سید محمود الحسن
ترقی پسند ادب کے بنیادی مقاصد کا سرسری طور سے تجزیہ کرنے پر اِن پہلوؤں کو آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے کہ یہ اس سلسلہ کی ایک کڑی تھی جس میں ادب کو زندگی کا ایک شعبہ قرار دیا گیا تھا اور ادبی تخلیق خالص تخیل پرستی اور عینیت پسندی سے الگ ہونے لگی، ادب میں زندگی کی طرف توجہ دینے کا رواج تیزی سے بڑھنے لگا۔ اس نقطۂ نظر میں اس بات پر خاص طور سے زور دیا گیا کہ انفرادی زندگی سماجی ماحول کی پابند ہے اور جس طرح سماجی طاقتیں حیات کے ہر شعبہ کو متاثر کرتی ہیں ادب بھی اس کا ایک عکس ہونے کی وجہ سے اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔وہ ادب کو جذبات کی مصوری مانتے ہوئے بھی اس کے قائل ہیں کہ ادیب اپنے ذاتی اور انفرادی جذبات کی نہیں، سارے ماحول کے جذبات کی ترجمانی کرتا ہے جس میں سارے عوام کی آواز سنائی دیتی ہے، معاشرتی قوانین اور اجتماعی قدروں کا پتہ چلتا ہے اور ادب کے مقاصد ماحول کے تقاضوں کی عکاسی کرنے لگتے ہیں جس میں مادی تبدیلیوں کا بہت بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔یعنی جب اس نظریہ کی روشنی میں ادب کو زندگی کی علامت مانا گیا تو اس میں ماحول اور معاشرت کے تمام تغیرات اور انقلابات اسی شکل میں پیش کئے گئے جس میں زندگی کے تمام حرکات کی عکاسی ہوسکے۔اس طرح ایک طرف ادب میں خارجی زندگی کے مسائل پر زیادہ زور دیا گیا دوسری طرف انفرادی اور ذہنی تاثرات کو بھی مادی ذرائع کی ایک شکل قرار دیا گیا، فہم و ادراک سب کو اس کا پابند سمجھ لیا گیا۔جب ادبی تخلیق کو خارجی اور مادی زندگی کی حرکات کا ایک شعبہ سمجھ لیا گیا تو اس طرح ترقی پسند ادب میں طبقاتی کشمکش، معاشرتی ہیجان اور انسانی زندگی کی تمام تبدیلیوں کو شامل کرنا لازمی جز بن گیا، یعنی ادب انفرادی زندگی کا ترجمان نہیں بلکہ اجتماعی شعور کا عکاس بن گیا، اس کے ذریعہ زندگی کو بہتر بنانے پر توجہ بھی کی گئی اور زندگی کی کشمکش کی ترجمانی بھی۔ مختصراً پروفیسر عبد العلیم کے الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ ’’ وہ ادب جو ہم میں تنقید کی قوت پیدا کرتا ہے، جو عقل کی روشنی میں ہمارے رسم و رواج کو جانچتا ہے، جو تنظیم اور عمل میں ہماری مدد کرتا ہے، ترقی پسند ہے۔‘‘
ترقی پسند ادب کے ان اصولوں کے زیر اثر سماجی حقیقت نگاری پر بھی خاص توجہ دی گئی۔سیاسی زندگی کے انقلابات ، طبقاتی کشمکش، تہذیبی زندگی کے امتیازی پہلو، ان تمام عناصر کو اجتماعی شعور کے نتیجہ کے لحاظ سے پیش کیا گیا اور اس بات پر زور دیا گیا کہ ادب کو انفرادی مسائل اور کشمکش کے بجائے زندگی کی توجیہہ و تشریح کو اہمیت دینی چاہئے، واقعیت اور حقیقت کو اس لئے اہمیت دی گئی کہ تخئیل کی بے راہ روی زندگی کے مسائل کو نظر انداز نہ کردے۔
