(نوٹ:اس مضمون میںبات ترقی پسند تنقید کے حوالے سے ہے
لیکن ضمناً بعض تحقیقی امور کا تذکرہ بھی کرنا ناگزیر ہے۔ح۔ق)
ترقی پسند تحریک کو ابتدا میں ہی سجاد ظہیر جیسی متوازن شخصیت نصیب ہو گئی تھی۔تنظیمی کار کردگی اور اس کے دور رس نتائج اپنی جگہ ،بطور نقاد بھی سجاد ظہیر کو ترقی پسند تنقید کا مثالی نمونہ قرار دیا جا سکتا ہے۔
سجاد ظہیر نے جہاں ترقی پسند قواعدوضوابط اور معیاروں کو بیان کیا وہیں انہوں نے تحریک سے ہٹ کر لکھنے والوں کی اہمیت اور قدروقیمت کا بھی ادراک کیا۔چنانچہ ترقی پسند تنقید کو بلکہ پورے ترقی پسند ادب کو انتہا پسندانہ رویوں سے بچانے کے لیے انہوں نے معتدل طرزِ عمل اختیار کیا۔ایسے ماحول میں جب غزل کو درباری شعری صنف کہہ کرادب بدر کرنے کی باتیں ہو رہی تھیں،سجاد ظہیرنے ایک عمومی ادبی فضا میں اس قسم کی رہنمائی کرنا ضروری سمجھا:
۱۔ ”شاعر کا پہلا کام شاعری ہے۔وعظ دینا نہیں۔ اشتراکیت و انقلابیت کے اصول سمجھانا نہیں۔ اصول سمجھانے کے لیے کتابیں موجود ہیں، اس کے لیے ہم کو نظمیں نہیں چاہئیں۔ شاعر کا تعلق جذبات کی دنیا سے ہے۔ اگر وہ اپنے تمام ساز و سامان تمام رنگ و بو، تمام ترنم وموسیقی کو پوری طرح کام میں نہیں لائے گا، اگر فن کے اعتبار سے اس میں بھونڈا پن ہوگا، اگر وہ ہمارے احساسات کو لطافت کے ساتھ بیدار کرنے سے قاصر ہوگا تو اچھے سے اچھے خیال کا بھی وہی حشر ہوگا جو دانے کا بنجر زمین میں ہوتا ہے۔“(غلط رجحان ۔ شاہراہ)
۲۔ ”جب ہم مختلف اصناف کو جانچیں اور پرکھیں تو ہمارے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم ایک صنف کا دوسری صنف سے فرق بھی دیکھیں۔مثلاً ہمیں اس کا تو اختیار ہے کہ جب ہم دو پھولوں کا مقابلہ کریں تو گلاب کو چمیلی پر مجموعی حیثیت سے ترجیح دیں،لیکن اگر ہم فطرت کے ان دو بہشتی تحفوں کی علیحدہ اور منفرد خوبیوں کو بھی نہیں سمجھتے تو پھر ہماری تنقید یک طرفہ اور نامکمل اور اس لئے گمراہ کن ہوگی۔ شعر و ادب زندگی کے ہر پہلو کی ہزاروں نئے اور د ل فریب انداز میں تنقید اور تصویر کشی کرتے ہیں۔انھیں نمایاں کرتے ہیں اور بے شمار طریقوں سے ہمارے دل و دماغ کو متاثر اور محظوظ کرتے ہیں۔ایک وقت اور ایک موقع پر زندگی کا ایک خاص پہلو زیادہ لائق توجہ ہوسکتا ہے۔“ (سجاد ظہیر”روشنائی “سے ماخوذ)
سجاد ظہیر چونکہ ترقی پسند تحریک کے بنیادگزاروں میں شامل تھے، اس لیے ان سے اس حوالے سے بعض بنیادی نوعیت کے سوال کیے گئے تو انہوں نے بڑے سلیقے کے ساتھ ان سوالوں کو بیان کرکے ان کے حوالے سے اپنا موقف واضح کیا۔
