ترنم ریاض کا ناول ”مورتی“ان کی تخلیقی پیشرفت کا اعلامیہ ہے۔نثر میں وہ ابھی تک افسانے کی دنیا میں اپنے تین مجموعے پیش کر چکی ہیں۔ان مجموعوں میں ”شہر“اور ”یمبرزل“جیسے زندہ رہنے والے افسانے ان کی بنیادی شناخت بن چکے ہیں۔افسانے کے بعد ناول کی طرف پیش قدمی سے اندازہ ہوتا ہے کہ ترنم ریاض فکشن کی دنیا میں ”تمنا کا دوسرا قدم“ڈھونڈ رہی ہیں۔
”مورتی“کی مختصر سی کہانی یہ ہے کہ مسقط سے ایک نوجوان فیصل دہلی آتا ہے۔وہ یہاں اپنا کاروبار کرنا چاہتا ہے۔مسقط میں اس کی بھابی عافیہ نے اسے اپنی ایک پرانی سہیلی ملیحہ کے بارے میں بتایا ہوتا ہے کہ وہ بڑا آرٹسٹک قسم کا ذہن رکھتی تھی۔بہت خوبصورت تھی۔اس کی شادی ایک بدصورت مالدار کے ساتھ کر دی گئی تھی۔عافیہ نے فیصل سے کہا ہوتا ہے کہ اگر ملیحہ کی کوئی بیٹی ہوئی اور وہ اپنی ماں جیسی ہوئی تو فیصل اسے اس زاویے سے دیکھے کہ وہاں شادی کی بات کی جا سکے۔اس قسم کی معلومات اور پروگرام کے ساتھ فیصل دہلی پہنچتا ہے۔ وہاں وہ ملیحہ کے گھر جاتا ہے اور ملیحہ کو ملیحہ کی بیٹی سمجھ کر ملتا ہے۔لیکن اسے پتہ چلتا ہے کہ یہ تو خود ملیحہ ہے اور یہ کہ اس کے ہاں اولاد نہیں ہوئی۔ملیحہ مجسمہ ساز آرٹسٹ ہے اور جتنی خوبصورت آرٹسٹ ہے اتنی ہی خوبصور ت خاتون ہے۔اس کے شوہر اکبر علی کاروباری آدمی ہیں۔انہیں آرٹ وارٹ سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ملیحہ نے شادی کے بعد مجسمہ سازی کا شوق جاری رکھنا چاہا تو شوہر نے اس حد تک برداشت کر لیا کہ گھر کے تہہ خانہ میں اپنا مجسمہ سازی کا شوق پورا کر لیا کرے لیکن بحیثیت فنکار ان کی نمائش وغیرہ کرانے اور پبلک میںآنے کی اجازت نہیں ملی۔فیصل سے ملنے کے بعد دونوں کے درمیان محبت کی ایک کیفیت بننا شروع ہوتی ہے۔فیصل تو واضح قسم کے اشاروں کنایوں سے اپنی محبت اور ملیحہ سے شادی کے ارادے کا اظہار کر دیتا ہے لیکن ملیحہ شادی شدہ ہونے کی وجہ سے اور عمر وں کے فرق کے باعث اس معاملہ میں اس کی حوصلہ افزائی نہیں کرتی۔غالباََکوئی اولاد نہ ہونے کی وجہ سے ملیحہ ایک ماں اور بچے کا مجسمہ بناتی ہے۔یہ مجسمہ ملیحہ کے فن کی معراج ہوتا ہے۔ اسی دوران اکبر علی کا پروگرام بنتا ہے کہ وہ گھر کے تہہ خانہ میں ایک آفس بناناچاہتا ہے۔اسی سلسلے میں سامان کی اکھاڑ پچھاڑ ہوتی ہے ۔ملیحہ کی زندگی بھر کی کمائی اس کے بنائے ہوئے مجسمے مزدوروں کے ہاتھوں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتے ہیں۔اس کا آخری شہ پارہ بھی ٹوٹ جاتا ہے۔فیصل نے اصرار کرکے ملیحہ کے سارے ٹوٹے ہوئے مجسموں کی نمائش کا اہتمام کر لیا۔ادھر ملیحہ کے مجسموںکی نمائش”ٹوٹے ہوئے ستارے“ کے نام سے چل رہی تھی اور اِدھر اپنے آخری شاہ پارے کے ٹوٹنے پر اولاد سے محروم ملیحہ کو ایسا لگتا ہے کہ اس کا بچہ مار دیا گیا ہے۔ یہیں اس کی حالت بگڑتی ہے اوروہ بہت زیادہ دیوانگی کا مظاہرہ کرنے لگتی ہے۔ تب اکبر علی مجبور ہو کر ملیحہ کو پاگل خانے بھیجنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔اس موقعہ پر فیصل پہنچ جاتا ہے اور کہتا ہے کہ ملیحہ کو پاگل خانے بھیجنے کی بجائے مجھے دے دیں ،میں خود اس کا علاج کراؤں گا۔بظاہر یہ سادہ سی لو سٹوری ہے۔لیکن یہ اتنی سادگی سے بیان نہیں ہوئی جتنی سادگی سے میں نے اس کا خلاصہ لکھ دیا ہے۔ناول کا بیانیہ جدید اسلوب کا حامل ہے۔اس میں واقعاتی صورتحال اور خیال کی رو مسلسل ایک دوسرے میں مد غم ہوتے رہتے ہیں۔وقوعہ کے ساتھ خیال کی رو چلنے سے اور خیال کی رو کے ساتھ ہی کسی وقوعہ کے سامنے آنے سے جو کیفیت پیدا ہوتی ہے وہ اس ناول کی امتیازی خصوصیت کہی جا سکتی ہے۔
ناول کی کہانی دہلی تک رہی ہے لیکن بھابی عافیہ اور ملیحہ کی زندگی کے حوالے سے مسقط اور کشمیر بھی اس میں آگئے ہیں۔خصوصاََکشمیر کے بعض ثقافتی حوالے اور وہاں کے مسیحی قبرستان اور اسرائیلی حوالے کا ذکراہمیت کے حامل ہیں۔معلومات فراہم کرتے ہوئے بھی ناول کا پیرایۂ بیان متاثر نہیں ہوتا۔مثلاً یہ چند مثالیں دیکھیں:
”عافیہ وہ دیکھوتو۔۔۔۔وہ کلس۔۔۔“ملیحہ نے ندی کی دوسری طرف کوہِ سلیمان کی چوٹی پر ایستادہ شنکر آچاریہ کے مندر کی طرف اشارہ کیا“(ص ۴۱)
”اگلے روز اونتی پور اور پٹن کے کھنڈرات دیکھنے کے بعد کارواں ابراروانی کی نگرانی میں اندرون شہر کی جانب روانہ ہوا۔جہاں خانیار کے مقام پر روزہ (غالباََروضہ ۔ناقل)بل کہلانے والا ایک قدیم مقبرہ تھا۔مقبرے پر زیارت حضرت یوز آصف کندہ تھا۔منیجر نے بتایا کہ ایک روایت یہ بھی چلی آرہی ہے کہ یہ تربت یسوع مسیح کی ہو سکتی ہے جس پر سُولی کے نشان لیے دو پاؤں بھی تراشے گئے ہیں ۔“(ص ۴۵)
”صدیوں تک یہودی بھی کشمیرآتے رہے تھے اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کشمیر میں قبریں یہودیوں کے انداز میں یعنی مشرق سے مغرب کی جانب بنائی گئی ہیں،بلکہ ان پر عبرانی بھی تحریر ہے۔کشمیرکے گوجر خود کو اسرائیل کی اولاد بتاتے ہیں۔کئی اشیاءجیسے لباس،ٹوپی،ناؤ کھینے کا چپو وغیرہ اب بھی اسرائیل میں مستعمل چیزوں سے مطابقت لیے ہوئے ہے۔یہاں تک کہ کشمیر کی پرانی عمارات میں یہودیوں کی تعمیر کی طرز پر ہی یعنی زینے مغرب کی طرف سے تعمیر کیے گئے ہیں۔پڑھتے پڑھتے ملیحہ کی دلچسپی بڑھنے لگتی مگر کچھ پَل کے علاوہ وہ اپنا دھیان مُورتی سے ہٹا نہیں سکی“(ص ۴۶)
”اگر فن نہ ہوتا۔۔یعنی اگر فنکار نہ ہوتا۔۔ملیحہ سوچتی۔۔یعنی ۔۔کمہار نہ ہوتا۔۔تو موہنجو داڑواور ہڑپہ کی ۔اور اِنکا کی تہذیب۔۔کیسے واضح ہوتی۔برتن ساز فنکار کی طرح ہی مجسمہ ساز کی ہی طرح اہم ہوتا ہے ۔ “(ص ۴۶)
