آج ا ردو افسانے کی دنیا میں جو چند نام معتبر اور منور ہیں ان میں ایک نام ترنم ریاض کا بھی ہے ۔ترنم ریاض نے ترجمے بھی کئے تحقیقی اور تنقیدی مضامین بھی سپردِقلم کئے ۔ناول اور افسانے بھی لکھے ۔ان کے افسانے ان کے ہمعصر افسانہ نگاروںسے بڑی حد تک جدا گانہ رنگ رکھتے ہیں۔کرداروں کو ترنم ریاض نے اپنے قلم سے چھُو کر زندہ کر دیاہے ۔ان کے ہاں پلاٹ،کردار، افسانہ پن اور بیانیہ وغیرہ سب کچھ ہے،لیکن افسانہ بتاتا ہے کہ افسانہ نگار نے ان کی طرف ارادتاََ توجہ نہیں کی ۔ندی کے بہائو کی طرح وہ سب کچھ سمیٹ لیا جوسمیٹ لینا چاہیئے ۔منظر نگاری تو ان کے ہاںہے ہی۔خوب بھی اور خوبصورت بھی ۔لیکن کہیں کہیں انہوں نے جزیات نگاری سے کام لیتے ہوئے مناظر کو اور چکا چوند کردیا ہے ۔ ترنم ریاض نے اپنے ارد گرد کے حالات کی نہایت عمدہ عکاسی کی ہے۔اس خصوص میں افسانہ ’یمبرزل ‘ غیر معمولی ہے ۔ دہشت گردی اور موت کی آہٹوں کے پس منظر میں۔ امتحانات۔بچوں کے امتحانات کے لئے تیاری۔رشتے ناطے، امتحانات کے نتائج ، مزید تعلیم کے منصوبے۔ ترنم ریاض نے اس افسانے میں غیر معمولی فن کاری کا مظاہرہ کیاہے ۔ترنم ریاض کے افسانے افسانے نہیں لگتے ۔ معاشرے کی منہ بولتی تصویریں بن جاتے ہیں ۔ان ہی تصویروںکے ا لبم کے نام ہیں: ’ یہ تنگ زمیں‘ ، ’ ابابیلیں لوٹ آئیں گی‘ ، ’ یمبر زل ‘ اور دوسرے افسانے ! سلیمان اطہر جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترنم ریاض اردو شعرو ادب میں کوئی اجنبی نام نہیں رہا۔ انہوں نے تیزی کے ساتھ شہرت اور مقبولیت حاصل کی ہے ۔اور اردو شاعری اور افسانے کے قارئین نیز صاحبانِ نقد و بصر کے ذہنوں میں سما گئی ہیں۔ عام طور پر بہت کم اہلِ قلم ایسے نظر آتے ہیں جنہوں نے اتنے کم وقت میں ادب کے اکابرین سے اپنے آپ کو منوالیا ہو۔ یہ نصرت ایسی ہے جس پر اگر ترنم ریاض فخر کریں تو کوئی تعجب کی بات نہیں۔ترنم ریاض کی شخصیت میں وسعت ہے۔ان کے کارنامے متعدد اور مختلف جہتوں میں سامنے آتے رہے ہیں ان کے یہاں تخلیق کا وہ جوہر ہے جو اپنے ارتقا،اظہار اورایک منفرد انداز کے لئے مضطرب اور بے چین ہے ۔ علیم اللہ حالی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترنم ریاض کو مصوری ،سنگتراشی اور موسیقی سے رغبت ہے ۔چرندو پرند ، حیوانات و نباتات سے انسیت ہے ۔فن میں ڈوب کر کچھ پالینے کی جستجو ہے ۔ان کا یہ جمالیاتی احساس ا ن کے فکشن میں بہت شدت سے محسوس ہوتا ہے ۔ترنم ریاض اپنے مو ضوعات عام زندگی سے چنتی ہیں۔ان کے ہاں علامتیں اُن کی فکری زمین سے پھوٹتی ہیں ۔وہ کہانی کی بنت مین فضا اور ماحول سے بھی علامتیں یا اشارے اکٹھا کرتی ہیں ۔کبھی ایک مصور کی طرح کہانی کے کینوس پر مختلف رنگوں کے ذریعے مختلف شیڈس ابھارتی ہوئی نظرآتی ہیں تو کبھی سنگتراش کی طرح مجسموں کی رگوں میں خون کی روانی اور حرارت شامل کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں ۔ترنم ریاض کے فکشن کا یہ بنیادی وصف ہے کہ کہانی جہاں ختم ہوتی ہے،قاری کے ذہن میں اپنی تکمیل کی طرف نئے سرے سے بڑھنے لگتی ہے اور اس طرح قاری خود بھی مصنفہ کے تخلیقی عمل میں شریک ہوجاتاہے ۔ ۔۔ صغیر افراہیم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترنم ریاض ایک Sweet Temper افسانہ نگار ہیں۔ ان کی کہانیوں میں صوفیانہ لے اور سرمستی ہے۔ تصوّف کا ایک طیف ہے جو ان کے تخیل پر محیط ہے۔ رابعہ عدویہ بصری کی طرح ان کیکہانیوں میں پاکیزگی، عطوفت،امومت اور ممتا ہے۔ وہ عورت اور مرد کے خانے میں تقسیم ہو کر کہانیاں نہیں لکھتیں بلکہ ان کی کہانیاں فردِ کائنات کی کہانی ہوتی ہے جس کے جذباتی ارتعاشات کو ہم ان کی کہانیوں میں محسوس کرسکتے ہیں۔ ترنم ریاض عالمی حالات و واقعات سے مکمل طور سے آگاہ ہوتے ہوئے بھی کائنات اور حیات کے مسائل کو انسانی نظر سے دیکھتی ہیں۔ ان کے یہاں جوششِ باراں نہیں ہے اور نہ ہی ّتمرد و طغیانی و آشفتہ جولانی بلکہ تحمل، تد ّبر اور تفکر ہے۔ ان کا ردِّعمل کسی بھی سطح پر ہیجانی یا جذباتی نہیں ہوتا بلکہ نہایت مثبت ہوتا ہے۔ وہ عورت مرد کے تعلقات اور دونوں کے مابین رشتوں کے رموز سے واقف ہیں اور اپنے متعینہ حدود و حریم میں رہ کر مسائل پر غور و فکر کرتی ہیں۔ درد وکرب کے باوجود آتش فشاں نہیں بنتیں بلکہ نہایت قرینے اور خوش سلیقگی کے ساتھ اپنے غم و غصّے، خفگی، برہمی کا اظہار کرتی ہیں۔ ان کی تخلیق سے جو تصویر اُبھرتی ہے وہ ایسی عورت کی ہے جس کے ایک ہاتھ میں مشعل اور دوسرے ہاتھ میں پانی سے لبالب پیالہ ہے۔ ان کی کہانیوں میں خدا کی رحیمی کے اسرار نظر آتے ہیں۔ ان کی کہانی آہستہ رو آب اور سبک خرام پانی کی طرح استقامت کے ساتھ آگے بڑھتی ہے۔ کہانی میں نہ کوئی شور و غوغا ہے، نہ مصنوعی فضا آفرینی۔ فطری فضا میں ان کی کہانی اتمام کی منزل تک پہنچتی ہے۔ وہ کہانی میں اپنا فلسفہ، اپنا ادراک، اپنا وِژن نہیں بگھارتیں۔ حقانی القاسمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...