What makes the engine go?
Desire, desire, desire.
– Stanley Kunitz
کشیپ صاحب نے جب ایک سادے کاغذپر ہیڈ لائن لکھا؛ “GPL“۔جوہر جو ان کے ساتھ زیر تعمیر میٹرو برج میں بیٹھا ہوا تھا، اس کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔
’’GPL?…مطلب؟‘‘
’’اپنے پروجیکٹ کا خفیہ نام…GPL…یعنی Greatest Planned Luck ‘‘ کشیپ صاحب نے جوہر کی طرف داد طلب نظروں سے دیکھا ۔
’’Luck?…کتنی فالتو بات ہے…دو سائنس کے جینیس اورLuck؟‘‘کشیپ صاحب کو اوسط ذہن کے جوہر کی عقل پر ترس آگیا ، اس لیے جھنجھلاہٹ کو باہر نہیں آنے دیا۔
’’ارے یار فیملی پروجیکٹ ہے۔ نام میں “L“کی جگہ “F“استعمال کیجیے گا کیا؟ اچھا لگے گا؟‘‘اب کشیپ صاحب کی حکمت عملی جوہر کی سمجھ میں بھی آگئی۔ اس نے تعریفی نظروں سے کشیپ صاحب کی طرف دیکھا۔
’’ہم م م…اور ویسے بھی GPF سے General Provident Fund کا احساس ہوگا…ایسا لگے گا جیسے ہم اپنے پوسٹ ریٹائرمنٹ کی اسکیم بنا رہے ہیں،‘‘ جوہر نے ایک بار پھر کشیپ صاحب کو دیکھتے ہوئے اپنی بات مکمل کی لیکن کچھ اس طرح کہ لفظ “L” بولتے ہوئے لفظ “F“کا تاثر دیا؛ “You are Luck-ing genius Kashyap sahab“
کشیپ صاحب نے اس مذاق پر کھل کر قہقہہ لگایا اور انھوں نے بھی اسی رعایت لفظی کا سہارا لیتے ہوئے جواب دیا؛ ’’ Luck you ‘‘ پھر جلد ہی وہ اصل مقصد پر لوٹ آئے ؛’’ چلیے پروجیکٹ کے phasesکو سمجھ لیتے ہیں۔‘‘
جوہر نے ان کے ہاتھ سے نوٹ بک چھینتے ہوئے کہا؛ ’’میں کرتا ہوں۔‘‘
اس نے سب سے پہلے پانچ کالم بنائے۔ پھر سب کے اوپر ا نگریزی کے بڑے حروف میں ٹائٹل لگائے:
STAGE-1: INITIATION
STAGE-2: PLANNING
STAGE-3: EXECUTION & CONSTRUCTION
STAGE-4: MONITORING & CONTROLLING
STAGE-5: COMPLETION
اب انھوں نے ایک ایک کر کے سارے کالم کو pointers سے بھرنا شروع کردیا ۔دن بھر وہ اپنے پروجیکٹ میں لگے رہے۔دوسرے دن بھی یہی ہوا ، البتہ فرق صرف اتنا تھا کہ دونوں اپنے اپنے work-place پر مصروف رہے۔ شام کو جب انجینئر انکلیو لوٹے تو اپنے اپنے نوٹ انھوں نے ایک دوسرے کو سونپ دیا۔ اس وقت میرو اور سمن بنگلے کے باہر ایک ساتھ کسی آم کے ٹھیلے پر رکھے آم دیکھ رہی تھیں۔ کشیپ صاحب کو ایک بار پھر وہی منظر نظر آیا کہ میرو آم کو سیکسی انداز میں سونگھ رہی ہے، پھر اس نے وہ آم سمن کی طرف بڑھا دیا۔ اب سمن بھی اسی انداز میں آم سونگھنے کی کوشش کر رہی تھی۔ اس بار جوہر نے سمن کو آم سونگھتے ہوئے وہی جذبات اپنے اندر کروٹیں لیتے ہوئے محسوس کیا جس کے کشیپ صاحب عادی ہو چکے تھے۔ جوہر کی نظر کشیپ صاحب پر پڑی تو وہ اسے گھورتے نظر آئے۔ جوہر پل بھر کے لیے سٹپٹاگیا۔
’’ایک بات نوٹ کی آپ نے؟‘‘
کشیپ صاحب نے خشمگیں نظروں سے اس کی طرف دیکھا؛ ’’ہاں! سونگھ کر آم پہچاننا سب کے بس کی بات نہیں ہوتی۔‘‘
’’وہ نہیں۔ میں بول رہا تھا کہ اپنے GPL کے vital parameters ان سول سرونٹ کی اسٹوری سے کتنی ملتی جلتی ہے۔ دو high IQ والے بندے، اغل بغل کے گھر، پتی ورتا ٹائپ کی بیویاں؟‘‘
’’ہاں بھائی!‘‘ کشیپ صاحب نے مصنوعی حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا؛ ’’Actually, being a scientific mind I don’t believe in such things like divine intervention or lucky coincidence…مگر کچھ تو ہے یار۔‘‘
جوہر نے سر ہلاتے ہوئے کہا؛ ’’ویسے ایک بڑا difference بھی ہے…ہمارے مائنڈ میں ایک دوسرے کی وائف کے لیے کوئی پہلے سے dirty thoughts نہیں تھے ، ان لوگوں کی طرح۔‘‘
کشیپ صاحب نے اپنی جھینپ مٹانے کے لیے فوراً جوہر کو گلے لگا لیا تاکہ وہ ان کے چہرے کے تاثر کو نہ پڑھ سکے؛ ’’واہ! کیا mind boggling point پکڑے ہیں جوہر صاحب!‘‘ ایک بار پھر کشیپ صاحب کی نظر کے سامنے میرو کا چوڑا چکلا کولھا تھا جو انھیں ہمیشہ کچھ کر گذرنے کی دعوت دیتا رہتا تھا۔
بھٹ صاحب دور کھڑے جوہر اور کشیپ صاحب کو گلے ملتے ہوئے ناگواری سے دیکھ رہے تھے ۔ وہ ان دونوں پر مسلسل نظر رکھے ہوئے تھے؛ ان کی ہر حرکت ان کے شک کو مزید تقویت دے جاتی تھی۔ اس دن بھی انھوں نے دوربین کی مدد سے دیکھا کہ کشیپ صاحب اپنے بنگلے سے دوڑتے ہوئے جوہر کے بنگلے کی طرف جا رہے تھے۔ جوہر ایک اسٹاپ واچ کی مدد سے ٹائم نوٹ کررہا تھا۔ پھر جوہر نے بھی یہی کیا یعنی اپنے بنگلے سے کشیپ صاحب کے بنگلے کی طرف دوڑ لگائی اور اس بار کشیپ صاحب نے اسٹاپ واچ کی مدد سے ٹائم دیکھا۔ پھر دونوں ایک طرف بیٹھ کر کچھ جوڑ گھٹاؤ کرنے لگے۔
یہی نہیں ، بھٹ صاحب نے ایک دن انکلیو کے پارک میں نیا تماشہ دیکھا۔ کشیپ صاحب پارک میں لمبی jogging کے بعد جوہر کے پاس لوٹے جو وہیں پڑی ایک سمینٹ کی کرسی پر بیٹھا کیلا کھا رہا تھا۔ جوہر نے اپنے بیگ سے ایک چھوٹی سی weighing machine نکالی اور دونوں اپنا اپنا وزن اس میں باری باری دیکھنے لگے۔ بھٹ صاحب کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا لیکن انھوں نے اس بات کا اندازہ ضرور لگا لیا تھا کہ اندر ہی اندر کوئی کھچڑی پک ضرور رہی ہے۔
بھٹ صاحب کو جانے دیجیے، کچھ غیر معمولی باتیں تو کشیپ صاحب کی بیوی سمن نے بھی نوٹ کی ۔ اس دن جب وہ اپنی سگریٹ ختم کر کے اور منھ میں گٹکا کا ایک پورا پیکٹ ڈال کر گھر لوٹے تو اپنی سوتی ہوئی بیوی کے بغل میں جا لیٹے۔ پھر انھوں نے جان بوجھ کر اپنا چہرہ سمن کے بالکل قریب کر دیا۔ سوتی ہوئی سمن ہڑ بڑا کر اٹھ گئی۔
’’ کون ہے؟ کون ہے؟‘‘اندھیرے میں سمن کو کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔
’’ارے بھائی ہم ہیں۔سو جائیے۔‘‘
’’اتنی باس آ رہی ہے…گٹر کا پانی پی کر آ رہے ہیں کیا؟‘‘ سمن نے ناک پر انگلی رکھتے ہوئے پوچھا۔
’’ارے پان مسالہ ہے ٹاپ برانڈ کا…فالتو بات مت کیجیے۔‘‘ کشیپ صاحب نے اسے جھڑکتے ہوئے کہا۔
’’گندگی کھانے کا اتنا ہی شوق چرّایا تھا تو کتے کا گُو کاہے نہ چاٹ لیے…ٹاپ برانڈ کا؟‘‘ سمن نے اپنا تکیہ اٹھایا اور بڑ بڑاتے ہوئے بیڈروم سے باہر نکل گئی۔ کشیپ صاحب نے فوراً اپنا موبائل اٹھایا اور whatsapp پر جوہر کو ایک پیغام پہنچا دیا؛ “Cigarette & Paan Masala are injurious to the project.”