یہاں یہ مقصود نہیں ہے کہ ترقی پسند ادب کی تمام خصوصیات کی طرف توجہ دلائی جائے بلکہ یہ ذہن نشیں کرانا ہے کہ شعر و ادب کے مختلف شعبوں کی طرح تنقید میں بھی اِن اصولوں کو پیشِ نظر رکھ کر ایسے نظریات کی تشکیل ہوئی جِس سے بہت سے نئے رجحانات سامنے آئے اور ادب کی اردو تنقید میں بھی غیر معمولی اضافہ ہوا۔ترقی پسند تنقید کے نظریات میں سب سے زیادہ زور اس بات پر دیا گیا کہ ادیب و شاعر کے جذبات کسی الہامی قوت کا نتیجہ نہیں ہیں بلکہ ان کے سارے احساسات، تاثرات اور شعور و ادراک کی تخلیق سماج اور ماحول کے زیر اثر ہوتی ہے۔جیسے جیسے ذہنی اور شعوری عناصر اپنے گِردوپیش کے تعلق سے تبدیل ہوتے رہتے ہیں، اسی لحاظ سے فنی دلکشی اور ذوق کا احساس بھی بدلتا جاتا ہے۔ترقی پسند نقادوں نے ادب سے یہ کام لیا کہ اس کے ذریعہ زندگی کو بہتر بنانے کی کوشش کی جائے، سماجی زندگی کی ہر کمزوری، اس کی تلخی، گھناونے پن کی ہر بنیاد اور طبقاتی کشمکش کے ہر پہلو کو اجاگر کیا جائے تاکہ زندگی کے ہیجان کی کیفیت کو پیش کرکے اِن میں افادیت اور اعلا مقاصد شامل کئے جائیں۔اس طرح اس تنقید میں، ایک طرف فن کو محض داخلی کیفیات کے اظہار تک محدود نہیں رکھا گیا بلکہ خارجی مسائل بنیادی شکل اختیار کرگئے، دوسری طرف حقیقت پسندی اور افادیت کو زیادہ جگہ دی گئی۔ان کے خیال میں شعر و ادب زبان کا مجموعہ ہوتا ہے اورزبان سماجی تخلیق ہے جس کے ذریعہ ایک دوسرے کوسمجھنے میں مدد ملتی ہے، اس لئے فن کا مطالعہ سماجی مطالعہ سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ مشہور مارکسی نقاد کرسٹو فرکاڈویلؔ اسی چیز کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ
’’فن کو عینیت کی نظر سے دیکھنے والے اسے داخلی محرکات کا عکس مانتے ہیں۔۔۔ان کا یقین ہے کہ جمالیاتی ذوق ہی سب کچھ ہے۔۔۔لیکن فن کی تخلیق کا مقصد محض ذوقِ جمال اور احساسات کی تشفی نہیں ہوتا بلکہ جہاں اس میں یہ عنصر شامل ہوا کہ فن کی تنقید کی جائے تو اس کا دائرہ محض اس فن پارے تک محدود نہیں رہ جاتا بلکہ وہ باہری دنیا کی طرف دیکھنے لگتا ہے۔‘‘
چنانچہ سماجی زندگی اور خارجی مسائل پر توجہ دینے کا نتیجہ تھا کہ ان نقادوں نے انفرادی اور داخلی زندگی اور جذباتی و تاثراتی نظریات کی سخت مخالفت کی۔ ان کے خیال میں شاعر جب غم و الم کی مصوری کرتا ہے تو یہ اس کا ذاتی غم نہیں ہوتا بلکہ شعور و جذبہ کی ہر تحریک میں ماحول کے مسائل اثر انداز ہوتے ہیں۔