فیصل کا کردار خیالی دنیا میں رہنے والے نوجوان کا ہے اور ترنم ریاض نے اپنے خوابوں میں گم رہنے والے اس کردار کو اس کی تمام تر جذباتیت کے ساتھ عمدگی سے پیش کیا ہے۔ فیصل کے بر عکس ملیحہ ایک پیچیدہ شخصیت ہے تاہم اپنے فن کے ساتھ اس کی وابستگی اس کی اپنی زندگی سے بھی زیادہ اہم ہے۔اپنے فن کے ساتھ اتنی گہری وابستگی رکھنے والی ملیحہ کو جس قسم کا گھر ملتا ہے ،اس سے اس کے دکھوں میں اضافہ ہوتا ہے۔اس کی شخصیت کی ٹوٹ پھوٹ ہوتی ہے۔ اس کی کہانی کا اختتام ملیحہ کے ٹوٹے ہوئے مجسموں کی نمائش پر ہوتا ہے،ایک طرف ملیحہ کے فن پاروں کی نمائش ہو رہی ہے اور دوسری طرف وہ پاگل ہو چکی ہے اور اس کے گھر والے اسے پاگل خانے لے جانا چاہ رہے ہیں۔نمائش کے موقعہ پر چند مجسموں کی حالت کی جس طرح تصویر کشی کی گئی ہے،اسے ترنم ریاض کے الفاظ میں دیکھتے ہیں۔
”ٹوٹے ہوئے ایک پنکھ والی فاختہ کے مجسمے کی چونچ ٹوٹ گئی تھی اورآنکھ کی پتلی کی سیاہی غالباََ بارش سے دُھل گئی تھی۔۔۔۔۔مرد کے مجسمے کا کندھا ٹوٹ چکاتھااور ٹوٹا ہوا کندھا باقی حصے کے ساتھ لگا کر رکھا گیا تھا جسم اور شانے کی درمیانی دراڑواضح تھی۔۔۔پاس ہی ایک اور مجسمہ تھا،ہرن کے بچے کا۔اُس نے کان کھڑے کر کے چوکنے انداز میں اپنی ننھی سی تھوتھنی ذرا سی اوپر اٹھا رکھی تھی۔اس کا داہنا کان آدھا ٹوٹا ہوا تھا۔اُس کے برابر چھوٹا سا ایک لڑکا کتے کے ساتھ کھڑا تھا،ان دونوں کا مجسمہ ایک گول پتھر پر رکھا تھا۔کتے کی آدھی دُم بھی ٹوٹ گئی تھی اور اُسی پتھر پر پڑی تھی۔۔۔۔گملے کے برابر سادھو کا مجسمہ تھا جس کی نیم وا آنکھوں کے اوپر ابروؤں کے عین درمیان سے پیشانی تک جاتی ہوئی چار آڑی لکیریں ابھر ی ہوئی تھیں ۔فن کی یہ باریکی دیدنی تھی۔سادھو کے سر کے اوپر تراشا گیا جوڑا ٹوٹ چکا تھا اور پدم آسن میں مُڑی ہوئی اُس کی ٹانگوں کے قریب گود میں پڑا تھا۔۔۔برابر میں رقاصہ کا مجسمہ تھا جس کے ہوا میں اٹھے ہوئے پاؤں کا پنجہ ٹوٹ گیا تھا۔جانے پنجے کا ٹوٹا ہوا حصہ کہاں تھا۔اُس کے قریب زمین میں مدھو مالتی کی بیل اُگی تھی جو دیوار کی طرف جھکتی ہوئی پیپل سے لپٹ گئی تھی اور اُس کے سُرخ وگلابی پھولوں کی پتیاں نیچے رکھے ماں اور بچے کے مجسمے پر گری ہوئی تھیں۔بچے کا مجسمہ جہاں ماں کے مجسمے سے جڑتا تھا وہاں ایک بڑی سی دراڑ میں سے ڈھلتے سورج کی پیلی روشنی آر پار ہور ہی تھی حالانکہ اُس کے ایک کونے کے نیچے مجسمے کا توازن برقرار رکھنے کے لیے ایک اینٹ بھی رکھی گئی تھی“
فیصل کی کہانی اسی مقام پر اپنے ادھورے پن کے ساتھ انجام کو پہنچتی ہے لیکن ناول کی ابتدا اسی نمائش سے ہوتی ہے اور پھر فلیش بیک سے گزرتے ہوئے ناول اختتام پذیر ہوتا ہے۔یوں تیکنیکی لحاظ سے ترنم ریاض نے ایک اچھی کاوش کی ہے اور اس میں کافی حد تک کامیاب رہی ہیں۔فن مجسمہ سازی سے ان کی گہری دلچسپی کا احساس دلانے والا ناول”مُورتی“ ادبی طور پر ترنم ریاض کی ایک اور کامیابی کے ساتھ ناول نگاری میں ان کی مزید کامیابیوں کی امید دلاتا ہے۔میں ان کی مزید کامیابیوں کے لیے دعا گو ہوں!
(مطبوعہ سہ ماہی تشکیل کراچی۔شمارہ دسمبر ۲۰۰۵ء )