خالہ بی نےا اس رخ سے تو سوچا بھی نہ تھا۔اب عقل آئی تو منہ سجائے سجائے بولیں۔”ٹھیک ہے شہریار کو بلوائے لیتی ہوں چٹ منگنی پٹ بیاہ ہو جائے گا”
خالہ کا بڑا بیٹا شہریار لاہور کے مقامی بینک میں اسسٹنٹ مینیجر تھا نہایت سنجیدہ اور پر وقار’حنا کو وہ بچپن میں دل ہی دل میں چاہتا آیا تھا۔دلی مراد بر آئی تو اسکا ہر دن عید اور ہر رات شب برات ہو گئی۔
حنا بھی شہریار کو پا کر بہت خوش اور مطمئن تھی۔اس نے میک اپ کے ڈھیروں سامان کے ساتھ ساتھ ڈھیروں’انجیکشن بھی خرید لیے تھے۔زریں گروپ نے شادی کے موقع پر اسے مارفیا کے بہت سارے انجیکشنز تحفے میں دے دیے تھے جنہیں وہ سب سے چھپا کر سسرال لے آئی۔جب تک فیصل آباد میں رہی ساس سسر اور شوہر کو خبر تک نہ ہوئی کہ دلہن مارفیا کی عادی ہے۔اسے نیند میں ڈوبا دیکھ کر وہ اسے رت جگوں کا ردعمل سمجھتے رہے۔لیکن جب شہریار کے ساتھ لاہور آئی تب یہ راز جھپانا مشکل ہو گیا۔
کچھ دن پر سکون گزرے۔شہریار صبح نو بجے چلے جاتے اور شام 5 ساڑھے 5 بجے ان کی واپسی ہوتی۔ وہ فطرتا نیک طبیعت کے آدمی تھے’بیوی پر روک ٹوک یا شک کرنا ان کی فطرت میں شامل نہیں تھا۔اپنی ساری تنخواہ اس کے ہاتھ میں رکھ کر کبھی نہ پوچھتے کہ کہاں خرچ ہوئی۔حنا انجیکشن الماری میں چھپا کر رکھتی تھی۔وہ جب دفتر چلے جاتے تو اپنا نشہ پورا کر لیتی۔الماری کی چابی شہریار سے چھپا کر رکھتی تھی۔
ایک دن شہریار جلدی گھر آ گئے۔حنا کا نشہ ٹوٹ رہا تھا۔وہ انجیکشن کے لیے بے تاب تھی پھر بھی اپنے آپ کو سنبھالتی باورچی خانے میں چلی گئی۔
“حنا!”
وہ شہریار کی آواز پر چونک اٹھی۔شہریار دروازے پر کھڑے الجھی الجھی نظروں سے اسکی طرف دیکھ رہے تھے۔وہ دو قدم اندر آ گئے اور اپنی ہتھیلی اس کے سامنے پھیلا دی۔”یہ کیا ہے؟” وہ بدستور الجھے ہوئے سے تھے۔
حنا کو جیسے بچھو نے ڈنک مار دیا تھا وہ خوفزدہ ہو کر پیچھے ہٹ گئی۔
“تم مارفیا کے انجیکشن لیتی ہو؟”
حنا نے جواب میں معصومیت سے اقرار میں گردن ہلا دی۔
شہریار کبھی حیرت میں شیشی کو دیکھتے اور کبھی حنا کو۔
وہ پوری جان سے لرز اٹھی۔ماتھے پر پسینا پھوٹ رہا تھا۔آنکھوں کے آگے ستارے سے ناچنے لگے تھے۔
“ادھر آئو میرے ساتھ’کھانا بعد میں نکال لینا۔”
شہریار کے حکم پر وہ کھینچی چلی گئی۔وہ پلنگ پر بیٹھ گئے اور اسے قریب بٹھا کر پیار سے پوچھا۔”تم یہ کب سے استعمال کر رہی ہو؟”
“تین سال سے”حنا کو اب جمائیاں آنے لگیں۔
“اب بھی استعمال کرتی ہو یعنی شادی کے بعد بھی؟”شہریار کے لہجے میں حیرت ہی حیرت تھی۔
حنا نے پھر اقرار میں سر ہلا دیا’اس کی نظریں زمین سے نہیں اٹھتی تھیں۔
“حنا میری طرف دیکھ کر بات کرو۔کیا تم روز انجیکشن لیتی ہو؟تمہیں انجیکشن لینے کس نے سکھائے؟”
حنا نے دھیمے دھیمے ساری بات بتادی اور شہریار بے قرار سے آٹھ کر ٹہلنے لگے کبھی پریشانی سے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے’کبھی حنا کو غور سے دیکھنے لگتے۔حنا گردن جھکانے مجرم بنے بیٹھی رہی۔
“میں بھی حیران تھا کہ تم روز بروز کمزور کیوں ہوتی جا رہی ہو’چند سال پہلے تم نو شگفتہ کلی جیسی شاداب تھیں اور آج تمہارا چہرہ دیکھ کر رحم آتا ہے۔ایسا لگتا ہے برسوں کی مریضہ ہو۔تمہاری آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے دن بہ دن بڑھتے جا رہے ہیں” شہریار ایک دم اس کے قریب آگئے اور اپنے مضبوط ہاتھوں سے اس کے شانوں کو سختی سے جکڑ لیا۔
“کیا تم مجھ سے خوش نہیں ہو؟یہ شادی تمہاری پسند سے نہیں ہوئی ہے’بچپن میں تو تم مجھے دیکھ کر بڑی خوشی کا اظہار کرتی تھیں۔میں سمجھتا راہ تم مجھے بہت چاہتی ہو کیا یہ غلط ہے؟”