ترقی پسند تنقید کے جن اصولوں کی طرف دھیان دلایا گیا ان کو عملی طور پر پیش کرنے میں بعض نقادوں نے زیادہ شدت برتی اور بعض اسے اعتدال کے حدود کے اندر رکھ کر تجزیہ کرنے کے قائل رہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اپنے تنقیدی خیالات کے لحاظ سے ترقی پسند نقاد کئی گروہوں میں تقسیم ہوگئے۔ ایک گروہ وہ تھا جو خالص سیاسی نقطۂ نظر سے اشتراکی اصولوں سے متاثر ہوکر خیالات کا اظہار کررہا تھا، دوسرا گروہ پارٹی کی بنیاد پر تو نہیں بلکہ عملی حیثیت سے ادب کے تجزیہ میں مارکس کے اصولوں کو اپنانے کا قائل تھا۔ البتہ تھوڑے تھوڑے فرق کے ساتھ دو گروہ ایسی تنقید سے متعلق رہے جنھوں نے صالح اور صحت مند ادب کی تخلیق پر زور دیا۔ ان ترقی پسند نقادوں کا ایک سلسلہ وہ ہے جنھوں نے بنیادی طور پر ادب اور زندگی کے رشتے کو نامیاتی انداز میں تسلیم کیا اور ادب کو سماجی زندگی کا عکس قرار دیا۔یہ زندگی انفرادی بھی ہے اور اجتماعی بھی۔ اسی سے ملتا جُلتا ایک گروہ ان نقادوں کا بھی ہے جو کسی نہ کسی شکل میں اس کے قائل ہیں کہ ادب انسان کی زندگی میں حسن و لطافت پیدا کرنے کی شعوری کوشش کرسکتا ہے یا کرتا ہے اس میں انفرادی، اجتماعی،قومی اور بین الاقوامی زندگی کے وہ تمام صالح اور صحت مند پہلو شامل ہوجاتے ہیں جن سے زندگی بہتربن جاتی ہے۔
ترقی پسند نقادوں میں جن کو خاص طور سے اہمیت حاصل ہے ان میں احتشام حسین، مجنوں گورکھپوری، ممتاز حسین، عبد العلیم، علی سردار جعفری، محمد حسن، سید محمد عقیل، قمر رئیس، محمد علی صدیقی، وغیرہ شامل ہیں۔اور ان کے علاوہ بعض حیثیتوں سے سب سے اہم نام سجاد ظہیر کا ہے۔
سجاد ظہیر نے تنقید کے نظریات یا عملی تنقید پر کوئی باقاعدہ کتاب نہیں لکھی نہ انھوں نے تنقید نگاری پر زیادہ توجہ دی لیکن ترقی پسند تحریک کے اصولوں کی اشاعت اور اس کی بنیاد پر ادبی تخلیقات کے متعلق بعض مضامین میں جن مسائل کا اظہار کیا گیا ان کے ذریعہ ان کے خیالات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ان متفرق مضامین کے علاوہ’’روشنائی‘‘ اور ’’ ذکر حافظ‘‘ کے مطالعہ سے بھی بہت سے بنیادی تصورات کی وضاحت ہوجاتی ہے۔
’’ روشنائی ‘‘ میں اس پس منظر کا جائزہ لیا گیا ہے جس کے نتیجہ میں ترقی پسند ادب کی ضرورت کا احساس پیدا ہوا۔ ان کے خیال میں مذہبی اور تہذیبی احیائیت کا جذبہ، اصلاحی و تعلیمی تحریکوں کے اثرات، سامراجی ملکوں اور رجعت پرست طاقتوں کا سیاسی غلبہ، ان تمام مراحل سے گذرنے کے بعد جب دانشوروں نے سیاسی اور عوامی جدوجہد کے ساتھ صنعتی مزدوروں کی بیداری کے لئے سوشلزم کے نظریات کو اپنایا تو ادب میں بھی نئے اثرات کی ابتدا ہوئی۔
سجاد ظہیر نے مادی حالات زندگی کو انسانی زندگی کے ہر شعبہ کے لئے لازمی قرار دیا ہے۔ ان کے خیال میں اس کی شمولیت کے بغیر انسانیت کی ترقی اور بہتری ممکن نہیں جو ادب کا بنیادی مقصد ہے۔قدیم ادبی روایات کے رد و قبول کے لئے بھی انھوں نے اسی معیار کو سامنے رکھنے پر زور دیا ہے۔ وہ ان ادبی قدروں کو اپنانے کی تلقین کرتے ہیں جن سے زندگی کا حسن و شعور بڑھتا ہے، جن میں فکری بلندی اور شعور و فہم کو جِلا دینے کی کوشش کی گئی ہے، جن سے انسانی ماحول کو حسین سے حسین تر اور لطیف سے لطیف تر بنانے کا پیام ملتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:۔
