’’ تصوف‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے۔ ابو ریحان البیرونی اپنی تصنیف’’ کتاب الہند‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’ تصوف‘‘ کا لفظ اصل میں سین اور اس کا مادہ مسوف تھا، جس کے معنی یونانی زبان میں حکمت کے ہیں۔ دوسری صدی ہجری میں جب یونانی کتابوں کا ترجمہ ہوا تو یہ لفظ عربی زبان میں آیا۔ چونکہ حضرات صوفیا میں اشراقی حکماء کا انداز پایا جاتا ہے، اس لئے لوگوں نے ان کو سوفی یعنی حکیم کہنا شروع کیا۔ رفتہ رفتہ، سوفی سے صوفی ہو گیا۔1؎
’’ تصوف‘‘ ایک ایسا مسلک ہے، جس کی آج تک جامع تعریف نہیں ہو سکی، اس لئے کہ یہ ایک ذاتی، تجرباتی، ذوقی اور وجدانی شے ہے۔ اس حالت میں تمام اصحاب رائے کا ایک ہی بات پر متفق ہونا محال ہے۔ ہر ایک کا ذوق و وجدان جداگانہ ہے۔ جس کا ذوق جتنا زیادہ ہوتا ہے، اتنا ہی زیادہ وہ حقیقت الامر کو سمجھ سکتا ہے۔ 2؎
علامہ اقبال کو تصوف کے موضوع سے ابتداء ہی سے دلچسپی تھی، ان کے حالات سے پتا چلتا ہے کہ انہوں نے تصوف کے سلسلہ قادریہ میں بیعت بھی کر رکھی تھی۔۔۔۔ علامہ اقبال کے والد شیخ نور محمد ایک صوفی منش بزرگ تھے۔ وہ صوفی ادب کا مطالعہ کرتے رہتے تھے اور بزرگوں کی خدمت میں حاضر ہوتے رہتے تھے۔۔۔ علامہ کی والدہ محترمہ زیادہ تعلیم یافتہ نہ تھیں مگر ان کا رحجان مذہبی تھا، چنانچہ اس مذہبی اور دیندارانہ فضا کا علامہ کے مزاج پر گہرا اثر ہوا، علاوہ ازیں علامہ کی شخصیت اور ذہنی نشوونما میں ان کے استاد مولوی میر حسن کا بھی نمایاں ہاتھ تھا۔ مولوی صاحب سے علامہ اقبال نے عربی، فارسی، اردو اور اسلامیات کی تعلیم حاصل کی اور اس طرح مولوی صاحب کی صحبت نے ان کے فطری جوہر کو نکھار دیا۔ 3؎ لاہور میں انہیں سر ٹامس آرنلڈ جیسے استاد سے مستفیض ہونے کا موقع ملا۔ آرنلڈ کی تعلیم و تربیت کا علامہ اقبال کے دل و دماغ پر گہرا اثر پڑا۔ ڈاکٹر ابو سعید نور الدین لکھتے ہیں:ـ
’’ علامہ اقبال کے والد اور مولوی میر حسن کی خالص مشرقی تعلیم و تربیت کی بنا پر ان پر مذہبی رنگ غالب تھا۔ پروفیسر آرنلڈ کی صحبت میں رہ کر وہ فلسفہ کے ساتھ مذہب سے بھی دلچسپی لیتے رہے۔‘‘ 4؎
علامہ جب اعلیٰ تعلیم کے لئے یورپ تشریف لے گئے تو انہوں نے ایک تحقیقی مقالہ The Development of Metaphysics in Persia (فلسفہ عجم) لکھا۔ اس سلسلے میں انہیں وسیع پیمانے پر فارسی ادبیات کا مطالعہ کرنا پڑا، ایرانی متصوفین کے افکار سے بھی سابقہ پڑا۔ا نہوں نے ایران کے مشہور صوفی شعراء اور نثر نگاروں کے تفصیلی حالات زندگی اور ان کی تصنیفات کا محققانہ جائزہ لیا، جس نے ان کی علمی اور عملی زندگی پر بہت گہرا اثر ڈالا 5؎ چنانچہ ان کے اردو و فارسی کلام نیز نثر میں اس موضوع پر خاصا مواد ملتا ہے۔ پروفیسر محمد فرمان لکھتے ہیں:
’’ اقبال ظاہری طور پر جبہ و دستار سے مزین نہیں تھے، لیکن ان کی قلبی واردات جس طرح منصہ شہود پر جلوہ گر ہوتی ہیں، انکی رو سے انہیں صوفی قرار دیا جا سکتا ہے اور اس امر کا انہوں نے خود یوں اظہار کیا ہے:
بیابہ مجلس اقبال و یک دو ساغر کش
اگرچہ سر نتر اشد قلندری داند‘‘ 6؎
علامہ اقبال نے فارسی مثنوی ’’ اسرار خودی‘‘ کے ذریعے نظریہ ’’ خودی‘‘ پیش کیا تو بعض لوگوں نے اسے تصوف پر ایک حملہ تصور کیا۔ در حقیقت ایسا نہیں تھا، بلکہ اقبال کی مثنوی، تصوف کے صرف ان غیر اسلامی عناصر کے خلاف ایک احتجاج تھی، جو امتداد زمانہ سے اس میں داخل ہو گئے تھے۔۔۔ اقبال کا نظریہ خودی تصوف اسلام کے نظام تربیت کا ایک جزو ہے۔ یہ اس سے متصادم نہیں، دونوں ایک دوسرے کی ضد نہیں ہیں بلکہ لازم و ملزوم ہیں اور ممد و معاون ہیں۔ خودی کے استحکام اور استواری کیلئے اسلام کے بنیادی عقائد و نظریات کا جاننا اور ان پر سختی سے کاربند رہنا ضروری ہے۔
علامہ اقبال نے اس مخالفت کے پیش نظر عزم کر لیا تھا کہ ’’ اسلامی تصوف‘‘ کی ایک مبسوط تاریخ لکھ کر اپنے نظریے کی صحت کو ثابت کریں۔ ان کے مکاتیب سے پتا چلتا ہے کہ انہوں نے اس کام کا آغاز بھی کر دیا تھا مگر بہ وجوہ وہ اپنے اس عزم کو پایہ تکمیل تک نہ پہنچا سکے اور ایک دو باب لکھ کر اس کام کو ادھورا چھوڑ دیا مثلاً: خان محمد نیاز الدین خان کو لکھتے ہیںـ:
’’ تصوف کی تاریخ لکھ رہا ہوں۔ دو باب لکھ چکا ہوں یعنی منصور حلاج تک پانچ چار باب اور ہوں گے۔ اس کے ساتھ ہی علامہ ابن جوزی کی کتاب کا وہ حصہ بھی شائع کر دوں گا، جو انہوں نے تصوف پر لکھا ہے۔ گو ان کی ہر بات میرے نزدیک قابل تسلیم نہیں مگر اس سے اتنا تو ضرور معلوم ہو گا کہ علمائے محدثین اس کی نسبت کیا خیال رکھتے ہیں۔‘‘ 7؎
اسی طرح سید فصیح اللہ کاظمی کے نام14جولائی 16ء کے خط میں لکھتے ہیں:
’’ تصوف کے متعلق میں خود لکھ رہا ہوں میرے نزدیک حافظ کی شاعری نے بالخصوص اور عجمی شاعری نے بالعموم مسلمانوں کی سیرت اور عام زندگی پر نہایت مذموم اثر کیا ہے۔ اسی واسطے میں نے ان کے خلاف لکھا ہے۔ مجھے امید تھی کہ لوگ مخالفت کریں گے اور گالیں دیں گے لیکن میرا ایمان گوارا نہیں کرتا کہ حق بات نہ کہوں، شاعری میرے لئے ذریعہ معاش نہیں کہ میں لوگوں کے اعتراضات سے ڈروں۔‘‘ 8؎
لیکن علامہ اقبال اپنے اس کام کو پایہ تکمیل تک نہ پہنچا سکے اور محض دو باب ہی مکمل کر سکے، ایک خط بنام اسلم جیراجپوری، محررہ 17مئی 1919ء میں لکھتے ہیں:
’’ میں نے ایک تاریخ تصوف کی لکھنی شروع کی تھی مگر افسوس کہ مسالہ نہ مل سکا اور ایک دو باب لکھ کر رہ گیا۔ پروفیسر نکلسن اسلامی شاعری اور تصوف کے نام پر ایک کتاب لکھ رہے ہیں جو عنقریب شائع ہو گی۔ ممکن ہے کہ یہ کتاب ایک حد تک وہی کام کر دے جو میں کرنا چاہتا تھا۔‘‘9؎
علامہ اپنی اس تحریر کو مکمل نہ کر سکے۔ اس کے کئی اسباب ہو سکتے ہیں۔ غالباً انہوں نے اسے ایک غیر اہم کام سمجھ کر نظر انداز کر دیا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اپنی تحریر سے غیر مطمئن ہوں۔ علامہ کے لئے اپنی مخصوص افتاد طبع کے سبب منظم طریقے سے کسی منصوبے پر کام کرنا مشکل تھا۔۔۔۔۔ ’’تاریخ تصوف‘‘ کی تکمیل دلجمعی سے کام کیے بغیر ممکن نہ تھی، چنانچہ یہ کام ادھورا رہ گیا۔
کچھ معلوم نہ تھا کہ متذکرہ ’’ ایک دو ابواب‘‘ کہاں گئے اور ان کا انجام کیا ہوا۔ عام خیال یہ تھا کہ امتداد زمانہ کی نذر ہو گئے۔ در حقیقت یہ ابواب، علامہ اقبال کے کاغذات میں محفوظ رہے۔ 1977ء میں ڈاکٹر جاوید اقبال نے اقبال کے بیشتر کاغذات اقبال میوزیم کو دے دیے۔۔۔ تصوف سے متعلق ’’ ایک دو ابواب‘‘ بھی انہی کاغذات میں شامل تھے
1983ء میں پروفیسر صابر کلوروی، کو اپنی تحقیق کے سلسلے میں میوزیم کے کاغذات تک جناب عبدالجبار شاکر کے توسط سے رسائی ہوئی تو انہوں نے انکشاف کیا کہ مذکورہ بالا’’ ایک دو ابواب‘‘ تا حال محفوظ ہیں۔ کلوروی صاحب نے انہیں مرتب کر کے، حواشی کے ساتھ ’’ تاریخ تصوف‘‘ کے نام سے شائع کرا دیا۔
تعارف:
’’ تاریخ تصوف‘‘ 1985ء میں مکتبہ تعمیر انسانیت لاہور سے چھپی، سر ورق اور انتساب پر صفحات نمبر درج نہیں کئے گئے۔ ص4پہ علامہ اقبال کے تین خطوط کے اقتباسات درج کئے گئے ہیں فہرست مندرجات ص5پہ، اور ص6پر علامہ اقبال کے فرزند ارجمند ڈاکٹر جاوید اقبال کے خط کا عکس ہے، جو انہوں نے صابر کلوروی کو لاہور ہائی کورٹ سے 30جنوری 1985ء میں لکھا۔ عرض مرتب ص7اور دیباچہ (بہ عنوان: پیش گفتار)ص9تا 11یہ ڈاکٹر محمد ریاض کا تحریر کردہ ہے۔ مرتب نے اصل متن سے پہلے اس کا پس منظر (ص12تا26)تفصیل سے پیش کیا ہے۔ پس منظر میں مرتب نے وضاحت کی ہے کہ علامہ کو’’ تاریخ تصوف‘‘ لکھنے کی کیوں ضرورت پیش آئی۔
متن کتاب ص27سے شروع ہوتا ہے، ہر باب کے اختتام پر مرتب نے حواشی کا اہتمام کیا ہے۔ صفحات82تا88حسین بن منصور حلاج کے حالات و افکار پر مشتمل ہیں۔ کتاب کے آخر میں ضمیمہ (ص119) شامل کیا گیا ہے، جو ان انگریزی اشارات پر مشتمل ہے، جو تاریخ تصوف کی تیاری میں علامہ اقبال نے زیر مطالعہ انگریزی زبان میں لکھی گئی کتب پر تحریر کئے تھے۔ تاریخ تصوف کی تدوین میں علامہ اقبال نے جن کتب سے استفادہ کیا تھا، ان کی فہرست صفحات 120اور 121پہ دی گئی ہے۔ اس کتاب کے حواشی کے ضمن میں مرتب نے جن کتب سے مدد لی ہے ان کی فہرست صفحات122اور123پر درج ہے۔ آخر میں مرتب نے ایک اشاریہ (ص124 تا 128) بھی ترتیب دیا ہے، اشاریے میں صرف اصل متن کے حوالے شامل کئے گئے ہیں، حواشی شامل نہیں ہیں۔ اشاریے کے عنوانات یہ ہیں: (الف) موضوعات، (ب) اسماء (اشخاص، کتب)
علامہ اقبال نے یہ کتاب1916ء میں لکھنا شروع کی تھی ، مگر اس کو مکمل نہ کر سکے۔ صرف دو ابواب لکھے جا سکے تھے، تیسرے باب کا لوازمہ جمع کر لیا تھا، اس کے علاوہ اگلے ابواب کے لئے متفرق اشارات لکھ لئے تھے۔ بعض اشارات ان کتابوں میں درج ہیں جو اس کتاب کی تدوین میں علامہ کے زیر مطالعہ تھیں۔ کچھ اشارات انگریزی زبان میں لکھے گئے، بعض مقامات پر انہوں نے کسی حدیث، آیت یا کتاب کی طرف صرف اشارہ کر دیا تھا۔
مرتب (صابر کلوروی) نے ان تمام اشارات کو پانچ ابواب میں تقسیم کر دیا ہے، اور جن امور کی طرف علامہ نے صرف اشارہ کیا ہے انہیں حواشی میںذرا تفصیل سے بیان کر دیا ہے۔ تاریخ تصوف کی تدوین میں علامہ کی زیادہ تر توجہ تصوف میں ’’ غیر اسلامی عناصر‘‘ پر مرکوز رہی تھی، اس مقصد کے لئے انہوں نے صوفی شعرا کے ہاں اس عنصر کا کھوج لگانے کے لئے فارسی اشعار کا انتخاب بھی کیا تھا، مرتب نے ان اشعار کا ترجمہ حواشی میں افادہ عام کے لئے شامل کر دیا ہے۔
پس منظر:
عام طور پر یہ خیال کیا گیا کہ علامہ تصوف کے خلاف ہیں، اس خیال کی بنیاد ان کی مثنوی ’’اسرار خودی‘‘ (1915) بنی، اس مثنوی میں انہوں نے عجمی تصوف کے دو اہم نمائندوں افلاطون یونانی اور حافظ شیرازی پر برملا تنقید کی۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ علامہ غیر اسلامی تصوف یعنی عجمی تصوف کے خلاف تھے، اور افلاطون اور حافظ پر بھی تنقید اس لئے کی کہ یہ دونوں نظریہ ’’وحدت الوجود‘‘ کے قائل تھے علامہ کے نزدیک یہ نظریہ جامد و ساکن ہے۔ اس نظریے کے رد عمل کے طور پر انہوں نے ’’ خودی‘‘ کا ایک حرکی اور علمی نظریہ پیش کیا، ڈاکٹر ابو سعید نور الدین لکھتے ہیں:
’’ شیخ محی الدین ابن عربی اور ان کے پیروؤں کی بدولت نظریہ وحدت الوجود، اسلامی دنیا میں اس قدر عام ہو گیا ہے کہ مسلمان اس کے مضر اثرات سے اپنے آپ کو محفوظ نہیں رکھ سکے۔ وہ بے عملی، ناتوانی، کاہلی، سستی اور سب سے بڑھ کر نفی خودی کو نہایت دلکش اور دلفریب شے تصور کرنے لگے، اور ترک دنیا اور کشمکش حیات سے گریز کو اپنے لئے موجب تسکین و باعث فوز و فلاح سمجھنے لگے۔ علامہ اقبال عالم اسلام میں ایک غیر معمولی دل و دماغ لے کر آئے تھے، انہوں نے تاریخ تمدن اسلام کا بغور مطالعہ کیا، تو وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ مسلمانوں کے موجودہ زوال کا واحد سبب نفی خودی اور دیگر سلبی تعلیمات ہیں۔ علامہ اقبال نے ایک عرصہ دراز کے غور و خوض کے بعد اس مرض کی صحیح تشخیص کر کے یہ نسخہ شفا تجویز کیا کہ مسلمان خودی کا صحیح احساس کر کے اور اس کی باضابطہ تربیت کرنے کے بعد نیابت الٰہی کا وہ درجہ حاصل کرے، جس کے لئے وہ دنیا میں بھیجا گیا ہے۔‘‘ 10؎
’’ اسرار خودی‘‘ کے دیباچے میں علامہ اقبال نے غیر اسلامی تصوف کو ہدف ملامت بنایا اور خودی کے استحکام پر زور دیا، اس کے علاوہ انہوں نے مثنوی میں34اشعار کا ایک بند شامل کیا، جس میں حافظ کی شاعری کے زہریلے اثرات سے خبردار کیا اور اس کے مسلک کو’’ گو سفندی مسلک‘‘ قرار دیا، خواجہ حافظ نے سب سے پہلے ان اشعار کا نوٹس لیا اور اپنے ایک مرید ذوقی شاہ سے ایک مضمون لکھوایا جو 30نومبر1915ء کے رسالہ ’’ خطیب‘‘ میں شائع ہوا۔ 11؎ صاحب مضمون نے تصوف کو عین اسلام ثابت کرنے کی کوشش کی اور لکھا کہ علامہ کی مثنوی کا مقصد نظام عالم کی تسخیر ہے، جب کہ اسلام کا اصل نصب العین صرف اللہ کی رضا کا حصول ہے۔
اس مضمون کے جواب میں اقبال کے ایک حامی ’’ کشاف‘‘ کا مضمون22دسمبر1915ء کے اخبار’’ وکیل‘‘ میں چھپا۔12؎ صاحب مضمون نے ذوقی شاہ کے پردے میں خواجہ حسن نظامی کے کردار کی نقاب کشائی کی۔ خواجہ حسن نظامی نے 19دسمبر1915ء کے ’’ وکیل‘‘ میں ’’ کشاف خودی‘‘ کے نام سے مضمون لکھا اور بتایا کہ حافظ کی شاعری مسلمانوں کی کم ہمتی کا باعث نہیں بنی اور یہ کہ علامہ نے خواجہ حافظ شیرازی کی بے عزتی کی ہے۔ خواجہ حسن نظامی کا دوسرا مضمون 30جنوری 1916ء کے خطیب میں شائع ہوا۔ اس میں انہوں نے لکھا کہ علامہ کی نجی خط و کتابت اور ان کے احباب کی گفتگو سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ صوفی تحریک کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور یہ کہ خودی سے مراد ان کی مغربی طرز کی خود غرضی کے علاوہ کچھ نہیں، انہوں نے اپنے مضمون میں مسئلہ وحدت الوجود کو قرآن سے ثابت کرنے کی کوشش بھی کی، لیکن اکبر الہ آبادی اور شاہ سلیمان پھلواری نے انہیں ایسا کرنے سے منع کر دیا۔
پیرزادہ مظفر احمد فضلی اور ملک محمد ٹھیکیدار (جہلم) نے تو علامہ کی مثنوی کا باقاعدہ جواب لکھا، جس میں علامہ اقبال کے خیالات کی تکذیب کی گئی تھی۔ حکیم فیروز الدین احمد طغرائی نے رسالہ ’’لسان الغیب‘‘ میں حافظ کی زبردست حمایت کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا کہ حافظ کی شاعری میں ایسے کئی اشعار مل جاتے ہیں، جو جوش عمل پیدا کرتے ہیں۔ مولوی محمود علی نے علامہ کی مثنوی کی حمایت میں ایک مضمون لکھا جو ’’ خطیب‘‘ 7فروری1916ء کی اشاعت میں شائع ہوا۔ 13؎ انہوں نے لکھا:
’’ اقبال نے ایسا کون سا خیال پیش کیا ہے جسے مسلک وحدت الوجود کو تسلیم کرتے ہوئے بھی غلط کہا جا سکتا ہے البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اقبال نے دیباچہ جیسے تنگ میدان اور قلم کی خیالی فضا میں وحدت الوجود کے ذکر سے ناحق بحث و تکرار کا دروازہ کھولا، اگر انہوں نے جذبہ عمل کو تحریک دینا تھا تو جذبہ عمل ہی کے ذکر سے شروع کیا جاتا، وحدت الوجود کا ذکر کرنا تھا تو نثر میں کسی مستقل مضمون یا کتاب کی شکل میں پیش کرتے۔‘‘
حافظ اسلم جیراجپوری نے اپنے مضمون میں لکھا:
’’ حافظ کے متعلق ایسی آرا کا اظہار پہلے بھی ہوتا رہا ہے، بلکہ ایک جماعت نے تو ان کا جنازہ پڑھنے سے بھی انکار کر دیا تھا۔ اورنگ زیب نے دیوان حافظ پڑھنے پر قدغن لگا رکھی تھی، جہاں تک تصوف کا تعلق ہے۔ قرآن و حدیث اس لفظ سے نا آشنا ہیں۔ یہ دوسری صدی ہجری میں عربی زبان میں داخل ہوا۔ ایسی صورت میں اسلام کا عین تصوف ہونا یا تصوف کا عین اسلام ہونا کیونکر قبول کیا جا سکتا ہے۔‘‘ 14؎
