’’جوش بانی‘‘ کا
ترقی پسند نظم نمبراور میرا جی
ڈاکٹر علی احمد فاطمی ایسے ترقی پسند نقاد ہیں جن کی سوچ اور اپروچ میں ایک توازن ملتا ہے۔اپنے ترقی پسند خیالات کے ساتھ وہ ادب کو اس کے مجموعی تناظر میں دیکھتے ہیں۔ادب کے تئیں ان کے اس رویے نے عمومی طور پر انہیں ادبی دنیا میں نہ صرف عدم توازن کا شکار ہونے سے بچائے رکھا بلکہ ان کی ترقی پسند سوچ میں ایک توازن بھی قائم کر دیا ۔ترقی پسند تحریک کی ابتدا ،عروج،زوال سے لے کر اب تک کے منظر نامہ پر ایک سر سری سی نظر ڈالیں تو صاف دکھائی دیتا ہے کہ یہ تحریک اپنی بہت ساری ادبی خوبیوں کے باوجود اپنے کارندوں کی مارکسسٹ سخت گیری اورفکری سطح پر متشددانہ رویے کی وجہ سے زوال کا شکار ہوئی۔سخت گیر ترقی پسندوں نے جو زیادہ تر مارکسزم کے کچے پکے مطالعہ سے دانشور بن بیٹھے تھے،ادب کو محض آلۂ کار سمجھ لیا۔ایسے غیر تخلیقی اذہان نے تخلیقی عمل کے اسرار اور اس کی پیچیدگیوں کو بھی سرسری طور پر لیا اور اپنے نظریات کو عقیدے کی متشددانہ حد تک پہنچا دیا۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تحریک کے تخلیق کار بھی اسی رو میں بہہ نکلے۔چنانچہ کبھی کسی نے احسن فاروقی کو گریبان سے پکڑ کر اسٹیج سے نیچے گرایا تو کبھی منٹو اور اسی طرح کے دوسرے تخلیق کاروں کو اپنے رسائل میں چھاپنے سے روک کرسوشل بائیکاٹ کا اعلان کیا گیا۔کبھی فیض میلہ میں احمد ندیم قاسمی جیسے ترقی پسند کو بھی ہوٹ کرکے مشاعرہ پڑھنے سے روک دیا گیا۔یہ متشددانہ رویوں کی چند سرسری سی مثالیں ہیں۔اس کا نقصان مخالفین کو اتنا نہیں ہوا جتنا خود ترقی پسندوں کواور ان کی اپنی تحریک کو نقصان ہوا۔ترقی پسند تحریک کے تنظیمی زوال کے بعد ترقی پسند تخلیق کاروں اور دوسرے دانشوروں نے سنجیدگی کے ساتھ تحریک کی غلطیوں کا جائزہ لیا اور جہاں تک ممکن ہو سکا اصلاحِ احوال کی کوشش کی۔علی احمد فاطمی کو میں ایسے دانشوروں میں شمار کرتا ہوں جنہوں نے تحریک کی غلطیوں کا ادراک کر کے احسن طور پر ان غلطیوں کی تلافی اور اصلاح کی کوشش کی۔
جوش و فراق لٹریری سوسائٹی،ا لہٰ آباد کے زیر اہتمام ایک ادبی رسالہ ’’جوش بانی‘‘وقتاَ فوقتاَ شائع ہوتا ہے۔اس کے مدارالمہام علی احمد فاطمی ہیں۔’’جوش بانی‘‘کا شمارہ نمبر۵۔۶ جولائی ۲۰۱۰ء تا جون ۲۰۱۱ء ترقی پسند نظم نمبر کے طور پر شائع کیا گیا ہے ۔اس نظم نمبرکو دیکھ کر میری ان تمام باتوں کی تصدیق ہوتی ہے جن کا میں اوپر ذکر کر چکا ہوں۔ علی احمد فاطمی کے بے حد اہم اداریہ کے ساتھ ترقی پسند ادب اور ترقی پسند شاعری کے بارے میں محمد حسن،سید محمد عقیل،صدیق الرحمن قدوائی،شارب ردولوی،عتیق اللہ،اقبال حیدر،ابن کنول اور علی احمد فاطمی کے آٹھ مضامین شامل ہیں۔ان میں ترقی پسند ادب اور خصوصاَ ترقی پسند شاعری کے مختلف زاویوں پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔اس نمبر کا اہم حصہ اوربنیادی شناخت قرار پانے والا حصہ نظموں کے تجزیاتی مطالعہ پر مشتمل ہے۔اس میں ۵۹ شاعروں کی ۷۱ نظموں کا تجزیاتی مطالعہ یکجا کیا گیا ہے۔اداریہ اور مضامین کا حصہ ۱۱۶ صفحات پر مشتمل ہے،جبکہ نظموں کے تجزیاتی مطالعہ کا سلسلہ صفحہ نمبر ۱۱۷ سے لے کر صفحہ نمبر ۵۲۷ تک پھیلا ہوا ہے۔اس نمبر کی پہلی خوبی تو یہ ہے کہ اداریہ میں ڈاکٹر علی احمد فاطمی نے فراخدلی کے ساتھ یہ اعتراف کیا ہے ’’بہت پہلے میں نے میرا جی کی کتاب اس نظم میں پڑھی تھی جو بہت اچھی لگی تھی،بس اسی طرز پر ترقی پسند نظم اور ان کے تجزیوں کا خاکہ بنا ڈالا‘‘یہ روایتی ترقی پسندوں سے ہٹ کر آزادانہ علمی و ادبی کام کرنے والوں کے کام کے ایماندارانہ اعتراف کی ایک جہت ہے۔وگرنہ عمومی طور پر ترقی پسندوں کی طرف سے میرا جی کو برا بھلا ہی کہا جاتا تھا۔رجعت پسند کی روایتی گالی جو مارکسزم کا سطحی مطالعہ کرنے والے ہر کسی کو منہ بھر کر دے دیا کرتے ہیں،میرا جی کو بھی دی جاتی رہی۔لیکن آج سنجیدہ اور پڑھے لکھے ترقی پسندوں میں یہ رویہ سامنے آنے لگا ہے کہ وہ نظریاتی تشدد کی بجائے دوسروں کی بات اور کام کی بھی قدر کرنے لگے ہیں۔یہ ایک صحت مند تبدیلی ہے ،جس کا خیر مقدم کیا جائے گا۔