’’البتہ علم و فن ہنر،آرٹ ادب اور اخلاق کے وہ خزانے جو گذشتہ دوروں میں ہمارے اسلاف نے اپنی جسمانی، ذہنی اور روحانی کاوش سے جمع کئے ہیں وہ ہمارا سب سے بیش قیمت سرمایہ ہے۔‘‘
ان اصولوں کے علاوہ سجاد ظہیر نے ادبی تخلیق میں نوع انسانی کی ہمدردی، فہم و شعور کی پابندی کے ساتھ ادیب کے اظہار خیال کی آزادی اور شعر و ادب میں زندگی کے حقائق کی مصوری پر زور دیا جنھیں سب ہی ترقی پسند نقادوں نے اپنی عملی تنقید کے ذریعہ آگے بڑھایا۔ انھوں نے ادب کو محض سیاسی پروپیگنڈہ اور اشتراکیت کے آلۂ کار کی حیثیت سے استعمال نہیں کیا بلکہ اس کی صنّاعانہ خوبیوں کو بھی قائم رکھنے پر توجہ دلائی ۔ ایک جگہ لکھتے ہیں:۔’’ شاعر کا تعلق جذبات کی دنیا سے ہے، اگر وہ اپنے تمام سازوسامان ، تمام رنگ و بو تمام ترنم و موسیقی کو پوری طرح کام میں نہیں لائے گا، اگر فن کے اعتبار سے اس میں بھونڈا پن ہوگا، اور اگر وہ ہمارے احساسات کو لطافت کے ساتھ بیدار کرنے میں قاصر ہوگا تو اچھے سے اچھے خیال کا وہی حشر ہوگا جو دانے کابنجرزمین میں ہوتا ہے۔‘‘
ان خیالات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ وہ ترقی پسند تنقید میں انتہا پسندی کے بجائے ان عناصر کی اہمیت کے قائل ہیں جن سے عوام کسی ادب پارہ میں دلچسپی حاصل کرسکیں، جو ادب کے صحت مند اور مفید رجحانات کا پتہ دیتا ہے۔مجازؔ کے مجموعہ آہنگ کے دیباچہ یا کیفی اعظمی کی شاعری کا تجزیہ کرتے ہوئے ان کے انھیں نظریات کی وضاحت ہوتی ہے۔
’’ ذکر حافظ کے مطالعہ سے بھی یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ شدت پسند کو پسند نہیں کرتے بلکہ وہ اس کے قائل ہیں کہ ’’شعر کے عقائد، اس کا فلسفہ اس کا نظریہ حیات اپنے زمانے اور اپنی قوم کے عقائد، علم اور فلسفے سے مربوط ہوتا ہے۔۔۔ضرورت اس کی ہے کہ ہم تفصیل سے اس کے کلام کا مطالعہ کریں اور دیکھیں کہ آیا اس کا تاثر منفی یا فراری ہے یا شاعر نے اپنے زمانے کے حقائق اور اس کے حسن و قبح کو اس طرح دیکھا اور سمجھا ہے جس سے ہمارے ۔۔۔شعور میں اضافہ ہوتا ہے، زندگی میں ہماری دلچسپی کو بڑھاتا ہے اور ہماری روح کو جہدِ حیات میں حصہ لینے کے لئے متوازن اور مستعد کرتا ہے۔
ان کے لئے شاعری کا منصب یہ ہے کہ وہ ہمارے ذہن کے ہر گوشوں میں حقیقت اور سچائی کی روشنی ڈالے، روح اور احساس کے تاروں کو چھیڑ کر انھیں اس طرح مترنم کرے کہ انسانی خصائص زیادہ اجاگر ہوں اور ہم پاکیزہ اور لطیف طور سے محظوظ ہوں۔وہ اشاریت پسندی کے رجحان کو اس لئے غیر صحت مند سمجھتے ہیں کہ ’’ یہ شاعری کو محض ماورائی اور مابعد الطبیعاتی حیثیت دے کر ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی سے دور ایک ایسی موہوم اور باطنی سطح پر لے جانے کی سعی کرتا ہے جو اس نظرئیے کے ماننے والوں کے نزدیک سچائی اور حسن سے زیادہ قریب ہے۔‘‘
