بوا مس فلیٹچر! میری کہانی پڑھ کر تم کیا نفع پاؤ گی، رنج و غم کھاؤگی، اپنا جی دکھاؤگی اور کچھ حظ نہ اٹھاؤگی۔ اور اگر ضد ہی کرتی ہو تو ایلو! میں اپنی سرگذشت ابتدا سے انتہا تک لکھے دیتی ہوں۔ ذرا خیال سے پڑھنا، گھبرا نہ جانا۔
تاریخ پیدائش
میں بدنصیب پانچویں ربیع الثانی ١٢٦٤ھ کو پیدا ہوئی تھی۔ میرے پیدا ہونے کی میرے ابا جان نواب محمد اکبر علی خاں صاحب مرحوم رئیس پاٹودی کو بڑی خوشی ہوئی تھی۔ چنانچہ اسی وقت توپ خانے میں حکم پہنچا کہ خوشی کی شلکیں سر ہوں۔ بس توپیں چھوٹنے لگیں اور چاروں طرف مبارک سلامت کا غل مچ گیا۔ دادی اماں نے میرے ابا جان سے کہا کہ میاں! تم نے تو لڑکی کے پیدا ہونے کی ایسی خوشی کی ہے جیسے کوئی بیٹا پیدا ہونے کی کرتا ہے۔ ابا جان نے جواب دیا کہ اماں جان! مجھے تو اس بیٹی کے پیدا ہونے کی ایسی خوشی ہوئی ہے کہ سات بیٹوں کے پیدا ہونے کی بھی اتنی خوشی نہ ہوتی۔ لو بوا! یہ دھوم دھام ہورہی تھی کہ۔
رئیس جھجر کا آنا
اتفاق سے اسی دن نواب عبد الرحمن صاحب رئیس جھجر بھی پاٹودی میں آن موجود ہوئے۔ اندر محل میں آئے۔ مبارک سلامت کا غوغا سن کر پوچھا کہ آج کاہے کی خوشی ہے؟ دادی اماں نے جواب دیا کہ میاں! آج میرے ہاں پوتی پیدا ہوئی ہے۔ یہ سنتے ہی نواب صاحب نے کہا کہ لاؤ لڑکی کو مجھے بھی دکھاؤ۔ مجھ بد نصیب کو دیکھ کر جھٹ گود میں اٹھا لیا، پیار کیا اور میرے ابا جان سے کہا کہ دادا جان! یہ لڑکی تو میں نے لے لی۔ یہ کہہ کر اسی وقت مصری منگا میری گھٹی میں ڈال دی۔
قرار پانا نسبت کا
اور فرمایا کہ اس کی نسبت میں نے اپنے فرزند محمد نور علی خاں کے ساتھ کی۔ نواب صاحب کا یہ کہنا تھا کہ اسی وقت شادیانے بجنے لگے۔ دھوم مچ گئی۔ گھر گھر یہ خوش خبری پہنچ گئی۔ ہر ایک محل سے بیگمیں آنی شروع ہو گئیں۔ سواریوں پر سواریاں اترنے لگیں۔ خوشی کی محفلیں جم گئیں۔ ناچ رنگ ہونے لگا۔ ڈوم ڈھاڑی ماما اصیلوں کو انعام تقسیم ہونے لگے۔ میری یہ حقیقت ہوئی کہ ایک نواب صاحب کے گھر تو پیدا ہوئی تھی، دوسرے کی بہو ٹھہری۔ اب تو انا، ددّا، چھو چھو، مانی ہاتھوں چھاؤنی، الله بسم اللہ کرنے لگیں۔
بیگماتوں کا آپس میں اشارہ کنایہ کرنا
اور محلوں سے بیگمیں جو آئیں، آپس میں اشارہ کنایہ کرتی تھیں۔ کوئی کہتی تھی: اچھی! دیکھنا کیا نصیب دار لڑکی پیدا ہوئی ہے۔ پیدا ہوتے ہی نواب صاحب کی بہو بن گئی۔ کوئی بولی: ہاں بوا! آخر پیدا بھی تو نواب صاحب ہی کے گھر ہوئی ہے۔ نصیب داری تو اس کی ظاہر ہے۔ کسی نے کہا: اچھی! دیکھ تو سہی، ہمارے نواب صاحب کی اللہ رکھے اور بھی تو اولاد ہے۔ اس کے اور بھی تو بہن بھائی ہیں، کوئی بھی ایسا نصیب دار پیدا ہوا؟ کوئی جواب دیتی، بوا اپنا اپنا نصیب اپنے اپنے ساتھ ہے۔ غرض کوئی حسد سے کھسیانی ہوتی تھی، کوئی خوش ہو کر ہنستی تھی۔ پیدا ہونے کے ساتویں روز دستور کے موافق عقیقہ ہوا۔ شہر بانو بیگم میرا نام رکھا گیا۔ بڑے چلے تک خوب گہما گہمی رہی۔ بس دن عید، رات شب برات تھی۔ اسی موقع پر نواب صاحب نے بڑے دھوم دھام سے چھٹی دی اور سو روپے ماہوار میری شیر خواری کا مقرر کر دیا۔
منگنی کی رسم
اسی دن منگنی کی رسم بھی نہایت کرّ و فر سے ادا ہوئی۔ پھر تو ہر تہوار پر لین دین کی رسمیں ہونے لگیں۔ آج کیا ہے، عیدی چلی آتی ہے۔ کل محرم کی قفلیاں اور گوٹہ آیا ہے۔ شب برات کی آتش بازی چلی آتی ہے۔ اسی طرح طرفین سے ہزارہا روپیہ صرف ہو گیا۔ شادی کے دن تک یہی بکھیڑے ہوتے رہے۔
