رپورٹ از۔ معروف افسانہ نگا، ادیب، اور ناظم نشست رضوان قیوم (راولپنڈی)
آج مورخہ06-02-2023بروز سوموار ایک ادبی تنقیدی نشست محمد رضوان جتوئی کی رہائش گاہ میں منعقد کی گئی۔ اس کی صدارت اقرا ملک نے سرانجام دی۔ اس تنقیدی نشست میں مہمانِ خصوصی کے علاوہ جناب محمد رضوان قیوم، پروفیسر شمشیرہارون، محترمہ صائمہ خانم، پروفیسر جہانگیر اختر (آن لائن لندن)، محترم قیصر فاروق، محترم نوروز خان، محترم بلال اختر وغیرہ نے شرکت کی۔ تبسم حیدر نے اس تنقیدی نشست میں دو کتابیں تنقید کیلئے پیش کی گئیں۔ (۱)امین جالندھری کی کتاب حرف حرف کہانی (۲) محترم اسماعیل خان کی کتاب کہانیاں بولتی ہیں پیش کی گئی۔
محمد رضوان قیوم نے حرف حرف کہانی پر اپنا تبصرہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ میں نے اس کتاب میںموجود تقریباً تمام کہانیوں کا بغور مطالعہ کیا ہے ۔ مستی، گھوڑا، مسافر وغیرہ ۔ موصوف مصنف امین جالندھری نے اپنی کتاب میں موجود تمام کہانیوں میں افسانوی رنگ سے زیادہ سچی کہانیوں کا روپ دیا ہے۔ ہر کہانی اپنے اندر واقعی ایک کہانی ہے۔ اس کتاب کا حرف حرف کہانی اس دلیل کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔
محترم امین جالندھری نے سرنامہ میں دنیا کو عجب تماشاہ گاہ قرار دیا ہے بقول ان کے جو آج روا ہے کل ناروا ہوگا۔ یہ جملہ حقیقت پر مبنی ہے۔ مستی کہانی جیب کتروں کا زندگی، ان کے احساسات ماحول کا اثر، کی سچی عکاسی کرتی نظر آتی ہے۔ خمار کہانی کا پلاٹ منفرد موضوع کا حامل ہے۔ پروفیسر شمشیر ہارون نے کہا کہ مجھے رضوان قیوم نے یہ کتاب مطالعہ اور تنقید کیلئے دی تھی۔ اسے میں نے پڑھا در اصل یہ کتاب یقینا ہمارے ادبی خزینہ کا اہم نگیہ ہوگی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صاحب کتاب نے اس میں جو ادبی امور کہانیوں کو افسانہ رنگ میں پیش کیا ہے اسے پڑھ کر بر ملا کہا جا سکتا ہے کہ واقعی افسانہ، بالعقیدہ کہانی یوں لکھی جاتی ہے۔ پروفیسر شمشیر ہارون نے کہا کہ میں اردو ادب کے ایم اے کا استاد ہوں۔ موصوف کی کتاب کا ریفرنس دونگا ۔ انھوں نے موڑ کہانی کو زیادہ پسند کیا۔ اس کہانی میں پیری، مریدی ، ملنگی زندگی اور روحانیت کی حقیقت سے روشناس کروایا گیا ہے۔
محترم صائمہ خانم نے کہا کہ اس کتاب کو جہاں تلک میں نے پرکھا ہے میں جان کاشمیری کے ان جملوں سے متفق ہوں کہ جہاں انھوں نے محترم امین جالندھری کے بارے میں لکھا ہے ۔ آپ افسانے کا روحِ تجسس کو کسی صورت بھی نظر انداز نہیں کرتے۔ صاحب کتاب نے اپنی کہانیوں کو اس طرح بیان کیا ہے جیسے وہ ایک ڈاکٹرہوں اور ان کی انگلیاں معاشرے کے مریض کی کلائی پر ہوں۔