”بعض لوگ سوال کرتے ہیں کہ جب ہر دور میں ترقی پسند ادب کی تخلیق ہوتی رہی ہے اور جب حالی ، شبلی اور اقبال بھی ترقی پسند ہیں تو پھر آخر ترقی پسند مصنفین کی انجمن بنانے کی ضرورت ہی کیا ہے ؟
یہ سوال ایسا ہی ہے جب دنیا میں ابتدائے آفرینش سے لے کر آج تک پھول کھلتے رہے ہیں تو باغ لگانے کی کیا ضرورت ہے؟ اس انجمن کی ضرورت اسی وجہ سے ہوئی جس وجہ سے دوسری انجمنوں کی ہوتی ہے یعنی کہ انسان اجتماعی طور پر ادبی مسائل پر گفتگو اور بحث کریں۔ انسان اور جماعت کو سمجھیں، سماجی کیفیت کا تجزیہ کریں اور اس طرح مشترکہ نصب العین قائم کریں اور اس کے مطابق عمل کریں۔ یہ اجتماعی کوشش انفرادی کوشش سے بہتر ہوگی۔“سجاد ظہیر
سجاد ظہیر کے تنقیدی سلیقے کا اثر نقادوں کی اگلی کھیپ تک گیا۔ احتشام حسین، مجنوں گورکھپوری، ممتاز حسین،ڈاکٹر محمد حسن ،ڈاکٹر قمر رئیس ، سے لے کر محمد علی صدیقی اور ڈاکٹر رشید امجدتک نقادوں نے ادبی سلیقے اور تہذیب کو ملحوظ رکھا ۔کہیں اختلاف رائے میں تلخی بھی در آئی تو اس کے اظہار میں ایک تہذیبی وقار کو ہمیشہ قائم رکھا گیا۔لیکن ترقی پسند تحریک کی بہت زیادہ مقبولیت کے نتیجہ میںعام ترقی پسند نقادوں میں بعض خرابیاں بھی راہ پانے لگیں۔یہ خرابیاں اپنی عوامیت کے باعث اس حد تک راہ پاگئیں کہ پڑھے لکھے نقادوں کے لیے بھی صورتِ حال کو سنبھالنا مشکل ہو گیا۔میں چند تاریخی خرابیوں کی طرف ہلکا سا اشارہ کروں گا۔ تحریک سے تعلق رکھنے والے کمزور ترین تخلیق کاروں کو بھی غیر معمولی اہمیت دی جانے لگی اور تحریک سے اختلاف رکھنے والے کئی اہم اور بڑے تخلیق کاروں کو رد کیا جانے لگا۔اس تنقیدی رویے سے ایک طرف ترقی پسند تحریک کے زیرِ اثر لکھنے والوں میں نعرہ بازی رواج پانے لگی اور تخلیقی حسن ماند پڑنا شروع ہو گیا۔دوسری طرف یہ رویہ غیر ترقی پسند ادیبوں کے باقاعدہ بائیکاٹ کرنے کی قراردادمنظور کرنے پر منتج ہوا۔یہ ایسی تاریخی غلطی تھی جس کا خمیازہ پھر تحریک کو تادیر بھگتنا پڑا۔تاہم ان غلطیوں کا ادراک بھی کر لیا گیا اورپھران کے ازالہ کی کوشش بھی کی گئی۔ترقی پسند تحریک کے نسبتاََبعد میں آنے والے نقادوں نے اس ازالہ میں اہم کردار ادا کیا۔محمد علی صدیقی نے اس سلسلہ میں خاصا کردار ادا کیا۔ڈاکٹر رشید امجد نے تو بعض غلطیوں کا برملا اعتراف کیا۔
