غلامی سے خودی جس کی ہوئی نرم
اچھی نہیں اس قوم کے حق میں عجمی مے
شیشے کی صراحی ہو کہ مٹی کا سبو ہو
شمشیر کی مانند ہو تیری میں تیری لے
ایسی کوئی دنیا نہیں افلاک کے نیچے
بے معرکہ ہاتھ آئے جہاں تخت جم و کے
ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلیٰ
اللہ کرے مرحلہ شوق نہ ہو طے
(شاعر…ضرب کلیم)
٭٭٭
ہے شعر عجب گرچہ طرب ناک و دل آویز
اس شعر سے ہوتی نہیں شمشیر خودی تیز
افسردہ اگر اس کی نوا سے ہو گلستاں
بہتر ہے کہ خاموش رہے مرغ سحر خیز
وہ ضرب اگر کوہ شکن بھی ہو تو کیا ہے
جس سے متزلزل نہ ہوئی دولت پرویز
اقبال یہ ہے خارا تراشی کا زمانہ
از ہرچہ بہ آئینہ نمائند بہ پرہیز
(شعر عجم…ضرب کلیم)
٭٭٭
عشق و مستی کا جنازہ ہے تخیل ان کا
ان کے اندیشہ تاریک میں قوموں کے مزار
موت کی نقش گری ان کے صنم خانوں میں
زندگی سے ہنر ان برہمنوں کا بے زار
چشم آدم سے چھپاتے ہیں مقامات بلند
کرتے ہیں روح کو خوابیدہ بدن کو بیدار
ہند کے شاعر و صورت گرو افسانہ نویس
آہ بے چاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار
(ہنر وران ہند…ضرب کلیم)
٭٭٭
ہر چند کہ ایجاد معانی ہے خداداد
کوشش سے جہاں مرد ہنر مند ہے آزاد
خون رگ معمار کی گرمی سے ہے تعمیر
میخانہ حافظ ہو کہ بت خانہ بہزاد
بے محنت پیہم کوئی جوہر نہیں کھلتا
روشن شرر تیشہ سے ہے خانہ فرہاد
(ایجاد معانی…ضرب کلیم)
٭٭٭
وہ نغمہ سردی خون غزل سرا کی دلیل
کہ جس کو سن کے ترا چہرہ تابناک نہیں
نوا کو کرتا ہے موج نفس سے زہر آلود
وہ نے نواز کہ جس کا ضمیر پاک نہیں
پھرا میں مشرق و مغرب کے لالہ زاروں میں
کسی چمن میں گریبان لالہ چاک نہیں
(موسیقی…ضرب کلیم)
٭٭٭
میں شعر کے اسرار سے محرم نہیںلیکن
یہ نکتہ ہے تاریخ امم جس کی ہے تفصیل
وہ شعر کہ پیغام حیات ابدی ہے
یا نغمہ جبریل ہے یا بانگ سرافیل
(شعر…ضرب کلیم)
٭٭٭
شعر سے روشن ہے جان جبرئیل و اہرمن
رقص و موسیقی سے ہے سوز و سرور انجمن
فاش یوں کرتاہے اک چینی حکیم اسرار فن
شعر گویا روح موسیقی ہے رقص اس کا بدن
(رقص و موسیقی…ضرب کلیم)
٭٭٭
چھوڑ یورپ کے لیے رقص بدن کے پیچ و خم
روح کے رقص میں ہے ضرب کلیم اللہی
صلہ اس رقص کا ہے تشنگی کام و دہن
صلہ اس رقص کا درویشی و شاہنشاہی
(رقص…ضرب کلیم)
٭٭٭
ان اشعار میں تصور فن کے جو نکات پیش کیے گئے ہیں ان میں کچھ تو عام قسم کے ہیں اور کچھ خاص بلکہ بعض خاص الخاص ۔ خاص نکات سے معلوم ہوتا ہے کہ اقبا ل منفی منفعلانہ او رقنوطی انداز فکر کو رد کرتے ہیں جبکہ مثبت فعال اور رجائی انداز کو قبول کرت یہیں وہ تحرک اور نمو کے قائل ہیں جمود اور سکون کو پسند نہیں کرتے۔ وہ زندگی اور ترقی کے علمبردار ہیں مرگ و زوال سے بے زار ہیں یہاں تک کہ ان کی جمالیات کے عناصر قوت و شوکت اور سعی و جدوجہد میں نہ کوئی صنعف و مسکنت ہے اور سکوت و قرار۔ چنانچہ جمالیات اور فنون لطیفہ کا وہ نقطہ نظر ان کے نزدیک قابل مذمت ہے جو ایک مرگ آسا جمو د کی کیفیت پیدا کرتا ہے اور وہ نقطہ نظر مستحسن ہے جو ایک زندگی بداماں حرکت کا ساماں کرتا ہے۔ یہ خاص نکات اقبال کے خاص الخاص نظریے پر مبنی ہیں جو بیک وقت زندگی اور فن دونوں پر محیط ہے۔ اورفن کو زندگی سے الگ نہیں بلکہ اسی کی ایک تصویر ادا تصور کرت اہے۔ زندگی کے معاملے میں اقبلا کی جمالیات ان کی اخلاقیات کے ساتھ ہم آہنگ اور دونوں ایک دوسرے میں پیوست ہیں جبکہ دونوں کا سرچشمہ دینیات ہے لہٰذا اقبال فن کاری کو بھی عبادت قرار دیتے ہیں اورجمالیات کو ایک تقدس عطا کرتے ہیں۔ یہ بڑا پیچیدہ مرکب رنگین ارو زریں تصور فن ہے جس سے فن میں لطافت اور گہرائی کے ساتھ ساتھ وسعت و عظمت کے وہ اہم ترین پہلو پیدا ہوتے ہیں جو روایتی معنوں میں جمالیاتی فن کاری سے بہت آگے کی باتیں ہیں۔ اس طرح اقبال کی شاعری میں شاعری کے رسمی تصور سے بہت اگے بڑھ کر پیغمبری کے وہ انداز نمایاں ہوتے ہیں جن کے متعلق مختلف ناقدوں نے مختلف توججیہات پیش کی ہیں۔ حالانکہ یہ بات بہت صاف ہے کہ چند افکار و اقدار کا موثر ابلاغ کرتا ہے۔ بعض مقاصد کی طرف لوگوں کو دل نشین انداز میں متوجہ کرتا ہے ان کے ضمیر کو جگاتا ہے اور روح کو بیدار کرتا ہے یعنی شاعر انقلاب احوال اور اصلاح معاشرہ کے پیغمبرانہ کام کے بعض اجزا کی انجام دہی کرتا ہے ۔ اسی لیے اس سلسلے میں مشہور قول اس طرح ہے:
شاعری جزویست از پیغمبری
اس قول میں شاعری کو پیغمبری کا صرف ایک جزو قرار دیا گیا ہے نہ کہ مکمل پیغمبری اس صحیح طرز تعبیر سے اپنے آپ واضح ہو جاتا ہے کہ شاعری کے ساتھ پیغمبروں کا کوئی تصادم نہیںبلکہ اگر کسی شاعری میں پیغمبری کا کوئی جزو بروئے اظہار آ جائے تو وہی معراج شاعری ہے اقبال یہ معراج حاصل کر چکے ہیں اور ان کا سدرۃ المنتہیٰ دنیا کے کسی بھی شاعر س بلند تر ہے۔