علامہ اقبال نے اپنے مضامین اور بعض خطوط میں اپنے موقف کی وضاحت کے ساتھ معترضین کا مدلل جواب دیا۔ اس سلسلے کا پہلا مضمون ’’ اسرار خودی اور تصوف‘‘ کے عنوان سے وکیل 15جنوری 1916ء میں شائع ہوا، جس میں انہوں نے لکھا کہ وہ تصوف کے خلاف نہیں ہیں اور صرف ان صوفیا کے خلاف ہیں، جنہوں نے آنحضور ؐ کے نام پر بیعت کر کے دانستہ یا نا دانستہ ایسے مسائل کی تعلیم دی جو دین اسلام سے متصادم تھے، حافظ کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا:
’’ مجھے اس امر کا اعتراف کرنے میں کوئی شرم نہیں کہ میں ایک عرصے تک ایسے عقائد و مسائل کا قائل رہا ہو جو بعض صوفیا کے ساتھ خاص ہیں، اور جو بعد میں قرآن شریف پر تدبر کرنے سے قطعاً غیر اسلامی ثابت ہوئے، مثلاً شیخ محی الدین ابن عربی کا مسئلہ قدم ارواح کملا، مثلاً وحدت الوجود یا مسئلہ تنزلات ستہ یا دگر مسائل جن میں بعض کا ذکر عبدالکریم جیلی نے اپنی کتاب انسان کامل میں ہے۔
مذکورہ بالا تینوں مسائل میرے نزدیک مذہب اسلام سے کوئی تعلق نہیں رکھتے گو میں ان کے ماننے والوں کو کافر نہیں کہہ سکتا کیونکہ انہوں نے نیک نیتی سے ان مسائل کا استنباط قرآن شریف سے کیا ہے۔ مسئلہ قدم ارواح افلاطونی ہے۔ بو علی سینا ار ابو نصر فارابی دونوں اس کے قائل تھے، چنانچہ امام غزالیؒ نے اس وجہ سے دونوں بزرگوں کی تکفیر کی ہے۔ تنزلات ستہ افلاطونیت جدیدہ کے بانی پلوٹانیس کا تجویز کردہ ہے۔ میرا مذہب یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ نظام عالم میں جاری و ساری نہیں بلکہ نظام عالم کا خالق ہے اور اس کی ربوبیت کی وجہ سے یہ نظام قائم ہے۔ جب وہ چاہے گا اس کا خاتمہ ہو جائے گا، حکماء کا مذہب تو جو کچھ ہے اس سے بحث نہیں، رونا اس بات کا ہے کہ یہ مسئلہ اسلامی لٹریچر کا ایک غیر منفک عنصر بن گیا ہے اور اس کے ذمہ دار زیادہ تر صوفی شاعر ہیں جو پست اخلاق اس فلسفیانہ اصول سے بطور نتیجہ کے پیدا ہوتے ہیں۔ ان کا بہترین گواہ فارسی زبان کا لٹریچر ہے۔۔۔ فلسفیانہ اور مورخانہ اعتبار سے مجھے بعض ایسے مسائل سے اختلاف ہے جو حقیقت میں فلسفے کے مسائل ہیں، مگر جن کو عام طور پر تصوف کے مسائل سمجھا جاتا ہے۔ تصوف کے مقاصد سے مجھے کیونکر اختلاف ہو سکتا ہے کوئی مسلمان ہے جو ان لوگوں کو برا سمجھنے جن کا نصب العین محبت رسول اللہ ہے اور جو اس ذریعہ سے ذات باری سے تعلق پیدا کر کے اپنے اور دوسروں کے ایمان کی پختگی کا باعث ہوتے ہیں، اگر میں تمام صوفیاء کا مخالف ہوتا تو مثنوی میں ان کی حکایات و مقولات سے استدلال نہ کرتا۔۔
شاعرانہ اعتبار سے میں حافظ کو نہایت بلند پایہ سمجھتا ہوں۔ جہاں تک فن کا تعلق ہے یعنی جو مقصد اور شعراء پوری غزل میں بھی حاصل نہیں کر سکتے خواجہ حافظ اسے ایک لفظ میں حاصل کرتے ہیں، اس واسطے کہ وہ انسانی قلب کے راز کو پورے طور پر سمجھتے ہیں، لیکن فردی اور ملی اعتبار سے کسی شاعر کی قدر و قیمت کا اندازہ کرنے کے لئے کوئی معیار ہونا چاہئے، میرے نزدیک وہ معیار یہ ہے کہ اگر کسی شاعر کے اشعار اغراض زندگی میں ممد ہیں تو وہ شاعر اچھا ہے اور اگر اس کے اشعار زندگی کے منافی ہیں ا زندگی کی قوت کو کمزور اور پست کرنے کا میلان رکھتے ہیں تو وہ شاعر خصوصاً قومی اعتبار سے مضرت رساں ہے جو حالت خواجہ حافظ اپنے پڑھنے والے کے دل میں پیدا کرنا چاہتے ہیں (یعنی بحیثیت صوفی ہونے کے) وہ حالت افراد و اقوام کے لئے جو اس زمان و مکان کی دنیا میں رہتے ہیں نہایت ہی خطرناک ہے۔‘‘ 15؎
خان محمد نیاز الدین خان کے نام19جنوری1916ء کے خط میں لکھتے ہیں:
’’ افلاطونیت جدیدہ۔۔۔ فلسفہ افلاطون کی ایک بگڑی ہوئی صورت ہے، مسلمانوں میں یہ مذہب حراں کے عیسائیوں کے تراجم کے ذریعہ سے پھیلا اور رفتہ رفتہ مذہب اسلام کا ایک جزو بن گیا۔ میرے نزدیک یہ تعلیم قطعاً غیر اسلامی ہے اور قرآن کریم کے فلسفے سے اسے کوئی تعلق نہیں۔ تصوف کی عمارت اسی بیہودگی پر تعمیر کی گئی ہے۔‘‘ 16؎
خواجہ حسن نظامی علامہ اقبال کے بے تکلف دوستوں میں سے تھے مگر انہوں نے علامہ کے نظریہ تصوف کی اصل روح کو نہ سمجھتے ہوئے ان کی نیت پر حملے شروع کر دیے تو علامہ کو ایک اور مضمون لکھنا پڑا جو 9 فروری 1916ء کے ’’ وکیل‘‘ میں شائع ہوا، اس میں علامہ نے لکھا:
’’ جو کچھ میں کہتا ہوں وہ فلسفہ حقہ اسلامیہ ہے نہ کہ مغربی فلسفہ خواجہ حسن نظامی کو معلوم نہیں کہ یورپ کا علمی مذہب وحدت الوجود ہے، جس کے خواجہ حسن نظامی حامی ہیں، لیکن اقبال تو اس مذہب سے جو ان کے نزدیک ایک قسم کی زندیقیت ہے، تائب ہو کر خدا کے فضل و کرم سے مسلمان ہو چکا ہے۔‘‘ 17؎
ان مضامین کے علاوہ علامہ اقبال نے اپنے متعدد خطوط میں بھی اس علمی بحث کا تذکرہ کیا ہے، مثلاً: خان محمد نیاز الدین خان کے نام13 فروری 1916ء کے خط میں لکھتے ہیں:ـ