یہاں تفصیل میں جانے کا موقع نہیں ہے لیکن اس حقیقت کے اعتراف کے بغیر نہیں رہاجاسکتا کہ سجاد ظہیر نے بیسویں صدی کی مختصر سی مدت میں شعر و ادب کے لئے جو راہ متعین کی وہ آج بھی روشن و تابناک ہے اور اس کو اپنانے کے لئے شاعر، ادیب اور فنکار آج بھی فخر کرتے ہیں اور مستقبل میں اس کی عظمت قائم رہے گی۔ہم ان کی پیدائش کی صدی تو منا رہے ہیں پھر بھی ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کے نظریات کی اشاعت کے لئے کوئی کوتاہی نہ کریں ۔یہی سب سے بڑا خراجِ عقید ت ہوگا۔
٭٭٭
’’دُنیا میں ہر گروہ اور ہر شخص اپنی اپنی جگہ خود کو سچا سمجھتا ہے۔ ایساسمجھنے میں کوئی حرج نہیں۔ خرابی وہاں پیدا ہوتی ہے جب اپنی سچائی کا اعلان کرنے والا ساتھ ہی دوسروں کو جھوٹا بھی قراردے دیتا ہے۔ ہر شعبۂ حیات میں ہرگروہ اپنے حق بجانب ہونے کے دلائل بھی رکھتا ہے اور دوسروں کے جھوٹا ہونے کے ثبوت بھی پیش کرتا ہے۔ ایسی صورتحال میں یہ فیصلہ کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو جاتا ہے کہ ہم کسے جھوٹاکہیں اور کسے سچا سمجھیں۔ شاید یہ معاملہ کچھ ایسے ہی ہے کہ جب کوئی خود کو سچا کہتا ہے تو گویا اپنے خوبصورت ہونے کا اعلان کرتا ہے لیکن پھر ساتھ ہی دوسروں کو بدصورت بھی قرار دیتا ہے۔ اصولاً کسی کو اپنی خوبصورتی کے ثبوت کے لئے دوسروں کی بدصورتی کو نمایاں کرنے کی ضرورت نہیں ہونی چاہئے۔ اگر آپ خوبصورت ہیں تو کسی کی بدصورتی کی نشاندہی کئے بغیر بھی آپ خوبصورت ہیں، لیکن اگر آپ بدصورت ہیں تو بے شک سارے جہان کی بدصورتی ثابت کردیجئے اس سے آپ کا خوبصورت ہونا ثابت نہیں ہوسکے گا۔ چونکہ ہم اصلاًسچائی کی بات کر رہے ہیں اس لئے مختلف گروہوں اور افراد کی سچائیوں کے بارے میں کہہ سکتے ہیں کہ ہر کسی کا اپنا اپنا سچ ہے اور ہر کسی کو اپنے اپنے سچ کی حفاظت کرنی چاہئے۔ نظریاتی سچ کی حفاظت نظریات پر عمل پیرا ہونے سے ہوتی ہے۔
۔۔۔۔آئینے کو ہمارے ہاں سچ کی بڑی علامت بنالیاگیا ہے اسی لئے ہر کوئی خود آئنہ دیکھنے کی بجائے دوسروں کو آئنہ دکھانے میں لگا ہوا ہے۔ بے شک عام طور پر آئینہ جو کچھ دیکھتا ہے وہی ہمیں دکھادیتا ہے۔ اس لحاظ سے آئنہ سچا بھی ہے لیکن کچھ اتنا زیادہ بھی سچا نہیں ہے۔ مثلاً کبھی کوئی تحریر آئینے کو دکھائیے، اچھی بھلی اُردو کو عبرانی تحریر بنا کر دکھادے گااور عبرانی بھی ایسی جو عبرانی کے استادوں کے پلّے بھی نہ پڑے۔ پھر ایسے آئینے بھی ہیں جو اچھی بھلی صورت کو بگاڑ کر دکھاتے ہیں۔ گورے چٹے رنگ کو کالا کرکے پیش کردیتے ہیں۔‘‘(انشائیہ اپنا اپنا سچ سے اقتباس
مطبوعہ کلیات حیدر قریشی عمرِ لاحاصل کا حاصل صفحہ نمبر۲۳۰)