’’میں بڑا کھوجی ہوں‘‘ تاؤ کاکا اپنے قریبی رشتہ داروں کے گھر نئی نویلی دلہن کے پاس بگلا بھگت بنا بیٹھا تھا۔ کسی بازیگر کی طرح آستیں میں چھپائے ہوئے، کرتے کی جیب میں میں رکھے ہوئے، سر پر رکھی سافٹ ڈرنک کی بوتل کے ڈھکن جیسی ٹوپی کے اندر محفوظ کیے نیفے، میں اڑسے برسوں کی محنت سے جمع کیے گئے خاندانی رازوں کی یکے بعد دیگرے پردہ کشائی کرتا جا رہا تھا۔ وہ راز جنہیں کب کا نہلا دھلا دفنایا جا چکا تھا۔ ابھی تو سسرال اپنے نئے چمکدار کپڑوں، نیٹ اینڈ کلین چہرے کے ساتھ میک اپ اور بھاری لنگے میں چھپی دلہن کو اپنی رونمائی کروا رہا تھا۔
ایسے میں تاؤ کا کا نے خاندان بھر کے میلے بدبو دار کپڑوں کا گٹھڑ کچھ دیر پہلے سسرال پہنچی دلہن کے سامنے کھول کر رکھ دیا۔
تاؤ کاکا سے کوئی بھی منہ ماری نہیں چاہ رہا تھا۔
اس لیے سبھی پہلو بچا گھورتے ہوئے نزدیک سے گزر جاتے۔ نوجوان بیوہ نند پاس بیٹھی ہی تھی کہ تاؤ کا کا نے بے تکلفی سے ایک آنکھ دبا کر دلہن سے کہا ’’تم پڑھی لکھی ہو۔ اپنی نگو کے لیے اچھا سابر ڈھونڈنا۔ کسی امیر کی چاہ میں بال سفید کیے جا رہی ہے۔
نکو شرما کر بولی۔ ’’میں نے تو خود ہی رشتہ سے منع کر دیا ہے۔ میرا جی دوسری شادی کے لیے راضی نہیں ہوتا۔
تاؤ کاکا اپنی برائے نام اُڑی اُڑی مونچھوں کو بل دیتے ہوئے آنکھوں میں سنجیدگی اور کمیں گی کا ملا جلا تاثر لیے ہوئے بولا ’’خود ہی تو بولتی ہو۔ ساری رات نیند نہیں آتی۔ کروٹیں بدلتی رہتی ہو‘‘۔
بیوگی کی سفید چادر کی بکل میں بیربہوٹی جیسے ارماں سمیٹتے ڈھانپتے بوکھلائی ہوئی نگو نے اندر کمرے میں جا کر دروازے کے کِواڑ بھیڑ دیے۔ اس ساری دھول اڑائی میں دلہن خاموشی سے برائیوں اور خامیوں کو چُن چُن کر پلو سے باندھتی رہی کہ حوالہ جات آئندہ اس کے کام آئیں گے۔
بانس پر جیسے کسی نے ملگجی سی شلوار قمیص چڑھا دی ہو، کندھے پر چو خانہ صافہ، گول طباق چہرہ، چمکتی چند یا پر ٹانویں ٹانویں بال، مونچھیں جیسے کسی بچے نے کچی پینسل سے لائن لگا کر جگہ جگہ سے مٹا دی ہو۔ سرمہ لگی چھوٹی چھوٹی آنکھوں کے دائروں میں مسلسل گھومتے ہوئے سیاہ ڈھیلے۔
منتوں مرادوں کا حاصل اپنی ماں کا پہلی اولاد تھا۔
’’بختاں والا‘‘ ماں دلار سے کہتی تھی۔ اس بابرکت کے پیدا ہونے کے بعد ہر دوسرے سال ایک اور بھائی تولد ہو جاتا تھا۔
جس عمر میں بچے سکول جانا شروع کرتے ہیں۔ کاکا اپنے کسی شیر خوار بھائی کو ٹانگوں سے گھسیٹ کر ماں کی گود سے باہر نکال خود چھاتی سے دودھ پینا شروع ہو جاتا۔ باپ شور مچاتا تو ماں کہتی۔ ’’نہ میرا بختاں والا پتر ہے۔ یہ چھاتی سے منہ لگاتا ہے تو سیروں دودھ اترتا ہے‘‘۔
چھوٹا بھی پیٹ بھر دودھ پی لیتا ہے۔ ورنہ سارا دن بھوکا ٹیاؤں ٹیاؤں کرتا رہتا‘‘۔