حنا نے شہریار کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا”ایسی باتیں مٹ کریں۔”
اسکی آنکھیں بھیگنے لگیں۔”میں یہاں بہت خوش ہوں۔
آپ کے سوا کسی اور کے خیال کو بھی اپنے اوپرھرام سمجھتی ہوں”وہ جذباتی ہونے لگی۔
“پھر تم نقشہ کیوں کرتی ہو؟کس سے فرار چاہتی ہو؟مجھ سے یا اپنے آپ سے۔”شہریار کا لہجہ سخت ہوگیا۔انکے ماتھے کی گریں ابھر آئیں اور چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا۔
حنا جواب میں رو پڑی۔اسکی سسکیاں کمرے میں گونجنے لگیں اور شہریار خاموش کھڑے ہونٹ کاٹتے رہے۔کتنے سارے لمحے گزر گئے پھر وہ اسکے قریب آگئے۔پیار اور نرمی سے اسکا چہرہ اوپر کیا اپنی ہتھیلیوں سے اسکے آنسو خشک کیے۔
دیکھو جان شادی سے پہلے تمہارے جیسے حالات تھے تب تمہیں شاید اسکی ضرورت ہوئی ہوگی’مگر اب تم میرے پاس ہو اپنے شہریار کے پاس’میں تمہارا محبوب ہوں تمہاری تنہائیوں کا ساتھی ہوں’تمہارے دکھوں کا شریک بھی۔تمہیں میری خاطر یہ نشہ چھوڑنا ہوگا۔”
حنا نے اس کے سینے سے لگ کر عہد کر لیا کہ وہ اب کبھی انجیکشن نہیں لیگی۔
وہ اسے دیر تک سمجھاتے رہے ۔پھر اپنے ہاتھوں سے انجیکشن کی ساری شیشیاں توڑ کر نالی میں بہادیں۔
دوسرے روز وہ مطمئن ہو کر دفتر چلے گئے۔حنا کچھ دیر تک خالی خالی ذہن ادھر ادھر پھرتی رہی۔جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا تھا اسکی حالت غیر ہوتی گئی۔اس کا رواں رواں اذیت کے شکنجے میں جکڑنے لگا۔درد رگوں کو مروڑ دینے لگا اور حال میں کانٹے اگ آئے۔خون میں بار بار ابال سا اٹھتا تو اسکا جی چاہتا کہ تیز چھڑی سے اپنی بسوں کو چھید ڈالے۔اس نے اپنے تیز ناخنوں سے دیوار کھڑے ڈالی’ سانس دھونکنی کی طرح چلنے لگی اور تب ضبط کا یارا نہ رہا وہ اپیلوں کی طرح سڑک پر آگئی اسکا رخ میڈیکل اسٹور کی جانب تھا۔
شام کو شہریار گھر آئے تو وہ ایک ہی نظر میں بھانپ گئے کہ حنا نے وعدہ خلافی کی ہے۔وہ غصے میں آگے بڑھے۔
“تم نے انجیکشن لیا ہے؟”ان کی آنکھیں شعلے برسا رہی تھیں۔
“میں مجبور ہوں شہریار’میں اسکے بغیر زندہ نہیں رہ سکوں گی۔”
شہریار کا ہاتھ اٹھا اور کمرا تھپڑ کی آواز سے گونجھ اٹھا۔حنا لڑکھڑا کر مسہری پر گر پڑی۔اسکے بائیں گالپر انگارہ سا دھک اٹھا تھا۔درد کی شدت سے آنسو ابل پڑے۔
“تمہیں ہر قیمت پر اسے چھوڑنا ہوگا حنا۔میں تمہیں جان سے مار دونگا۔کیا تم چاہتی ہو کہ کل سارے زمانے کو خبر ہو جائے کہ شہریار کی بیوی مارفیا کی عادی ہے۔تم مجھے بدنام کرنا چاہتی ہو۔میرے دشمن مجھ پر قہقہے لگائیں گے کہ ایسی گھٹیا عورت کو گھر میں بسا لیا۔تمہیں ہر قیمت پر اسے چھوڑنا ہوگا۔”
شہریار غصے میں گھر سے نکل گئے اور وہ ساری رات روتی رہی اور پھر ایسی بہت ساری راتیں جب وہ شہریار سے پٹی’ہر بار اسنے نشہ چھوڑنے کا عہد کیا اور ہر بار یہ عہد پانی کے بلبلے کی طرح پھوٹ گیا۔وہ مجبوروبے بس تھی۔مارفیا اس کے جسم کی ضرورت بن گیا تھا۔شہریار کا پیار اور اسکی ڈانٹ ڈپٹ اور سختی سب اسکے لیے بیکار ثابت ہوئی۔وہ کئی کئی دن اس سے روٹھے رہتے۔ان کی بے اعتناعی پر وہ تڑپ اٹھتی’ان کے قدموں میں سر رکھ کر منع لیتی مگر نشہ نہیں چھوڑ سکی۔شہریار اس سے دور ہوتے گئے۔فاصلے غیر محسوس انراز سے بڑھتے گئے۔
ایک رات وہ دیر سے گھر لوٹے۔دروازہ کھولا تواس کے منہ سے چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی۔وہ بہت بری طرح سے لڑکھڑا رہے تھے۔ان کا جسم جھول رہا تھا اور منہ سے شراب کا تیز بھبکا آیا۔حنا نے منہ پر ہاتھ رکھ لیا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...