جوہر کے دل پر اس پیغام نے کیا اثر کیا ہوگا ؛ اس کا معمولی سا اندازہ کشیپ صاحب کر رہے تھے۔ کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ جوہر بغیر پان مسالہ کے خود کو مکمل تک نہیں سمجھتا ؛ بالکل ویسے ہی جیسے کوئی رنڈی بناؤ سنگھار کے بغیر خود کو ادھوری سمجھتی ہے۔
خیر ، بات ہو رہی تھی بھٹ صاحب کی جو کشیپ صاحب اور جوہر کے درمیان رو زبروز بڑھتے ہوئے اس شرم ناک رشتے پر حد درجہ مشکوک تھے، ایک واقعے نے ان کے شک کو یقین کی سرحد میں داخل کردیا۔
اس دن اپنے بنگلے کے باہر جوہر اپنی بیوی میرو اور بچی کو ٹیکسی میں بٹھا کر انھیں الوداع کہہ رہا تھا۔ بھٹ صاحب نے دیکھا کہ ٹیکسی وہاں سے جانے کے تھوڑی ہی دیر بعد جوہر نے کشیپ صاحب کے بنگلے کی طرف منھ کر کے کو ئل کی آواز نکالی۔ کشیپ صاحب اس آواز کو سنتے ہی باہر آگئے اور جوہر کی طرف دیکھا۔ جوہر نے اپنا انگوٹھا اوپر کر کے انھیں راستہ صاف ہونے کا اشارہ دیا۔ کشیپ صاحب مسکرائے اور اپنے بنگلے سے لیپ ٹاپ لٹکا کر یوں نکلے جیسے حسب معمولی آفس جا رہے ہوں لیکن گیٹ کے باہر نکل کر پہلے تو اِدھر اُدھر اپنی نظریں دوڑائیں اور پھرتی سے جوہر کے بنگلے میں جا گھسے۔ بھٹ صاحب کے منھ پر دروازہ بند ہوگیا۔
بھٹ صاحب کے لیے اب یہ ’’بے حیائی‘‘ ناقابل برداشت ہو گئی تھی، انھوں نے تہیہ کرلیا کہ ان دونوں ’’گڑوں‘‘ کو آج رنگے ہاتھوں پکڑ کر رہیں گے۔ وہ تیزی سے جوہر کے احاطے میں داخل ہوئے۔
بدقسمتی سے اس وقت دروازے کے اس طرف جوہر اور کشیپ صاحب کے درمیان ایک بحث چل رہی تھی۔ جوہر کافی نروس نظر آ رہا تھا جب کہ کشیپ صاحب اسے رام کرنے کی کوشش کررہے تھے۔
’’ارے یار، آپ تو ایسے نروس ہو رہے ہیں، جیسے ہم آپ کو پینٹ اتارنے کو بول رہے ہیں۔ Detailکا کھیل ہے جوہر صاحب…ہر فزیکل، پرسنل اور intimate detail کو دھیان میں رکھنا پڑے گا، ورنہ سب کے سامنے چرکُٹ بن جائیے گا۔‘‘
’’پہلے آپ اتاریے۔‘‘ جوہر منمنایا۔
کشیپ صاحب سمجھوتے پر اتر آئے؛ ’’چلیے ایک ساتھ اتارتے ہیں؛ ایک ، دو، تین۔‘‘
دونوں نے ایک جھٹکے سے اپنے اپنے شرٹ اتار دیے۔ جوہر کا سینہ تقریباً صاف تھا ، جب کہ کشیپ صاحب کا سینہ بالوں سے بھرا ہوا تھا۔
یہی وہ وقت تھا جب بھٹ نے لان کی کھڑکی کے ذریعے اپنی پھٹی آنکھوں سے دو مردوں کو ادھ ننگا دیکھ لیا۔ وہ ثبوت کی خاطر اپنے موبائل کے کیمرے سے ان کی تصویر اتارنے ہی والے تھے کہ پڑوس کی بڑی سی بلی نے انھیں دیکھ کر غرانا شروع کردیا۔ بھٹ صاحب کھڑکی سے چپ چاپ اتر آئے لیکن انھوں نے ہمت نہیں ہاری، وہ دوسری کوئی ایسی جگہ تلاش کرنے لگے ۔
اندر جو سین چل رہا تھا، وہ تکرار پر مبنی تھا۔ جوہر جھنجھلایا ہوا نظر آ رہا تھا۔
’’اچھا! میری باری میں detail کا کھیل اور آپ کی باری آئی تو سب فیل؟‘‘
کشیپ صاحب بے بسی سے کمزور لہجے میں اپنا دفاع کررہے تھے؛ ’’وہ بات نہیں ہے جوہر صاحب! لیکن چھاتی کے بال شیو کرنا؟ بڑا foolish type feeling ہو رہا ہے یار۔‘‘
’’ہم سے پوچھیے کیسا feel ہو رہا ہے،سالا کل سے پان، سگریٹ سب چھوڑے بیٹھے ہیں۔دل کرتا ہے کہ ابھی اس پروجیکٹ کو چھوڑدیں اور…‘‘
کشیپ صاحب نے کھلاڑی کو میدان سے بھاگتا دیکھ کر فوراً پینتر ا بدلا؛ ’’آپ یار، ذرا ذرا سی بات پر سینٹی ہو جاتے ہیں جوہر صاحب۔‘‘
یہ دونوں بھٹ صاحب کی موجودگی سے بے خبر تھے جو دروازے کی جھریوں سے انھیں دیکھنے کی ناکام کوشش کر رہے تھے۔ اگرچہ ان کی باتیں بھٹ صاحب کے کانوں تک نہیں پہنچ رہی تھیں لیکن کبھی کبھی دونوں کی topless body اور ان کی مشکوک حرکتیں نظر آ جاتی تھیں۔ ٹیکسی کے ہارن کی آواز آئی تو انھوں نے پلٹ کر دیکھا؛ میرو خلاف توقع لوٹ آئی تھی۔
’’یہاں کیا کررہے ہیں آپ؟‘‘ میرو نے بھٹ صاحب کی طرف شک بھری نظروں سے دیکھا۔بھٹ صاحب تھوڑا سٹپٹائے ضرور لیکن فوراً خود کو سنبھال لیا۔
’’آپ واپس آگئیں؟ آپ تو پونہ…‘‘