محترم بلال اختر نے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ: محترم امین جالندھری کو میں مزید پڑھنا چاہتا ہوں ۔ یہ بات میں دل سے کہہ رہاہوں کہ مجھے ان کی تحریروں نے اپنے سحر، تجسس کی زنجیروں سے جکڑ لیا ہے۔ میں محترم رضوان قیوم کا خصوصی شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوںکہ انھوں نے مجھے موصوف امین جالندھری کی کتاب پڑھنے کو دی اور شکوہ یہ ہے کہ یہ کتاب دوبارہ پڑھنے کو دیں۔ رضوان قیوم یہ کہتے ہیں کہ میرے پاس یہ کتاب صرف ایک ہی ہے اور اسے میں نے میونسپل لائبریری راولپنڈی کو دینے کا وعدہ کیا ہے ۔ نیز انھوں نے تجویز دی ہے کہ کسی نہ کسی طریقہ سے پاکستان کے شہروں سے بڑے ادیب، شعراء کرام کالم نویس وغیرہ کوراولپنڈی بڑے فنکشن میں بلایا جائے ۔ یہ افسوس کی بات ہے کہ بڑے بڑے ادیب ادبی دنیا میں منظر عام پر نہیں لائے جا رہے۔ یہ کام حکومت ثقافت ادب وزارت کا ہے کہ وہ ان نادیدہ ستاروں کو ادب کے آسمان پر لائے۔ محترم تبسم حیدر جو دیر سے اس ادبی محفل میں آئے انھوں نے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ اگر چہ میں باقاعدہ ادب لکھاری نہیں ہوں۔ لیکن اچھی کتب کا مطالعہ ضرورکرتا ہوں۔ اچھی کہانیوں کی کتب میری کمزوری ہے۔ بقول ان کے میرے بیڈ روم میں ہر وقت ادباء کرام ، شعراء کرام کی کتب موجود رہتی ہیں۔ رضوان قیوم صاحب نے مجھے یہ کتاب دی انھوں نے مجھ سے اس کتاب کے دینے کا وعدہ کیا ہے۔
جہانگیر اختر جنجوعہ نے آن لائن لندن سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میں ماہ فروری کے آخر میں پاکستان آئونگا اور حرف حرف کہانی کی کہانیوں کا خصوصی مطالعہ کرونگا ۔ نیز انھوں نے تجویز دی کہ نئے پرانے ادیبوں کی کتب کو اپنے اپنے شہروں کی لائبریریوں، یو نیورسٹیز، کالجز میں بھیجا جائے تاکہ طلباء کے درمیان ادب کا شوق پیدا کیا جائے۔ عمر تبسم نے رضوان قیوم سے کہا کہ وہ انہیں صرف ایک گھنٹہ کے حرف حرف کہانی کی کتاب دیں۔ وہ آپ کے افسانوں کی فوٹو اسٹیٹ کروائیں عمر تبسم کی آواز میں بہت ملائم ٹھہرائو پن ہے۔ ان کے منہ سے نکلنے والے الفاظ دل کو چھولیتے ہیں ۔ لہٰذا ان کی زبانی امین جالندھری کی کتاب حرف حرف کہانی ، آگ پڑھوایا گیا۔ اس کہانی نما افسانے کو شرکاء محفل نے بہت سراہا واقعی مصنف نے آگ کو مرکزی موضوع بنا کر اس کی حقیقت کو بیان کیا ہے یعنی آگ کو نفرت ، محبت دونوں پہلوؤں سے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ جتنی بھڑکائو بڑھتی ہے اور بجھائو تو بجھتی ہے ۔ یہ محبت، نفرت دونوں چیزیں تخلیق کر سکتی ہے۔ نرک شانتی کی مثالیں واقعی اس معاشرہ کی حقیقت ہے۔
اسی طرح افسانہ بول میری مچھلی کو بھی زیر تبصرہ لایا گیا۔ بول میری مچھلی میں ایک ریٹائر سرکاری آفیسر کے تاثرات ایسے بیان کئے گئے ہیں جن سے جدید معاشرت کی جراحت ہوئی محسوس ہوتی ہے۔