تجزیاتی مطالعہ کے لیے منتخب کی گئی نظموں میں شاعروں کے انتخاب میں بھی کھلے دل کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔علامہ اقبال نے تو ترقی پسند تحریک کے آغاز سے بھی پہلے چند ایسی شاندار نظمیں لکھ دی تھیں جو آج بھی ترقی پسند شاعری کے لیے مثالی نمونہ قرار دی جا سکتی ہیں۔چنانچہ علامہ اقبال کی دو نظمیں بھی تجزیاتی مطالعہ میں شامل کی گئی ہیں،اختر شیرانی سے لے کر میرا جی تک مختلف الجہات لیکن اہم اردو شعراء کو بھی اس حصہ میں شامل کیا گیا ہے۔ میرا جی کے لکھے ہوئے جوش ملیح آبادی اور ن م راشد کی نظموں کے دو تجزیے بھی شامل کیے گئے ہیں۔ اور میرا جی کی نظم’’کلرک کا نغمۂ محبت‘‘کا تجزیاتی مطالعہ کراکے اسے بھی شامل کیا گیا ہے۔
علامہ اقبال،جوش ملیح آبادی،اختر شیرانی،فراق گورکھپوری،ن م راشد،میرا جی،فیض احمد فیض ، مخدوم محی الدین،سجاد ظہیر،علی سردار جعفری،معین احسن جذبی،مجروح سلطان پوری،ساحر لدھیانوی ، اسرار الحق مجاز ، احسان دانش،جمیل مظہری،مجنوں گورکھپوری،پرویز شاہدی،وامق جونپوری،مسعود اختر جمال،احمد ندیم قاسمی،سلام مچھلی شہری،اخترالایمان،جاں نثار اختر،کیفی اعظمی جیسے معتبر ناموں سے لے کر آج کے ندا فاضلی،جاوید اختر اور شاہد ماہلی تک شاعروں کی ایک کہکشاں ہے جو اس نمبر میں جگمگا رہی ہے اور جن کی نظموں کے تجزیوں سے ترقی پسند افکار کی توثیق کی جا رہی ہے۔ایک کمی ہے کہ ظہیر کاشمیری سے لے کر احمد فراز تک پاکستان کے کئی معتبر ترقی پسند شاعر اس نمبر میں دکھائی نہیں دے رہے۔ڈاکٹر علی احمد فاطمی نے اس کا اعتراف بھی کیا ہے کہ ’’پاکستان کے سبھی ترقی پسند شاعروں کو ہم نہیں لے سکے جس کا ہمیں افسوس ہے۔مواد کی فراہمی مسئلہ بنی رہی‘‘
ڈاکٹر علی احمد فاطمی کے اداریہ کے ان اقتباسات سے ان کے موڈ اورفراخدلانہ طریق کار کے بارے میںاندازہ کیا جا سکتا ہے۔
’’قمر رئیس کہا کرتے تھے کہ ادب میں نظریاتی تشدد نقصان زیادہ پہنچاتا ہے اور دائرہ کو محدود کرتا ہے۔فکر میں نرمی اور لچک ہونی چاہیے جو قمر رئیس میں تھی اور میں بھی اس کا قائل ہوا اور اسی کا فائدہ اٹھایا‘‘
’’سارا ادب ہمارا،سارے ادیب ہمارے،سارے انسان ہمارے،ساری کائنات ہماری،یہی ہم نے اپنے بزرگوں سے سیکھا ہے اور یہی ہم اپنے نوجوانوں کو وراثت میں دینا چاہتے ہیں۔‘‘
یہ خوشی کی بات ہے کہ پہلے زندگی کے صرف ایک رُخ پر ہی اصرار کرنے والے ترقی پسند دانشور اب اپنے افکار پر قائم رہتے ہوئے زندگی کو اس کے مجموعی تناظر میں بھی دیکھنے لگے ہیں ۔بلکہ زندگی سے بڑھ کر کائناتی سطح پر بھی دلچسپی لینے لگے ہیں۔ڈاکٹر علی احمد فاطمی اور ان کے رفیق کار کینیڈا کے اقبال حیدر مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے ترقی پسند نظم نمبر پیش کرکے ترقی پسند نظم کے خدو خال کواجاگر کیا۔اپنی سوچ میں آنے والی مثبت تبدیلیوں کو نمایاں کیااور ہمارے میرا جی کے کام کا اعتراف کرکے دوسروں کو بھی اعتراف کی ترغیب دی ۔اس نمبر سے ادب میں فراخدلانہ سوچ اور صحت مند رویے مستحکم ہوں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جدیدادب جرمنی۔شمارہ نمبر۱۸۔جنوری تا جون ۲۰۱۲ء