’’کچھ چھوٹ گیا تھا، وہی لینے آئی ہوں لیکن آپ یہاں کیا کررہے ہیں؟‘‘ ایک بار پھر وہی سوال میرو کے ہونٹوں پر تھا جس کا جواب بہرحال بھٹ صاحب کو دینا ہی تھا۔لیکن جواب اتنا بھدا تھا کہ کسی عورت کو بتاتے ہوئے بھٹ صاحب کو مناسب الفاظ کی ضرورت تھی جو وہ ڈھونڈ رہے تھے۔
’’انکلیو کی لاج بچا رہے ہیں، آپ لوگوں کے سہاگ بچا رہے ہیں ؛ اور کیا کررہے ہیں۔‘‘
میرو نے کچھ سمجھ ہی نہیں پائی۔ اس کی ٹیکسی ویٹنگ میں کھڑی تھی، اس لیے وہ بھٹ صاحب کی واہی تباہی کو نظر انداز کرتے ہوئے چابی سے دروازہ کھولنے لگی لیکن اچانک جست لگا کر بھٹ صاحب دروازے اور میرو کے درمیان حائل ہوگئے۔
’’دروازہ مت کھولیے محترمہ! انسانیت پر رحم کھائیے ، پلیز۔ مردوں کی ذات کو سر عام شرمندہ مت کیجیے۔ جو چھوٹ گیا ہے، اسے چھوڑ دیجیے اور لوٹ جائیے اپنے بھروسے کی ٹیکسی لے کر اپنی معصومیت کی دنیا میں۔‘‘ جوہر نے بڑی رقت سے دہائی دی۔
میرو بھڑک گئی؛ ’’آپ کا دماغ تو ٹھیک ہے نا، بھٹ صاحب؟ میں اتنی دیر سے آپ کی عمر کا لحاظ کر رہی ہوں ، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ…ہٹیے سامنے سے، مجھے دیر ہو رہی ہے…ابھی مسٹر جوہر ہوتے تو آپ کو…‘‘
بھٹ صاحب نے میرو کی بات درمیان ہی سے اچک لی؛ ’’مسٹر جوہر ہوتے؟ کہاں ہیں مسٹر جوہر؟‘‘
’’آفس جانے والے تھے، وہیں ہوں گے۔‘‘ میرو کے اس جواب پر بھٹ صاحب مسکرائے بغیر نہ رہ سکے۔
’’آفس میں ہوں گے؟ تو چلیے کھولیے دروازہ…آپ کی قسمت میں آج ہی آپ کے سپنوں کا ڈھیر ہونا لکھا ہے تو یہی سہی۔ کھولیے دروازہ۔‘‘بھٹ صاحب ایک طرف ہٹ گئے۔ اب میرو کچھ نروس دکھائی دینے لگی تھی۔ بھٹ صاحب کی خود اعتمادی میں کچھ تو ایسا تھا جسے میرو نہ سمجھتے ہوئے بھی ایک انجانے خوف میں مبتلا ہوگئی تھی۔ بھٹ صاحب نے اسے تسلی دی۔
’’کھولیے…ڈریے مت، میں آپ کے پیچھے ہوں…اگر بے ہوش ہو کر گریں گی تو سنبھال لوں گا۔‘‘
میرو نے بالآخر ایک جھٹکے میں دروازہ کھول ہی دیا۔ اس کے پیچھے پیچھے بھٹ صاحب بھی اندر داخل ہوئے جو لگاتار بولے چلے جا رہے تھے۔
’’میں آپ سے ہمیشہ بولتا تھا ، یہ پونہ۔ممبئی کا چکر آپ کی شادی کو…‘‘
وہ اپنا جملہ پورا نہ کرپائے۔ نہ جوہر اور نہ ہی کشیپ صاحب وہاں نظر آ رہے تھے۔ بھٹ صاحب بری طرح کنفیوژ ہو گئے، پھر بھی انھوں نے اپنے لڑکھڑاتے اعتماد کو کسی قدر سنبھالتے ہوئے میرو سے کہا؛ ’’آپ بیڈ روم میں چلیے میرے ساتھ…‘‘
میرو جو پہلے ہی ان سے بھری بیٹھی تھی، اس کا غصہ اب جواب دے چکا تھا۔ اس نے اپنے پاؤں سے چپل اتارنا شروع کردیا۔
’’میں بیڈ روم میں چلوں؟ تیرے ساتھ؟ تیرا ارادہ کیا ہے غلیظ انسان؟‘‘
بھٹ صاحب سمجھ گئے کہ ایسی خطرناک غلط فہمی دونوں کے درمیان حائل ہو گئی ہے جسے فوراً دور نہ کیا گیا تو بڑے بے آبرو ہو کر وہ اس کوچے سے نکلیں گے۔
’’ارے آپ مجھے غلط سمجھ رہے ہیں…میں تو بس آپ کو پتیوں کا ننگا ناچ دکھانا چاہتا ہوں۔‘‘
میرو اب کچھ سننے کے لیے تیار نہیں تھی، اس نے اپنا چپل بھٹ صاحب کی طرف پھینکا۔ بھٹ صاحب بھاگے لیکن تب تک دیر ہوچکی تھی، ان کی پشت پر چپل نے اپنی چھاپ چھوڑ دی۔
میرو نے وہاں پاس ہی میں پڑا اپنا ہینڈ بیگ اٹھایا اور دروازے کی طرف مڑی لیکن پھر ٹھٹک گئی، پل بھر کے لیے کچھ سوچا اور بیڈ روم کا دروازہ دھیرے سے کھولتے ہوئے آواز لگائی؛ ’’منا؟‘‘ لیکن بیڈروم میں کوئی ہوتا تو جواب دیتا۔ میرو نے اطمینان کی ایک ٹھنڈی سانس لی اور بڑبڑاتے ہوئے دروازے کی طرف بڑ ھ گئی؛ ’’پاگل بڈھا!‘‘
باتھ روم میں موجود کشیپ صاحب اور جوہر تھوڑی دیر پہلے باہر آئے ہوئے زلزلے سے قطعی بے خبر تھے، کیوں کہ اندر بھی کچھ کم تناؤ نہ تھا۔ کشیپ صاحب کی آنکھیں بند تھیں، ان کا پورا سینہ اس وقت شیونگ کریم کے جھاگ سے بھرا ہوا تھا۔ انھوں نے razor کا رخ اپنے سینے کی طرف کردیا۔ جوہر نے خوشی سے تالی بجائی۔ تھوڑی ہی دیر میں کشیپ صاحب کا سینہ بالوں کی کثیر مقدار سے آزاد ہو کر چمکنے لگا۔