اس ادبی محفل میں ایک ایسے مہمان بھی آئے جن کا دوردور سے ادب سے کوئی شغف ، انسیت نہیں ہے۔ ان کا نام محمود عرف مودہ ہے ۔ موصوف محترم بلال اختر کے ساتھ آئے ۔ میرا خیال ہے کہ مصنف کتاب نے اس میں معاشرہ کی گندگیوں کے اسباب کا تقابل کیا ہے۔ مجموعی طور پر جب اس کتاب کی ظاہری ہیئت ، مٹیریل، سرورق، قیمت، سر نامہ وغیرہ پرتبصرہ کیا گیا تو رضوان قیوم نے کہا کہ اس کتاب کی قیمت 600مناسب ہے جبکہ سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس کی کمپوزنگ میں ایک بھی غلطی نہیں ہے۔ حالانکہ کمپوزنگ، پروف ریڈنگ یا جملات میں ہم آہنگی کا سقم کہیں نہ کہیں رہ جاتا ہے۔ بقول رضوان قیوم کہ الحمد للہ میری اب تک 6-7کتب شائع ہو چکی ہیں لیکن کمپوزنگ، پروف ریڈنگ میں مار کھا گیا۔ میری کتب میں یہ سقم ہے ۔ دراصل پروف ریڈنگ کمپوزنگ کسی بھی کتاب کو شائع کرنے میں بڑا کٹھن مرحلہ ہوتا ہے۔ سرورقAbstract Art کا حامل ہے جس سے یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ شائد پر اسرار نوعیت کی کتاب ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے محترم امین جالندھری کی تحاریر میں کہیں بھی پر اسراریت نظر نہیں آتی۔ سرنامہ بھی معیاری ہے۔
پروفیسر شمشیر ہارون نے اس کتاب پر تقابلی جائزہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ مجموعی طور پر یہ کتاب ایک ادبی شاہکار ہے یقینا امین جالندھری صاحب کا شمار صف اول کے مستند لکھاریوںمیں کیا جاسکتا ہے۔ انھوں نے رضوان قیوم کو کہا کہ وہ ان تحاریر کو ملک سے جاری ہوئے ڈاکیو مینٹری میں شائع کروانے کا بندوبست کرے۔
محترمہ صائمہ خانم نے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ اس کتاب میں شامل تمام کہانیاں اس قابل ہیں کہ انہیں کوئی بہت ماہر اسکرپٹ رائٹر لکھے اور پھر اسے ڈرامائی شکل دی جائے بالخصوص انھوںنے محاسبہ، مستی افسانے کا ذکر کیا۔ نیز محترمہ صائمہ خانم نے اس محفل میں تجویز دی کہ اگر چہ آج گرانی کے دور میں یہ مشکل ہے کہ میں نشریاتی چینل کے ذریعے کوئی باقاعدہ ڈراما بنا یا جائے یہ بڑے بجٹ کاکام ہے۔ لیکن ان شاہکار افسانوں، کہانیوں کو PDFمیں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ رضوان قیوم نے کہا کہ یہ قابل برداشت خرچہ ہے اس میں ان کے کئی ڈرامے منظر عام پر آچکے ہیں۔ لہٰذا مین جالندھری کو چاہے کہ وہ صفدر علی حیدری سے اس بات کیلئے رابطہ کریں۔
محترم قیصر فاروق نے اس ادبی نشست میں تجویز دی کہ وہ اس کتاب کے چند افسانوں کی فوٹو اسٹیٹ بنا کر اس کے مطلوبین میں تقسیم کریں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
جسارت خیالی کی نئی کتاب
تذکرہ شعرائے لیہ
اردو ، سرائیکی شائع ہو گئی ہے ۔
ناشر: رنگ ادب پبلی کیشنز
۵ کتاب مارکیٹ اردو بازار کراچی ، 0336-2085325
چراغِ لالہ، نگارِ خاطر اور دیوانِ کامل کے بعد
ڈاکٹر اسلم انصاری کا فارسی شاعری میں ایک اور منفرد تخلیقی کارنامہ
فرخ نامہ
تیرہ سو اشعار پر مشتمل اس مثنوی میں خیر و بشر اور سزا و جزا کے فلسفے پر بحث کی گئی ہے
جاوید نامہ کے بعد سرزمین مشرق سے ایک اور توانا آواز عنقریب زیورِ طبع سے آراستہ ہو رہا ہے۔