۔۔۔۔آج کا انسانی عہد اس لحاظ سے انسانی ترقی کا حیرت انگیز دور ہے کہ انسان کی معلوم تاریخ کی حد تک بلکہ ماقبل تاریخ کے آثار تک ، ایسی ترقیات کا عشرِ عشیر بھی کہیں دکھائی نہیں دیتا۔پوری دنیا جیسے ایک عالمی گاؤں میں تبدیل ہوتی محسوس ہوتی ہے۔وہ سہولتیں اور آسائشیں جو پہلے زمانے میں صرف بادشاہوں یا راجوں،مہاراجوں تک محدود تھیں، اب عام انسان تک بلا تفریق پہنچ رہی ہیں۔بلکہ ایسی سہولیات جن کا پہلے زمانے کے حکمرانوں نے کبھی تصور بھی نہ کیا تھاآج کے عام انسان کو باآسانی میسر ہیں۔ترقی یافتہ ممالک میں تو ایسی سہولیات اب ضروریاتِزندگی میں شمار ہوتی ہیں۔ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک میں ایسی تمام سہولیات کو پہنچانا اور سب کو ان سے فیضیاب کرنا دراصل اس عالمی وحدت کی طرف پیش قدمی ہوگاجس میں دنیا کے تمام انسان اپنے اپنے جغرافیائی، ثقافتی،مذہبی اور لسانی تشخص کو برقرار رکھتے ہوئے پورے کرۂارض کو ایک ملک مان کر اس کے باشندے کہلا سکیں گے۔انسانیت اسی طرف گامزن تھی لیکن سوویت یونین روس کی ٹوٹ پھوٹ کے بعد عالمی سطح پر جو انسانیت سوز کاروائیاں ہوتی چلی جا رہی ہیں ان کے پیش نظر خود اس کرۂارض پر انسانیت کی بقا کو شدید خطرات لا حق ہو گئے ہیں۔ان تمام خطرات کی بیشتر ذمہ داری امریکی حکمرانوں پر عائد ہو رہی ہے۔
۔۔۔۔اس وقت عالمی سطح پر وحشیانہ حد تک انسانیت کے خلاف جو کاروائیاں ہو رہی ہیںان میں براہِ راست اسرائیلی انتہا پسند یہود اور ہندوستان کے انتہا پسند ہنودملوث ہیں اوران ہر دو کی سرپرستی امریکہ سرکار کر رہی ہے۔یوں اسرائیل،ہندوستان اور امریکہ نے مل کر اپنی مزعومہ ”دہشت گردی“کے خلاف طلائی تثلیث بنا لی ہے۔ اسرائیل اور ہندوستان اپنی کاروائیوں کوکس بنیاد پر حق بجانب سمجھتے ہیں ؟اور امریکہ کس بنیاد پر ان کی بالواسطہ یا بلا واسطہ حمایت کر رہا ہے؟اس کی کنہ تک پہنچنے کے لئے اسرائیل اور ہندوستان کے انتہا پسندوں کے موقف کو ان کے اندازِنظر کے مطابق جان لینا ضروری ہے۔
۔۔۔۔پہلے اسرائیلی موقف۔۔۔۔ یہودی،امتِ کلیم ہیں۔بنی اسرائیل خدا کی بے حد پیاری قوم رہی ہے۔اس کی غلطیوں اور گناہوں کے نتیجہ میں خدا نے ان پر ایک ظالم قوم کو مسلط کردیا۔مسلمانوں نے انہیں مدینہ سے نکالا۔خیبر تک یہودیوں کو دھکیلا گیا اور پھر وہاں سے بھی نکال دیا گیا۔یہودیوں کا اصل مرکزیروشلم ان سے چھن گیا۔سارے ظالموں نے مل کر بنی اسرائیل کو گھر سے بے گھر کر دیا،ساری دنیا میں تتر بتر کردیا۔ان کا نام ایک گالی بنا دیا گیا۔۔۔۔اب خدا نے بنی اسرائیل پر پھر اپنی رحمت کی نظر کی ہے اور ساری دنیا سے سمیٹ کراب پھر انہیں اسرائیل میں یکجا کردیا ہے۔اب سلطنت اسرائیل قائم ہو گئی ہے اور مزید خدائی وعدے بھی پورے ہو ں گے۔ہیکل سلیمانی ہو یا دوسرے اسرائیلی مقدس مقامات۔۔۔وہ سب سے پہلے ہمارے مقدس مقامات ہیں اور ان کی تعمیر اور حفاظت ہمارا فرض ہے۔مدینہ سے ہمیں محض طاقت کے بل بوتے پر نکالا گیا تھا اور مدینہ بدری سے لے کر خیبر سے نکالنے تک ہم پر” طاقت کا فارمولا “لاگو کیا گیا۔سو اب ہم بھی”عظیم اسرائیل“قائم کر کے رہیں گے۔