اقبال کا شاعرانہ پیغام یا پیام شعری خودی ہے جو فنی طورپر وجودیت سے زیادہ بامعنی نتیجہ خیز اور جمال آفریں ہے۔ وجودیت اصلاً واحد متکلم کا یکطرفہ اظہار ہے۔ اس لیے خود آگاہی کی لطافت اورتخاطب کی بلاغت دونوں سے خالی ہے جبکہ خودی کا اظہار جمع حاضر کے لیے ہوتا ہے۔ لہذا اس میں خود شنادسی کی رعنائیوں کے ساتھ ساتھ معرفت انسانی کی پر تاثیر حس کاری بھی ہوتی ہے۔ اقبال کے اشعار کا جادو ان کے قارئین کے سرچڑھ کر بولتا ہے۔ صرف شاعر کے سر پر کابوس کی طرح سوار نہیں ہوتا اسی لیے تمام شاعرانہ ایمائیت کے باوجود اقبال کے کلام میں ابہام نہیں اور بعض دقیق استعارات ع علامات کے باوصف یہ کلام آئینے کی طرح شفاف اوردرخشاں ہے۔ اس میں ایک ایسا کیف ہے جو برقی رو کے مانند مخاطب پر اثر ڈالتا ہے۔ اقبال کی خودی کے مضمرات فن کے بہترین امکانات کو رو بہ عمل لاتے ہیں۔
خودی کا مقصود عرفان حق ہے اور معرفت اسی کی تمہید اور وسیلہ ہے۔ یہ عرفان حق ہی عشق کا وہ تصور پیدا کرتا ہے جس کے بغیر فن کا کوئی عظیم نمونہ بروئے تخلیق نہیں آ سکتا۔ یہ عشق ہی ہے جو فن کار کے اندر ایک سوزوگداز پیدا کرتا ہے اور اسے تاب سخن عطا کرتا ہے ذوق و شوق سے سرشار کرتا ہے۔ اور بہتر سے بہتر حسن کاری پر آمادہ کرتا ہے۔ تخلیق جمال کی اس قوت محرکہ کے لیے اقبال نے متعدد فکر انگیز الفاظ استعمال کیے ہیں۔ مثلاً سوز زندگی‘ جنون فتنہ‘ ساماں درد عشق‘ پیش شوق‘ حرف راز‘ لطیفہ ازلی‘ راز درون میخانہ‘ اسرار کتاب‘ راز حرم‘ آہ سحرگاہی‘ فطرت ‘ آئینہ ادراک‘ بجلی کے سوز و براقی‘ حرف محبت‘ ذوق آتش آشامی‘ جمال عشق و مستی‘ جگر کاکہو‘ حرف تمنا ‘ خون جگر ‘ شوق ‘ آرزو‘ خون دل و جگر‘ ’’ذوق جذبہ ہائے بلند‘‘،’’تب و تاب زندگی‘‘، ’’سوز خودی‘‘ ’’ساز حیات‘‘، ’’ذکر و فکر و جذب و سرور‘‘،’’دل کی رمز‘‘ ’’شے کی حقیقت‘‘،’’سوز حیات ابدی‘‘،’’مرحلہ شوق‘‘، ’’روح کا رقص‘‘، ’’مختصر یہ کہ عشق حسن اور حق کو ایک دوسرے کے ساتھ ترکیب دے کر حسن کلام کی آئینہ گری کرتاہے ۔ یہ تصویر کیٹس کے اس تصور سے بدرجہا بہتر ہے زیادہ بالغانہ اور بلغ ہے کہ جس کے مطابق وہ حسن و حق اصلاً ایک دوسرے کے مترادف قرار پاتے ہیں۔ اس لیے کہ حق تو یقینا سراپا حسن ہے‘ مگر حسن سراپا حق نہیں‘۔ اسی لیے جب بوالہوس حسن پرستی کا شعار غالب کے بقول اختیار کرنے لگتے ہیں تو آبروئے شیوہ اہل نظر رخصت ہو جاتی ہے۔
اقبال کے تخیل و فکر لفظ و معنی اور آمد و آورد کے باہمی تعلق و تناسب پر بھی روشنی ڈالی ہے ان کے خیال میں ’’لطف گویائی‘ ‘ کا بلند ترین درجہ حاصل نہیں ہو سکتا ۔ جب تک فکر کامل تخیل کا ہم نشین نہ ہو۔ دوسرے لفظوں میں فکر کی پرواز بمعنی تخیل میں حقیقت (بمعنی تشکر حقائق) سے غفلت نہ ہونی چاہیے۔ یہ فکر کامل ہی ہے جو شاعر کو کھری بات کہنے کا حوصلہ عطا کرتی ہے۔ اور فن کار کے اندر وہ جرات اندیشہ پیدا کرتی ہے جسے اقبال شان خلیل سے تعبیر کرتے ہیں ۔ چنانچہ اہل فکر کامل اس طرح تخیل کا ہم نشیں ہو تو کسی شاعر کے تخیل کے محل پر فلسفیوں کے افکار محض کا پورا حیرت کدہ تصدق کیا جاتا ہے مطلب یہ کہ فکر و خیال کا مرکب فکر محض اور خیال محض کے مفردت سے زیادہ حسین موثر اور کارآمد ہے ۔ یہی وہ متوازن مرکب ہے ‘ جو فن کار کا سینہ روشن کر کے اس کے سوز سخ کو عین حیات بنا دیتا ہے۔ اسی سے غزل میں وہ سوز و نشاب پیدا ہو جاتا ہے جو ایک جنو ن آمیز اندیشہ دانا کی ترکیب کا باعث ہوتا ہ۔ اس کی موجودگ میں شاعری کی نوائے پریشاں محرم راز درون مے خانہ بن جاتی ہے۔ تخیل و فکر کو یہ ہم آہنگی قلب شاعر کو آئینہ ادراک بنا دیتی ہے۔ ا س ہم آہنگی کی حلت صاحب ساز سے تقاضا کرتی ہے کہ وہ غافل نہ رہے ۔ اس یلے کہ کبھی کبھی سروش غلط آہنگ بھی ہوتا ہے جب شاعر کے ذہن میں یہ بیداری پیدا ہو جاتی ہے تب ہی اسے اپنے بلند مرتبے اور اس کی اہمیت کا مجتہدانہ احساس ہوتا ہے اور وہ بلبل و طائوس کے فقط آواز اور فقط رنگ کی تقلید سے توبہ کر کے ایک باشعور فن کار کی طرح اپنی راہ الگ نکالتا ہے۔ اور شر ف انسانی کے بام رفعت پر پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ کوشش نواگر کو تب وتاب زندگی سے مربوط رکھ کر سماج کی صحت و عافیت کا سامان کرتی ہے اس کوشش کا ایک نتیجہ یہ بھی ہے کہ اہل نظر کا ذوق و شوق شے کی حقیقت کو دیکھنے لگتا ہے۔ حقیقت بینی ہنرو فن میں ضرب کلیمی اور حسن و جمال کے ساتھ جلال کی تاثیر پیدا کرتی ہے۔ اس لے خارا تراشی اور سنگلاخ میں ُھول کھلانے کا سلیقہ بھی آتا ہے۔ مختصر یہ کہ تخیل و تفکر کا ارتباط ایک شاعر کو ایک دانش ور کے ذہن کی مضبوطی عطا کرتا ہے
یہی حال لفظ و معنی کے ربط باہم کا ہے ۔ اقبال ارتباط حرف و معنی کو ’’اختلاط جان و تن‘‘ کہتے ہیں او ران کے نزدیک اس اختلاط کی مثال چنگاری پر پڑی ہوئی راکھ کی ہے۔ ان کے خیال میں قبائے لفظ اخگر معنی کے لیے خاکستر سے زیادہ کوئی اہمیت نہیںرکھتی۔ یعنی لفظ کو معنی کا پردہ نہیں اس کا آئینہ ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ اصلیت معنی کی ہے جس کی تابانی لباس الفاظ سے اسی طرح پھوٹتی ہے جس طرح راکھ سے چنگاری۔