’’بولیے ، پہلے سے ہلکا لگ رہا ہے یا نہیں؟ چھاتی سے خواہ مخواہ کا وزن ہٹ گیا…اوپر سے آپ چکنوں کی گنتی میں آگئے۔‘‘جوہر نے کشیپ صاحب کے اترے ہوئے چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا۔ بے چارے کشیپ صاحب تو جیسے اندر ہی اندر سنگسار ہو رہے تھے، انھیں ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے انھوں نے اپنے سینے کے بال صاف کر کے مرد ذات کو ایک بھدی گالی دی ہے۔ لیکن پھر انھوں نے خود کو ہی دلاسہ دیا کہ یہ قدم بھی تو آخر انھوں نے مردانہ وقار کی سر بلندی کے لیے اٹھایا ہے۔
اس مردانہ عظمت کے استحکام کے لیے کشیپ صاحب شب و روز کوشاں تھے ۔ وہ کبھی اپنے گھر کی مختلف زاویوں سے تصویریں کھینچتے ، پھر ان تصویروں کو اپنے بنگلے کے نقشے پر چپکاتے ۔ کبھی جوہر کے دروازے سے اس کے بیڈروم تک کے قدموں کی تعداد نوٹ کرتے۔ وہ اندھیرے میں چلنے کی عادت بھی ڈال رہے تھے۔
جوہر بھی ان کی کشادہ قلبی سے مدد کررہا تھا۔ جوہر کے گھر پر پریکٹس کرنا اس لیے زیادہ آسان تھا ، کیوں کہ پیر سے لے کر جمعرات تک میرو وہاں نہیں ہوتی تھی ۔
’’میرو اس سائڈ پر سوتی ہے توآپ کو تھوڑا گھوم کر یہاں آنا ہے۔‘‘ جوہر نے جب کشیپ صاحب کو اپنے بیڈروم کاجغرافیہ سمجھایا تو ان کی آنکھوں میں سرخ ڈورے تیرنے لگے۔ وہ تصور میں میں میرو کو اپنے اتنا قریب دیکھنے لگے، جس کے بعد قربت اپنے تمام جمال و جلال کے ساتھ مجسم ہوجاتی ہے۔ اس سے قبل کہ کشیپ صاحب کی تصوراتی تجسیم اپنے کمال تک پہنچتی، جوہر نے انھیں ٹوکا؛ ’’ ارے، کہاں کھوگئے آپ؟ کتنے steps ہوئے؟‘‘
کشیپ صاحب گنتی بھول چکے تھے ، اس لیے انھیں یہ کام دوبارہ کرنا پڑا۔ قدموں کی گنتی نقشے پر نوٹ کی جا رہی تھی۔ پھر انھوں نے آنکھوں پر پٹی باندھ کر اندھیرے میں چلنے کی مشق شروع کردی۔ کبھی وہ باتھ روم تک پہنچ جاتے تھے تو کبھی اسٹور روم کی طرف نکل جاتے تھے؛ لیکن عزم پیہم کے صدقے وہ جب پلنگ کے متعینہ حصے پر پہنچنے میں کامیاب ہوئے تو خوشی سے تقریباً چلا اٹھے۔ جوہر نے اسٹاپ واچ پر وقت نوٹ کیا۔ کافی دیر تک یہ سب چلتا رہا، لیکن ان دونوں کو نہ تو تھکن کا احساس ہوا اور نہ وقت گذرنے کا۔
رات کو جب کافی دیر سے کشیپ صاحب گھر لوٹے تو ان کی بیوی ان کے انتظار میں اونگھتی ہوئی ملی۔
’’آج کل آپ آفس سے گھر نہیں، سیدھا جوہر صاحب کے یہاں چلے جاتے ہیں؟‘‘
’’ کام کر رہے ہیں بھائی ایک پروجیکٹ پر۔‘‘ کشیپ صاحب نے مختصر میں جواب دیا۔
’’کیسا کام؟ سرکار پانی میں ٹرین چلانے کا سوچ رہی ہے کیا؟ ‘‘ سمن نے طنز کیا لیکن کشیپ صاحب اتنا تھک چکے تھے کہ وہ سمن سے الجھنا نہیں چاہتے تھے۔ وہ بغیر جواب دیے بیڈ روم کی طرف چل دیے۔ لیکن سمن کو تسلی کہا ں تھی، وہ بھی ان کا تعاقب کرتی ہوئی وہاں پہنچ گئی۔
’’گھر پر بال بچے بھی ہیں، کبھی ان کی چنتا بھی کر لیا کیجیے۔‘‘
’’ جو کر رہے ہیں، انھی لوگ کے لیے کر رہے ہیں ، تاکہ کل کو بڑے ہوں تو کوئی یہ نہ کہے کہ وہ دیکھو چرکٹ کی اولاد جا رہی ہے۔‘‘کشیپ صاحب نے پوری خود اعتمادی کے ساتھ جواب دیا۔
’’اتنی فکر ہے تو چرکٹوں جیسا حلیہ کیوں بنائے پھر رہے ہیں؟ اتنی شاندار مونچھ تھی، کٹا دیے…بڑھیا سوٹ بوٹ پہن کے نکلتے تھے تو سب بولتے تھے کہ ایک دم جینٹل مین لگتے ہیں ، راجیندر کمار جیسے۔‘‘ سمن نے لاڈ دکھایا۔
’’آپ جیسی مالا سنہا ساتھ رہیں گی تو راجیندر کمار ہی لگیں گے نا۔‘‘ کشیپ صاحب نے اپنا شرٹ اتارتے ہوئے جواب دیا۔ سمن ان کے طنز پر ردعمل کیا کرتی، وہ تو کشیپ صاحب کے صفاچٹ سینے کو دیکھ کر ایسے دہشت زدہ نظر ہو گئی تھی ، جیسے اس سے چھپکلی کی لجلجی کھال چھو گئی ہو۔
’’ہائے، ہائے! چھاتی بھی صفاچٹ کر لی۔‘‘ کشیپ صاحب نے اچانک شرما کر اپنے دونوں ہاتھ کسی کنواری دوشیزہ کی طرح اپنے سینے پر رکھ لیے۔ سمن نے وہاں پڑا ہوا اپنا bra ان کی طرف اچھالا؛ ’’لیجیے، یہ بھی پہن لیجیے۔ اور بچوں کے بڑا ہونے کا انتظار کاہے کررہے ہیں، ابھی سے ان کے ماتھے پر گڑوا دیجیے نا، ’چرکٹ کی اولاد‘۔‘‘
سمن کی آواز رندھ گئی، وہ سسکتے ہوئے کمرے سے نکل گئی۔ کشیپ صاحب تھوڑی دیر تک یوں ہی کھڑے رہے پھر انھوں نے سر کو ایک جھٹکا دیا اور بڑبڑائے؛ “Bloody backward village mindset!”
