“آؤ لڑکیوں کو نمبر دیتے ہیں۔”
یونیورسٹی میں آئے ہمیں تیسرا ہفتہ تھا اور مخلوط تعلیم ہم میں سے چند کے لیے بالکل نئی۔ یہ محفل لڑکوں کے ہوسٹل نمبر تین میں خالد فاروقی کے چھوٹے سے کیوبیکل میں منعقد تھی۔
نہیں یار۔ سب اپنے اپنے حساب سے جماعت کی دو سب سے اچھی لڑکیوں کو نمبر ایک اور دو کی ترتیب سے رکھو۔
ہمارے ساتھ لاہور کے مشہور اور بہترین کالج سے لے کر دور افتادہ خالص دیہی کالج تک کے تیار کردہ نمونے، ہر دو صنف میں، موجود تھے۔
باری باری سب لگے اپنی فہرست پیش کرنے۔
“نمبر ایک پر افشین اور نمبر دو پر سعدیہ۔”
سب سے پہلے الطاف کی باری تھی۔
” کیوں بھئی؟”
خالد مُعترض ہوا۔
“کیوں پوچھنے کی اجازت نہیں۔ ہر کسی کی اپنی مرضی ہے۔ اپنی پسند اور اپنی درجہ بندی۔”
الطاف نے آنکھیں دکھائیں۔
” لیکن کوئی جواز کوئی توضیح؟
ایسے تو مزہ نہیں آئے گا نا۔”
مسعُود نے اپنی ہانکی۔
“میرا خیال ہے یہ اختیار ہر کسی کے پاس رہنے دینا چاہیے کہ وُہ اپنی درجہ بندی کی وجوہات بتاتا ہے یا خفیہ رکھتا ہے۔”
میں نے خیال ظاہر کرتے ہوئے حکم جاری کر دیا۔
جانے کیوں چند ہی ہفتوں میں ساتھی میری غیر متنازعہ قائدانہ صلاحیت اور معتبر حیثیت کے قائل ہو چلے تھے۔ چند ایک تو باقاعدہ اتباع پر اُتر آئے تھے۔
“لو جی ہم بتا ہی دیتے ہیں۔”
الطاف کھنکارا۔
“افشیں کو دیکھا ہے کبھی؟
ہائے ! کیا رنگت ہے۔
گُلابی رنگ سفیدی میں سے یوں چھلک چھلک پڑتا ہے جیسے دُودھ پر گُلاب کی پتیاں تیرتی پھرتی ہوں۔
آنکھیں دیکھی ہیں؟
اگر دیکھ پاؤ تو۔
سیاہی اور سفیدی کا وہ نکھرا نکھرا تضاد کہ شاعر کی صبح انہیں میں شام ہو جائے۔
سرخی مائل سنہرے لمبے بال۔
ریشمی اور کمر تک آتے ہوئے۔
رنگے ہوئے نہیں۔
اصلی رنگ۔ اپنا۔ قدرتی۔ محیر العقول۔
کیا لمبا چھریرا بدن ہے۔
کبھی بات کی ہے اس سے؟
ہائے۔ جھرنے بھی پانی بھریں۔
لہجے کی مٹھاس!
اف! ایک اک لفظ موتی بن کر بکھرتا ہے۔
لباس کی نفاست پہ نظر کرنا۔
بے داغ۔ بے شکن۔ بے عیب۔
جیسے نازاں ہو کہ اس سیمیں بدن نے پہننے کے لیے چنا۔
جدھر سے گزرتی ہے ایک سحر ایک خوشبو جلو میں۔۔۔
یار مجھے تو اس کی سفید فوکسی پر بھی پیار آتا ہے۔
جی چاہتا ہے اس کے نیچے آ جاؤں۔۔۔”
ہم سب افشیں کے سراپا کو دھیان میں لاتے بس اس کے عشق میں مبتلا ہو گئے۔
ایک خاموشی چھا گئی۔ کچھ آہیں بھی سنائی دیں۔
دسمبر کی اداس سردی کمرے میں گھس آئی۔
لمبے وقفے کے بعد شہباز کی آواز سرسرائی۔
“اور سعدیہ؟”
“بس یار افشیں کے بعد تو پھر سعدیہ ہی ہے۔”
الطاف نے نیم دلی سے کہا۔
نہ کسی کو وضاحت کی ضرورت محسوس ہوئی نہ اصرار کی نوبت آئی۔
ہوتے ہواتے میری باری آ گئی۔
“بولیں آقا!