”ہمارے اکثر ترقی پسندوں نے بغیر سوچے سمجھے مذہب کو اپنا مخالف بنا لیا۔اس میں انگریزوں کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔وہ سمجھتے تھے کہ کمیونزم کا مقابلہ کوئی فکری تحریک ہی کر سکتی ہے،چنانچہ انہوں نے ایک پلاننگ کے تحت اسلام اور کمیونزم کا تضاد پیدا کر دیاحالانکہ اسلام اور کمیونزم کے بنیادی عقائد اور اخلاقیات ایک دوسرے سے بہت قریب ہیں۔اقبال نے یونہی تو نہیں کہہ دیا تھا کہ نیست پیغمبر ولیکن در بغل دارد کتاب ۔۔۔عبید اللہ سندھی نے کہیں لکھا ہے کہ لینن اسلام کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے تھے اور سٹالن توبرطانیہ کے خلاف مسلمانوں کا ایک بلاک بنانا چاہتے تھے۔لیکن شاطر برطانیہ نے نہ صرف یہ بلاک نہیں بننے دیا بلکہ الٹا مسلمانوں کو کیمونسٹوں سے ایسا لڑایا کہ یہ لڑائی پھر مسلمان ہی نے لڑی۔انگریز کا یہ منصوبہ افغانستان میں جا کر مکمل ہوا۔ہمارے ترقی پسند عملی کی بجائے آئیڈیلسٹ تھے۔انہوں نے نہ تو یہاں کے ثقافتی مزاج کو سمجھا اور نہ مذہب کے گہرے اثرات کو محسوس کیا۔“
(ڈاکٹر رشید امجد کی خود نوشت تمنا بے تاب صفحہ نمبر ۱۳۱۔۱۳۰سے اقتباس)
سجاد ظہیر اس حقیقت کو مذہب کے وسیع تر مفہوم، روحانی حوالے سے بہت پہلے ان الفاظ میں بیان کر چکے تھے۔
” علم و فن ہنر،آرٹ ادب اور اخلاق کے وہ خزانے جو گذشتہ دوروں میں ہمارے اسلاف نے اپنی جسمانی، ذہنی اور روحانی کاوش سے جمع کئے ہیں وہ ہمارا سب سے بیش قیمت سرمایہ ہے۔“
اس وقت ایک طرف تو علی احمد فاطمی اور پروفیسر شہناز نبی جیسے ترقی پسند ناقدین ہیں جو ادب کی جدید تر صورت حال سے بھی با خبر ہیں ترقی پسند ادب کے معیارات اور قلم کی تہذیبی اقدار کو بھی ملحوظ رکھتے ہیں۔مذکورہ بالا ناقدین اور ان جیسے دوسرے نئے ناقدین کی تربیت اسی علمی و ادبی ماحول میں ہوئی ہے جو سجاد ظہیر کے ذریعے احتشام حسین سے رشید امجدتک اردو ادب میں ایک مستحکم روایت کے طور پر موجود ہے۔لیکن ان مثبت رویوں کے ساتھ ساتھ کہیں کہیں ایسی منفی مثالیں بھی موجود ہیں کہ جہاں خود کو نیا مارکسی نقاد سمجھنے والے بعض نوآموز ادب اور تہذیب سے بہت دورجا پڑتے ہیں۔اختلاف رائے،شدید نوعیت کا اختلاف رائے بھی تہذیب اور سلیقے سے بیان کیا جا سکتا ہے۔
میں اس سلسلہ میں خود اپنی چند تحریروں کے حوالے سے بات کرنا زیادہ بہتر سمجھتا ہوں۔فیض صاحب کے حوالے سے مجھے بارہا ایسا لکھنا پڑا جو ان کے شایانِ شان نہیں تھا،لیکن درپیش مسئلہ کی سنگینی کے باعث اس سے اغماض برتنا ادبی لحاظ سے مناسب نہ تھا۔سو میں نے وہ سب کچھ لکھا،لیکن اس لکھنے میں نہ صرف فیض صاحب کے مقام اور مرتبہ کو ملحوظ رکھا بلکہ اختلافی معاملہ کوتہذیب و شائستگی کے ساتھ پیش کیا۔جہاں کوئی نیا تحقیقی مواد سامنے آیا تو اس کا برملا اعتراف کیا۔اس سلسلہ میں تین مختلف معاملات کو یہاں بیان کر دینا مناسب سمجھتاہوں۔