کشیپ صاحب کو جب اس دن جوہر کی طرف سے میسیج ملا؛ ’’میرو آ رہی ہے‘‘ تو انھیں لگا کہ اتنی تگ و دو کے بعد وہ ساعت آہی گئی جس کے لیے انھوں نے کیا کیا عذاب نہ جھیلا تھا حتیٰ کہ سینے کا بال بھی صاف کر کے اپنی بیوی کی نظروں سے گر گئے تھے۔ لیکن بال کا کیا ہے، اپنی کھیتی ہے، دوبارہ کاشت کرلیں گے۔ انھوں نے دل ہی دل میں ایک بار پھر دہرایا کہ اپنے بنگلے سے جوہر کے بیڈ روم تک پہنچنے میں ۱۴ منٹ ۳۳ سکنڈ لگتے ہیں اور وہ بھی مکمل تاریکی میں۔لیکن سالے جوہر کا کیا کریں، روزانہ پوچھتا رہتا ہے کہ اس کی ٹریننگ کب شروع ہوگی۔ سمن بھی تو کہیں آتی جاتی نہیں، لیکن وقت کم ہے، کچھ کرنا ہوگا۔
کشیپ صاحب نے سمن کو آواز دی جو غسل خانے سے نہا کر گنگناتے ہوئے باہر نکل رہی تھی؛ ’’میری زندگی ہے کیا، ایک کٹی پتنگ ہے‘‘ ۔
’’ارے سنیے، وہ آپ کو سدھی ونایک جانا تھا نا؟ تو آج چلے جائیے، بچوں کو لے کر میرو جی کے ساتھ۔‘‘
’’آج شُکروار (جمعہ) ہے، بپّا کا دن منگل کو ہوتا ہے۔‘‘ سمن نے ان کے منصوبے پر پانی پھیر دیا۔
’’کیوں؟ شکروار کو بپّا چھٹی پر ہوتے ہیں؟‘‘ کشیپ صاحب نے جھنجھلاتے ہوئے کہا لیکن سمن انھیں جواب دیے بغیر کچن میں چلی گئی۔ کشیپ صاحب بھی اس کے پیچھے پیچھے ہو لیے، فریج کھولا اور سوڈا کا ایک خالی بوتل نکالتے ہوئے سمن کی طرف دیکھا۔
’’گرمی کا موسم ہے اور گھر میں سالا ایک کولڈ ڈرنک کا بوتل نہیں …‘‘
’’ لائے تو تھے ، بچوں والا گھر ہے، ختم ہو جاتا ہے۔‘‘ کشیپ صاحب کو بھی کہاں سوڈا پینا تھا، فوراً بولے؛ ’’ختم ہو جاتا ہے تو اور لے آئیے۔ ٹھیک ہے ہمیں ٹائم نہیں مل رہا ہے آپ کو سپر مارکیٹ لے جانے کا…مگر ہم نے آپ کو میرو جی کے ساتھ جانے سے بھی تو نہیں روکا ہے؟‘‘
’’دیکھیں گے۔ پنکی کے اسکول میں فنکشن ہے، ابھی اس کا تیاری کروانا ہے‘‘ سمن بولتے ہوئے ہال پہنچ گئی جہاں بچے ٹی۔ وی دیکھ رہے تھے۔ سمن نے ٹیلی ویژن بند کرتے ہوئے پنکی کو گھڑکی دی؛ ’’اے پنکی! چلیے اپنا song, sing کیجیے۔‘‘
پنکی نے ’’ٹوئنکل ٹوئنکل لٹل اسٹار‘‘ گانا شروع کردیا۔ کشیپ صاحب سے برداشت نہ ہو پایاتو وہ سمن پر بھڑک اٹھے کہ تم گانے کے نام پر پنکی کو نرسری کی کویتا پڑھا رہی ہو۔ سمن کی سمجھ میں یہ نہ آیا کہ کویتا اور گانے میں کیا فرق ہوتا ہے۔ ان کے مطابق ’’بول دو تو کویتا، گا دو تو گانا۔‘‘
’’آپ کا دماغ خراب ہوگیا ہے۔ دوسری کلاس کی بچی سے آپ اسکول فنکشن میں نرسری کلاس کی کویتا گوائیں گی؟ مطلب اب ان بچوں کی بھی ناک کٹوائیں گی؟‘‘ کشیپ صاحب کی جھنجھلاہٹ کا کوئی اثر سمن پر نظر نہیں آیا۔ اس کے اپنے دلائل تھے۔
’’بھاگیہ شری ، سلمان خان کے لیے ’میں نے پیار کیا‘ میں ٹوئنکل ٹوئنکل لٹل اسٹار گائی تھی تو کیا وہ نرسری کے بچوں کی love story ہو گئی؟‘‘
’’آپ سے ہم کیا بحث کریں؟ جائیے میرو جی سے پوچھیے، پونہ میں ٹیچر ہیں، وہ سمجھائیں گی آپ کو …بچوں کو بھاگیہ شری کے بھروسے پڑھائیے گا تو ہو گیا کلیان۔‘‘
کشیپ صاحب کا یہ داؤ چل گیا۔ سمن تھوڑی دیر خاموش کھڑی رہی پھر اس نے ایک نمبر ڈائل کیا؛ ’’ہیلو! میرو؟ کب آئیں؟‘‘ اخبار کے پیچھے کشیپ صاحب کے چہرے پر ایک مسکراہٹ جھلملانے لگی۔
بس پھر کیا تھا، تھوڑے ہی دیر میں میرو ، سمن اور اس کے بچوں کو اپنے گھر پر گانے کی مشق کرا رہی تھی، جب کہ کشیپ صاحب، جوہر کی آنکھوں میں پٹی ڈال کر اس کے گھر سے اپنے بیڈ روم تک پہنچنے کی مشق کرا رہے تھے۔ بھٹ صاحب نے کئی بار یہ عجیب و غریب نظارہ دیکھا، وہ ان کی بیویوں کو بتانا چاہتے تھے کہ ان کے شوہروں کے درمیان کچھ چل رہا ہے لیکن میرو کے ساتھ اپنے سابقہ تلخ تجربے کو یاد کر کے ان کا ارادہ بار بار بدل جاتا تھا۔
جوہر اپنی مشق کے نتیجے سے بہت خوش تھا۔ اس نے اپنا I-Pad کشیپ صاحب کو دکھاتے ہوئے کہا؛’’یہ دیکھیے، میرا اسکور کارڈ …۱۳ منٹ ۲۱ سکنڈ …آپ کے اسکور سے پورے ۸۲ سکنڈوں کا فائدہ۔‘‘
’’وہ اس لیے ، کیوں کہ ہم نے اپنے گھر کے interiors کو simple رکھا ہے، آپ کی طرح hurdle race کا ٹریک نہیں بچھایا ہے۔‘‘ کشیپ صاحب نے جل کر بولا۔ جوہر اپنی کامیابی پر اتنا خوش تھا کہ وہ جھگڑا کر کے اسے غارت نہیں کرنا چاہتا تھا۔
’’چلیے، اہم بات یہ ہے کہ دونوں پارٹی match-fit ہیں…مطلب لوہا گرم ہے، تو کردیں وار؟‘‘
جوہر کے جوش پر کشیپ صاحب نے پانی چھڑکا؛ ’’ایسے کیسے کردیں وار، یار؟ ابھی تو صرف گھر سے بیڈ تک پہنچے ہیں…اصلی گیم تو بیڈ پر پہنچنے کے بعد کا ہے جوہر صاحب۔‘‘
