ڈاکٹر رضیہ حامد(بھوپال) ماشاء اللہ آپ کے بچے بڑے ہونہار ہیں۔طارق میاں نے خوب لکھا ہے۔ان کو دعائیں۔
ہانی السعید(مصر) اللھم زد فزد۔۔۔بہت شکریہ
راحت نوید (امریکہ) مضمون بہت دلچسپ ہے۔مزے کی یادیں شیئر کی ہیں۔پڑھ کر اچھا لگا ہے۔
عظیم انصاری (کلکتہ) شاندار مضمون ہے۔مبارک باد اور دعائے سلامتی
قانتہ قدیر (لندن) خوش قسمت ہیں میری پیاری باجی کہ بچے ان پر اتنا اچھا لکھ رہے ہیں۔
نوشی گیلانی (آسٹریلیا) بچوں کے لیے ماں پوری کائنات ہوتی ہے اور جب وہ رخصت ہو جائے تو اداسی دل کا حصہ بن جاتی ہے۔آپ کے بچوں نے بہت تخلیقی انداز سے اس اداسی کو برتا ہے۔ماشاء اللہ۔
سعدیہ تسنیم سحر (جرمنی) ہر دو لنک سے خوب حظ اٹھایا۔بچوں کی یادداشتیں پڑھ کر بہت دل چاہتا ہے کہ اپنی ماں اور ساس کے بارے میں لکھوں۔
امتہ المومن (آسٹریلیا) Very Nice
عمران احمد(ربوہ) ماشاء اللہ بہت خوب
راشدہ عمران(کینڈا) ماشاء اللہ۔۔۔Interesting
امتہ الرحمن ڈولی(جرمنی) زبردست۔بہت خوب
بشریٰ (سوئٹزرلینڈ) ماشاء اللہ
خورشید علی (جرمنی) Nice Memories
لیاقت علی(دہلی) بہت اچھا لکھا۔ماشاء اللہ
طاہر عدیم (جرمنی) عمدہ ہے۔
فوزیہ مغل(جرمنی) بہت اعلیٰ انداز میں ماں سے محبت کا اظہار۔ماں کی محبت سب سے الگ۔
ڈاکٹر وسیم انجم(اسلام آباد) زبردست لکھا ہے۔
ڈاکٹر عزیزالرحمن (آسٹریلیا) طارق محمود حیدر کا مضمون قابلِ ستائش ہے۔well expressed.
خالد ملک ساحل(ہمبرگ،جرمنی) آخری سطروں نے اداس کر دیا۔
صائمہ منظور(کراچی) V Nice تمام مضمون بہت اچھے ہیں۔
سید عارف(گلبرگہ) اچھا مضمون ہے،ماشاء اللہ،بہت مبارک۔
نذیر بزمی(خان پور) خوب ہے۔
ڈاکٹر ریاض اکبر(آسٹڑیلیا) طارق محمود کے عمدہ خیال اور اظہار مبارک۔
سہیل اقبال(کینڈا) ماں کے بارے میں ویسے تو جتنا لکھا جائے کم ہوتا ہے۔لیکن ٹیپو نے جس طرح والدہ کے بعض پہلوؤں پر روشنی ڈالی،پڑھ کر بہت اچھا لگا۔بہت بہت مبارکباد!
فیصل عظیم (کینڈا) بہت اچھے
شازیہ ناہید شاز(جھنگ) ٹیپو جی! یقینا یہ آپ کا عرف عام نام ہے۔ لیکن بچوں کے یہ نام ماں کے دل پر لکھے ہوتے ہیں اور دھزکن بن کر دھڑکتے ہیں اور ویسے بھی مبارکہ جی ہی ’’ٹیپو‘‘کی ماں اور’’حیدر‘‘کی زوجہ ہو سکتی ہیں۔آپ کی تحریر سادگی اور سچائی کا وہ کوزہ ہے جس میں ماں اور اس کے ساتھ جڑی یادوں کے سمندر کو انتہائی خوبصورتی سے بند کردیا گیاہے۔بیٹے کی اِس تحریر میں ایک اعلانیہ تڑپ ہے یہ بتانے کی کہ مبارکہ جی ماں ہی نہیں دوست بھی تھیں۔
مبارکہ جی حالات کی حدت اور زمانے کی جدت میں حیدر جی کے پا بہ پا رہیں ۔تبھی تو کینڈل ڈنر کو بھی آزمایا گیا اور یہ حقیقت ظاہر واثق ہے کہ مبارکہ جی ایک ایسی منتظم اعلی تھیں جنہوں نے اولاد کو اپنے جانے کے بعد بھی اپنی یاد کا، اور حیدر جی کو اپنے پہلو کا پابند بنا دیا۔اللہ پاک مبارکہ جی کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے آمین۔
شہناز خانم عابدی(کینڈا) آپ کے بچے اپنا دکھ سمیٹنے کے ساتھ ساتھ آپ کا دکھ بھی سمیٹ رہے ہیں۔لفظ لفظ سہہ رہے ہیں اور ایک مثبت بات یہ بھی ہے کہ اس دکھ کو اندر ہی اندررکھنے کی بجائے تحریری لفظوں کی صورت میں خود بھی پڑھ رہے ہیں اور دوسروں کو بھی پڑھنے کا موقعہ دے رہے ہیں۔اور ایسا کیوں نہ کریں،آخر وہ کس کے بچے ہیں؟
درّ ِ ثمین نے انتہائی حسین نسائی پیرائے میں اس طرح مصور کیا ہے کہ ہر تصویر نظروں کے سامنے آ جاتی ہے۔درّ ِ ثمین کے بھائی طارق محمود نے بھی یاد نگاری انتہائی غیر رسمی اور دل میں اتر جانے والی تحریر کی ہے۔اور نبی ﷺ کے حوالے سے جس حسرت کا اظہار کیا گیا ہے وہ ماں کی مامتا کے رشتے سے کچھ آگے بڑھ کرتقدس آمیز بن جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