فیض صاحب کی کتاب ”شام شہریاراں“میں رسول حمزہ کی سات نظموں کے اردو ترجمے شامل ہیں۔یہی ترجمے ظ۔انصاری کی کتاب ”سوویت یونین کے پندرہ شاعروں کا منتخبہ کلام“میں شامل تھے۔میں نے دستیاب مواد اور معلومات کی بنیاد پر اس پر ایک مضمون لکھا”رسول حمزہ کی نظموں کے تراجم:اصل ترجمہ نگار کون؟“۔اس مضمون میں اس توارد کی نشان دہی تو کی ہے لیکن فیض احمد فیض اور ظ۔انصاری میں سے کسی کو بھی نہ مطعون کیا،نہ کسی پر سرقہ کا الزام لگایا بلکہ اس یقین کے اظہار کے ساتھ کہ دونوں میں سے کوئی بھی ایسا سرقہ نہیں کر سکتا، ساری صورتِ حال پرحیرت کا اظہار کیا اور ترقی پسند محققین کو اس معاملہ میں توجہ کرنے کے لیے کہا۔ ترقی پسند دوستوں کو تو اس طرف توجہ دینے کی توفیق نہ ملی لیکن ڈاکٹر کرسٹینا اوسٹر ہیلڈ نے اس سلسلہ میں ظ۔انصاری کے ان الفاظ کی طرف توجہ دلائی:
”رسول حمزہ توف کے دوست فیض احمد فیض نے ان میں بعض کو اردو لباس عطا کیا تھااور ہم نے وہ بھی شامل کر لئے“۔
اس مبہم سے اعتراف میں ان نظموں کی کوئی نشان دہی نہیں کی گئی جن کا ترجمہ فیض احمد فیض نے کیاتھا۔اس کے باوجود جیسے ہی اس حقیقت کا علم ہوا میں نے فوراََ ایک اور مضمون لکھا اور اس میں واضح طور پر اعتراف کیا کہ:”رسول حمزہ کی متنازعہ سات نظموں کے ترجمہ نگار فیض احمد فیض ہی تھے ۔“
اگر کج بحثی کرکے شہرت حاصل کرنا مقصود ہوتا تو اسی بات کو لے بیٹھتا کہ ظ۔انصاری نے سرسری اور مبہم سا ذکر کیا ہے پورے طور پر کوئی حوالہ نہیں دیا۔پھر محض شہرت کمانے کے لیے ایک واضح سٹوری گھڑی جا سکتی تھی۔آج کے اسکینڈل بازی کے دور میں ایسی سٹوریز گھڑ لینا کوئی مشکل کام نہیں رہا۔یہاں صرف اپنے موقف کو واضح کرنے کے لیے دو تین سٹوریز میں سے ایک کومختصراً یہاں بیان کر دیتا ہوں۔
”جناب!فیض اور ظ۔انصاری دونوں ماسکو نواز تھے۔سوویت سرکار کے کارندے تھے۔وہاں سے حکم صادر ہوا کہ رسول حمزہ کی نظموں کے تراجم مختلف زبانوں میں کرائے جائیں۔ شعبہ اردو کی جانب سے اردو زبان کے لیے ممتاز ترجمہ نگار ظ۔انصاری کو منتخب کیا گیا۔انہوں نے ترجمے کر دئیے۔جب یہ ترجمے کچھ اوپر کے حکام تک پہنچے تو انہوں نے کہا کہ ظ۔ انصاری اچھے ترجمہ نگار ہےں لیکن مشہور آدمی نہیں ہےں،فیض شاعر بھی ہےں اور مشہور بھی۔اس لیے ان کا نام اردوترجمہ نگار کے طور پر دے دیا جائے۔حکم سن کر سب نے سرِ تسلیم خم کر دیا۔کس کی مجال تھی کہ فیصلہ کے خلاف کوئی بات کرتا۔سوویت یونین میں سارے عظیم انقلابی سر تسلیم خم کر لیا کرتے تھے،فیض صاحب نے بھی سرِ تسلیم خم کیا ۔یوں بیٹھے بٹھائے فیض روسی زبان سے اردو زبان میں ترجمہ کرنے والے ماہر بن گئے“۔