چھوٹے بھائی جوان ہو گئے۔ بیا ہے بھی گئے۔ اُن کے بچوں نے کاکا کو اپ گریڈ کر کے ’’تاؤ کا کا‘‘ کہنا شروع کر دیا۔ بچوں کے دیکھا دیکھی سارے گاؤں ہی نے اُسے تاؤ کاکا کہنا شروع کر دیا۔ تب تاؤ کاکا کا ما تھا ٹھنکا۔ اس نے سوچا کہ ماں کیوں نہیں اس کا گھر بسانے کا بھی سوچتی!۔
دور کی بات تھوڑی تھی۔ ہمسائے ہی میں ایک نٹ کھٹ چلبلی سی لڑکی تھی۔ شکل صورت کی تو تاؤ کاکا کو زیادہ خبر نہیں تھی۔ کیونکہ وہ جب بھی تاؤ کاکا کو دیکھتی تو کھلکھلا کر ہنس پڑتی تھی۔ سیاہ مشکی چہرے پر چمکتے سفید دانتوں کے لشکارے میں نقش و نگار کیا خاک نظر آتے۔ ’’’بھائیاں! سلاما لیکم، کہہ کر جواب کا انتظار کیے بغیر اپنے گھر کے دروازے کی چق اٹھا کر غڑاپ سے غائب ہو جاتی۔
تاؤ کاکا نے منت سماجت کر کے اس کے گھر رشتے کے لیے بھیج دیا۔ وہ لوگ بجائے خوش ہونے کے کہ اتنے بڑے زمیندار کا رشتہ آیا ہے، ناک بھوں چڑھا کر ٹکا سا جواب دے دیا۔ ساتھ میں مفت مشورہ بھی۔ ’’خالاں! پہلے اپنے پت کا میڈیکل تو کروا لے پھر رشتے مانگتی پھرنا‘‘۔
ماں سارا دن بڑبڑاتی رہی۔ ’’میرا بیٹا لولا لنگڑا اپاہج ہے کیا!۔ میں کیوں میڈیکل کرواتی پھروں؟، مجھ بڈھی کی عقل پر پتھر پڑے جو اس حرافہ کا رشتہ مانگنے چل پڑی۔ شرم نہ حیا۔۔ اس کے تو ہاسے ہی نہیں رک رہے تھے۔ ایک دن یہ چھنال ضرور کوئی چن چڑھائے گی۔ میرا بختاں والا کاکا، دیکھنا ایک دن آپے پچھتائے گی‘‘۔
تاؤ کاکا کا تو گلی کوچوں میں پھرنا دشوار ہو گیا۔ ہر کوئی راہ روک مسکراہٹ ہونٹوں میں دبا تے ہوئے پوچھتا ’’تے فیر انہاں نے کیا جباب دیا؟‘‘۔ تاؤ کاکا کے پاس بھی ترت جواب ہوتا۔ ’’میری تو خیر ہے وہ سالی تو ’’بھائیان‘‘ کہنے سے بھی گئی۔ اب گلی میں نجر ہی نہ آوے‘‘۔
شادی والے معاملے میں تو بختاں والے کے بخت کو گہن ہی لگ گیا۔ جس گھر بیر پکتے ماں اپنا چھابہ اٹھائے وہاں پہنچ جاتی۔
تاؤ کاکا ماں کی واپسی کے انتظار میں ٹہل ٹہل گھر کا صحن ادھیڑ ڈالتا۔ جب ماں کو منہ لٹکائے واپس آتے دیکھتا۔ تاؤ کاکا کا چہرہ مٹی ہو جاتا۔ ماں خاموشی سے چولہے میں اوپر تلے لکڑیاں رکھ آگ سلگانے لگتی۔ سیلی لکڑیاں جانے کہاں سے نمی چوس لیتیں۔ جلتیں کم دھواں زیادہ دیتیں۔ پھکنی سے پھونکیں مار ماں کی آنکھیں لال ہو جاتی تھیں۔
دوسری صبح تڑکے اٹھ کر مٹی میں بھوسہ ملا کر پیروں سے مٹی گوندتی۔ تاؤ کاکا بالٹی بھر پانی تھوڑا تھوڑا ساتھ ملاتا رہتا۔ نرم ملائم گندھی مٹی سے ماں سارا صحن مہارت سے لیپ دیتی۔ صحن میں پڑے ٹوٹے پھر برابر ہو جاتے تاؤ کاکا کے زخمی دل پر تشفی کے پھاہے بھی رکھتی جاتی۔
’’خیر ہے پت! رشتوں کی کوئی تھوڑ ہے۔ اک در بند سو کھلے‘‘
