ایک بڑے فزسسٹ سائنس کی تاریخ کی ایک کتاب لکھتے ہوئے اسلامک گولڈن ایج کی تمام فلکیات کو ردی قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس دور کی تمام فلکیات نظرانداز کر دینے کے قابل ہے۔ اور اپنی بات کے حق میں شواہد دیتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اس دور کی فلکیات میں زمین کائنات کا مرکز تھی۔
ماضی پر تبصرہ کرتے وقت یہ غلطی کئے جانا عام ہے کہ کسی چیز کا فیصلہ اس بنیاد پر کیا جائے کہ درست کون ہے اور غلط کون۔ اور اس بنیاد پر اپنی رائے بنائی جائے۔ یہ تاریخ پڑھنے کا غلط طریقہ ہے اور ہمارے یہ مصنف اس مغالطے کا شکار ہوئے تھے۔
اہم چیز غلط یا درست ہونا نہیں ہے۔ بلکہ کسی فکر کا اور کسی مسئلے کو تفتیش کرنے کا طریقہ ہے۔ اور اس کیلئے ہم قرونِ وسطیٰ کے عظیم سائنسدان البیرونی کی بات کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
البیرونی کے جینئس کی مثال ہمیں زمین کے مرکزیت کے بارے میں ان کے خیال میں نظر آتی ہے۔ اپنے وقت کے رائج خیالات کے مطابق ان کا بھی یہی خیال تھا کہ زمین کائنات کا مرکز ہے۔ لیکن ان کے دور میں ایک اور بغداد ماہرِ فلکیات السجزی نے یہ خیال پیش کیا کہ زمین نہیں بلکہ سورج مرکز ہے۔ البیرونی نے ان کے کام کے بارے میں سنا۔ اس کو مسترد نہیں کر دیا بلکہ اس پر السجزی کے ساتھ ملکر کام کیا۔ اگرچہ انہیں اس پوزیشن سے اتفاق نہیں تھا، لیکن ابن الہیثم کی طرح ان کا یقین اس بات پر تھا کہ یہ فیصلہ ڈیٹا اور مشاہدات نے کرنا ہے۔
چونکہ اس وقت دستیاب ڈیٹا اس کا فیصلہ کرنے کیلئے ناکافی تھا، اس لئے وہ اپنی پوزیشن پر قائم رہے۔
اس قدر کشادہ دلی سے مخالف خیال کی تفتیش کرنا ایسی اہلیت ہے جو آج کے چوٹی کے سائنسدانوں میں بھی بہت کم پائی جاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں پر ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ کوپرنیکس نے جب سورج کی مرکزیت کا (درست) ماڈل دیا تھا تو یہ بڑی حد تک ایک تکا تھا اور اس کے پیچھے اچھے شواہد نہیں تھے۔ اس کے بہت بعد میں جب گلیلیو نے اپنی ٹیلی سکوپ کا رخ آسمان کی طرف کیا تو وہ مشاہدات درست ہوئے اور جب نیوٹن نے گریویٹی کا انورس سکوائر قانون اخذ کیا تو پھر ہی یہ اپنی وضاحت کے ساتھ ثابت ہوا کہ کوپرنیکس درست تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کاسمولوجی پر البیرونی کی پوزیشن کا موازنہ ایک حالیہ بحث سے کیا جا سکتا ہے۔ یہ کوانٹم مکینس کی تشریح کا مسئلہ ہے۔ یہ ایک صدی قبل دریافت ہونے والی سب ایٹامک دنیا کی تھیوری ہے۔ یہ ہمیں فزیکل دنیا کی حقیقت کے بارے میں کیا بتاتی ہے؟ اس کے کئی پہلوؤں پر اتفاق نہیں ہے۔ لیکن اس کی کئی ممکنہ تشریحات میں تجربات تفریق نہیں کرتے۔ “بابائے کوانٹم مکینس” نیلز بوہر (جو اپنی شخصیت میں البیرونی سے بہت ملتے ہیں) کا موقف تھا کہ چونکہ تجربات اس میں تفریق نہیں کر سکتے، اس لئے اس کی تشریح سائنس کا سوال نہیں بلکہ میٹافزیکل سوال ہے۔ چونکہ سائنس یہ طے نہیں کر سکتی تو پھر آپ اپنے فلسفانہ ذائقے کا انتخاب کر لیں۔
کاسمولوجی میں البیرونی کا رویہ بھی ایسا ہی تھا۔ “اگر مقابلے کی تھیوریوں سے یہ فرق نہیں ہو سکتا تو پھر ان میں سے کونسی درست ہے؟ یہ طے نہیں کیا جا سکتا تو پھر آپ اپنی پسند کی پوزیشن لینے کے استحقاق رکھتے ہیں”۔
سورج کی مرکزیت کا معاملہ البیرونی سے کئی صدیوں بعد حل ہوا۔ کوانٹم مکینکس ابھی اپنے کوپرنیکس، گلیلیو اور نیوٹن کی منتظر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اس باب کو ختم کرنے سے پہلے دنیا البیرونی کے بارے میں ایک اور دلچسپ چیز جو کہ ان کا تھیولوجی میں موقف تھا۔ اور یہ بھی ایسا ہی مسئلہ ہے جس پر کئی بار آج بھی بحث ہو جاتی ہے۔
البیرونی کا کہنا تھا کہ “قرآن سائنس کے علم میں مداخلت نہیں کرتا”۔ یہاں پر یہ دلچسپ ہے کہ مامون کے دور کے سکالرز کی طرح ہی وہ سائنس کی عقلی اپروچ اور مذہبی عقائد کو الگ رکھنے کے قائل تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو اب ہم واپس ان فزسسٹ کی طرف جاتے ہیں جنہوں نے اسلامک گولڈن ایج کی فلکیات کو ردی قرار دیا تھا۔
مثال کے طور پر، ارسطو کے بہت سے ایسے خیالات تھے جو بعد میں درست نہیں نکلے۔ یہ فیکٹ انسان کی فکری تاریخ میں ارسطو کی اہمیت کو کسی طور پر کم نہیں کرتا۔ ان کے بغیر سائنس کے لئے آگے بڑھنا دشوار ہوتا۔
اسی طرح اگر بالفرض کبھی مستقبل میں ایسے شواہد مل جائیں جن کی مدد سے کوانٹم مکینکس کی تفہیم پر اتفاق ہو سکے اور نتیجہ یہ نکلے کہ اکیسویں صدی کی تمام تشریحات غلط تھیں تو اس کا یہ مطلب قطعی طور پر نہیں نکلے گا کہ بیسویں اور اکیسویں صدی میں فاؤنڈیشنل فزکس پر ہونے والا تمام کام ردی تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاریخ، خواہ سائنس کی ہو یا کسی کے بھی بارے میں، اس کو آج کے تعصب کی عینک سے دیکھنا presentism کا مغالطہ کہلاتا ہے (اس کا شکار ہونا عام ہے)۔ البیرونی اور ان فزسسٹ کے درمیان کا یہ موازنہ اس نکتے کو واضح کرنے کیلئے ہے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...