یہ سٹوری نہ صرف قرینِ قیاس لگتی ہے بلکہ اس میں جان بھی ہے۔اگر اسے اچھالا جاتا تو دائیں بازو کے ادیبوں کی ہمدردیاں آسانی سے مل جاتیں اور مل جل کر اتنا شور مچالیا جاتا کہ فیض کی بدنامی ہوتی نہ ہوتی ،اپنی شہرت میں چار چاند ضرور لگ جاتے۔لیکن میں نے ایسی کسی بھی اوچھی حرکت سے نہ صرف گریز کیا بلکہ بزرگوں کے ذکر پر ممکنہ حد تک ان کے ادب کو بھی ملحوظ رکھا۔یہ تو ہوئی فیض کی ترجمہ نگاری کے حوالے سے بات۔اب ان کی عمر کے آخری حصہ کی ایک نظم کے بارے میں اپنے ایک مضمون کا اقتباس پیش کرنا چاہوں گا ۔یہ مضمون پہلی بار ”تخلیق“ لاہور کے شمارہ ستمبر،اکتوبر ۸۸۹۱ء میں شائع ہوا تھا۔فیض احمد فیض نے اساتذہ کے اشعار سے جو براہ راست اکتساب کیا ہے، مضمون میں اس کا ذکر یوں کیا گیاتھا۔
” فیض کی آخری چند بڑی نظموں میں سے ایک نظم”مرے دل مرے مسافر“ کا ایک حصہ ملاحظہ فرمائیں:
سرِ کوئے ناشناساں ، ہمیں دن سے رات کرنا
کبھی اس سے بات کرنا، کبھی اس سے بات کرنا
جو ملے نہ کوئی پرساں، بہم التفات کرنا
تمہیں کیا کہوں کہ کیا ہے، شبِ غم بُری بُلا ہے
ہمیں یہ بھی تھا غنیمت جو کوئی شمار ہوتا
ہمیں کیا بُرا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا
اس نظم میںمصحفیاور غالب کی واضح گونج کے باوجود فیض نے پُرانے لفظوں میں نئی معنویت پیدا کردی ہے۔“(مضمون”اردو نظم روایت سے جدیدیت تک“،بحوالہ”حاصلِ مطالعہ“)
شاعری میں کہیں سے مصرعہ لیا جائے تو اسے کاماز میں دینے کی مستحکم روایت موجود ہے۔ایسی روایت کے ہوتے ہوئے فیض احمد فیض نے مصحفی اور غالب کے مصرعوں کو کاماز میں دینے کا تردد نہیں کیابس ہلکی سی کمی بیشی کے ساتھ انہیں اپنا بنا لیا۔لیکن میں نے اس بات کو ایک مہذب پیرائے میں نشان زد کیاہے۔
اور اب ایک تازہ ترین مسئلہ بھی پیش کیے دیتا ہوں۔پاکستان کے ایک اخبار کے ادبی ایڈیشن میںمیری طرف سے یہ خبر شائع ہوئی۔
فیض احمد فیض اور امریکی مفادات
” فیض احمد فیض ترقی پسند تحریک کے اہم ترین شاعر ہیں۔سوشلسٹ انقلاب کی جدو جہد کے لیے ان کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔راولپنڈی سازش کیس کے نام سے مشہور سوشلسٹ انقلاب کی ناکامی کے بعد انہیں ۱۹۵۱ءمیں قیدکی سزا ہوئی۔اس لحاظ سے فیض کی شخصیت امریکہ مخالف کے طور پر جانی جاتی ہے۔