لیکن قسمت پر جب قفل لگ جائے تو در کہاں کھلتے ہیں۔
تاؤ کاکا کے بالوں پر سفیدی کیا آنی تھی۔ بال ہی صفا ہو گئے۔ باپ کے بعد ماں بھی نہ رہی تو تاؤ کاکا کی چار پائی باہر گلی میں آ گئی۔ جب زرعی زمین بھی تاؤ کا کانے اپنے بھتیجے کے نام کر دی تو بھابیاں بیمار ہی رہنے لگ گئیں۔ گھر جاتا تو توا الٹا اور چنگیر خالی ملتی۔
تاؤ کاکا بھی عین کھانے کے وقت کسی عزیز رشتہ دار کے گھر پہنچ جاتا۔ لوگ لحاظ مروت میں کھانے کی پیشکش کر دیتے۔ معاوضے میں کسی شریکے گھر کا کوئی راز تفصیل سے بیان کر دیتا۔
تاؤ کاکا کی چار پائی باہر گلی میں دھوپ کے ساتھ دیوار کے سائے میں سرکتی رہتی۔ رات چوپال آباد ہو جاتی۔ تاؤ کاکا چبوترے پر دھُولی رما لیتا۔ گاؤں کے نکمے لڑکے اس کے گرد جمع ہو کر اس کی مُکرنیاں سنتے۔
تاؤ کاکا کی گلی کی نکڑ پرہی لڑکیوں کا مڈل سکول تھا۔ سکول کھلنے اور بند ہونے کے وقت تاؤ کاکا اپنی چار پائی پر مورچہ زن رہتا۔ اپنی دھوتی کو گھٹنوں تک سمیٹ کر کاچھا سا بنا لیتا تھا۔ راہ گزرتے ہر کسی کو اپنی باتوں کی اڑنگی دے کر الجھانے کی کوشش کرتا۔ اس کی نظریں لڑکیوں کو گلی کا موڑ مڑنے تک بحفاظت چھوڑ کر آتیں۔ موڑ مڑ جانے والی کا رب راکھا۔ کسی دوسری آنے والی پر نظریں ٹکا لیتا۔
یہ تو اس کا روز کا معمول تھا۔ لیکن آج نمبر دارنی زلیخاں شاید نمبردار سے لڑ کر گھر سے نکلی تھی۔
زلیخاں غصے کی تیز زبان کی طرار جواں سال عورت تھی۔ اس کی نظریں تاؤ کاکا پر پڑیں۔ تو تپ سی گئی۔
’’وے تُو کیوں ہر ویلے گلی مل کر بیٹھا رہتا ہے۔ گھر کا نہ گھاٹ کا۔ دھوبی کا کتا!‘‘
زلیخاں نے اونچی آواز میں اُسے مخاطب کیا۔ راہ چلتوں نے تماشے کی آس میں اپنے قدم روک لیے۔
تاؤ کاکا سانپ کی طرح بل کھا کر پھن اٹھا کر شُوکا۔
’’تجھے کیا میں جہاں مرضی بیٹھوں۔ غنڈی رن پردھان! خواہ مخواہ ہی میرے سر ہوئے جا رہی ہے‘‘۔
زلیخاں نے تماشائیوں کو اپنا حمایتی جان کر آواز مزید بلند کر لی۔
’’یہ خواہ مخواہ ہے۔ حیا کر۔ اپنی ہی بیٹیوں کو تاڑتا رہتا ہے۔ ان کا گلی سے گزرنا محال کر دیا۔۔۔ سالا زنخا!‘‘
’’سالا زنخا‘‘ تھے تو دو لفظ ہی، پر تھری ناٹ تھری کی گولی کی طرح تاؤ کاکا کے سینے میں آر پار ہو گئے۔ وہ چار پائی سے دھیرے دھیرے اٹھا۔ ایک ایک لفظ کو برف کی ڈلی کی طرح دانتوں میں کٹکٹا کر بولا۔
’’کیوں تجھے کیسے خبر؟۔ میرے ساتھ سوئی تھی کیا!‘‘۔
گلی میں کھڑے سبھی لوگ ہنسنے لگے۔ کچھ نے تو سیٹیاں بھی بجا دیں۔
زلیخاں سٹپٹا کر ہولے سے اپنے گھر میں کھسک گئی۔
تاؤ کاکا ساری شام کلف لگا اَکڑا ہوا گاؤں کی گلیوں میں پھرتا رہا۔ جیسے واقعی زلیخاں کو اپنے بستر پر لے آیا ہو۔ رات چوپال کا جلد ہی رخ کر لیا۔ آج تو سننے والے بھی تاؤ کاکا کی باتیں چٹکیوں میں نہیں اڑا رہے تھے۔ تاؤ کاکا نے روز کی سنائی جانے والے داستاں کا دھاگا پکڑا اور بنائی شروع کی۔