’’ہاں یار! وہ سارے intimate moves بھی تو پریکٹس کرنے ہیں۔‘‘جوہر کا ابال تہہ پر آچکا تھا۔کشیپ صاحب نے ایک بار پھر اسے ڈرایا۔
’’پریکٹس کرنے سے پہلے انھیں ایک دوسرے سے openly share کرنا ہے.. . ادھر ایک بھی غلط قدم زندگی اور موت کا سوال بن جائے گا جوہر صاحب!‘‘
جوہر سچ مچ نروس ہوگیا تھا؛ ’’تو پھر کب؟‘‘ لیکن اس سے پہلے کہ کشیپ صاحب کچھ جواب دیتے، سمن آگئی۔
’’میروکل سپر مارکیٹ جا رہی ہیں، پوچھ رہی ہیں کہ آپ چلیں گی کیا؟‘‘
کشیپ صاحب نے سمن کو جواب دینے سے پہلے جوہر کی طرف دیکھا جیسے وہ اس کے ’’کب؟‘‘ کا جواب دے رہے ہوں۔
سپر مارکیٹ میں میرو نے بھٹ صاحب کو دیکھ لیا جو پتہ نہیں کیسے انھیں ڈھونڈتے ہوئے وہاں پہنچ گئے تھے ۔ میرو نے انھیں دور سے آتا دیکھ کر فوراً سمن کو بھٹ صاحب کے مشکوک کردار کے بارے میں بتایااوراسے ان سے ہشیار رہنے کی تاکید کی۔
’’ وہ اب مجھ سے دوبارہ ٹکرانے کی ہمت نہیں کرے گا، اس بار آپ کے پیچھے ہے۔‘‘ میرو نے خود اعتمادی کے ساتھ کہا۔
’’ویسے شادی سے پہلے ایک دو لونڈے ہمارے پیچھے گھومتے تھے، مگر اب دو بچوں کے بعد کہاں وہ بات رہ جاتی ہے…‘‘ سمن اپنی سنہری یادوں کا تعاقب کرتے ہوئے دور نکلنے ہی والی تھی کہ میرو نے سرگوشی کی؛ ’’وہ پیچھے ہی ہے۔‘‘
اب سمن کو واقعی ڈر لگنے لگا، لیکن میرو نے اسے تسلی دی؛ ’’ڈریے مت! اس کا ایک سمپل سا فارمولا ہے۔ پہلے بولے گا کہ آپ مصیبت میں ہیں، پھر بولے گا کہ وہ آپ کا ہمدرد ہے، پھر آپ کو اپنے ساتھ کسی ’کھوپچے‘ میں بلائے گا…اس کے بعد وہ کیا کرے گا، آپ جانتی ہیں۔‘‘
’’کھوپچا؟ کھوپچا کیا ہوتا ہے؟‘‘ سمن نے اس سے پوچھنا چاہا لیکن میرو وہاں سے چپکے سے کھسک گئی ۔ سمن نے پلٹ کر دیکھا تو بھٹ صاحب اس کے قریب ہانپتے ہوئے پہنچ چکے تھے۔
’’میں کئی دنوں سے آپ سے اکیلے ملنے کی کوشش میں تھا۔‘‘
’’کوشش میں؟‘‘ سمن نے بھٹ صاحب کو غور سے دیکھا۔
’’ آپ کی شادی شدہ زندگی پر منڈلا رہے خطرے کی اطلاع دینے کے لیے۔ دیکھیے ، آپ یہاں ہیں میرو جی کے ساتھ لیکن کیا آپ کو پتہ ہے کہ مسٹر کشیپ کہاں اور کس کے ساتھ ہوں گے؟‘‘
بھٹ صاحب نے یوں سوال کیا جیسے سمن پر پہاڑ ٹوٹ پڑے گا ، لیکن اس نے بڑی سادگی سے جواب دیا؛ ’’جوہر صاحب کے ساتھ ہوں گے۔ ان کے یا ہمارے گھر پر۔‘‘
بھٹ صاحب اس جواب سے مایوس تو ہوئے لیکن انھوں نے یہ بھی سمجھ لیا کہ اب سب کچھ کھل کھل کر بتانا ہوگا، چنانچہ وہ شروع ہو گئے۔
’’صحیح جواب۔ لیکن آپ کا اور میرو جی کا ساتھ ہونا اور آپ کے پتی اور مسٹر جوہر کا ساتھ ہونا دونوں برابر نہیں ہے۔ عورتیں لگ بھگ ’سُو کرم‘ کے لیے ایک ساتھ ہو تی ہیں مگر مرد کبھی کبھی ’کُو کرم‘ کے لیے بھی ساتھ ساتھ ہوتے ہیں۔‘‘ سمن کے چہرے پر غصے کی لالی ابھرنے لگی تھی لیکن بھٹ صاحب ردعمل سے بے نیاز جاری رہے۔ انھوں نے شاپنگ کرتے ہوئے دو نوجوان لڑکوں کی طرف اشارہ کیا؛ ’’اب ان دونوں لڑکوں کو دیکھیے…وہ گنّے بھی ہو سکتے ہیں اور گڑ بھی۔‘‘دونوں لڑکے اس ریمارک پر بھٹ صاحب کی طرف مڑے لیکن انھیں اتنی فرصت کہاں تھی ، وہ تو آج دو مظلوم عورتوں کی ازدواجی زندگی کو بچانے کی قسم کھا کر آئے تھے۔
’’آج کل guess کرنا بہت مشکل ہے۔ دیکھیے، میں آپ کا دوست ہوں…میں ہر شادی شدہ عورت کا دوست ہونا چاہتا ہوں۔‘‘سمن کے شک کو تقویت ملتی رہی ۔
’’یہاں میں بہت کھل کر نہیں بول سکتا مگر یہ سمجھیے کہ آپ کا سہاگ اور میروجی کا سہاگ ، آپ لوگوں کے پیچھے ایک دوسرے کے ساتھ ’سہاگ۔سہاگ‘ کھیل رہے ہیں۔ آپ ایک سکنڈ کے لیے ادھر کھوپچے میں آئیے، میں سمجھاتا ہوں۔‘‘بھٹ صاحب نے آخر وہ خطرناک لفظ بول ہی دیا ۔
’کھوپچا‘…اس لفظ کی تپش سمن کے کنپٹی پر لپلپانے لگی، اس کا پورا چہرہ غصے سے سیاہ نظر آنے لگا تھا، اس نے جھک کر اپنے پاؤں سے چپل اتارنا شروع کیا ۔ بھٹ صاحب جو اس منظر سے بخوبی واقف تھے، فوراً بولے؛ ’’دیکھیے، میروجی والی غلطی مت کیجیے۔‘‘
لیکن بہت دیر ہوچکی تھی، سمن کی چپل اپنے نشانے کا سفر طے کرچکی تھی۔ وہ لڑکے جنھیں بھٹ صاحب نے ذرا دیر قبل ’گڑ‘ کہا تھا، وہ بھی چپل کی پرواز سے تحریک پا کر ان کی طرف لپکے۔ بھٹ صاحب اپنے بھاری جسم کے ساتھ بھلا کتنا تیز دوڑ پاتے، جلد ہی لڑکوں نے انھیں آ لیا ۔
