بات روک کر منان نے پارس کی بڑی ہوتی آنکھیں دیکھیں ۔۔۔ پھر اسے کچھ بولنے کے لیئے پھڑکتا دیکھ کر ہونٹوں پر انگلی رکھ کر گھورا اور پھر سے تصورات کی دنیا میں کھو گیا ۔۔۔۔۔۔۔
چوہدری گاڑی میں بیٹھا خباثت بھری نظروں سے اس شہد رنگ شہزادی کو اپنے کالج تک جاتا دیکھ رہا تھا اور منان گاڑی ڈرائیو کرتا ہوا اپنی آگے کی پلاننگ بتا رہا تھا جس میں چوہدری کو کوئی دلچسپی نہیں تھی ۔۔۔۔۔۔
اس کے پاس دولت تھی ۔۔۔ وہ پیسہ دے کر مطلوبہ چہرہ حاصل کرتا تھا ۔۔۔۔ کیسے کرنا تھا ۔۔۔ کیا کرنا تھا اس سے اسے کیا ۔۔۔؟؟؟
“کب سے یہ گاڑی ہمیں فالو کر رہی ہے ۔۔۔۔ ابھی جوتی اٹھا کر مارتی ہوں ڈرائیور کے سر پر ۔۔۔۔!!”
میشا نے اسکول اسٹوڈنٹس علیشہ اور وریشہ کو غیر محسوس انداز میں اپنے اور ساشہ کے درمیان میں کیا تھا ۔۔۔۔۔
“چھوڑو نہ کیوں بے وجہ کا پنگا لے رہی ہو ۔۔۔۔؟
فالو کر رہا ہے کرتا رہے ۔۔۔ ہمارا کیا بگڑ رہا ہے ۔۔۔۔۔؟؟”
“تم تو ہو ہی سدا کی ڈر پوک ۔۔۔۔”
میشا نے گھور کر اسے دیکھا اور کالج کے اندر گھس گئی ۔۔۔ وہیں اسکول بھی بنا تھا جہاں وریشہ اور علیشہ مڑ گئی تھیں ۔۔۔۔ سر جھٹک کر آگے بڑھتی ساشہ ساکت رہ گئی تھی ۔۔۔۔۔۔
خوشبئوں میں مہکتا کوئی وجود پل جھپکتے میں اس کے قریب سے ہو کر گزرا تھا ۔۔۔۔ ساشہ نے بمشکل سینے میں اٹکتی سانس بھر کر بھیگتی ہتھیلی میں مقید وہ چٹ محسوس کی تھی ۔۔۔ جو وہ شخص اس کے ہاتھ میں تھماتا گیا تھا ۔۔!
مائوف ہوتے دماغ نے جب کام کرنا شروع کیا تو اسے کرنٹ لگا تھا گویا اس چٹ سے ۔۔۔۔۔
بغیر کچھ دیکھے اور سوچے اس نے چٹ پھینک دی تھی ۔۔۔!
کافی دن یہی سلسلہ چلتا رہا ۔۔۔
اور آخر کار ساشہ نے بالی عمر کے جزبوں کے آگے جھکتے ہوئے ایک چٹ پڑھ ہی ڈالی۔۔۔۔۔۔
“کوئی اتنا سنگدل بھی کیسے ہو سکتا ہے ۔۔؟
کیا زرا رحم نہیں آتا آپ کو اپنے اس چاہنے والے پر ۔۔۔؟؟؟
اگر نہیں آتا تو فقط اک نگاہ اٹھا کر دیکھ لیں اپنے پہلو میں ۔۔۔۔۔ کوئی جزبہ سر نہ اٹھائے ۔۔ محبت نہ صحیح ۔۔۔ ترس بھی نہ آئے ، تو کبھی آپ کی راہ میں حائل نہیں ہوں گا ۔۔۔۔۔۔ یہ میرا آپ سے وعد ہے ۔۔!!
آپ کی اک نگاہ کا طلبگار ۔۔ مون! ”
وہ لڑکی جس کی زندگی میں باپ اور بھائی کے سوا کسی مرد کا کبھی گزر بسر نہ ہوا ہو ۔۔۔۔۔۔
اس کا ان چھوا شفاف دل تو دھڑکنا ہی تھا ۔۔۔!!
