۔۔۔۔۔میں نے اپنے سابقہ ایک دو کالموں میں بعض مغربی دانشوروں کی جانب سے ”تاریخ کے خاتمے“کے اعلان کا ذکر کیا ہے۔آج اسی حوالے سے کچھ ان کی سنانے اور کچھ اپنی کہنے کی کوشش کروں گا۔یوں توآج سے تقریباً تین سو سال پہلے ہیگل جیسے مدبر اور فلسفی نے بھی نپولین بونا پارٹ کی جیت پر ”تاریخ کے ختم ہوجانے “کی بات کی تھی۔لیکن اس کا کھلا اور واضح اظہار پہلی بار ۱۹۹۱ءمیں فرانسس فوکو یامانے اپنی کتاب
The End of History and the Last Man میں کیا۔یہ وہی سال ہے جب سینیئر بُش کے دورِ حکمرانی میں امریکہ نے عراق پر حملہ کیا تھا۔
۔۔۔۔آخر مغربی دانشوروں کو تاریخ کے خاتمے سے اتنی دلچسپی کیوں ہے؟ کسی فلسفیانہ موشگافی میں گئے بغیر اس کے مختلف پہلوؤں پر آسان اندازمیں غور کر کے دیکھتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ تاریخ نے ہمیشہ سچ نہیں لکھا۔تاریخ ہمیشہ یکطرفہ نہیں ہوتی۔تنخواہ دار تاریخ دانوں نے تو اپنا حقِ نمک ادا کرنا ہوتا ہے،بظاہر غیرجانبدار مورخین بھی اپنی ترجیحات سے ہٹ نہیں سکے۔ مختلف
ا قوام یا گروہوں کے نزدیک کسی ایک ہی وقوعہ کو بیان کرنے اور اس سے نتائج اخذ کرنے کا انداز مختلف ہوجاتا ہے۔ زیادہ دور نہیں جاتے برِ صغیر کے مغلیہ دور کے دو حکمرانوں کے بارے میں تاریخ کے کردار کو دیکھ لیں۔جہانگیر کا عدل مشہور تھا۔جب اس کی ملکہ نے ایک عورت کے شوہر کو شوقِ تیراندازی میں قتل کردیا اور وہ عورت فریاد لے کر مغل انصاف کے دروازے پر پہنچی تو ”عدلِ جہانگیری“نے تاریخ ساز فیصلہ سنایا کہ جیسے ملکہ نے تمہیں بیوہ کیا ہے ویسے ہی تم ملکہ کو بیوہ کردو(ارے بھائی سزا دینا ہے تو اپنی ملکہ کو سزا دو۔یہ کیا ڈھونگ ہے)۔۔۔۔مظلوم فریادی عورت بادشاہ کے انصاف سے خوش ہوئی اور بادشاہ سلامت کو سلامتی اور درازیٔعمر کی دعا دیتی ہوئی رخصت ہوئی۔اب کون کہہ سکتا ہے کہ وہ فریادی عورت بادشاہ کے فیصلے کے مطابق بادشاہ کو قتل کرنا چاہتی تو واقعی مغل بادشاہ کو قتل کرنے کی نوبت آنے دی جاتی!
دوسرا واقعہ اورنگ زیب کے کردار کا ہے۔ان کے مخالفین نے لکھا ہے کہ اس نے اپنے ہر بھائی کو سیاسی دھوکہ دہی سے مارا۔ اپنے باپ کو عمر بھرقید میں رکھا۔برصغیر میں مذہبی منافرت کابیج بویا جس کی فصل آج تک مسلمان کاٹ رہے ہیں۔ ان کے حمایتیوں نے اورنگزیب کو ایک خدا ترس،دین اسلام کی پابندی کرنے والا اور خوف خدا رکھنے والا بادشاہ قرار دیا۔دونوں تاریخوں کے بیچ ابنِ انشا کی یہ بات توازن پیدا کر دیتی ہے کہ اورنگزیب پکا مسلمان تھا۔ اس نے اپنی زندگی میں نہ کبھی کوئی نماز چھوڑی اور نہ اپنے کسی بھائی کو چھوڑا۔
۔۔۔۔اس سے ظاہر یہ ہوا کہ کسی تاریخ میں بے شک مبالغہ آرائی ، جانبداری،اپنی ترجیحات اور تعصبات راہ پا جاتے ہیں لیکن اس کے باوجود اس کے متوازی ایک دوسری تاریخ بھی لکھی جا رہی ہوتی ہے اور آنے والا وقت خود ہی دونوں کے اضافی بیانات کو ہٹاکر اصل حقائق تک یا ان کے قریب تک پہنچ جاتا ہے۔
مسترد کرکے جھوٹی تاریخیں
وقت خود جھوٹ،سچ نتارتا ہے