حالات شادی
جب میں پانچ برس کی ہوئی تو نواب صاحب نے شادی کا پیغام میرے ابا جان کو بھیجا۔ دونوں طرف سے بیاہ کی تیاریاں ہونے لگیں۔ بھلا بوا نواب صاحب کا تو کہنا کیا وہ تو بارہ محال کے مالک تھے۔ انھوں نے تو دو ڈھائی لاکھ روپیہ اس شادی میں لگا دیے۔ دو مہینے پہلے اپنے ہاں ناچ رنگ کی محفلیں جما دیں۔ تمام شہر جھجر اور اپنے سارے لشکر کی دعوت کی۔ دہلی اور اس کے گرد و نواح کے رئیسوں امیروں کو جمع کیا۔ جب تین روز نکاح کے باقی رہے تو بڑے تجمل سے برات لے کر پاٹودی آئے ۔
برات کا پاٹودی آنا
ایک پلٹن پیاده اور پانچ سو سوار، ایک توپ خانہ، بگھیاں، خاصے، گھوڑے، ہاتھی، رتھیں، تمام دہلی اور اس کے آس پاس کے رئیس، امیر، سینکڑوں تماشائی، نفیری والے، نقارچی، سو ڈیڑھ سو طائفے، بیسیوں دکان دار اس سارے بکھیڑے کو ساتھ لیے ہوئے پاٹودی سے دو میل کے فاصلے پر، جہاں پڑاؤ ہے، آن کر اترے۔ اور پڑاؤ سے قلعے تک دو رویہ ٹھاٹر بندی کرائی۔ سنا ہے کہ رات بھر اس میں چراغوں کی ایسی روشنی رہتی تھی کہ دن کے اجالے کو مات کرتے تھے۔ ہر چند میرے ابا جان ایک چھوٹی سی ریاست کے مالک تھے مگر اس پر بھی لاکھ سوا لاکھ روپیہ میری شادی میں صرف کیے تھے۔ تین روز تک اپنے تمام لشکر اور امیروں، رئیسوں، مہمانوں کی دعوت کی۔ ہندوؤں کو پوری، کچوری، مٹھائی دی۔ مسلمانوں کو پلاؤ، زرده، متنجن وغیرہ انواع و اقسام کے کھانے کھلائے۔ خیر یہاں تو یہ جلسے ہو رہے تھے۔
ساچق کا تماشا دیکھنے دلہن کا جانا
اب میرا حال سنو کہ میں نگوڑی پانچ برس کی جان، بھلا مجھ کو کیا خبر کہ نکاح کس کو کہتے ہیں اور شادی کیا چیز ہے۔ بوا! جس وقت ساچق آئی، باجوں کا شور اور توپوں کی کڑک سنی، بے اختیار پلنگ پر سے کود پڑی اور جھٹ دادی اماں کے گلے میں جا کر بانہیں ڈال دیں کہ اچھی دادی اماں! ہم بھی برات کا تماشا دیکھیں گے۔ بس میرا یہ کہنا تھا کہ ساری عورتوں نے ایک قہقہہ مارا اور چاروں طرف سے آن کر مجھے گھیر لیا۔ انا، ددا، مانی، چھوچھو کہنے لگیں کہ اوئی بیوی! ہم تیرے واری قربان جائیں، بھلا ایسا بھی کوئی کرتا ہے۔ اب سمدھنیں اتریں گی تو وہ دیکھ کر کیا کہیں گی کہ خود دلہن ساچق کا تماشا دیکھ رہی ہے۔ بڑے شرم کی بات ہے۔ مگر بوا! میں نے ایک نہ سنی، لگی ایڑیاں رگڑنے اور ایسا رونا شروع کیا کہ سارا گھر سر پر اٹھا لیا۔ سب کے ہوش اڑا دیے۔ آخر دادی اماں نے کہا: اللہ ری ضدّن بچی، اتنی سی جان نے ناچ نچا دیا۔ ارے لوگو! میں اسے کیوں کر تماشا دکھانے کو اس وقت اوپر لے جاؤں۔ اندھیرے اجالے وقت اپنی ماں کی اکلوتی بچی۔ اے اس کی اماں کہاں ہیں، انھیں تو بلاؤ۔ لیکن میں نے تو بلک بلک کر ان کو ناچار کر دیا۔ آخر وہ اپنے دوپٹے کا آنچل اڑا، سیدھے کوٹھے پر لے چڑھیں۔ آپ اوٹ میں کھڑے رہیں اور میرا آدھا چہرہ باہر کر دیا۔ پھر تو میں نے بھی ساچق کا خوب تماشا دیکھا۔ دادی اماں بچاری بوڑھی تھیں، تھوڑی دیر میں تھک گئیں۔ جلدی سے مجھے لے کر نیچے اتریں۔ سانس چڑھ گیا، دم پیٹ میں نہ سمائے، عجیب حال ہوا۔ لوگ انھیں دیکھ کر لگے بسم الله، بسم اللہ کرنے۔ اتنے میں میری اماں جان بھی سامنے سے آ گئیں۔ دیکھ کر کہنے لگیں: ٹپکی پڑے لڑکی تیرے ڈھنگوں پر۔ دیکھ تو دادی کا کیا حال ہو گیا۔ وہ یہ کہہ رہی تھیں کہ سمدھنیں چھم چھم اترنے لگیں۔ خیر ساچق کی رسم ادا ہوئی۔ آدھے بجے رات کے ابا جان نے مہندی بڑے کر و فر کے ساتھ دی۔ دوسرے روز بڑی دھوم دھام سے برات آئی۔