پہلی نظر اٹھی تو اٹھی ہی رہ گئی ۔۔۔۔۔
مگر پھر جھکتی چلی گئی ۔۔
وہ یقیناً کوئی شہزادہ تھا ۔۔۔۔۔۔
اس دنیا کا تو لگتا ہی نہ تھا ۔۔۔۔!!
نظروں پر تو پہرے بٹھا لیئے ۔۔ دل مگر بے قابو تھا ۔۔۔۔۔
نظر جھکانے کا حکم یونہی تو نہیں آیا۔۔۔
سارے فتنے ایک نظر کے ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔۔!!!
***********
جب چھ مہینے کی مستقل کوشش لاحاصل رہی ۔۔۔۔ تب منان کو اندازہ ہو گیا یہ لڑکی یونہی ہاتھ نہیں آنی ۔۔۔ تب اس نے اپنا انتہائی دائو کھیلا تھا ۔۔۔ یعنی شادی ۔۔!!!
بات سے بات چلی اور مایوں کی گھڑی آن پہنچی ۔۔۔۔۔
پہلو میں بیٹھے زرد آنچل میں چھپے وجود نے اپنی کج ادائیوں کا دفاع کیا تھا ۔۔۔۔
اپنے وسوسے بیان کیئے تھے ۔۔ اس کی محبت قبول کی تھی اور اسے فرشتہ کہا تھا ۔۔۔۔۔۔!
وہ سماں جادو کا تھا شائد ۔۔!
ساشہ کی آواز سرگم سی لگی تھی منان کو ۔۔۔۔۔۔!!!!!!
پھر اس کا دل نہیں مانا ۔۔ بلکل بھی نہیں مانا ۔۔۔۔!!
“وہ لڑکی بھاگ گئ اپنے کسی چاہنے والے کے ساتھ ۔۔!”
عین شادی کے دن اس نے کس طرح یہ ناٹک کیا تھا ۔۔۔۔۔ ایک جھوٹ کے لیئے ان گنت جھوٹ بولے تھے ۔۔۔۔۔ چوہدری سے “کچھ دن اور ۔۔ کوئی اور!” کا وعدہ کر کے اس کی جان چھوٹی تھی ۔۔۔
ہمدانی تک ساری بات پہنچی تو اس نے آنکھیں بند کر کے یقین کر لیا ۔۔۔۔۔ بہت بھروسہ تھا اسے اپنے لوگوں پر ۔۔ خاص طور پر منان اور پارس پر ۔۔۔۔۔ وہ صرف اس کے لیئے کام نہیں کرتے تھے ۔۔ انہیں اڈاپٹ کر کے پال پوس کر بڑا کیا تھا اس نے ۔۔۔۔ اگرچہ حرام کھلایا مگر پیٹ بھر کر کھلایا تھا ۔۔۔۔۔
اسے یقین حا وہ دونوں کبھی اس سے دھوکہ نہیں کریں گے ۔۔۔۔ سو جونہی ہمدانی کی طرف سے “اوکے” کا سگنل ملا ۔۔ سب خود بہ خود ٹھیک ہو گیا ۔۔۔۔۔
پیچھے ساشہ کا کیا ہوا ۔۔۔ ؟ اس نے کبھی پلٹ کر جاننے کی کوشش نہیں کی ۔۔!
“اچھی لڑکی ۔۔ تمہارے لیئے میں جتنا کر سکتا تھا کر دیا ۔۔۔ اب جتنی دوری ہو اتنی بہتری ہے ۔۔۔!”
برقی قمقموں سے سجے سوگ میں ڈوبے اس خستہ حال مکان کو تکتا وہ سر جھکائے اس گلی سے نکل گیا تھا ۔۔۔۔!!
اور اس طرح چمکی تھی عباس کی قسمت ۔۔۔۔!!!
اس گھر سے اسے سو بار انکار ملا تھا ۔۔۔۔ مگر اس کی قسمت ۔۔!!