۔۔۔۔حقیقت یہ ہے کہ (بقول ڈبلیو۔ایچ۔آڈن) انسان خودتاریخ ساز مخلوق ہے۔اگر حال میں ماضی موجود ہے تو تاریخ سے نجات ممکن نہیں ہے۔اور ”تاریخ کے خاتمے“کے اعلان کا نتیجہ بھی مغربی دانشوروں کے ان اعلانات سے مختلف نہیں ہو گا جو وہ ”خدا کی موت“۔”انسان کی موت“۔”ادب اورادیب کی موت“۔”آرٹ کا خاتمہ“۔”نظریے کا خاتمہ“جیسے اعلانات کی صورت میں کر چکے ہیں۔بلکہ عین اس وقت جب تاریخ کے خاتمے کا اعلان کیا جارہا ہے اور”تاریخ پڑھانا بند کرو“جیسے سبق دہرائے جا رہے ہیں،تاریخ ایک نئے روپ میں اپنے آپ کو لکھ رہی ہے۔۔۔۔وقت گزرنے کے بعد پتہ چلے گا کہ تاریخ کے خاتمے کا اعلان کرنے والوں کا اپنا خاتمہ ہو گیا۔
۔۔۔۔اگر ہم تاریخ کی (جزوی جانبداری کے باوجود)صداقت کے قائل ہیں تو پھر آئیے آج تاریخ کا ایک خاص تسلسل میں ایک مختصر سا سفر کرتے ہیں۔یہ ایک واقعہ تب کاہے جب مسلمان کفار مکہ کے ظلم و ستم سے تنگ آکر مدینہ ہجرت کر چکے تھے اور وہاں اسلام پھلنے پھولنے لگا تھا۔کفار مکہ کا ایک قافلہ تجارت کے بعد مکہ واپس جا رہا تھا ۔رستے میں ان کی بعض مسلمانوں سے ”ہائے ہیلو“ہو گئی۔مکہ کے تاجروں نے فوراً مکہ پیغام بھیجا کہ ہمارے قافلے کو مسلمان لوٹ رہے ہیں۔کفار مکہ طاقت کے نشے میں اٹھے اور مدینہ پر حملہ کے لئے چل پڑے۔رستے میں قافلے والے مل گئے۔پتہ چلا خبر درست نہ تھی۔مسلمانوں نے قافلہ لوٹا نہیں تھا۔اور یہ کہ اب سب خیریت ہے۔لیکن طاقتور کفار مکہ پھر بھی مدینہ پر چڑھ دوڑے ۔نتیجہ جنگ بدر کی صورت میں سامنے آیا۔
۔۔۔۔دوسرا واقعہ تب کا ہے جب دیبل(کراچی)کی بندرگاہ پر مسلمان بحری مسافروںکو روک لیا جاتا ہے۔مسلم حکمرانوں کو ایک بیوہ کی فریاد پہنچتی ہے اور وہاں سے محمد بن قاسم کی قیادت میں فوج روانہ ہوتی ہے۔ رستے میں عربی فوج کو بتایا جاتا ہے کہ راجہ داہر نے سارا لوٹا ہوا سامان واپس کردیا ہے اور ہم سب خیریت سے ہیں۔لیکن اب اسلامی عرب فوج کے پاس طاقت ہے۔ راجہ داہردیبل سے ملتان تک بھاگتا ہے۔ملتان تک اس کا پیچھا کیا جاتا ہے اور آخر اسے ہلاک کرکے ”ظلم“کا بدلہ لے لیا جاتا ہے۔
۔۔۔۔ان دونوں واقعات کوذہن میں رکھیں اور پھر آج کے عہد میں آئیں۔جدیدسائنسی ترقیات ،اسی سائنس کی بنیاد پر ہلاکت خیز اسلحہ کے انبار اور اس میدان میں مغرب کی بالا دستی۔۔۔بہر حال ایک حقیقت ہیں ۔اسی حوالے سے امریکہ کا عراق پر حملہ ہو یا افغانستان پر حملہ ہو یہ سب بہانے ہیںایسے بہانے ہر طاقتور آسانی سے گھڑ لیتا ہے اور ان کے مقابلہ میں کمزور کی مظلومیت کوئی معنی نہیں رکھتی ۔وقت کے رواں لمحوں میں ظالم اور طاقتور ہی سچا ہوتا ہے لیکن وقت گزرنے کے بعد تاریخ سچ اور جھوٹ کے دونوں رُخ سامنے لے آتی ہے۔
۔۔۔۔مجھے یقین ہے آنے والے وقت میں امریکی صدر جارج بُش اپنی کمزور شخصیت کے باوجود مغربی فکر(نیطشے)کے” سُپر مین“ کی علامت کے طورپر اور اسامہ بن لادن شخصی سطح پر اتنے اہم نہ ہونے کے باوجود اقبال کے” مرد مومن“ کی علامت کے طور پر یاد کئے جائیں گے۔ان دونوں
فلسفوں میں جو مطابقت اور جو تفریق ہے وہ مزید کھل کر سامنے آئے گی کیونکہ اب معاملہ فلسفے سے آگے ” عمل “کے دائرے میں آچکا ہے اور اس سارے عمل کی تاریخ لکھی جا رہی ہے۔
”تاریخ کی موت“کے اعلان کے باوجود تاریخ لکھی جا رہی ہے کیونکہ تاریخ زندہ ہے!
٭٭٭