واقعہ یہ ہے کہ معنی کا دہکتا ہوا انگارا ایک قبائے خاکستر خود اپنے اند ر سے پیدا کر لیتا ہے۔ اس کی شعلگی اپنے نقطہ عروج پر پہنچ کر خاکستر کا روپ دھارنے لگتی ہے جو روشنی اور گرمی کو دیر تک قائم رکھنے کے لیے ایک قالب بن جاتا ہے۔ مواد وہئیت کے رشتے کی یہ تعبیر بڑی خیال انگیز ہے اور اس کی متعدد تہیں ہیں۔ یہ تعبیر اقبال کے موضوع اور اسلوب کے باہمی تعلق کے لیے نہایت موزوں اور چست ہے۔ اس سے فکر وفن کی ہم آہنگی کے متعلق ان کے نظریے کی بھی پوری وضاحت ہوجاتی ہے۔ دوسری جگہ اقبال نے شعر کو روح موسیقی اور رقص کو موسیقی کا بدن قرار دیا ہے۔ یعنی نغمہ فن ک روح تو شعر ہے مگر اس کا جسم رقص ہے۔ اس خیال کی تشریح اس طرح کی جا سکتی ہے کہ الفاظ میں رقص جیسا پیچ و خم ہوتا ہے حرکت ہوتی ہے زاویے اور دائرے ہوتے ہیں۔ لیکن تجسیم کی ان ساری ادائوں کا ایک لطیف مفہوم ایک عمیق مقصد اور ایک رفیع مطمح نظر ہوتا ہے اور یہی جان شعر ہے۔ ورنہ محض رقص بدن کے خم و پیچ میں کچھ نہیں۔ جو کچھ ہے روح کے رقص میں ہے اور وہ ضب کلیم اللہی سے کم سحر آفریں نہیںبلکہ درحقیقت ایک سحر ہے جو دنیا کے بڑے بڑے جادو کے سانپ کی بنائی ہوئی لاٹحیوں کو نگل لیتا ہے اور غلط قسم کے ہر طلسم کو توڑ کر ااپنا ایک ناقابل شکست طلسم قائم کرتا ہے‘ جس کے زورسے نیل حیات کی پرشور موجوں میں کاروان حق کے لیے راہ پیدا ہوتی ہے۔ اقبال اپنے شعر میں روح کا یہی رقص دیکھنا چاہتا ہے۔ جبکہ رقص بدن کے خم پیچ کو وہ یورپ کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ ایک معنی خیز بات ہے۔ اس سے جہاں ایک بار پھر معنیٰ کی اہمیت پر روشن پڑتی ہے وہیں یہ اشارہ بھی مل جاتا ہے کہ اہل یورپ درحقیقت لفظو ں کے گورکھ دھندے میں گم ہیں ان کے فنون لطیفہ اپنی ظاہر پرستی سے روح کو خوابیدہ اور بدن کر بیدار کر رہے ہیں انہوںنے جسم کی زیبائش و آرائش ہی کو مقصود معیار بنا لیا ہے۔ سطحی جسم پرسی کا یہ عمل رواج زمانہ بن گیا ہے۔ اور ایشیا خاص کر ہندوستان کے فن کار بھی اس میں مبتلا ہو گئے ہیں ایک قد م آگے بڑھ کر اقبال اس حسن طبیعت کو عجمی لے قرار دیتے ہیں ۔ جسمانیات سے یہ غیر معمولی شغف ایک قسم کی اتنہا پسندی ہے جس میں قدیم ہند اور قدم ایران اسی طرح مبتلا رہے ہیں جس طرح جدید مشرقی و مغربی یورپ اور امریکہ ہیں‘ اس لیے کہ اول نشاۃ ثانیہ کے نام سے انہوںنے قدیم یونان اور روم کی ظاہر پرستیوں کا احیاء کیا‘ دوسرے موجودہ میکانکی تمدن کی بے حیائیوں کا اضافہ بھی اس احیا میں کر دیا ۔ اس عدم توازن کو دور کرنے کے لیے اقبال نے ضرب کلیم کی ایک نظم ’’مدنیت اسلام‘‘ میں فکر و فن کا یہ جادہ اعتدال پیش کیا ہے:
بتائوں تجھ کو مسلماں کی زندگی کیا ہے
یہ ہے نہایت اندیشہ و کمال جنوں
طلوع ہے صفت آفتاب اس کا غروب
یگانہ اور مثال زمانہ گوناگوں
نہ تو اس عصر رواں کی حیا سے بے زاری
نہ اس میں عہد کہن کے فسانہ و افسوں
حقائق ابدی پر اساس ہے اس کی
یہ زندگی ہے نہیں ہے طلسم افلاطوں
عناصر اس کے ہیں روح القدس کا ذوق جمال
عجم کا حسن طبیعت عرب کا سوز دروں
٭٭٭
یہ ذوق جمال ہی حسن طبیعت اور سو ز دروں کا وہ امتزاج پیدا کر سکتا ہے جس سے فن شعر میں لفظ و معنی کی صحیح موزوں اور موثر ترکیب بروئے عمل آ سکتی ہے۔ اور تمام فنون لطیفہ میں جسم و روح یا مواد و ہئیت اور موضوع و اسلو کا نتیجہ خیز توازن ابھر سکتا ہے۔
آمد و آورد کا تعلق ہسب وکسب اور فطرت و صنعت سے ہے۔ اس کے ساتھ ہی جدت و قدامت کا سوال بھی وابستہ ہے۔ ضرب کلیم کے باب ادبیات فنون لطیفہ میں مرد بزرگ کے عنوان سے ایک نظم ہے جس کے حسب ذیل اشعار معنی خیز ہیں:
پرورش پاتا ہے تقلید کی تاریکی میں
ہے مگر اس کی طبیعت کا تقاضا تخلیق
مثل خورشید سحر فکر کی تابانی میں
بات میں سادہ و آزادہ معانی میں دقیق
٭٭٭
ضرب کلیم ہی کی ایک چھوٹی سی نظم ’’ادبیات‘‘ کے عنوان سے نقل کی جا چکی ہے۔ اس کا یہ شعر خیال انگیز ہے:
کہنہ پیکر میں نئی روح کو آباد کرے
یا کہن روح کو تقلید سے آزاد کرے
٭٭٭
بال جبریل کی مشہور نظم ذو ق و شوق کے دوسرے بند کا پہلا شعر ہے :
کس سے کہوں کہ زہر ہے میرے لیے مے حیات
کہنہ ہے بزم کائنات تازہ ہیں میرے واردات
٭٭٭