آپ بھی عقل و دانش کی پوٹلی کھولیں۔”
الطاف نے مجھے ٹہوکا دیا۔
دلچسپ موضوع پر سنجیدہ ہو چلی فضا میں مجھے شرارت سوجھی۔
“بھئی نمبر ایک تو ہے ہی خالدہ۔”
“ارے جانے دیں مرشد۔
خدا کا خوف کریں۔
لمبی سیڑھی۔ چادرپوش۔ شاہدرہ سے بس پر لٹک کر آتی ہے۔ کبھی بولتے تک نہیں سنا۔ مجھے تو تھوڑی بھینگی بھی لگتی ہے۔”
جاوید نے جارحانہ انداز اپنایا۔
“خبر دار۔ کسی کو کوئی حق نہیں کہ دوسرے کے انتخاب کی توہین کرے۔
لمبا ہونا کوئی جرم ہے نہ چادر پہننا یا بس میں سفر کرنا۔
میرے نزدیک تو یہ خوبیاں ہیں۔
میں خود کل ریلوے اسٹیشن سے لکشمی چوک تک ویگن نمبر چار میں کبڑا کھڑا رہا۔ کچھ سواریاں اترنے پر سیٹ ملی۔ چادر ہماری ثقافت ہے اور بنیادی طور پر میں پکا پینڈو ہوں۔ آپ لوگوں نے اپنی عقیدت واپس لینی ہے تو لے لو۔ ابھی کچھ نہیں بگڑا۔”
میں نے مصنوعی غصہ دکھایا۔
سب شش و پنج میں پڑ گئے۔
خاموشی کا ایک اور وقفہ آیا جسے طارق اور الطاف کے سگریٹ کے پھیلتے دھوئیں نے مزید گمبھیر کر دیا۔
” ٹھیک ہے آقا آپ کی مرضی ہے۔
‘داس کیپیٹل’ بھی آپ کے سرہانے پڑی رہتی ہے اور چادر بھی آپ کو پسند ہے۔
ہم آپ کے اشتراکی نظریات اور روایت پسندی کے تضاد میں پھنس کے رہ گئے ہیں۔
خیر۔ نمبر دو بھی بتا دیں اب۔”
الطاف منمنایا۔
“بھئی دوسرا نمبر سوائے فرزانہ کے کسی کا ہو ہی نہیں سکتا۔”
میں نے دھماکا کیا۔
“واہ واہ!
فرزانہ تو مکمل برقعہ پوش ہے۔ وہ تو ہاتھ بھی دستانوں میں چھپاتی ہے۔ سوائے آنکھوں کے کچھ نظر نہیں آتا اور آنکھیں بھی بس آنکھیں ہی ہیں۔
نہ کبھی کسی لڑکے کے قریب کھڑی ہوئی نہ کسی سے بات کی۔ کلاس میں ایک کونے میں لگ کر بیٹھتی ہے۔ مجال ہے جو کبھی کوئی سوال تک پوچھا ہو۔ مجھے تو شک ہے شاید گونگی ہی ہو۔
نہ شکل کا پتا نہ عقل کا۔
میرے آقا کو اندھیرے میں کیا دور کی سوجھی۔
جانے دیں سرکار۔
نہ الو بنائیں”۔
اعتراضات کا ایک شور اٹھا لیکن میں نے مصنوعی سنجیدگی برقرار رکھی۔
اگر انہیں شک تھا کہ میں الو بنا رہا ہوں تو بھی میں اپنی شرارت سے باز آنے والا نہیں تھا۔
“دوستو! پردہ کرنا کوئی بری بات نہیں، بلکہ ایک خوبی ہے۔ نہ بولنا بھی جائز اعتراض نہیں کہ جذباتی ترسیل حرف و صوت کی پابند نہیں۔ احساسات کی رسائی اور تفہیم سمعی و بصری آلات و اعضا کی مرہون منت نہیں۔ آپ میری پسند و نا پسند کو اپنے عامیانہ معیار کے تابع کیسے رکھ سکتے ہیں۔ آپ لوگ اب تک جان چکے ہوں گے کہ میں جبر کا قائل نہیں۔”
میں نے مزید فلسفہ بگھارا۔ اس سے قبل کے مباحث کافی کچھ طے کر چکے تھے اس لیے مجھ پر زیادہ دباؤ ڈالنے کا کسی کو موقع نہ ملا۔
اللہ داد کی باری سب سے آخر میں آئی۔