لٹے پٹے بھٹ صاحب جب اپنے انکلیو لوٹے تو جہاں ان کا پورا جسم درد سے بلبلا رہا تھا، انھوں نے اپنا سوجا ہوا چہرہ اٹھا کر ایک حسرت بھری نگاہ کشیپ صاحب کے بنگلے پر ڈالی جہاں سناٹا بکھرا ہوا تھا۔ پھر سڑک پر کھڑے کھڑے انھوں نے اپنی زخمی آنکھوں سے جوہر کے بنگلے کی طرف دیکھنے کی کوشش کی، وہاں بھی کچھ نہ تھا۔ کچھ دیر تک وہ وہیں بے جان اور ہارے ہوئے سپاہی کی طرح کھڑے رہے ، پھر اچانک انھیں جوہر کے بنگلے کی چھت پر دو سائے حرکت میں نظر آئے۔ ان کی بے جان آنکھیں زندگی پا کر چمکنے لگیں۔ وہ اپنے گھر کی طرف بلند آواز سے بڑ بڑاتے ہوئے دوڑے؛ ’’ان محترماؤں کی عقل سے پردے نہ ہٹائے تو میرا نام بھی بھٹ نہیں۔ سنسکرتی کے پہرے داروں پر چپل جوتیوں سے وار؟ بھٹ اب ثبوت دے گا آپ کو…سنسنی خیز ثبوت!‘‘
بھٹ صاحب اپنی گردن میں کیمرے لٹکائے تیزی سے باہر نکلے اور عمارت کی چھت پر چڑھنے لگے جو بالکل جوہر کی چھت کے مقابل تھی۔
کشیپ صاحب اور جوہر کے فرشتوں کو بھی خبر نہیں تھی کہ بھٹ صاحب ان کے تعاقب میں ہیں۔ وہ دونوں تو اس وقت جوہر کے بنگلے کی چھت پر intimate movesشیئر کر رہے تھے۔ جوہر وہسکی کی آدھی بوتل خالی کرچکا تھا، کیوں کہ اس کے مطابق ایسی چیزیں دو شرفا آپس میں یوں ہی تھوڑی بانٹ سکتے ہیں، اس کے لیے ہونٹ ذرا گیلے کرنے ضروری ہیں۔
’’ہاں، نوٹ کیجیے۔‘‘ آخر کار جوہر شروع ہوگیا، اس نے ہندی کے قافیے ملائے، ’’پہلے چمبن، پھر آلینگن، تھوڑا بہت اسپنندن اور پھر دن دنا دن دن!‘‘
کشیپ صاحب بیانیہ کی توقع کر رہے تھے، جوہر کی شاعرانہ تلخیص سے سارا مزہ جاتا رہا۔
’’ یہ بولنے کے لیے آپ کو آدھی بوتل دارو اور ڈیڑھ گھنٹہ لگا؟‘‘کشیپ صاحب نے اسے اکسانے کی کوشش کی، ’’جوہر صاحب! دھکم پیل کے اس کھیل کی کامیابی کے لیے detail بہت ضروری ہے…اچھا چلیے، چمبن کی detail دیجیے۔ آپ کا تو انٹر نیشنل ٹائپ چلتا ہوگا؛ فرینچ ، ورینچ؟‘‘
’’نہیں، صرف گال پر‘‘ جوہر نے تو یہ حوصلہ شکن جواب دے کر کشیپ صاحب کی امیدوں پر پانی نہیں بلکہ پورا سمندر ہی انڈیل دیا،’’دوپہر یا شام میں الگ بات ہے…رات کو ایک بار اگر میرو برش کر کے سو گئی تو پھر مشکل ہے۔ اس کا عجب پرابلم ہے یار۔ اگر غلطی سے بھی اس کے لب سے لب مل گئے تو پھر سمجھیے ، سارا معاملہ ختم۔‘‘
کشیپ صاحب کے تصور میں اس وقت میرو کے خوب صورت ہونٹ آ رہے تھے، جنھیں وہ چومنے کی تمنا میں یہاں تک پہنچ گئے تھے لیکن عین وقت پر پتہ چلا کہ ٹرین کینسل ہو گئی۔
پھر جوہر نے ایک انکشاف اور کیا کہ میرو پورے کپڑے اتارنے کی زحمت بھی نہیں مولتی، صرف مطلوبہ جگہ کے کپڑے کھسکا دیے جاتے ہیں۔ اس بات پر کشیپ صاحب کا صبر جواب دینا بالکل فطری تھا۔ ان کی جھنجھلاہٹ نے غصے کی شکل لے لی۔
’’عجیب بات کر رہے ہیں آپ؟ کپڑوں کا جھنجھٹ کون پالے سے آپ کا مطلب کیا ہے؟ یہ تو ایسی بات ہوگئی کہ بھائی آئس کریم کھا لیجیے مگر دیکھو اس کا wrapper نہ کھلے۔‘‘
’’اب یار پورا wrapper کھولنے سے آئس کریم کا flavor تو نہیں بدل جائے گا، وہی رہے گی جو برسوں سے کھا رہے ہیں۔ تو پھر کیوں رائتہ پھیلا رہے ہیں۔ جتنی کھانی ہے، اتنا کھولو۔ کھاؤ، بند کرو اور سو جاؤ۔‘‘ جوہر کے دلائل مضبوط تھے لیکن کشیپ صاحب کے دل کو نہیں لگی۔
’’یہ کھیل ختم کیجیے جوہر صاحب۔ مجھے اب اس میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔‘‘
اب جوہر نے کشیپ صاحب کی زبان میں انھیں سمجھانے کی کوشش کی؛ ’’ارے یار، آپ کو اگر چرچ گیٹ جانا ہے تو باندرہ اور دادر میں کیوں ٹائم برباد کیجیے گا؟ کشیپ صاحب! باندرہ اور دادار stoppageکے چکر میں کہیں ایسا نہ ہو کہ چرچ گیٹ ہی چھوٹ جائے۔‘‘ اب کے جوہر کی یہ بات کشیپ صاحب کے دل کو جا لگی۔ وہ بیٹھ گئے۔
’’مطلب اتنا speed میں گاڑی بھگا کے آپ چرچ گیٹ پہنچے اور وہاں بھی آپ نے stayنہیں کیا؟‘‘کشیپ صاحب نے کمزور لہجے میں دریافت کیا، وہ اب بھی کچھ زیادہ خوش نظر نہیں آ رہے تھے۔ جوہر نے ان کا حوصلہ بڑھایا۔
’’یار ، ایک ہی route پر ایک ہی گاڑی، برسوں سے چلا رہے ہیں، کتنا stay کریں گے؟ ‘‘ پھر اس نے کشیپ صاحب سے پوچھا، ’’آپ تو چرچ گیٹ slow چلاتے آئے ہیں شاید، کہاں کہاں اور کتنا stoppage لینا ہے، نوٹ کرا دیجیے۔‘‘
’’ہمارے بھی کوئی خاص stoppage اب بچے نہیں ہیں۔‘‘ کشیپ صاحب نے جواب دیا۔ دراصل ان پر مایوسی کا غلبہ تھا۔ وہ جس دلچسپی سے اب تک اس کھیل سے وابستہ تھے، اب اس میں وہ ایک بے نام سی کمی محسوس کر رہے تھے۔
اس دوران بھٹ صاحب اپنی عمارت کی چھت پر کھڑے ہوئے کیمرے کے لینس کی مدد سے دونوں کو ٹارگیٹ میں لینے کی کوشش کر رہے تھے لیکن برا ہو اس بڑے سے پیپل کے درخت کا جو ان کے آڑے آ رہا تھا۔ پھر انھوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، درخت پر ہی چڑھ گئے جو مسز رابنسن کے بنگلے کے بالکل مقابل تھا۔ بھٹ صاحب نے اطمینا ن کی سانس لی، یہاں سے وہ کشیپ صاحب اور جوہر کی نقل وحرکت پر پوری نظر رکھ سکتے تھے اور تصویریں بھی برائے ثبوت کھینچ سکتے تھے۔