لیکن اب ۱۷اپریل ۲۰۱۳ءکو مبشر لقمان کے پروگرام” کھرا سچ“میں ایک حیران کن امریکی دستاویز سامنے آئی ہے۔۲۷جون ۱۹۵۴ءکی یہ امریکی دستاویز سیاست اوربیوروکریسی سے وابستہ اہم پاکستانی شخصیات کی لسٹ پیش کر رہی ہے،جن کی پروجیکشن امریکی مفادات کے لیے مفید ہے۔ ان ناموں میں سیاست دانوں اور بیوروکریٹس کو چھوڑ کرادب و صحافت سے وابستہ مشہور سوشلسٹ رہنما میاں افتخارالدین کا نام بھی شامل ہے جو خاصا حیران کن ہے لیکن ان سے بھی زیادہ حیران کن نام فیض احمد فیض کا ہے۔کیا گرفتاری کے بعد جیل میں ہی کہیں کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ طے پا گیا تھایا امریکہ ویسے ہی فیض احمد فیض کی پروجیکشن کو اپنے مفادات کے لیے بہتر سمجھ رہا تھا۔یہ امریکی ڈاکومنٹ مذکورہ پروگرام میں آسانی سے دیکھا جا سکتا ہے جو اس لنک پر دستیاب ہے۔
http://www.zemtv.com/2013/04/17/kharra-sach-with-mubasher-lucman-17th-april-2013/
اس سارے معاملہ کو سوویت یونین اور امریکہ کی سرد جنگ کے دور کے تناظر میں دیکھنا بے حد ضروری ہے۔یہ انکشاف فیض کے مداحوں سے سنجیدہ تحقیق کا تقاضا کر رہا ہے۔کیونکہ اس سے فیض احمد فیض کی نظریاتی اور اخلاقی پوزیشن مجروح ہو رہی ہے۔“(مطبوعہ روزنامہ صبح ایبٹ آباد۔”ادب نامہ“۲۵ اپریل ۲۰۱۳ء)
اس خبر کی اشاعت کے بعد بعض ترقی پسنداور بعض غیر ترقی پسند دوستوں نے اپنے اپنے طور پر ردِ عمل ظاہر کیا۔کچھ ان کا جواب دیتے ہوئے اور کچھ خود مزید سوچتے ہوئے اس حوالے سے چند نکات ذہن میں آئے،ان میں سے چند اہم نکات یہاں بیان کر دیتا ہوں تاکہ اس موضوع پر مزید مکالمہ اور تحقیق کی گنجائش نکل سکے۔
۱۔جس دن راولپنڈی میں انقلابی احباب کی میٹنگ ہوتی ہے،ریکارڈ کے مطابق اس میں فیض صاحب نے فوجی کاروائی کی مخالفت کی تھی۔اس میٹنگ کے بعد اسی روز کسی نے حکام بالا کو اس سازش کی خبر پہنچا دی اور اگلے روز ہی کاروائی کرکے انقلابیوں کو گرفتار کر لیا گیا۔آج تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ ترقی پسند انقلابیوں کی مخبری کس نے کی؟پاکستان میں اس سازش کیس کا جو ریکارڈ ہے وہ آج تک سامنے نہیں لایا گیا۔ہو سکتا ہے وہ ریکارڈ سامنے آئے تو مخبری کرنے والے کا نام سامنے آجائے۔تاہم امریکی دستاویز سامنے آنے کے بعد شک کی نظریں ایک بار تو فیض صاحب کی طرف بھی اُٹھتی ہیں۔
۲۔۴۵۹۱ءسے پہلے تک فیض صاحب ادبی حلقوں میں تو مقبول تھے لیکن عوامی سطح پر مقبول نہ تھے۔۴۵۹۱ء(امریکی ہدایت والے مراسلہ) کے بعدسے ہی ان کی عوامی مقبولیت ہونے لگی۔گلوکاروں کی آوازوں میں فیض کی شاعری کے گلوں میں رنگ بھرنے لگے،اور وہ عوام میں مقبول ہوتے چلے گئے۔