اس گریٹر اسرائیل میں مدینہ شہر تو شامل ہو گاکہ ہم وہاں رہتے تھے لیکن ہم مکہ پر بھی قبضہ کریں گے تاکہ مدینہ سے نکالے جانے کی تلافی کر سکیں۔ہم مدینہ کے بھی اصل باسی تھے اور مکہ والوں نے ہمیں وہاں سے نکال دیا اور ہم اسرائیل کے بھی اصل باشندے ہیں جنہیں صدیوں تک ظلم کرکے اپنے گھر سے بے گھر کیا گیا۔۔۔۔۔اس اسرائیلی موقف کے خلاصہ کے ساتھ یہاں یہ واضح کردوں کہ آج سے لگ بھگ پچاس سال پہلے گریٹر اسرائیل کا جو نقشہ بنا یا گیا تھا اس میں مکہ اور مدینہ دونوں کو اسرائیل میں شامل دکھایا گیا تھا۔
۔۔۔۔اور اب انتہا پسند ہندوؤں کا موقف۔۔۔۔۔مسلمان بیرونی حملہ آور تھے۔انہوں نے ہماری دھرتی پر طاقت کے ساتھ قبضہ کیا۔ہم پر جبراً حکمرانی کی۔اس عرصہ حکمرانی میں ہمارے ساتھ ہر سطح پر ظلم کیا گیا۔جب انگریزوں کے جانے کے بعد ہندوستان کو آزادی ملنے لگی تو تب مسلمانوںنے اس دھرتی کے عوام کے جمہوری مزاج کا ساتھ دینے کے بجائے اپنے لئے الگ وطن بنوا لیا۔اگر یہ اقلیت میں ہو کر انصاف پسند حکمران تھے تو اب انہیں اکثریت سے کیا خوف تھا؟ہم پر ماضی میں بہت ظلم ہو ا ہے۔ہم اسے نہیں بھول سکتے۔
۔۔۔۔ہندوؤں اور یہودیوں کے یہ موقف تاریخ کے تلخ ابواب ہیں۔ان پر۔۔۔محض یکطرفہ موقف کی بنیاد پر فیصلہ صادر نہیں کیا جا سکتا۔دوسرے فریق کے موقف کو ساتھ رکھا جائے توپھرکسی ایک فریق کی نہیں بلکہ تمام متعلقہ فریقین کی اچھائیاں اور زیادتیاں،دونوں ہی واضح ہو جاتی ہیں۔ لیکن فی الوقت یہ میرا موضوع نہیں ہے ۔ تاہم یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ مسلمانوں سے پہلے آریالوگ ہندوستان پرحملہ آور ہوئے تھے ۔ مسلمان حکمرانوں کی کوئی غلطیاں واقعتاً قابلِ گرفت ٹھہرتی بھی ہیں توآریاﺅں نے ہندوستان کے اصل باشندوں پر جو ظلم ڈھائے تھے ان کے مقابلہ میں مسلمانوں کی غلطیاں تو محض سہو ہی شمار کی جا سکتی ہیں۔اوریہ حقیقت ہے کہ موجودہ انتہا پسند ہندو درحقیقت آریائی بیلٹ سے تعلق رکھتے ہیں۔اور وہ خود بھارت پر بیرونی حملہ آور ہی تھے۔لہٰذاایک بیرونی حملہ آور دوسرے کو حملہ آور قرار دے کرخود کیسے گھر کا مالک بن سکتا ہے؟ جنوبی ہندوستان کی بڑی آبادی اس خطہ کے اصل باشندوں کی باقیات ہے اور آج بھی دہلی کے سامنے ان جنوبی صوبوں کے مرکز گریز رجحانات سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہاں کے اصل باشندے لا شعوری طور پر آج بھی آریائی حملہ آوروں کونا پسند کرتے ہیں۔
۔۔۔۔اسرائیل کا معاملہ یوں ہے کہ یہ محض عقائد کا جھگڑا نہیں ہے۔بلکہ دیکھا جائے تو فکری لحاظ سے آج دنیا میں ایک دوسرے سے سب سے زیادہ قریب دو ہی دین ہیں۔یہودیت اور اسلام۔۔۔وجہ یہ ہے کہ دونوں کی بنیاد معتقدات اور تعلیمات دونوں حوالوں سے ابراہیمی دین پر استوار ہے ۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ معتقدات کی حیثیت ثانوی ہے اصل جھگڑا کچھ اور ہے۔۔۔۔اسرائیل کتنی دفعہ تاراج ہوا،یروشلم کتنی دفعہ اجڑا،کیا ہر بار مسلمان اس کے ذمہ دار تھے؟کیا مسیحی چرچ نے یہودیوںکو تھوڑا ماراتھا؟