’’ آج کل زمانے کا اقتضا یہ ہے کہ علم دین حاصل کیا جائے اور اسلام کے علمی پہلو کو نہایت وضاحت سے پیش کیا جائے۔ حضرات صوفیاء خود کہتے ہیں کہ شریعت ظاہر ہے اور تصوف باطن، لیکن اس پر آشوب زمانے میں وہ ظاہر جس کا باطن تصوف ہے، معرض خطر میں ہے، اگر ظاہر قائم نہ رہا تو اس کا باطن کس طرح قائم رہ کستا ہے۔‘‘ 18؎
سرکشن پرشاد شاد کے نام 3اپریل16ء کے خط میں لکھتے ہیںـ:
’’ خواجہ حسن نظامی صاحب نے تنقید حافظ کی وجہ سے اس مثنوی کو مخالف تصوف کہا ہے اور اسی مفروضے پر ان کے مضامین کا دار و مدار ہے، جن میں مجھے انہوں نے دشمن تصوف کہہ کر بدنام کیا ہے۔ ان کو تصوف کے لٹریچر کی واقفیت نہیں اور جس تصوف پر وہ قائم ہیں، اس کا میں قائل نہیں۔۔۔ خواجہ حافظ کی شاعری کا میں معترف ہوں۔۔۔ لیکن جس کیفیت کو وہ پڑھنے والے کے دل پر پیدا کرنا چاہتے ہیں، وہ کیفیت قوائے حیات کو کمزور وناتواں کرنے والی ہے۔‘‘ 19؎
سر کشن پرشاد کے نام ہی علامہ کے دو اور خطوط بھی ملتے ہیں، جن میں انہوں نے تصوف کے موضوع کا تذکرہ کیا ہے اور حافظ کی شاعری کے اثرات کا ذکر کیا ہے۔ ایک خط 10مئی 1916ء اور دوسرا خط24جون 1916ء کا تحریر کردہ ہے۔ خان نیاز الدین خان کے نام 8جولائی 1916ء (مکتوبات بنام خان محمد نیاز الدین خان، ص22) سراج الدین پال کے نام خط10جولائی 1916ء اور19جولائی1916ء (مشمولہ: اقبالنامہ، حصہ اول، صفحات:53 اور58) میں انہوں نے تصوف کے بارے میں اپنے نظریات کا ذکر کیا ہے۔ ان خطوط کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ علامہ اقبال اسلامی تصوف کے خلاف نہیں تھے، اس ضمن میں سید عبدالواحد معینی لکھتے ہیں:
’’ اس میں شبہ نہیں کہ علامہ اقبال بھی ایک عظیم المرتبت صوفی تھے اور ان کی مذہبی خدمات کے جذبہ کی اصل بنا تصوف سے تعلق اور لگاؤ ہی تھا، یہ بات ضرور ہے کہ علامہ نے تصوف کے بعض مسائل سے کسی قدر اختلاف ضرور کیا تھا اور ا س اختلاف کی بنا پر انہوں نے حضرت محی الدین عربی اور حافظ شیرازی پر کڑی تنقید کی تھی اور اس تنقید کی بنا پر بعض لوگوں کا خیال ہو گیا تھا کہ علامہ تصوف ہی کے مخالف ہیں۔‘‘ 20؎
ان خطوط کے علاوہ علامہ نے تین اور مضامین بھی شائع کئے پہلا مضمون12دسمبر1916 ء کے وکیل امرتسر میں’’ تصوف وجودیہ‘‘ کے عنوان سے دوسرا مضمون’’ اسلام اور تصوف‘‘ کے عنوان سے ’’ نیو ایرا‘‘ کی اشاعت28جولائی 1917ء میں اور تیسرا مضمون ’’ علم ظاہر و باطن‘‘ کے عنوان سے ’’ وکیل‘‘ 28جون 1918ء کی اشاعت میں شائع ہوا۔ یہ مضامین سید عبدالواحد معینی اور محمد عبداللہ قریشی کی مرتبہ کتاب ’’ مقالات اقبال‘‘ میں شائع ہو چکے ہیں۔
ان تمام مضامین اور بحث کا نتیجہ یہ نکلا کہ علامہ نے مثنوی ’’ اسرار خودی‘‘ سے حافظ کے متعلق قابل اعتراض اشعار نکال کر بعض نئے اشعار کا اضافہ کر دیا، اس تبدیلی میں اکبر الہ آبادی اور علامہ کے والد کے مشوروں اور نصیحتوں کو بھی دخل ہے۔ ’’ اسرار خودی‘‘ کا دیباچہ جو مختصر ہونے کی وجہ سے بڑے مغالطوں کا سبب بن رہا تھا، وہ بھی خارج کر دیا گیا۔ حضرت علامہ نے حافظ کے خلاف اشعار حذف کر کے ادب اسلامی کے اصول پر مبنی دوسرے اشعار لکھ دیے، اس تبدیلی کا ذکر حافظ محمد اسلیم جیراجپوری کے نام خط محررہ17مئی 1919ء میں ملتا ہے:
’’ خواجہ حافظ پر جو اشعار میں نے لکھے تھے ان کا مقصد محض ایک لٹریری اصول کی تشریح اور توضیح تھا خواجہ کی پرائیویٹ شخصیت یا ان کے معتقدات سے سروکار نہ تھا مگر عوام اس باریک امتیاز کو سمجھ نہ سکے اور نتیجہ یہ ہوا کہ اس پر بڑی لے دے ہوئی، اگر لٹریری اصول یہ ہو کہ حسن حسن ہے خواہ اس کے نتائج مفید ہوں خواہ مضر تو خواجہ دنیا کے بہتر شعراء میں سے ہیں۔ بہرحال میں نے وہ اشعار حذف کر دیے ہیں اور ان کی جگہ اسی لٹریری اصول کی تشریح کرنے کی کوشش کی ہے جس کو میں صحیح سمجھتا ہو۔۔۔۔ دیباچہ بہت مختصر تھا اور اپنے اختصار کی وجہ سے غلط فہمی کا باعث تھا۔۔۔ پیرزادہ مظفر الدین صاحب نے میرا مقصد مطلق نہیں سمجھا، تصوف سے اگر اخلاص فی العمل مراد ہے (اور یہی مفہوم قرون اولیٰ میں اس کا لیا جاتا تھا) تو کسی مسلمان کو اس پر اعتراض نہیں ہو سکتا ہاں جب تصوف فلسفہ بننے کی کوشش کرتا ہے اور عجمی اثرات کی وجہ سے نظام عالم کے حقائق اور باری تعالیٰ کی ذات کے متعلق موشگافیاں کر کے کشفی نظریہ پیش کرنا ہے تو میری روح ا سکے خلاف بغاوت کرتی ہے۔‘‘ 21؎
خواجہ حسن نظامی اور علامہ اقبال کے درمیان اس قلمی جنگ کا اختتام اکبر الہ آبادی کی مصالحتی کوششوں سے ہوا اور علامہ نے پوری یکسوئی سے مثنوی کا دوسرا حصہ لکھنا شروع کر دیا، جو اپریل 1918ء میں ’’ رموز بیخودی‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔
غرض یہ وہ پس منظر تھا جس میں علامہ نے ’’ تاریخ تصوف‘‘ لکھنا شروع کی، اس کے دو محرکات ہو سکتے ہیں، ایک تو یہ کہ اس وسیع پیمانے پر اور اس شدت کے ساتھ ’’ اسرار خودی‘‘ کی مخالفت سے علامہ اقبال کو اندازہ ہوا کہ تصوف کے مسئلے پر لوگ بہت حساس ہیں، اور اس بارے میں ذہنوں میں متعدد غلط فہمیاں بھی پائی جاتی ہیں۔ ان کے خیال میں تصوف کا، ہماری تہذیبی، علمی اور دینی زندگی سے گہرا تعلق تھا، اس لئے انہوں نے اس مسئلے پر اپنے خیالات نسبتاً زیادہ وضاحت کے ساتھ اور علمی اندازہ میں پیش کرنے کا ارادہ کیا’’ تاریخ تصوف‘‘ کی تصنیف کا دوسرا محرک مولوی محمود علی کا وہ مضمون ہے جو7فروری 1916ء میں شائع ہوا تھا، جس میں انہوں نے علامہ کو مشورہ دیا تھا کہ انہیں وحدت الوجود کا ذکر کرنا تھا تو نثر میں کسی مستقل مضمون یا کتاب کی شکل میں پیش کرتے، چنانچہ اس زمانے میں انہوں نے تصوف کی تاریخ پر نثر میں’’ ایک دو ابواب‘‘ قلم بند کئے۔ علامہ اقبال نے سب سے پہلے اپنے مضمون بہ عنوان’’ اسرار خودی اور تصوف‘‘ میں اس کتاب کے متعلق اظہار خیال کیا یہ مضمون اب’’ مقالات اقبال‘‘ میں شامل ہے، اس مضمون میں علامہ لکھتے ہیں:
’’ اگر وقت نے مساعدت کی تو میں تحریک تصوف کی ایک مفصل تاریخ لکھوں گا۔ انشاء اللہ ایسا کرنا تصوف پر حملہ نہیں بلکہ تصوف کی خیر خواہی ہے، کیونکہ میرا مقصد یہ دکھانا ہو گا کہ اس تحریک میں غیر اسلامی عناصر کون کون سے ہیں اور اسلامی عناصر کون کون سے۔۔۔۔‘‘ 22؎
اکبر الہ آبادی کے نام27جنوری1916ء کے خط میں اس کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں
’’ بہرحال وہ (خواجہ حسن نظامی) معذور ہیں اور صوفی ضرور ہیں، مگر تصوف کی تاریخ و ادبیات و علوم القرآن سے مطلق واقفیت نہیں رکھتے۔ اس واسطے مجھے ان کے مضامین کا مطلق اندیشہ نہیں ہے۔
علامہ ابن جوزیؒ نے جو کچھ تصوف پر لکھا ہے اس کو شائع کر دینے کا قصد ہے۔ اس کے ساتھ تصوف کی تاریخ پر ایک مفصل دیباچہ لکھوں گا۔ انشاء اللہ اس کا مصالحہ جمع کر لیا ہے۔ منصور حلاج کا رسالہ ’’ کتاب الطواسین‘‘ فرانس میں مع نہایت مفید حواشی کے شائع ہو گیا ہے۔ دیباچے میں اس کتاب کو استعمال کروں گا۔ فرانسیسی مستشرق نے نہایت عمدہ حواشی دیے ہیں۔‘‘ 23؎
اکبر الہ آبادی کے نام خط محررہ2فروری 16ء میں لکھتے ہیں:
’’ میں تصوف کی تاریخ پر ایک مبسوط مضمون لکھ رہا ہوں جو ممکن ہے ایک کتاب بن جائے چونکہ خواجہ نے عام طور پر اخباروں میں میری نسبت یہ مشہور کر دیا ہے کہ میں صوفیائے کرام سے بدظن ہوں۔ اس واسطے مجھے اپنی پوزیشن صاف اور واضح کرنی ضروری ہے، ورنہ اس طویل مضمون کے لکھنے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔
چونکہ میں نے خواجہ حافظ پر اعتراض کیا ہے۔ اس واسطے ان کا خیال ہے، میں تحریک تصوف کو دنیا سے مٹانا چاہتا ہوں۔ سر اسرار خودی کے عنوان سے انہوں نے ایک مضمون خطیب میں لکھا ہے جو آپ کی نظر سے گزرا ہو گا، جو پانچ وجوہ انہوں نے مثنوی سے اختلاف کرنے کے لکھے ہیں، انہیں ذرا غور سے ملاحظہ فرمائیے۔ تاریخ تصوف سے فارغ ہوں تو تقویۃ الایمان کی طرف توجہ کروں۔ فی الحال جو فرصت ملتی ہے وہ اسی مضمون کی نذر ہو جاتی ہے۔ افسوس کہ ضروری کتب لاہور کے کتب خانوں میں نہیں ملتیں، جہاں تک ہو سکا، میں نے تلاش کی ہے اور مجھے امید ہے کہ آپ اس مضمون کو پڑھ کر خوش ہوں گے۔۔۔ منصور حلاج کا رسالہ کتاب الطواسین نام فرانس میں شائع ہو گیا ہے، وہ بھی منگوایا ہے۔‘‘ 24؎
چنانچہ معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے 1916ء کے اوائل میں’’ تاریخ تصوف‘‘ لکھنی شروع کر دی تھی۔
متن کا جائزہ:
علامہ اقبال’’ تاریخ تصوف‘‘ کی تکمیل نہ کر سکے۔ اس سلسلے میں انہوں نے جو نکات اور حواشی یکجا کئے وہ صابر کلوروی صاحب نے مرتب کر کے چھاپ دیے تاکہ تصوف کے بارے میں علامہ کے تصورات کا انداہ ہو سکے۔۔۔ اس ضمن میں علامہ پر جو الزامات عائد کئے گئے کہ وہ تصوف کے خلاف ہیں اور اسے جڑ سے اکھاڑنے کے درپے ہیں، ان کی نفی’’ تاریخ تصوف‘‘ کے ادھورے لوازمے سے ہو جاتی ہے۔۔ صابر کلوروی صاحب نے نہایت محنت اور جان فشانی سے ان صفحات کو مرتب کیا ہے۔۔۔۔ تاہم کتابت کی چند اغلاط اور متن کی اغلاط کھٹکتی ہیں۔ کتابت بھی خوب صورت نہیں ہے، جس کا احساس صاحب مرتب کو بھی ہے۔۔۔۔ ذیل میں ہم متن (بہ خط اقبال) کے چند صفحات کا موازنہ پیش کرتے ہیں، جس سے متن کی اغلاط کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
نمبر شمار
سطر
متن (بہ خط اقبال)
صفحہ
سطر
تاریخ تصوف، مرتب: صابر کلوروی
1
1
اسی
28
2
اس
2
17
پروفیسر گولزیر سے اس خیال میں
14
پروفیسر گولزیر کے اس خیال سے
3
7
صورت بھی دی
29
20
صورت دی
4
8
افلاطونی
29
21
فلاطونی
5
10
ہندو قوم کے عظمت و جلال کی آخری شہادت چندر گپت کی عظیم الشان حکومت تھی مگر اس کی اولاد میں مہاراجہ اشوک نے جس کے عہد میں یہ حکومت اپنی عظمت و جلال
29
24, 25
ہندو قوم کی عظمت و جلال کے انتہائی نکتہ تک