۳۔ یہ حقیقت ہے فیض صاحب کی شخصیت اتنی پُر اثر ہے کہ ان کو شک کی نظر سے دیکھتے ہوئے بھی آنکھ جھک جاتی ہے،لیکن تحقیقی معاملات میں محبت اور عقیدت کی بجائے حقائق کو اہمیت دینا پڑتی ہے۔جو امریکی، سوویت یونین کے پولٹ بیورو کی اہم ترین شخصیت گورباچوف تک کو اپنا گرویدہ بناسکتے ہیں ،ان کے لیے فیض احمد فیض شاید اتنا بڑا ٹاسک نہیں رہ جاتے۔خصوصاََ ایسے پس منظر کے ساتھ کہ وہ برٹش آرمی میں رہ چکے تھے اور وہاں برطانوی سامراج کے لیے فوج میں بھرتی ہونے کی تحریک دینے کے نغمات بھی لکھا کرتے تھے۔ان حقائق کے ساتھ یہ حقیقت بھی شامل کر لی جائے کہ آزادی کے بعد فیض صاحب جب انگلینڈ جاتے،اور اپنے پرانے فوجی افسر کو ملنے جاتے تو ہمیشہ اپنی فوجی وردی پہن کر جایا کرتے تھے۔
ایسے حقائق کو مدِ نظر رکھ کر اگر نئے سرے سے تحقیق کی جائے تو امریکی دستاویز کی حقیقت بہتر طورپر کھل کر سامنے آسکتی ہے۔فیض کے تعلق سے میری یہ ساری باتیں،یہ سارے حقائق شدید نوعیت کے ہونے کے باوجودادب اور تمیز کے دائرے میں رہ کر لکھے گئے ہیں،اسی لیے ان سے اختلاف رکھنے والے ادیب بھی مجھ پر تہذیب کے دائرے سے باہر جانے کا الزام نہیں لگاسکیں گے۔
یہاں مجھے ممتاز ترقی پسند نقاد محمد علی صدیقی شدت سے یاد آرہے ہیں۔علامہ اقبال کا وہ تاریخی خط پہلی بار منظرِ عام پر آیاتھا جس میں انہوں نے اپنے تاریخی خطبہ الہٰ آباد میں مذکور خودمختاری کی وضاحت کرتے ہوئے صاف لکھا تھا کہ وہ ہندوستانی فیڈریشن کے اندر رہتے ہوئے خود مختاری مانگ رہے ہیں۔ اس پر ظاہر ہے پاکستان کے بعض حلقوں کی طرف سے شدید ردِ عمل ظاہر ہونا تھا،سو ہوا۔تب محمد علی صدیقی نے بڑے علمی وقار کے ساتھ کہا تھا کہ ہمارے لیے تاریخی حقائق محترم ہونے چا ہئیں اور انہیں کی روشنی میں ہی بات کی جانی چاہیے۔یہاں بھی کسی بڑے سے بڑے تنازعہ کی صورت میں تاریخی حقائق کی پرکھ کی جائے اور پھر انہیں محترم مان کربات ادب اور سلیقے کے ساتھ کی جائے تو علمی مکالمہ آگے بڑھ سکتا ہے۔تحقیق سے بعض مخفی حقائق سامنے لائے جا سکتے ہیں۔
بے شک اردو ادب میں بعض اوقات مختلف ادیبوں اور گروہوں کے درمیان شدید محاذ آرائی ہوئی ہے،اس کے نتیجہ میں ”مار دھاڑ سے بھرپور“معرکہ آرائیاںتو ہوئی ہیں لیکن ان میں علمی معاملات خال خال ہی دکھائی دیتے ہیں۔علمی معاملات میں اتفاق رائے ہو یا اختلاف رائے ،اظہار میں ہمیشہ ایک سلیقہ،ایک تہذیب اور مکالمہ کی مسلسل گنجائش موجود رہتی ہے اور رہنی چاہیے۔