ساشہ بھی مل گئی تھی اور اس پر احسان جتانے کا موقع بھی ۔۔!!
***************
گہری سانس بھر کر منان نے اسے دیکھا تھا جو یک ٹک اسے تک رہا تھا ۔۔۔۔۔ منہ کھلا ہوا تھا جبکہ آنکھیں سکڑی ہوئی تھیں ۔۔!
“تو مطلب تو نے ہمدانی صاحب سے جھوٹ بولا تھا ۔۔۔۔۔؟”
پارس کو بھی وہ سارا تماشہ یاد آیا تھا ۔۔۔
“ہاں جیسے اب تو بولے گا ۔۔۔!”
پارس کے انداز میں چھپی دھمکی سمجھ کر منان نے بھی دھمکاتا ہوا انداز اختیار کیا تھا ۔۔۔
آنکھیں کوفت سے گھما کر پارس نے پھر اس سیاہ اندھیر راستے پر ڈال دیں جہاں سے کچھ دیر پہلے ہی اس نے ساشہ اور وریشہ کو اپنے گھر جاتے دیکھا تھا ۔۔۔۔
“مجھے ڈر لگ رہا ہے مون ۔۔۔ کہیں وہ ربانی کے ہاتھ نہ لگ جائے پھر سے ۔۔۔۔۔۔۔۔!!”
اس کی پیشانی پر سلوٹو کا جال تھا ۔۔۔۔۔
“میں تو یہی کہوں گا کسی بہانے جا کر ربانی کی حویلی چیک کر آتے ہیں ۔۔۔۔۔۔”
منان کے مشورے پر وہ غور کرنے لگا تھا جب ڈکراتا ہوا رکشہ گلی کے قریب جا کر رک گیا ۔۔۔۔۔ کیونکہ گلی کے اندر جانا ممکن نہیں تھا ۔۔۔۔۔
پارس اور منان دونوں ہی چوکنا سے ہو گئے تھے ۔۔۔۔۔
دو چادر میں چھپے وجود رکشے سے اترے تھے اور پارس کو جانے کیوں یقین تھا کہ ان میں سے ایک میشا ہی تھی ۔۔۔۔۔!!!
***************
فرخندہ بیگم کی اکلوتی سونے کی چین شبنم بیگم کے حوالے کر دی گئی تھی ۔۔۔۔۔ ایک ہفتے کا وقت مانگا گیا تھا ۔۔۔۔۔۔ اگر ایک ہفتے میں کچھ نا ہو سکا تو وہ چین شبنم بیگم کی ہو جانی تھی ۔۔۔۔
اور وہ تینوں بہنیں ہی ایسا نہیں چاہ رہی تھیں ۔۔۔۔۔۔ سب کو معلوم تھا اماں کو وہ چین کتنی عزیز تھی ۔۔۔ ابا کا خاص اماں کو دیا پہلا اور آخری تحفہ ۔۔!!!!
“ہمارے دماغ تو ان گنت سوچوں کی یلغار نے بلکل ہی ناکارہ کر دیئے ہیں ۔۔۔ سو ہم ماموں سے مشورہ کیوں نہیں کر لیتے ۔۔۔۔؟؟
پیسے نہ صحیح مشورہ تو کوئی ڈھنگ کا دے ہی دیں گے ماموں مشورے والے ۔۔۔۔۔!!”
اس قدر پریشانی میں بھی “ماموں مشورے والے” پر وہ سب بہن بھائی مسکرا اٹھے تھے ۔۔۔۔
اور علیشہ نے ان سب کے لبوں پر لمحہ بھر کو در آنے والی مسکراہٹ پر سکون کا لمبا سانس بھرا تھا ۔۔۔۔۔۔!!
“میں نے کیا تھا ماموں کو فون ۔۔۔۔ مسئلہ بتایا تھا ۔۔ مگر اس وقت وہ جلدی میں تھے ۔۔۔۔۔ اب فون ہی نہیں اٹھاتے ۔۔۔۔ اللہ کرے سب خیر ہو ۔۔!”