جنوبی پنجاب کے جس چھوٹے گاؤں کے مدرسے سے ہوتا ہوا وہ ملک کی سب سے قدیم اور نامور ترین درسگاہ تک پہنچ کر ہمارے ساتھ بیٹھا تھا وہ ناقابل یقین قصہ تھا۔
“جی حضرت ! آپ فرمائیے۔ کیا درجہ بندی فرمائی ہے۔”
خالد استہزائیہ مسکراہٹ بکھیرتا ہوا بولا۔
“فرزانہ”
وہ یکدم بول پڑا۔
“سبحان اللہ۔ اور نمبر دو؟۔”
“فرزانہ”
میں نے چونک کر دیکھا تو اپنی گھنی سیاہ چھوٹی ڈاڑھی کے ساتھ بہت سنجیدہ چہرہ بنائے وہ بالکل بے حس بیٹھا تھا۔ جیسے پتھر کا ہو۔
جلد محفل برخاست ہوئی اور سب میس کو روانہ ہوئے۔
ہم اس شغل بھری محفل کو بھول گئے، لیکن جہاں اور چھوٹے موٹے رومانس کلاس میں شروع ہوئے وہاں اللہ داد کے وحشی یکطرفہ عشق نے فرزانہ کا جینا دوبھر کر دیا۔
اللہ داد نے اپنی کرخت انگریزی میں قابل اعتراض قسم کی شاعری شروع کر دی۔ فرزانہ نے کلاس کی دوسری لڑکیوں کے ذریعے پیغام بھیجا کہ اس کی منگنی ہو چکی تھی اور وہ اپنے منگیتر کو بہت پسند کرتی تھی۔ یہ بھی اطلاع دی کہ بہت جلد وہ رشتۂ ازدواج میں بندھنے جا رہی تھی۔ ان اطلاعات کا اللہ داد پر کوئی اثر ہوا نہ اس کے عشق میں کوئی افاقہ۔ فرزانہ نے یہ خبر اڑائی کہ اللہ داد کی فضول حرکات کہ وجہ سے شاید وہ تعلیم ہی ادھوری چھوڑ دے۔ یہ اطلاع بھی کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہ برآمد کر سکی۔ اللہ داد نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ یونیورسٹی چھوڑنے پر بھی فرزانہ کا پیچھا نہیں چھوڑے گا بلکہ ہو سکتا ہے کہ اس کے عشق پر یہ عمل مہمیز ہی ثابت ہو۔
اسی رونے دھونے میں آخری سمسٹر آن پہنچا۔ اللہ داد کے عشق کے ہاتھوں فرزانہ یونیورسٹی کا ایک سمسٹر ضائع کرنے سے بال بال بچی۔
اللہ داد ہر وقت میرے ساتھ چمٹا رہتا۔ ہر وقت پیچھے پیچھے۔ جیسے میری تقلید اس نے خود پر فرض کر لی ہو۔
میں نے آخری دنوں میں ایک دن پوچھ ہی لیا:
” یار اللہ داد! تو نے فرزانہ کو دیکھا نہیں۔ اس سے کبھی بات نہیں کی۔ تجھے اس میں کیا بھایا کہ تو نے دو سال نہ اپنے پلے کچھ چھوڑا نہ اس کے۔ کیا دیکھ کر تم اس پر ایسے فریفتہ ہوئے کہ خود یونیورسٹی اخراج سے بمشکل بچے اور اس کی ڈگری بھی بس جانے ہی والی تھی۔
تمہیں صرف فرزانہ ہی کیوں بھائی۔”
اللہ داد چلتا چلتا رک گیا۔ بہت سنجیدہ ہو کر میری طرف دیکھا اور دھیرے سے بولا:
“مرشد! آپ کے ہوتے ہوئے میں خالدہ پر تو عاشق ہو نہیں سکتا تھا۔ وہ تو تھی آپ کی پسند نمبر ایک۔
میری دال ہی نہ گلتی۔
باقی بچی تھی فرزانہ۔
سو میرے حصے میں آئی ہی فرزانہ۔
میرا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔
٭٭٭