’’ایک چھوٹی سی detail اور ہے،‘‘ جوہر کو جیسے اچانک کچھ یاد آیا، ’’میرو کی internal panelمیں ایک mysterious wild button ہے ۔ اگر وہ دب گیا تو سمجھ لیجیے passionکا پہاڑ ٹوٹ پڑتا ہے۔ کپڑے، پلنگ، چھت، فرش، ہڈیا ں سب S.O.S بھیجنے لگتی ہیں۔‘‘
کشیپ صاحب اچھل ہی تو پڑے تھے۔وہ ایک بار پھر تازہ دم نظر آنے لگے۔’’اتنی خاص بات اب آپ بتارہے ہیں؟‘‘
’’میں آپ کو ڈرانا نہیں چاہتا تھا۔ ‘‘
’’ ڈرانا اور ہمیں؟ ہم جیسے شکاری کو آپ wild button سے ڈر ا رہے ہیں؟ یہ آپ نے سوچا بھی کیسے منا؟‘‘ کشیپ صاحب کی خوشی چھپائے نہ چھپ رہی تھی، وہ خواہ مخواہ ہنسنے لگے۔ اچانک ان کی ہنسی کو زبردست جھٹکا لگا۔ گولی چلنے کی تیز آواز کے ساتھ بھٹ صاحب کی چیخ بھی سنائی دی تھی۔ کشیپ صاحب اور جوہر دہشت زدہ ہو کر پانی کی ٹنکی کے پیچھے جا چھپے۔
کشیپ صاحب کا ہنسنا کیا، ان کی بولتی تو دوسرے دن بند ہوگئی جب انھیں سمن نے ایک بری خبر دی کہ دو دن کے اندر ہی ان کی ساس یہاں تشریف لا رہی ہیں۔ کشیپ صاحب نے اپنی بیوی کو جب شک بھری نگاہوں سے دیکھا تو وہ نظریں چرانے لگی۔ وہ سمجھ گئے کہ ہو نہ ہو ، یہ کارستانی اسی کی ہے جس کا اعتراف اس نے جلد ہی کر بھی لیا۔ دراصل سمن کو اپنی پتی کے تیزی سے بدلتے ہوئے رنگ ڈھنگ کو دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا کہ ان پر کسی نے جادو ٹونا کردیا ہے، اس لیے مدد کے لیے اس نے اپنی ماں کو بلالیا تھا۔
کشیپ صاحب اور جوہر کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اس نئی آفت کو کیسے ٹالیں۔ لیکن کشیپ صاحب کی ساس کوئی جوہر کی بیوی تو تھی نہیں کہ جمعہ کو آئی اور پیر کے صبح میں نکل گئی۔ کیا کریں؟
’’توآج ہی؟‘‘ دونوں کے ذہن میں یہ تدبیر ایک ساتھ آئی۔ زبان سے بغیر نکلے ایک دوسرے تک اس کی ترسیل بھی ہو گئی۔تھوڑی دیر تک دونوں ساکت و صامت کھڑے رہے، شاید اپنی تدبیر کے عواقب اور مضمرات پر غور کر رہے تھے۔
’’ویسے حالات تو ہمارے کنٹرول میں ہیں۔ آج سنڈے ہے، میروجی گھر ہی پر ہیں۔ کل وہ پونہ چلی جائیں گی ، وہ جب دوبارہ یہاں آئیں گی ، تب تک ہماری ساس بھی یہاں پدھار چکی ہوں گی۔ پھر تو سارا کھیل گیا تیل لینے۔ اتنی محنت سب بے کار۔ تو آج کی رات ہی ہمارا last option ہے…‘‘ کشیپ صاحب سوچتے بھی جا رہے تھے اور بولتے بھی جا رہے تھے جیسے وہ جوہر سے نہیں خود سے بات کررہے ہوں۔
جوہر نے سر ہلاتے ہوئے ان کی تائید کی، ’’ بالکل، پھر ہماری پریکٹس بھی لگ بھگ پوری ہو چکی ہے۔‘‘ اس نے اپنی گھڑی پر ایک نظر ڈالی، ’’ چلیے فٹا فٹ اسکرپٹ کو revise کر لیتے ہیں۔ Let tonight be the lucky night!”
پھر کیا تھا، ہمارے دونوں یہ دونوں شرفا پوری توانائی کے ساتھ جوڑ گھٹاؤ میں مصروف ہو گئے۔ انھوں نے اپنے ریزلٹ کو cross check کیا ، نئے سرے سے پورے منصوبے پر نظر ثانی کی اور سب کچھ ٹھوک بجا کر مکمل پایا، پھر ایک دوسرے کے گلے لگ کر مبارک باد دی۔
انھوں نے پہلا کام تو یہ کیا کہ کشیپ صاحب اور جوہر کے بنگلے کے درمیان ایستادہ اکلوتے street lamp کا بلب غلیل کی مدد سے توڑ دیا۔ یہ کام جوہر نے کیا اور اس کی اس دور اندیشی پر کشیپ صاحب نے اسے مبارک باد دی۔
’’بچپن کا investment جوانی میں dividend دے گیا کشیپ صاحب! اب کھیل کا میدان fully safe ہوگیا۔‘‘ جوہر نے اطمینان کا سانس لیا۔
کشیپ صاحب نے بھی اس کی ہاں میں ہاں ملائی، پھر گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، ’’چلیے جلدی سے ٹائم sync کر لیتے ہیں…آپ کی گھڑی کیا بول رہی ہے؟‘‘
“7.32.41…42…43…”جوہر نے اپنی گھڑی کو بغور دیکھتے ہوئے کہا۔ کشیپ صاحب نے اپنی گھڑی کو اس کی گھڑی سے ملاتے ہوئے کہا، ’’ او کے۔ ہو گیا۔ تو ٹھیک 0100 پر ملتے ہیں۔‘‘
’’ مطلب 01.07.33 hours پر…یاد رکھیے، ۷ منٹ ۳۳ سکنڈ اپنا coordinated time ہے، بیڈ روم سے سڑک تک۔‘‘
کشیپ صاحب جوہر کی calculation کی تعریف کیے بنا نہ رہ پائے۔ ’’ You are out standing Johar Sahab“…پھر وہ جاتے جاتے ایک دوسرے کو اپنی نیک خواہشات دینا نہیں بھولے۔
’’wish you good luck‘‘ کشیپ صاحب کی ان نیک تمناؤں کا جواب دیتے ہوئے جوہر پل بھر کے لیے رکا، پھر اس کے چہرے پر ایک شرارتی مسکراہٹ رینگ آئی۔
’’ Luck?…آج تو ہم “F” کا استعمال بھی کرسکتے ہیں…ہی ہی ہی ہی…‘‘