ساشہ کے تشویش ناک انداز پر علیشہ نے کوفت سے ناک کے پھنگ پھیلائے تھے ۔۔۔۔
“ان کی طرف سب خیر ہی ہے ۔۔۔ مطمئین رہیں ۔۔۔۔۔ اور ساشہ آپی ۔۔ ہمارے اپنے مسئلے کم نہیں ہیں جو آپ دوسروں کی فکروں میں دبلی ہوئی جا رہی ہیں ۔۔۔ ”
علیشہ اچھی خاصی کوفت محسوس کرتی رخ زرا موڑ گئی تھی ۔۔۔۔ صحن میں ایک بار پھر خاموشی بولنے لگی تھی ۔۔۔۔
اور بولنے والے سوچوں میں گم ہو چکے تھے ۔۔۔۔۔
“پارس بھائی اچانک کہاں سے آ گئے ۔۔ پھر کہاں چلے گئے ۔۔۔؟؟”
“میشا کہاں ہے ۔۔۔؟ ساتھ کہوں نہیں آئی ۔۔۔؟”
“پارس اور منان کا کیا تعلق ہے ۔۔۔۔؟”
“کرائے کا انتظام کہاں سے کرنا ہے ۔۔؟ کیسے کرنا ہے ۔۔؟”
سب کے خیالوں کے سلسلوں کو دروازے پر ہونے والی ہلکی سی دستک نے توڑا تھا ۔۔۔۔۔
عجیب عجیب وسوسوں میں گھرے وہ سب ٹکر ٹکر ایک دوسرے کو تکنے لگے ۔۔۔ جب دستک نے کچھ زور پکڑ لیا تھا ۔۔۔
“ک۔۔۔ کون۔۔۔۔۔؟؟؟”
ساشہ کے آہستگی سے پوچھنے پر دوسری طرف سے دروازہ کھولنے کو کہا گیا تھا ۔۔۔۔
“یہ آواز ۔۔۔۔۔! میشا ۔۔۔۔؟؟؟”
تڑپ کر ساشہ نے کنڈی کھولی تھی ۔۔۔۔۔
میشا خود پر لاکھ ضبط کیئے آئی تھی ۔۔۔ مگر اتنے عرصے بعد اپنی بہن کو دیکھ کر خود پر ضبط کھو کر اس کے گلے سے لگ گئی تھی ۔۔۔۔۔
اس کا رونا ساشہ کو کسی خوشی کا اظہار کرنے سے روک گیا تھا ۔۔۔۔
وہ دل ہی دل میں “اللہ خیر” کاورد کرتی اس کا سر تھپکتی بے آواز روتی رہی جبکہ میشا جو کبھی اتنی آواز سے نہیں روئی تھی کہ کسی دوسرے کو اس کے رونے کا معلوم ہو جائے اس وقت گویا چاہتی تھی کہ سب اس کا رونا سن لیں ۔۔۔ سب جان لیں کیا ہو گیا ہے اس کے ساتھ ۔۔۔؟
سارا شہر اس کے غم پر افسردہ ہو جائے ۔۔۔۔۔۔۔!
دوسری طرف ایک دیوار کی اوٹ میں چھپا پارس اس کی سسکیوں کو دل کی گہرائی سے محسوس کرتا اپنی سسکیوں کا گلا گھونٹ رہا تھا ۔۔۔۔۔
وہ بھی بلا شبہ اپنی زندگی میں پہلی بار یوں رویا تھا ۔۔۔۔
وہ نہیں جانتا تھا ۔۔ وہ جو بہت اطمینا سے میشا کا پیچھا کرتا وہاں تک پہنچا تھا ۔۔۔۔ بہت پر سکون رہ کر اسے گھر کے دروازے پر دستک دیتے ہوئے دیکھتا رہا تھا ۔۔۔ اس کی درد میں ڈوبی آہیں سن کر اچانک کیوں اس کا اپنا دل اس قدر بھاری ہو گیا تھا کہ سنبھالنا مشکل ہو رہا تھا ۔۔۔۔ سینے سے نکال پھینکنے کی خواہش شدید ہو رہی تھی اس پھٹتے ہوئے دل کو ۔۔۔!
**************
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...