’’میرے رشتے بہت آتے تھے۔ اپنے ہی گاؤں کی استانیاں پیغام بھجواتی رہتیں۔ پیغام تو اب بھی بھجواتی ہیں۔ لیکن اب اپنے رکے ہوئے سرکاری کام میرے ذمے لگا دیتی ہیں سب جانتے ہیں کہ میں سیاسی آدمی ہوں میری پہنچ اوپر تک ہے‘‘۔
مستری لال دین نے نکھٹو بیٹے سے پوچھا۔
’’تاؤ کاکا، اتنے رشتے آتے تھے۔ تو نے شادی کیوں نہ کی؟‘‘۔
تاؤ معنی خیز انداز میں بولا ’’میں کوئی پاغل آں‘‘
میرے گھر میں بڑے بڑے سیاسی لوگ آتے تھے۔ عورت اور خاص پر سوہنڑی عورت قابل اعتبار نہیں ہوتی۔ اڑیل گائے کی طرح ہر وقت کھونٹے سے رسہ چھڑانے کے چکر میں رہتی ہے۔ کسی کے ساتھ آنکھ مٹکا کر لیتی۔
’’میں بے غیرت نہیں کھون کھرابا ہو جانا تھا‘‘
’’و آ آ، تاؤ کاکا! بات تو نے دور کی سوچی‘‘ بخشو نائی کا بیٹا بولا۔ ’’یہ عورتیں بھری جیب ہی دیکھتی ہیں‘‘
بخشو نائی کے بیٹے کو بھری جیب کا تو بہت ارمان تھا۔ لیکن باپ کا پیشہ اختیار کرنے سے کتراتا تھا۔ کوئی ایسا کام ڈھونڈتا تھا جس کی عزت بھی ہو۔
’’ادھر تو ہاتھ سے کام کرنے والے کمی کمین ہی کہلاتے ہیں۔ تُو دوبئی چلا جا۔ پیسہ ہو تو بندے کی عزت بہت ہے‘‘۔
تاؤ کا کا نے کسی مدبر کی سی سنجیدگی سے مشورہ دیا۔ چوپال میں وہ خالی ڈھول کی طرح بجتا رہا۔ لیکن کہیں اندر کوئی مردہ سرتا پا کفن لپیٹے پڑا تھا۔
تاؤ کاکا کا دل انگیٹھی میں لگے سیخ کباب کی طرح دھیمی لیکن ناقابل برداشت سیک میں بھنا جا رہا تھا۔
چبوترہ خالی ہونے پر اس نے بھی مرے مرے قدموں سے اپنے گھر کی راہ لی۔ گھر جو ایک چارپائی پر سکڑا سمٹا پڑا تھا۔
تاؤ کاکا نے اپنا آپ چارپائی پر جا رکھا۔ کھردری بنا کھیس چادر چارپائی پر اس کا ناتواں بدن ہوا نکلے غبارے کی طرح تھا۔ بجلجی بے جان سی ربربان کی گانٹھ لگی رسیوں پر دھری تھی۔
دور گیڈروں کے چلانے کی آواز آ رہی تھی۔
’’سالا زِنخا‘‘۔ تاؤ کاکا نے بیقراری سے کروٹ بدلی۔ تو چارپائی چرچرائی۔ ’’سالا زنخا‘‘۔ برگد کے درخت پر سے اُلو چیخا ’’سالا زنخا‘‘۔
تایا کاکا کی زبان پر کانٹے سے اگ آئے۔ اس نے آنکھوں کو بہت نچوڑا لیکن قطرہ پانی بھی نہ نکلا۔ کاش آکاش سے ماں اتر آئے۔ وہ پھر سے ماں کو گود میں چھپ جائے۔ دودھ کی سات دھاریں ہی اس بھاڑ کو بجھا سکتی ہیں۔
سویر ہو گئی، درختوں پر پرندے چہچہانے لگے۔ مال مویشی ڈکرانے لگے۔ تاؤ کاکا ٹامک ٹوئیاں مارتا ہوا چار پائی سے اترا۔ کسی شیر خوار بچے کی طرح منہ بسورتے ہوئے گلیوں میں پھرنے لگا۔ ہر دروازہ کھٹکھٹا تتلا کر پوچھتا۔ ’’ماں اِدھل تو نئیں آئی؟‘‘۔
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...