۔۔۔۔تاریخ کے تسلسل میں دیکھا جائے تو قوموں میں عروج و زوال کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔نقل مکانی کا سلسلہ بھی ایک عرصہ سے جاری ہے اور جاری رہے گا۔اس میں مختلف اوقات میں مختلف جبر شامل ہوتے رہے ہیں۔کبھی بڑھتی ہوئی آبادی کا جبر، کبھی موسموں کا جبر،کبھی سیاسی جبر اور کبھی کوئی اور جبر۔۔۔ لیکن اس کی بنیاد پردنیا کے کسی بھی خطے میں اگر صدیوں بعد کوئی آئے اور آکر وہاں صدیوں سے آباد لوگوں سے کہے کہ تم یہاں سے نکلو ہم یہاں کے اصلی باشندے تھے اور اب ہم آگئے ہیں۔تم لوگوں کے آباؤاجداد نے ہم پر بڑے ظلم توڑے تھے اب ہم تمہیں نہیں چھوڑیں گے ،تو آج کے مہذب اور ترقی یافتہ دور میں کوئی بھی اسے معقول بات نہیں مانے گا۔ایسے لمحات میں جب انسانی گلوبل ولیج کی باتیں قابلِ عمل دکھائی دے رہی ہیں ایسی علاقائیت پرستی،نسلی برتری کی جہالت،اورتاریخ کو مسخ کرتے ہوئے ”ماضی کے مبینہ دشمنوں “کا بدلہ آج کے بے قصور لوگوں سے لینا ،انسانیت کو تباہی کی طرف دھکیلنے کے مترادف ہے۔افسوسناک امر یہ ہے کہ تاریخ کے ساتھ کھلواڑ کرنے والے انتہا پسند اسرائیلی یہودی اور انتہاپسند ہندوستانی ہندودونوں کو امریکہ سرکار کی مکمل سرپرستی اور تائید حاصل ہے۔
۔۔۔۔اب اسی حوالے سے امریکہ سرکار سے کہا جائے کہ ٹھیک ہے صاحب ! واقعی ہندوستان میں مسلمان ہی حملہ آورتھے اور یہودیوں کو بھی صرف مسلمانوں نے ہی بے گھر کیا تھا لہٰذا اب ہندوستان اور اسرائیل کو مسلمان حملہ آوروں سے پاک کردیا جائے ۔لیکن سرکار اسی اصول کی بنیاد پر ایک اور فیصلہ بھی لگے ہاتھوں کرتے جائیے۔۔۔۔امریکہ کے اصل باشندے بھی ریڈ انڈینز تھے۔ان مظلوموں پر آپ حضور کے آباؤاجداد نے جو ظلم توڑ ے تھے وہ خود آپ لوگوں کی اپنی کتابوں میں بھی مذکور ہیں۔بس ہندوستان کے انتہا پسند ہندوؤں اور اسرائیل کے انتہا پسند یہودیوں کی ”حق رسی“ کے ساتھ ان غریب ریڈ انڈینز کی بھی حق رسی کر دیجئے۔یہاں کے اصل باشندوں ریڈ انڈینز کو بھی امریکہ سونپ دیجئے۔ ماضی میںیورپ کے جتنے جرائم پیشہ لوگوں نے یورپ سے فرار ہو کر اس خطے کے اصل باشندوں، ریڈ انڈینزکو مار کراس خطہ کو اپنی پناہ گاہ بنایا اورپھر یورپ کے ہر مجرم کے لئے اسے جنت بنا دیا ،آپ اب اپنے ان جرائم پیشہ اور مفرور آباؤاجداد کی زیادتیوں اور مظالم کی تلافی کرتے ہوئے ان ریڈ انڈینز کو بھی ان کا حق عطا کردیجئے۔کیا امریکہ سرکار انتہا پسند یہودیوں اور انتہا پسند ہندوؤں کے اس خود ساختہ ”اصول “پر خودامریکہ میں بھی اس اصول کو لاگو کرنے کے لئے تیار ہے؟
۔۔۔۔خیال رہے کہ ہندوستان اور اسرائیل کے ساتھ مسلمانوں کا رویہ لگ بھگ ہزار، ڈیڑھ ہزار سال پہلے کی بات ہے جبکہ موجودہ امریکیوں کا امریکہ کے اصل باشندوں ریڈ انڈینز کے ساتھ سلوک ابھی چند صدیاں پہلے کا قصہ ہے۔
۔۔۔امریکہ کے دانشوروں کو اپنی تمام تر روشن خیالی کے باوجود”تاریخ کے خاتمے“سے اتنی دلچسپی کیوں ہے؟وہ تاریخ سے کیوں فرار اختیار کرنا چاہتے ہیں؟پرانے یورپ کے مفرور، جرائم پیشہ لوگوں اور ریڈ انڈینز کے ذکر سے ذہین قارئین اس کے نفسیاتی پس منظر کو بخوبی سمجھ گئے ہوں گے۔
٭٭٭