6
1
یہ تعلیم نہیں دی کہ
30
22
یہ تعلیم (ہے کہ)
7
2
بلکہ ہر قوت۔۔
30
24
بلکہ قوت
8
4
ہر ایک مسلمان۔۔
31
2
ہر ایک مسلمان۔۔۔۔
9
8
الحاد و زندقہ
31
9
الحاد اور زندقہ نے
10
12
شریعت حقہ محمدیہ
31
13
شریعت حصہ محمدیہ
11
15
غرضکہ
31
18
غرض یہ کہ۔۔
12
19
شریعت حقہ محمدیہ
31
24
شریعت محمدیہ
13
22
عام مماثلث سب میں پائی جاتی ہے
32
3
عام مماثلت پائی جاتی ہے۔۔۔
14
23
جیسا کہ۔۔۔
32
5
جب کہ
15
36
زہد و عبادات کے ساتھ فلسفیانہ ۔۔۔
33
10, 9
زہد و عبادات کی فلسفیانہ
16
14
ابن حزم نے ایک اور زرتشتی
33
3
ابن حزم نے ایک زر شتی
17
14
نور ازلی ہے کے ایک حصے
33
4
نور ازلی اس کے ایک حصے
18
14
زرتشتی مذہب
33
4
زرتشت مذہب
19
23
مانی کے نزدیک خلق عالم کی
33
16
مانی کے نزدیک خالق عالم کی
20
30
مع جرمن ترجمے کے علیحدہ بھی شائع کرا دیا ہے۔
33
25
مع جرمن ترجمے کے
درج بالا جن چند صفحات کا اصل متن سے موازنہ کیا گیا ہے، ان میں بعض مقامات پر مرتب ایک آدھ لفظ بڑھا دیا ہے، اگرچہ یہ اضافہ درست بھی ہے مگر حاشئیے میں ان کی وضاحت ضروری کر دینی چاہئے تھی تاکہ صحت متن سے متعلق شبے کی گنجائش باقی نہ رہتی، مثلاً:
(1)’’ تاریخ تصوف‘‘ کے ص28پر باب اول کا جو عنوان قائم کیا ہے، وہ مرتب کی طرف سے ہے، مگر اصل متن میں جو لفظ’’ تمہید‘‘ لکھا ہے اسے بھی شامل کرنا چاہئے تھا تاکہ یہ معلوم ہو سکتا کہ مصنف اس کا کیا عنوان قائم کرنا چاہتے تھے۔۔۔
(2) ص28کے حاشئیے کی دوسری سطر میں لفظ’’ کے‘‘ (تصوف کے) کا اضافہ کیا ہے، جو اصل متن میں نہیں ہے۔۔۔ یہ اضافہ درست ہے مگر وضاحت کا ہونا بھی ضروری تھا۔۔۔۔
(3) ص:32کی سطر22میں لفظ’’ قوم‘‘ (ایرانی قوم) زاید ہے، مگر اس کی نشان دہی نہیں کی گئی۔
(4) ص:27سطر7پر علامت حاشیہ (2) نہیں بنائی گئی۔
علاوہ ازیں کتابت کی اغلاط متن خوانی میں رکاؤٹ کا باعث بنتی ہیں۔ درج ذیل گوشوارے سے ان اغلاط کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے:
نمبرشمار
صفحہ
سطر
غلط
صحیح
1
9
5
تحقیق مقالے
تحقیقی مقالے
2
9
5
جزو ہے اور اور
جزو ہے اور
3
9
10
کام کرتے نظر
کام کرتا نظر
4
9
11
تصور نے عجمی
تصوف نے عجمی
5
10
20
منصرف
منحرف
6
32
6
لعیش
تعیش
7
33
10
مسئلہ نردان
مسئلہ نروان
8
33
10
ہمدانی لاصل
ہمدانی الاصل
اہمیت
علامہ اقبال نے ’’ تاریخ تصوف‘‘ کے ’’ ایک دو ابواب‘‘ تحریر کیے اور بہ وجوہ اس کتاب کو مکمل نہ کر سکے۔۔۔ یہ ’’ ایک دو ابواب‘‘ زیادہ تفصیلی نہیں ہیں، مگر ان سے تصوف کے متعلق علامہ کے نظریات سمجھے جا سکتے ہیں۔
پہلا باب13 صفحات پر مشتمل ہے، اس باب میں علامہ نے تصوف کا مفہوم، اس کی ابتدائ، مختلف اقوام پر اس کے اثرات سے بحث کی ہے۔ تصوف کے مفہوم اور مسلمانوں میں تحریک تصوف کی ابتدا کے متعلق لکھتے ہیں:
’’ علم باطن جس کو اسلامی اصطلاح میں تصوف بھی کہتے ہیں ایک نہایت دلچسپ اور عجیب و غریب چیز ہے۔ اس کی دلچسپی کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ اس کے غرائب نے اقوام عالم کے بعض بہترین دل و دماغ رکھنے والے آدمیوں کو اپنی طرف کھینچا ہے اور عوام کے تخیلات پر ایک گہرا اثر ڈالا ہے، کیونکہ اگر ان تمام علوم کو جن کا مجموعی نام علم باطن ہے۔ ایک کرہ سے مثال دی جائے تو اس کا قطب شمالی اعلیٰ درجہ کی فلسفیانہ موشگافی ہے اور اس کا قطب جنوبی ذلیل ترین توہم پرستی ہے۔۔۔۔‘‘ 25؎
’’ صیح منطقی پہلو سے اسلامی تصوف کے منصہ شہود پر آنے کے اسباب معلوم کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم آٹھویں اور نویں صدی عیسوی کی اسلامی دنیا پر ایک نگاہ ڈالیں جب صوفی نصب العین مسلمانوں میں پیدا ہوا۔۔۔۔۔‘‘ 36؎
’’ اسرار خودی‘‘ کی اشاعت کے بعد علامہ پر شدید اعتراضات کئے گئے، یہ اعتراضات مختلف نوعیت کے تھے۔ بعض علماء نے یہ کہا کہ وہ صوفی تحریک کو مٹانا چاہتے ہیں، علامہ نے مدلل انداز میں ان اعتراضات کے جوابات تحریر کئے، چنانچہ ’’ تاریخ تصوف‘‘ کے باب اول میں بھی علامہ نے وضاحت کی کہ وہ کس قسم کے تصوف کے خلاف ہیں، نیز یہ کہ صحیح اسلامی تصوف ان کے نزدیک کیا ہے، مثلاً لکھتے ہیں:
’’ عام طور پر متصوفین کے دو گروہ ہیں۔ اول وہ گروہ جو شریعت حقہ محمدیہ پر قائم ہے اور اسی پر مخلصانہ استقامت کرنے کو انتہائے کمال انسانی تصور کرتا ہے یہ وہ گروہ ہے جس نے قرآن شریف کا مفہوم وہی سمجھا جو صحابہ کرام نے سمجھا تھا۔ جس نے اس راہ پر کوئی اضافہ نہیں کیا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سکھائی تھی۔ جس کی زندگی صحابہ کرام کی زندگی کا نمونہ ہے جو سونے کے وقت سوتا ہے جاگنے کے وقت جاگتا ہے۔ جنگ کے وقت میدان جنگ میں جاتا ہے۔ کام کے وقت کام کرتا ہے۔ آرام کے وقت آرام کرتا ہے۔ غرض یہ کہ اپنے اعمال و افعال میں اس عظیم الشان انسان اور سادہ زندگی کا نمونہ پیش کرتا ہے جو نوع انسان کی نجات کا باعث ہوئی۔ اس گروہ کے دم قدم کی بدولت اسلام زندہ رہا زندہ ہے اور رہے گا اور یہی مقدس گروہ اصل میں صوفی کہلانے کا مستحق ہے۔ راقم الحروف اپنے آپ کو ان مخلص بندوں کی خاک پا تصور کرتا ہے۔ اپنی جان و مال و عزت و آبرو ان کے قدموں پر نثار کرنے کے لئے ہر وقت حاضر ہے اور ان کی صحبت کے ایک لحظہ کو ہر قسم کے آرام و آسائش پر ترجیح دیتا ہے۔ دوسرا گروہ وہ ہے جو شریعت محمدیہ کو خواہ وہ اس پر قائم بھی ہو محض ایک علم ظاہری تصور کرتا ہے ایک طریق تحقیق کو جس کو وہ اپنی اصطلاح میں عرفان کہتا ہے۔ علم پر ترجیح دیتا ہے اور اس عرفان کی وساطت سے مسلمانوں میں وحدت الوجودی فلسفے اور ایک ایسے عملی نصب العین کی بنیاد ڈالتا ہے۔ جس کا ہمارے نزدیک مذہب اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘ 27؎
اس اقتباس سے یہ امر واضح ہو جاتا ہے کہ علامہ تحریک تصوف کے خلاف نہ تھے۔ ’’ تاریخ تصوف‘‘ کا دوسرا باب بہ عنوان:’’ تصوف کے ارتقا پر ایک تاریخی تبصرہ‘‘ 6صفحات پر مشتمل ہے، اس میں علامہ نے ابتداء میں لفظ صوفی اور تصوف کی وضاحت کی ہے اور پھر تصوف کے ارتقاء کا ذکر کیا ہے۔ اس باب کی تیاری میں علامہ نے عربی کتب سے استفادہ کیا ہے، چنانچہ ہمیں اس باب میں عربی اشعار اور عربی کتب کے اقتباسات نظر آتے ہیں۔ علامہ نے جہاں عربی اشعار اور اقتباسات درج کئے ہیں، وہاں ان کا مفہوم بھی تحریر کر دیا ہے، اس طرح عربی اشعار اور اقتباسات کو دیکھ کر الجھن نہیں ہوتی۔
تیسرا باب نوٹس کی شکل میں موجود ہے، ان اشارات کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ علامہ تیسرے باب میں منصور حلاج کے عقائد کو زیر بحث لانا چاہتے تھے، اس مقصد کے لئے انہوں نے ’’ کتاب الطواسین‘‘ سے متعدد حوالے نقل کئے تھے، اس کے علاوہ منصور کے حالات اور عقائد کے ضمن میں بعض معاصرانہ شہادتیں بھی بہم پہنچائی گئی ہیں۔ ابن الجوزی اور پروفیسر براؤن کی تحقیقات سے بھی خاطر خواہ فائدہ اٹھایا گیا تھا۔
’’ تاریخ تصوف‘‘ کے ان’’ ایک دو ابواب‘‘ کا اسلوب سادہ اور عام فہم ہے۔ عبادت کو ثقیل، گنجلک اور بھاری بھر کم صوفیانہ اصطلاحات سے بوجھل نہیں بنایا۔ خیالات میں ایک بہاؤ اور روانی ہے۔ انداز بیان مختلف مقامات پہ وضاحتی اور تشریحی نوعیت کا ہے۔ اپنی بات کے ثبوت میں مختلف طرح کی تاریخی مثالیں پیش کی ہیں، یہ مثالیں قاری کی دلچسپی میں اضافہ کرتی ہیں۔
افسوس کہ علامہ اقبال اپنے اس کام کو پایہ تکمیل تک نہ پہنچا سکے، اس کے کئی اسباب ہو سکتے ہیں، ایک تو یہ کہ موا دکی کمی اور کتابوں کی عدم فراہمی، دوسرے علامہ کی مخصوص افتاد طبع بھی اس کام کی تکمیل میں حارج تھی، تیسرے پروفیسر نکلسن کی کتاب ’’ اسلامی شاعری اور تصوف‘‘ کی اشاعت سے علامہ نے محسوس کیا کہ یہ کتاب وہی کام انجام دے سکتی ہے، جو میں انجام دینا چاہتا تھا نتیجتہً ان وجوہ سے ’’ تاریخ تصوف‘‘ کی تکمیل نہ ہو سکی۔ صابر کلووری اس ضمن میں تحریر کرتے ہیں کہ دو اور امو ربھی اس کی تکمیل میں مانع رہے ہوں گے اول:’’ رموز بیخودی‘‘ کی تصنیف اور دوم: ’’اسرار خودی‘‘ کے قلمی ہنگامے کا سرد ہو جانا۔ علامہ اس ٹھنڈی آگ کو دوبارہ سلگانا نہیں چاہتے ہوں گے، یہ کتاب بھڑوں کے چھتے میں دوسرا پتھر ہو سکتی تھی۔ 28؎
اگرچہ یہ کتاب مکمل نہ ہو سکی، تاہم دو ابواب اور اشارات سے یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ علامہ کس نوعیت کی کتاب لکھنا چاہتے تھے، اگر یہ کتاب مکمل ہو جاتی تو تصوف کی تاریخ میں یقینا ایک اہم اور قابل قدر اضافہ ثابت ہوتی۔
٭٭٭
حواشی
1کتاب الہند، بحوالہ: اسلامی تصوف اور اقبال، از ڈاکٹر ابو سعید نور الدین، 1977ء ص4
2اسلامی تصوف اور اقبال، ص:12
3عروج اقبال، پروفیسر ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی، ص14تا23
4اسلامی تصوف اور اقبال، ص195
5ایضاً، ص:217
6اقبال اور تصوف ص:35
7مکاتیب اقبال بنام خان محمد نیاز الدین خان، ص:20
8خطوط اقبال، مرتبہ: رفیع الدین ہاشمی، طبع اول 1976ء ص128
9اقبالنامہ، حصہ اول، مرتبہ: شیخ عطاء اللہ، ص54
10اسلامی تصوف اور اقبال، ص:264-263
11تاریخ تصوف، ص13
12ایضاً، ص13
13تاریخ تصوف، ص:14
14ایضاً، ص:14
15مقالات اقبال، مرتبہ: سید عبدالواحد معینی، طبع اول، مئی 1963ء
16مکاتیب اقبال بنام خان محمد نیاز الدین خان، ص19
17مقالات اقبال، ص173, 172
18 مکاتیب اقبال بنام خان محمد نیاز الدین خان، ص20
19اقبال بنام شاد، مرتبہ محمد عبداللہ قریشی، ص160, 159
20نقش اقبال، از سید عبدالواحد معینی، ص41
21اقبالنامہ، حصہ اول، مرتبہ: شیخ عطاء اللہ، ص54, 53
22 مقالات اقبال، ص161
23 اقبالنامہ، حصہ دوم، مرتبہ: شیخ عطاء اللہ ص:51, 50
24 اقبالنامہ، حصہ دوم، ص52, 51
25 تاریخ تصوف، ص28
26تاریخ تصوف،ص32
27تاریخ تصوف، ص31, 32
28 تاریخ تصوف، ص24
٭٭٭