اس ساری تمہید طولانی کے بعد مجھے یہ کہنا ہے کہ ترقی پسند تحریک کے حوالے سے بھی اور مارکسی تنقید کے حوالے سے بھی اب چند ایسے نئے لکھنے والے سامنے آرہے ہیں جن کا انداز نگارش نہ صرف جارحانہ ہے بلکہ اندازِ تخاطب بھی بد تہذیبی پر مبنی ہے۔ان نئے لکھنے والوں کا ترقی پسند تنقید کی صحت مند علمی روایت سے دور کا بھی واسطہ دکھائی نہیں دیتا۔اس کی وجہ بھی موجود ہے کہ ایسے لکھنے والوں نے اردو ادب میں ترقی پسند تحریک کی روایات کو پڑھا ہی نہیں۔مغربی دنیا سے جو کچا پکا پڑھنے کو مل گیا،اسی پر انحصار کرکے ،ہر کسی پر لٹھ لے کر چڑھ دوڑے۔سو ضرورت اس امر کی ہے کہ ترقی پسند نقادوں اور ادیبوں کی جانب سے ایسے غیر مہذب لکھنے والوں کی اصلاح کی طرف توجہ کی جائے۔انہیں سجاد ظہیر سے لے کر شہناز نبی تک ترقی پسند تنقید کی صحت مند روایت کا احساس دلایا جائے۔اگر وہ پھر بھی ”زباں بگڑی سو بگڑی تھی،خبر لیجیے دہن بگڑا“کی تصویر بنے رہتے ہیں تو ممتاز ترقی پسندوں کو ایسے مارکسی نقاد کہلانے والوں سے اپنی بے زاری کا کھل کر اظہار کرنا چاہیے۔ورنہ یہ نوآموزدرسی نوعیت کے نقاد ترقی پسند تحریک اور تنقید کے لیے ماضی کی غلطیوں کی طرح حال اور مستقبل کی مستقل غلطی بن کر رہ جائیں گے۔
آخر میں ادب میں مقصدیت کے موضوع پر ڈاکٹر وزیر آغا کی ایک تحریرکا اقتباس دے کر اپنا مضمون مکمل کرتا ہوں۔
”ادب کبھی بے مقصد نہیں ہو سکتا۔اگر اخلاقیات کا ایک اپنا مقصد ہے اور سیاسیات کا اپنا! اسی طرح اگر کاروبار،زراعت حتیٰ کہ ورزش اور کھیل تک کے اپنے اپنے مقاصد ہیں تو کوئی وجہ نہیںکہ ادب کا بھی ایک اپنا مقصد نہ ہو۔مگر یہ مقصد زندگی کے باقی شعبوں کے مقاصد سے قطعاََ جدا ہے اور جمالیاتی تسکین کے ذریعے تزکیۂ نفس پر منتج ہوتا ہے۔ ادب اپنے خالق اور قاری دونوں کے جذباتی تشنج کو فرو کرکے انہیں ایک ارفع تر انسانی سطح پر لے آنے کی کوشش کرتا ہے اور اس سے بڑا مقصد اور کیا ہو سکتا ہے؟۔کیسی عجیب بات ہے کہ ادب کو اس کی اصل کارکردگی اور مقصد سے ہٹا کر بعض دوسرے مقاصد کے لیے آلۂ کار بنانے کی کوشش کی جائے۔ضمناََ یہ بھی عرض کر دوں کہ ادب کی تخلیق کا عمل ایک قطعاََ آزاد عمل ہے۔اسے اگر کسی مینی فیسٹو کے تابع کر دیا جائے تو یہ فی الفور رُک جائے گااور ادب کے بجائے اشتہارات چھپنے لگیں گے۔ “
(ادب اور مقصدیت از ڈاکٹر وزیر آغابحوالہ دائرے اور لکیریں)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یونیورسٹی جرنل”دستاویز“کلکتہ۔شمارہ دسمبر ۲۰۱۳ء۔ترقی پسند تنقید نمبر