مصنف: شمس الرحمن فاروقی
احمد سلیم کے خوبصورت آرٹ کے سرورق سے آراستہ یہ کتاب عمدہ ہے۔ شمس الرحمن فاروقی گزشتہ دس پندرہ برسوں سے جس تندہی، خلوص اور باریک بینی سے تنقید و تبصرے کے میدان میں جولانیِ طبع دکھا رہے ہیں اُس سے ادب کا ہر رسیا واقف ہے۔
فاروقی کے اندازِ تنقید میں حسب ذیل چھ خصوصیات کی ترکیب ہے:
۱۔ تجرباتی نگاہ سے ہر نکتہ کا مطالعہ اور شناخت۔
۲۔ دعویٰ اور دلیل۔
۳۔ مخالف نقطۂ نظر کا مطالعہ اور شدت سے اس کی تردید۔
۴۔ نظریاتی رجحان اور اخذ و تحصیلی طرز خصوصاً مغربی اُدبا سے ’’بے انتہا متاثر انداز‘‘۔
۵۔ ہیئت کی تفہیم اور ہیئتی تراکیب پر خصوصی نگاہ۔
۶۔ زبان اور تراکیب کی تربیت۔
ان کے مضامین کا انداز منظم ہوتا ہے۔ پہلے وہ ابتدائیہ کے طور پر زیر بحث بات کی اہمیت اور بناطت پر نظر ڈالتے ہیں۔ پھر ان تمام اراکین کا جائزہ لیتے ہیں جو بحث کے لیے ضروری ہوں۔ پھر ایسے مفروضات کو لیتے ہیں جو اُن مضامین کے مطابق مقبول عام ہوں۔ ان مفروضات اور نظریات کی روشنی میں وہ ایک خاص زاویہ کی وکالت کرتے ہیں اور جتنے بھی مخالف نظریات ہوں ان کو شدید طور پر رد کر دیتے ہیں۔ اس تردید میں بھی بلا کا مدلل انداز اور ذہانت کی شعلگی ملتی ہے۔ فاروقی نے ہیئت اور لفظیات کو بہت اہمیت دی ہے۔ وہ الفاظ کے بناؤ سنگھار، تراش و خراش پر گہری نظر رکھتے ہیں۔
فاروقی کا انداز بیان ابتداً بہت تیز و ترش تھا جس سے تازگی جھلکتی رہتی ہے۔ اس مجموعہ میں ’’ادب کے غیر ادبی معیار‘‘ ایسا ہی مضمون ہے۔ اس قسم کے مضامین میں تحقیقی صلاحیت زیادہ کھل کر سامنے آتی ہے بہ شرطیکہ انداز تحریر صحافتی نہ ہو جائے۔ آہستہ آہستہ فاروقی کے لہجے میں سنجیدگی پیدا ہو گئی اور جھکاؤ تجزیاتی اور کاملیت پسند گفتگو کی جانب ہو گیا ہے۔
فاروقی کی تنقیدی زبان شستہ اور عمدہ ہے۔ وہ قاری کو رہ رہ کر نئے رخوں کی جانب موڑ دیتے ہیں۔ ایک مرکزی فکر کے تحت فاروقی ایک مباحثے کو ترتیب دیتے ہیں۔ لیکن وارث علوی کی طرح ہر اس بات کو جو جملہ میں آ گئی ہو ٹھونک ٹھونک کر بجاتے نہیں بلکہ کم الفاظ میں مختلف عکس رخوں کا جائزہ لیتے ہیں۔ اس کے باوجود ان کے پاس تجزیاتی نکات کی کمی نہیں ہوتی۔ اس طرح ایک طویل بیان سادہ اور سلیس نہیں رہ جاتا ہر جملہ میں ارتکاز پیدا ہو جاتا ہے۔
فاروقی کے پاس بلا کی خود اعتمادی اور بے باکی ہے اور اس خود اعتمادی کے ساتھ وہ بات کو صاف اور بہترین طریقے پر پیش کرنے کے شائق ہیں۔ ادبی تنقید میں شخصی عناصر اور اخلاقیاتی فلسفہ کو نہیں الجھاتے۔ الفاظ کی پرکھ اور معانی کی تفہیم میں وہ زیر بحث ادیب سے ایک مختلف روپ میں ملتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ فاروقی ادیب کو کم تر سمجھتے ہیں لیکن ادب کی پرکھ کے لیے ایک غیر ملوث ذہن کی جس شدت سے ضرورت ہوتی ہے اس کا انھیں مکمل احساس ہے۔ اسی لیے وہ ادیب سے مرعوب ہو کر نہیں لکھتے اور نہ ہی وہ موضوع ادب پر بحث کرنے سے جان بچاتے ہیں۔ ہر دقیق موضوع پر سلجھے ہوئے انداز میں اپنی بات کہتے ہیں۔
مثالیں دینے کا رویہ فاروقی تنقید کا ایک اہم رخ ہے۔ وہ اردو افسانے پر بات کرتے کرتے انگریزی، فرانسیسی اور جرمن افسانے کا ایک باذوق اور مکمل قاری کی طرح جائزہ لیتے ہے۔ اکثر مجھے یوں لگا ہے کہ فاروقی صاحب اختیاری (Intentional) طور پر عجمیت اور مغربیت کی جانب جھکاؤ پیدا کرتے ہیں۔
شعر غیر شعر اور نثر، افسانے کی حمایت میں ن۔ م۔ راشد صوت و معنی کی کشاکش میں اور اکثر مضامین اسی مفروضے پر مبنی ہیں کہ قاری ادب کے بین الاقوامی نظریات سے نہ صرف واقف ہے بلکہ ہر زبان کا قاری ہے اورا یسی ہی صورت میں قاری ان مضامین میں شریک ہو سکتا ہے۔
کتاب میں اکثر مضامین معرکۃ الآرا ہیں خصوصاً ’’علامت کی پہچان‘‘، ’’شعر، غیر شعر اور نثر‘‘، ’’نظم اور غزل کا امتیاز‘‘، ’’یے ٹس‘‘، ’’اقبالؔ اور ایلیٹ‘‘، ’’تبصرہ نگاری کا فن‘‘، ’’غالبؔ اور جدید ذہن‘‘ اور ’’برف اور سنگ مرمر‘‘۔
اس کتاب کے اکثر مضامین ان عنوانات پر ہیں جن پر آج تک کسی اردو نقاد نے کھل کر بات نہیں کی۔ خصوصاً اس وضاحت کے ساتھ۔۔۔ اس کی ایک عمدہ مثال ’’صاحب ذوق قاری اور شعر کی سمجھ‘‘ ہے۔
دوسری تنقیدی کتابوں کے مقابل فاروقی کی یہ کتاب با وزن اور صریح فکر سے مالا مال ہے۔ اس کے علاوہ کتاب کا انداز متوازن اور معلوماتی ہے۔ سطحی اور تعلیمی لہجے کی بد رنگی کہیں نہیں ملتی۔ ہر مضمون میں خوش بیانی کی رطوبت محسوس ہوتی ہے۔
بلا شبہ یہ کتاب ایک عمدہ تنقیدی مجموعہ ہے اور ہر طالب علم اور خوش ذوق کے خزانہ میں اس کی موجودگی ضروری ہے۔ کتاب کی طباعت، کتابت اور گٹ اپ قابلِ تعریف ہیں۔
ناشر: شب خون کتاب گھر۔ ضخامت: ۳۸۲ صفحات۔ قیمت: ۱۸ روپے۔ (مشمولہ ’’برگِ آوارہ‘‘ ۸ جون ۱۹۷۴ء)
٭٭٭