تازگی جدت ‘ آزادی تخلیق اقبا ل کے محبوب الفاظ ہیں۔ جہاں تک فطرت کا تعلق ہے وہ نہ صرف یہ کہ اقبال کو نواپرپے بہ پے مجبور کرتی ہے بلکہ وہ نئی نسل کی علامت جاوید کے لیے خدا سے دل فطرت شناس کی دعا کرتے ہیں۔ اور محبوب فرزند کو تلقین کرتے ہیں کہ سکوت لالہ و گل سے کلام پیداکر لیکن ’’ایجاد معانی‘‘ کو ’’خداداد‘‘ تسلیم کرنے کے باوجود اقبال کا خیال ہے کہ بے محنت پیہم کوئی جوہر نہیں کھلتا اس سلسلے میں وہ ریاض فنون کو کوہ کنی سے تشبیہہ دیتے ہیں اورکہتے ہیں کہ خانہ فرہاد کی ساری روشنی ’’شررتیشہ‘‘ سے ہے چنانچہ میخانہ حافظ ہو کہ بت خانہ بہزاددونوں کی خون رگ معمار گرمی سے ہے تعمیر یہی وجہ ہ کہ ایک طرف ’’حسن معنی‘‘ کو فن کار کی مشاطگی کی کوئی ضرورت نہیںمعلوم ہوتی اور ایسا محسو س ہوتا ہے ک فطرت خود بخود کرتی ہے لالے کی حنا بندی‘‘ جبکہ دوسری طرف نگاہ شاعر نگیں نوا میں ایسا جادو ہے کہ جمیل تر ہیں گل و لالہ فیض سے اس کے ان بیانات میں کوئی تضاد نہں یہ صرف ایک ایسے بالیدہ و پیچیدہ ذہن کے اشارات ہیں جو موضو ع کے تمام اطراف کا احاطہ کرتا ہے۔ اور ہر مسئلے کی تمام جہتوں کو سامنے رکھ کر ایک جامع ترکیبی نقطہ نظر اختیار کرتا ہے۔ پھر یہ ذہن اتنا مستحکم اور خلاق ہے کہ متنوع اطراف اور مختلف جہتوں کو اپنے فکر و فن کے محور پر جمع کر کے یک سو اور یک جہت کر دیتا ہے۔ یہاں تک کہ ریاضح بھی جو ہر خداداد کا ایک حصہ بن جاتا ہے جدید و قدیم کا فرق ختم ہو جاتا ہے اور تقلید کی نشانات تخلیق کے امکانات میں گم ہو جاتے ہیں۔ یہ ایک عظی فن کی کیمیا گری ہے جسے اقبال اپنا سوز نفس قرار دیتے ہیں۔ اور اسے اتنا اہم سمجھتے ہیں کہ اپنے نفس کی موج کا موازنہ باد صبا کی موج سے کرتے ہوئے اعلان کرتے ہیں کہ مظہر فطرت سے تو نشوونمائے خار و خس ہوتا ہے جبکہ تخلیق فن سے نشوو نمائے آرزو بات یہ ہے کہ بڑی فن کاری کے لیے فطرت شناسی کے ساتھ ساتھ خود شناسی بھی ضروری ہے ورنہ فن کار صرف عکاس اور نقال بن کر رہ جائے گا نقاش اور خلاق نہ بن سکے گا۔ اسی لیے اقبال نے مصور کو مخاطب کر کے کہا ہے:
فطرت کو دکھایا بھی ہے دیکھا بھی ہے تو نے
آئینہ فطرت میں دکھا اپنی خودی بھی
فطرت اور خودی کا امتزاج ایک بلند تر سطح پر اس کاقرار میں ملتا ہے کہ شاعر کی غزل خوانی ایک فغاں بن کر جو ستاروں تک پہنچتی ہے تو یہ سکھائی ہوئی بھی افلاک و نجوم کے خالق و مالک ہی کی ہے ۔یعنی جو اس کا منتہاہے وہی اس کا مبدا ہے۔ اس طرح شاعری میں خد ا اور خودی یا ایک درج نیچے اتر کر فطرت اور خودی کے درمیان فاصلہ بہت کم رہ جاتاہے۔ اور ایک دوسرے کے ساتھ قاب قوسین کی وہ قربت پیدا ہو جاتی ہے جو شاعرانہ الہام کا معیار ہے اس معنے میں شعر کو تلمیذ رحمان کہا گیا ہے ۔ بشرطیکہ وہ ہر وادی میں بھٹکتا نہ پھرے اور محض لفاظی کر کے اپنے فن کی عظمت کو داغدار نہ کرے۔
توازن کا یہی وہ تناظر ہے جس میں اقبال کے اس قسم کے بیانات کو دیکھنا چاہیے کہ وہ غزل کی زبان سے باخبر نہیں ہیں خاراشگافوں سے شیشہ سازی کا تقاضا نہ کیا جانا چاہیے نہ ان کا شعر کچھ ہے شاعری کوئی چیز یہ بس ایک نوائے پریشاں ہے جس جیں کوئی رمز و ایما نہیں اس لیے کہ شعر کو سخن سازی کا فن نہیں آتا۔ اول تو یہ بیانات شعرا کی عالم تعلیوں سے بالکل مختلف بلکہ ان کے برعکس دنیا کے عظیم ترین شاعرکے انکسار پر مشتمل ہیں اور ایک خوشگوار تبدیلی کی نشاندہی کرتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ اگر متعلقہ اشعار کا مطالعہ ان کی مکمل شکل اور سیاق و سباق میں کیا جائے تو تصور فن کے بہ ظاہر منفی اشارت بھی مثبت معانی اختیار کر لیں گے مثلا ً اگر ایک شعر کے پہلے مصرعے میں کہا گیا ہے کہ شاعر غزل کی زبان سے باخبر نہیں ہے تومصرعے میں ایک دل کشا صدا گوہر مقصود بھی بتایاگیا ہے۔ ظاہر ہے کہ کوئی صدا یوں ہی دل کشا نہیںہوتی جب کہ اس کے پیچھے خون جگر کے ساتھ ساتھ فن کا ریاض نہ ہو۔ جو آواز جتنی زیادہ تربیت یافتہ اور آہنگ نغمہ کے زیر و بم سے واقفیت پر مشتمل ہوگی۔ بشرطیکہ واقعی قدرت نے کسی کو اچھی آواز دی ہو اور وہ ایک بامعنی آواز ہو‘ اس کے اندر دل کشائی کا اندازہ اتنا ہی ہو گا اب یہ واقعی بڑی خاکساری ہے کہ جو شخص شعرائے عالم میں سب سے زیادہ صاحب علم اور ن کے اسرار و رموز سے بھی کامل طورپر واقف ہے وہ اپنے آپ کو گویا آداب شاعری سے نابلد قرار دے رہاہے گرچہ اس کے ساتھ ہی مقصود شاعری کے حصول کا آرزو مند ہے ۔ بہرحال اگر یہ کوئی معمہ بھی ہو تو اس کا حل شعر کے پہلے مصرعے کے ابتدائی الفاظ ہی میں موجود ہے ۔ یعنی نہ زباں کوئی غزل کی یہ الفاظ نہ تو شاعرانہ تعلی کے ہیں نہ عارفانہ انکسار کے بلکہ ایک نہایت اہم تنقیدی بیان کے جو اقبال کی مخصوص و منفرد غزل گوئی کی تفہیم کے لے کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ عام طور پر ناقدین سمجھتے ہیں کہ غزل گوئی کی کوئی خاص الخاص زبان اور انداز بیان ہے جس سے ہٹ کر غزل کا جوہر نہیں دکھایا جا سکتا۔ مثلاً زبان میں لوچ‘ لچک‘ نرمی‘ اور انداز میں ربودگی و شکستگی ۔ اقبال فن غزل کے اس تصور کی قطعی تردید کرتے ہیں اس لیے کہ اول تو وہ جانتے ہیں کہ زبان و انداز غزل کے متعلق عام ناقدوں کا یہ خیال بالکل ناقص اور حقیقت سے بعید ہے ورنہ اردو ہی میں غزل گوئی کا شرف صرف میر کے لیے مخصوص ہوتا۔ اس میں غالب کا کوئی حصۃ نہ ہوتا اور فارسی میں تو حافظ کا زبردست تغزل پرھ تغزل کے دائرے ہی سے خارج ہو جاتا۔ دوسرے خود اقبال کی عظیم غزل گوئی عام تصور غزل کے برعکس ایک تصور پر مبنی ہے۔ لہٰذا اقبال نے ضروری سمجھا کہ غزل کے زبان و انداز کے متعلق اپنا موقف واضح کر دیںَ اسی طرح جہاں کے ایک شعر دوسرے مصرعے میں خاراشگافیوں سے شیشہ بازی کا تقاضا کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ وہیں پہلے ہی مصرعے میں اصل بات بتا دی گئی ہے۔ وہ یہ کہ ہمارے مفکر شاعر کو حدیث بادہ و مینا و جام آتی نہیں۔ یہ گویا ایک ار پھر نہ زبان کوئی غزل کی جیسا تنقیدی بیان ہے ظاہر ہے کہ اقبال بادہ و مینا و جام کے شاعر نہیں ہیں۔ وہ زندگی کے ٹھوس حقائق کے نغمہ خواںہیں لہٰذا ان کا فن شیشہ سازی کا کوئی آسان نرم و نازک کام نہیں ہے۔ بلکہ اس کے لیے خارا تراشی کی صلابت و ریاضت درکار ہے۔ بلاشبہ یہ بڑی کٹھن کوہ کنی ہے مگر عظیم فن کاری کی جوئے شیر اس کے بغیر اس لیے نہیںپھوٹ سکتی اور جب تک یہ جوئے شیر رواں نہ ہو مزرع زندگی بھی ہری نہیںہو سکتی جو حقیقی شاعری کا مطمح نظر اور معیار کمال ہے۔ چنانچہ شاعر کی نوائے پریشاں ایک محرم را ز درون میخانہ کی قلندرانہ آواز ہے جیسا کہ متعلقہ اشعار کے متعلقہ مصرعوں سے ظاہر ہے کہ اس نوائے پریشان کی اہمیت یہ ہے:
عجب نہیں کہ پریشاں ہے گفتگو میری
فروغ صبح پریشاں نہیں تو کچھ بھی نہیں
(تصوف… ضرب کلیم)
جہاںتک رمز و ایما اور سخن سازی سے انکار کا تعلق ہے یہ درحقیقت تمہید ہے ’’خانقاہ‘‘ کے موضود پر اس بیان کی:
قم باذن اللہ کہہ سکتے تھے جو رخصت ہوئے
خانقاہوں میں مجاور رہ گئے یا گورکن
٭٭٭
اب متعلقہ شعر کو پڑھیے:
رمز و ایما اس زمانے کے لیے موزوں نہیں
اور آتا بھی نہیںمجھ کو سخن سازی کا فن
٭٭٭
نظم انہی دو شعروں پر مشتمل ہے اور اس کا مفہوم واضح ہے۔ اس پس منظر میں رمز و ایما سے انکار کا فکری مقصد معلوم ہو جاتا ہے ۔ چنانچہ فن کے نقطہ نظر سے اصل اعتبار اس بیان کا ہے کہ رمز وایما اس زمانے کے لیے موزوں نہیں بلاشبہ یہ ایک تنقیدی بیان ہے اور اس میں ایک زبردست عصری آگہی موجود ہے۔ اسلوب بیان ماحول اورمخاطب نیز موضوع کی مناسبت سے ہی کارگر ہوتاہے جدید تمدن کی کرختگی حالات کی سنگینی اور ٹھوس حقائق کی فن کاری کے پیش نظر عصر حاضر کے لیے رمز و ایما کی ناموزونی اور بے اثری کا احساس ایک متوقع امر ہے۔ اگر فن کی بلاغت کسی خیال کی ابلاغ کے لیے ہے تو جو لو گ رمز و ایما کے ادا شناس نہیں ہیں یا جنہیں ایمائیت کے اسرا ر و رمو ز پر غور کرنے کا موقع ہی نہیں ہے ان کے سامنے رمز و ایما کے استعمال کا حاصل کیا ہے؟ بہرحال اس سلسلے میں اقبال کے ایک فارسی شعر کا یہ تنقیدی بیان شاعر کے نقطہ نظر اور عمل کی پوری اور قطعی وضاحت کرتا ہے :
وقت برہنہ گفتن است‘ من بہ کنایہ گفتہ ام
یعنی زمانہ تو صاف صاف با ت کہنے کا ہے مگر شاعر نے اپنے اظہار خیال میں کنایے کا استعمال کیا ہے اور یہ کنایہ ظاہر ہے کہ لطیف و نفیس ہونے کے باوجود معمہ نہیں ہو گا آئینہ ہی ہو گا تاکہ الفاظ حسن معنی پر نقاب ڈالنے کی بجائے صرف اس کی تزئین کریں ایسی تزئین کہ جس سے حسن کچھ نکھر جائے۔ یہ نکتہ فارسی کے ایک او ر شعری بیان میں اقبال نے اس طرح پیش کیا ہے:
برہنہ حرف و گفتن کمال گویائی است
یعنی استعارہ و کنایہ کے پردے میں گفتگو کرنا شاعری کے نقطہ نظر سے کمال گویائی اور بہترین اظہار خیال ہے۔ بشرطیکہ یہ پردہ نقاب کا نہیں‘ آئینے کا کام کرے اور رنگ صہبا کی عکاسی کے لیے ایک شفاف شیشہ بن جائے۔ یہی وہ حقیقت ہے جس پر مسجد قرطبہ کے تمہیدی حصہ دعا کے آخری شعر میں ا س طرح روشنی ڈالی گئی ہے:
فلسفہ و شعر کی اور حقیقت ہے کیا
حرف تمنا جسے کہہ نہ سکیں روبرو
بلاشبہ اس بیان میں فلسفہ و شعر کو ایک کر دیا گیا ہے لیکن معاملہ دونوں کی ظاہری ہئیت کا نہیں ہے۔ ان کی حقیقت اصلی کا ہے ۔ اور وہ ایک حرف تمنا ہے جو انسان کی تمام تہذیبی سرگرمیوں کے مطلوب و مقصود…محبوب ازل… سے متعلق ہے۔حرف تمنا کا طریق تعبیر سراسر قدر جمال کی ترجمانی ہے اور اس سے فلسفے میں بھی ایک ایسی لطافت پیدا ہو جاتی ہے جو اسے شعر سے قریب کر دیتی ہے۔ اقبال فلسفی بھی ہیں ار شاعر بھی پھر انہوںنے اپنی شاعری میں زندگی کا ایک فلسفہ ہی پیش کیا ہے ۔ لہٰذا فن کے نقطہ نظر سے یہ امر بہت ہی اہم فکر انگیز اور نتیجہ خیز ہے کہ ایک فلسفی شاعر اپنے فلسفے کو شعر میں سمونے کے لیے دونوںکے درمیان جو قدر مشترک تلاش کرتا ہے وہ ایک قدر جمال ہے گرچہ ساتھ ہی وہ ایک قدر اخلاق بھی ہے ۔ اب حرف تمنا جسے کہہ نہ سکیں روبرو ‘ کی معنویت پر غور کیجیے غزل یا شاعری کی کوئی بھی صنف ہو ا س کا مقصد کسی محبوب کی آرزو ہی کا خیال ہے مگر جمال یار کا رعب ایسا ہے کہ حرف آرزو کا اظہار ممکن نہیں لہٰذا اب محبوب سے یا ا س کے بارے میں جو بھی گفتگو ہو گی پردے پردے میں ہو گی‘ اور اس کے لیے استعارہ کنایہ علامت جیسے وسائل اظہار استعمال کیے جائیں گے۔ یہ معاملہ تو شاعری کا ہوا جس کے صنائع و بدائع یہ وسائل ہیں فلسفے میں بھی خیالات کی وضاحت کے لیے ایک خاص خاص اصطلاحات وہ محاورات کا سہارا لیا جاتا ہے۔ اس طرح فلسفہ و شعر دونوں میںذہن و قلب کی کیفیات کا موثر اظہار زبان و بیان کے مخصوص وسائل کے ذریعے ہوتا ہے چنانچہ دونوں ہی صورتوں میں حرف مطلب زبان سے بالواسطہ ادا ہوتا ہے اس لیے کہ حرف کی حد یہی ہے اور اس کے آگے منزل ہے وہ حرف و حکایت کی نہیں‘ وصال و یگانگت کی ہے بات یہ ہے کہ حجاب اکسیر ہے ارادہ کوئے محبت کو خواہ محبت کرنے والا فن کار ہو یا فلسفی یہاں ہمارا تعلق ایک فن کار سے ہے اور موضوع بحث اس کا تصور فن ہے یہ نکتہ یقینا اقبال کی زبردست تنقیدی ذہانت کا ثبوت ہے ک ہوہ نہ صرف فن کی ادائے خاص کی تشریح کرتے ہیں بلکہ فکر کو بھی اس تشریح میں لطیف طریقے سے شامل کر کے فن و فکر کی یکجہتی کا سامان کرتے ہیں۔
ہئیت سخن کے بارے میں اقبال کا خیال ہے:
شیشے کی صراحی ہو کہ مٹی کا سبو ہو
شمشیر کی مانند ہو تیزی میں تری مے
یہ ایک بار پھر ظرف سے زیادہ مظروف کی اہمیت پر تاکیدی نشان ہے شکل اظہار شیشے کی صراحی کی طرح ایک پیچیدہ صناعت سے مرتب ہوئی ہو یا مٹی کے سبو کی طرح ایک سادہ کاری گری کا نتیجہ ہو اعتبار شکل کا نہیں اس کے اندر پوشیدہ مادے کا ہے اس کی تاثیر اور خاصیت کا ہے۔ اگر کسی شکل سے خواہ وہ کتنی ہی سادہ ہو ذہن میں سرور اور نور پیدا ہوتا ہے تو وہی مطلوب ہے لیکن اگریہ جان فزا اثر نہ پیدا ہو تو قیمتی سے قیمتی اور رنگین سے رنگین شکل بھی بے کار ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ہئیت خالی ظرف نہ ہو۔ اس کے اندر بیش قیمت اور مفید مواد بھی ہونا چاہیے۔ اب اگر مواد کے لحاظ سے کوئی ہیئت بہت حسین و جمیل ہے تو یہ بڑی خوشگوار بات ہے ورنہ حسن برائے حسن یعنی صرف ظاہری خوبصورتی کوئی اہمیت نہیں رکھتی اس تناظر میں مندرجہ ذیل اشعار پر غور کیا جانا چاہیے:
یہی کمان ہے تمثیل کہ تو نہ رہے
رہا نہ تو تو نہ سوز خودی نہ ساز حیات
تمثیل کو ہی انگریزی میں ڈرامہ کہتے ہیں جس کے بہترین فن لطیف ہونے پر اردو ک ایک ناقد کو بڑا اصرار ہے اور خود انگریز ڈرامے کے اندر پائی جانے والی شاعری پر اتنا ناز کرتے ہیں کہ شیکسپئیر کو دنیا کا سب سے بڑا شاعر نیز ڈرامہ نگار تصور کرتے ہیں۔ اقبال شیکسپئیر کی عظمت اپنی جگہ تسلیم کرتے ہوئے بھی فن تمثیل کو معیار و مقصد ماننے کے لیے تیار نہیں بلکہ تمثیل میں جو نقالی پائی جاتی ہے اسے وہ شرف انسانی کے منافی اور تشکی کردار یا تعمیر شخصیت کے لیے سخت مضر سمجھتے ہیں۔ اس لیے کہ ڈرامے کی ایکٹنگ کردار کی اپنی ہستی کو مسخ کر دیتی ہے اس سے آدمی کا تشخص ختم ہو جاتا ہے اور وہ اپنی خودی کا جذبہ کھو کر زندگی کے حقیقی نغمے سے محروم ہو جاتا ہے۔ اس طرح ایک مصنوعی فن ایک مصنوعی فضا پیدا کر تا ہے۔ جس سے پوری زندگی مصنوعی بن کر رہ جاتی ہے۔ اسی لیے اقبال نے ڈرامے کی جدید شکل سینما کو دوزخ کی مٹی اوراس کے بنائے ہوئے بت خانہ تخیل کو خاکستری قرار دیاہے۔ وہ اسے صنعت آزری بت گری اور تہذیب حاضر کی سوداگری کہتے ہیں۔ شاید اسی لیے اپنے بعض خیالات کی نوعیت کے پیش نظر چند اعلیٰ تمثیلی نظمیں لکھنے کے باوجود اقبال نے ایکٹنگ پر مشتمل منظوم تمثیلین لکھنا پسند نہ کیا۔ اقبال کی شاعری میں ڈرامائی عنصر کی کمی نہیں اور وہ بڑی کامیاب کردار نگاری نیز نہایت پر اثر فضا بندی کرتے ہیں مگر ان کے کردار عموماً حقیقی ہوتے ہیں اور فرضی کردار بھی حقیقت ہی کا سبق دیتے ہیں۔ چنانچہ اقبال کی تمثیلی نظموں میں سارا زور شخصیتوں کی نقالی کی بجائے افکار کی علامت نگارتی پر ہوتا ہے فنی طورپر یہ شاعری کی اس عظیم روایت کی توسیع ہے اس روایت کے کلاسیکی نمونوں میں شاعری کی اعلیٰ قسم کی ہے لیکن ڈرامہ نگاری جدید مغربی مفہوم میں نہیں ہے۔ جبکہ یہ حقیقت اپنی جگہ معروف و مسلم ہے کہ شاعری شاعری ہے اور ڈرامہ ڈرامہ جو نثر میں بھی ہوتا ہے بلکہ عصر حاضر میں بالعموم نثر ہی میں ہوتا ہے‘ اور یہ ادب کی دو الگ الگ صنفیں ہیں۔ اور دونوں مستقل بالذات ہیں نہ تو شاعری ڈرامے کی محتاج ہے نہ ڈراما شاعری کا محتاج ہے۔ چنانچہ ہر ایک کے لوازم الگ ہیں اوصاف الگ ہیں اور واقعہ تو یہ ہے کہ اگر صنف شاعری میں ڈرامہ تحریر کیا جائے تو اس سے شعریت میں خلل واقع ہو سکتا ہے اور خود ڈرامے میں وہ خامی پیدا ہو سکتی ہے جس کو دور کرنے کے لیے شیکسپئر جیسے ماہر فن کو بھی اپنے منظوم ڈراموں میں جا بجا نثر کا سہارا لینا پڑتا ہے۔
تصور فن پر اوپر کے مباحث سے حس ذیل نتائج نکلتے ہیں:
1
اقبال کی شاعری اپنے فن کی تمام روایات و آڈاب کو ملحوظ رکھنے کے باوجود رسوم و قیود کی پابند محض نہیں ہیں ہئیت اور اسلوب کے اوصاف و لوازم کے بارے میں شاعر کا خیال اور عمل دونوں ممتاز و منفرد اور مجتہدانہ ہیں اس کے افکار و احساسات اپنے اظہار کے لیے وہی شکل اختیار کرتے ہی جو ان کے لیے سب سے موزوںاور چست ہیں۔ یہ ایک فطری عمل ہے جس کے پیچھے کتنا ہی بڑا ریاض ہو اس میں کسی قسم کا تصنع اور تکلف نہیں ہے۔
2
یہ تخلیقی آزادی شاعر کے مقصد تخلیق کی دین ہے۔ وہ شاعری شاعری کے لیے نہیں کرتا۔ زندگی کی تزئین کے لیے ایک خاص نظریے کے تحت اور اس کے جذبے سے مجبور ہو کر کرتا ہے وہ اپنے قلب و ذہن کی آنچ سے اپنے پورے ماحول کو گرم اور روشن کرنا چاہتا ہے اس کام کو وہ اپنی ذمہ داری سمجھتا ہے لہٰذا اپنے مقصد کی بلیغ ترسیل کے لیے اپنے وسیلہ اظہار کو بھی زیادہ سے زیادہ موثر بنا کر پیش کرنا چاہتا ہے حالانکہ اس کے لیے الگ سے اور ارادۃً کوئی سعی کرنے کی ضرورت نہیں اس کی رنگین بنانی اس کی رنگین خیالی ہی کا پرتو ہے۔
3
فکر کی پیشگی تعین و توضیح نے فن کار کو فن کو کے لیے یکسو کر دیا ہے۔ اسی لیے اس کے تصورات تنوع کے باوجود ہم آہنگی کے ساتھ ساتھ اس کے اسالیب بیان میں ہمواری و استواری ہے۔اس سے فکر و فن کی یک جہتی کے علاوہ ایک زبردست فنی ارتکاز بھی پیدا ہوتا ہے۔ اردو میں پہلی اہم نظم ہمالہ سے آخری اہم نظم ابلیس کی مجلس شوریٰ تک بیان پر یکساں قدرت اور اظہار کا یکساں کمال اسی یکسوئی اور ہمواری کے سبب ہے۔
4
ایک ناقد فن اور کامل الفن شاعر ہونے کے لحاظ سے یہ اقبال کا حق اور فرض دونوں ہیں کہ ہیئت سخن کے سلسلے میں کسی کی نقالی کی بجائے اپنے خاص معیار ردو سے وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ جس زبان میں اور جس مقاصد کے لیے وہ شاعری کر رہے ہیں وہ مگربی تمثیل کے بجائے مشرقی تغزل کے متقاضی ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ شاعری کے لیے عام طور پر غزل خوانی اور غزل سرائی کے الفاظ استعمال کرتے ہیں جبکہ تمثیل کی خامیوںاور خرابیوں پر وہ تنقید کرتے ہیں۔ حالانکہ ان کی بے شمار اور بہترین موضوعاتی نظموں میںتمثیل کے اعلیٰ عناصر بڑے ہی نفیس انداز میں پائے جاتے ہیں لیکن ان کا مقصد ڈرامہ نگاری نہیں ہے‘ حقیقت نگاری اور اثر انگیزی ہے اسی لیے نظموں میں تمثیلوں کا استعمال بالوضاحتہ علامتوں کے طور پر ہوا ہے‘ جو خالص شعری کا ایک حسین وسیلہ اظہار ہیں ۔ بشرطیکہ وہ مفہوم کی سریت نہیں صراھت پر مشمتل ہوں۔ جیسا کہ اقبال کی نظموں میںنمایاں طور پر نظر آتا ہے واقعہ یہ ہے کہ مجموعی طور پر اقبال کے کلام میں تمثیل کا عنصر ایک وسیع او ر عمومی شاعرانہ انداز میں پایا جاتا ہے اس کا خاص مصرف معانی کی استعاراتی تجسیم ہے۔ جو رنگ شاعری کا اشاریہ ہے گویا قدیم صنائع و بدائع کا جدید پیرایہ بیان ہے جو سادہ ترین تشبیہات سے پیچیدہ ترین علامات تک محیط ہے یہ پیکر سازی اور تمثیل نگاری ہے جس کا وافر سرمایہ کلام اقبال میں موجود ہے۔ اقبال کا تصور تصویر ساز ہے ان کے خیالات بالعموم حسین پیکروں ہی میں ظاہر ہوتے ہیں اور یہ پیکر قدیم و جدید مشرق و مغرب اور شوخ و لطیف ہر قسم کے رنگوں اور ززاویوں سے بنتے ہیں مظاہر فطرت اور صنائع شاعری کا پورا رنگ محل اقبال کے تصرف میں ہے۔
5
کلام اقبال کے رنگ سے بھی زیادہ اہم اس کا آہنگ ہے شاعری اصلاً ایک نغمہ ایک ملفو ظ موسیقی ہے۔ اس کا پہلا اور بہترین اثرا س کی لے اور لحن ہی پر مبنی ہوتا ہے۔ اس لیے اس کے آداب و ضوابط کا نام عروض ہے جو آوازوں کی ترتیب کا ایک نظام ہے ۔ اقبال کا آہنگ سراپا ترنم ے۔ ان کے الفاظ و تراکیب کی نشست اور بندش سے ہمیشہ ایک قماش نغمہ مرتب ہوتی ہے۔ دقیق سے دقیق اور ثقیل سے ثقیل الفاظ و تراکیب بھی اقبال کے دست ہنر میںموسیقی کا تناسب و توازن اختیار کر لیتے ہیں۔ بعض ماہرین لسانیات و صوتیات نے اقبال کے استعمال کیے ہوئے حڑوف کا جو تجزیہ کیا ہے اس سے بھی ترنم کی اسی کیفیات کا سراغ ملتا ہے اقبال کی شاعری روح کا رقص ہ یجو ہر لمحہ ایک بسیط آفاقی او رسرمدی موسیقی کے تال اور سر پر جلوہ نما ہوتا ہے۔ یہ اقبال کے خیالات اور احساسات کی حرکیت کا بہترین طریق اظہار ہے ۔ ا س سے ان کی طبع شاعرانہ کے سرجوش کا سرگم پیداہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے شاعر نے اپنے فن کے لیے فغاں نالہ نوا اور صدا کے استعارات بکثرت استعمال کیے ہیں۔ میر نے اپنے دریائے طبیعت کی روانی کا جو دعویٰ کیا تھا اس کی بہترین اورعظیم ترین دلیل اقبال کا نشاط انگیز سیل معانی ہے۔
6
اقبال کے تصوری شاعری میں رنگ و آہنگ کی یہ فراوانی ہر فطرت کا منظر پیش کرتی ہے اقبال نے بلا شبہ بلبل کو فقط آواز اور طائوس کو فقط رنگ قرار دے کر دونوں کی تقلید سے توبہ کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ لیکن یہ بلبل طائو س کے مفردات سے ترکیب پانے والی رنگین نوائی کی طرف بھی ایک لطیف اشارہ ہے فقط بلبل و طائوس کی تقلید کا لائق ترک ہونا ایک بات ہے اور دونوں کے آزادانہ امتزاج سے اک نغمہ رنگین ترکیب دینا بالکل دوسری بات ہے اقبال کی مشہور شاعرانہ علامتوں لالہ و شاہین کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ اپنی فکن کاری کے رنگ و آہنگ کے لیے مظاہر فطرت کے ساتھ شاعر کی وابستگی کتنی شدید تھی‘ اپنے خیالات و احساسات کے تمثیل و ترنم کے لیے اقبال نے جس کثرت و شدت سے فطرت کے مظاہر و مناظر کا استعمال کیا ہے وہ ان کی شاعرانہ ذہنیت کا ایک نمایاں ثبوت ہے لیکن فطرت ورڈز ورتھ کی طرح اقبال کا موضوع و مقصود نہیں ہے ایک بلند تر موضوع مقصود کے اظہار کا فنی وسیلہ ہے ۔ ان کی فن کار ی کا مقصود موضوع انسان اور اس کے سماج کو کائنات و حیات کے اصلی و ازلی حسن و جمال سے آگاہ و سرشار کرنا ہے لہٰذا وہ فطرت کو ا س طرح پیش کرتے ہیں کہ وہ سوئے ؤخلوت گاہ دل دامن کش انساں بن جاتی ہے ۔ اس کی بجائے کہ خود ہی مرکز نظر ہو کر رہ جائے‘ جیسا کہ ورڈز ورتھ کی طرح کے فطرت نگار شعرا عام طور پر چاہتے ہیں۔ اس معاملے میں اقبال کی فنی و فکری بصیرت فطرت نگاروں سے بہت آگے بڑھی ہوئی ہے اس کے باوجود کہ ورڈس ورتھ نے کہا تھا:
What the man has made of wan
وہ یہ نہ سمجھ سکا کہ حسن فطرت کی حفاظت بھی جس کو اس نے اپنی شاعری کا مطمح نظر بنایا تھا‘ ذہن انسانی کے معیار حسن کو درست کر کے ہی ممکن ہے ۔ لہٰذا اس فطرت نگار نے سارا زور فطرت کی رعنائیوں کی تصویر کشی پر صرف کر دیا۔ اقبال کا طریق کار اور طرز فکر دوسرا ہے وہ سارا زور ذہن انسانی کے معیار حسن کو درست کرنے پر صرف کرتے ہیں۔ تاکہ یہ ذہن جمال فطرت کی رعنائیوں کا صحیح اور محکم طور پر احساس کر سکے۔ اس لیے کہ یہی احساس جمال فطرت کے تحفظ کے ساتھ ساتھ اس کی تزئین کا ضامن بھی ہو گا۔
جمیل تر ہیں گل و لالہ فیض سے اس کے
نگاہ شاعر رنگیں نوا میں ہے جادو
یہ جادو عملاً ایک اخلاقی قدر ایک تعمیری جذبہ نظر ایک سعی تزئین کی شکل میں ظہور پذیر ہوتا ہے۔ یہی جمالیات و اخلاقیات کے علاوہ فطرت و انسانیت کے درمیان مطابقت و موافقت کا وہ بہتر نسخہ ہے جس کی تلاش ورڈز ورتھ کو تھی مگر اس کو دریافت کیا اقبال نے۔
بات یہ ہے کہ اقبال فطرت کے مظاہر کے بجائے اس کے اسرار کی جستجو میں تھے۔ انہوںنے شیکسپئر کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اپنے ابتدائی دور میں کہا تھا:
حفظ اسرار کا فطرت کو ہے سودا ایسا
راز داں پھر نہ کرے گی کوئی پیدا ایسا
یہ فطرت کا وہ بلند تر وسیع تر اور عمیق تر مفہوم ہے جس کے تجسس میں اقبال اور شیکسپئیر شریک کار ہیں جبکہ ورڈس ورتھ بائرن‘ شیلی اور کیٹس جیسے رومانی شاعروں کو فطرت کے اس مفہوم کی بلندیوں‘ وسعتوں اور گہرائیوں کی خبر نہیں۔
دوسری طرف کیٹس کے علاوہ دور حاضر کے انگریزی شعراء ولیم ٹیلر ئیٹس اور ٹی ایس ایلیٹ کی کم نظری اور خام دماغی کا حال یہ ہے کہ علی الترتیب ان شعرا نے پائیداری کی تلاش میں یونانی صڑاحی بلبل اور نقطہ سکون کو اپنا معیار مطلوب قرار دیا۔ اس کے لیے ئیٹس نے ایک معنی خیز ترکیب Artifice of Eternity (صنعت ابایت) کا استعمال کیا‘ یعنی یہ شعر فطرت سے مایوس ہو کر صنعت کی طرف مبذول ہو گئے اور اس طرح انہوںنے جدید تمدن کی صناعی کے مقابلے میں زندگی اور فنون لطیفہ کے لطیف ترین نمونے شاعری کی شکست تسلیم کر لی اور حرکت و نمود کے بجائے جمود و سکون اختیار کر لیا۔ لیکن عصر حاضر میں ۃی اقبال نے فطرت و صنعت دونوں کو ایک بلند تر حقیقت کا خادم قرار دے کر زندگی کی اصلیت اور فن کی عظمت آشکار کر دی۔
7
اقبال کا تصور فن ان کے فن کی طرح زندگی اور فنون لطیفہ کے تضاد و تصادم کے درمیان ایک اعتدال و توازن کی تلاش ہے‘ اضداد کی کش مکش سے ترکیب و تطبیق کا ایک نظام کشش بروئے کار لانے کی کوشش ہے‘ ذہنی کشیدگی سے عملی بالیدگی پیدا کرنے کی سعی ہے اس مقصد کے لیے اقبال کوئی پر تکلف مصنوعی طریقہ اختیار نہیں کر سکتے۔ ایک فطری ہم آہنگی سے کام لیتے ہیں۔ کہہ سکتے ہیں کہ یہ فن شاعری پر اس فکری توحید کا پرتو ہے جو اقبال کا عقیدہ و نظریہ ہے ۔۔ چنانچہ اس توحیدی نقطہ نظر اور طریق عمل نے فن و فکر فطرت و صنعت اور رنگ و آہنگ کی ثنویت کو ختم کر کے اس عظیم وحدت کو جنم دیا ہے جو اقبال کی شاعری ہے۔
اس وحدت کی پہنائی میں احساس و ادراک جذبہ و خیال‘ تخیل و تصور‘ اور مختلف احساسات و ادراکات‘ جذبات و خیالات‘ اور تخیلات و تصورات ایک دوسرے کے اندر مدغم ہو گئے ہیں یہاں تک کہ تمثیل و ترنم کے مختلف وسائل فن بھی پوری طرح ہم آہنگ ہو گئے ہیں۔ جو چیز خون جگر ہے وہی شعلہ نوا بن کر رونما ہوتی ہے۔