تندرستی بڑی مصیبت ہے؟
محمد توحید الحق
نہ جانے کس دانشور نے کہا ہے:
تندرستی ہزار نعمت ہے!
ہمیں آج تک اِس قول کی صداقت پر یقین نہیں آیا۔ ہمارا ذاتی تجربہ بتاتا ہے کہ وہ دن لَد گئے ’ جب تندرستی بڑی نعمت ہوا کرتی تھی اور نحیف، لاغر اور مریض لوگ صحت مند لوگوں پر رشک کیا کرتے تھے۔ اب موسم کی طرح سماجی و اخلاقی قدریں بھی تیزی سے بدل رہی ہیں۔ آج تندرست ہونا دائمی مصیبت اور پریشانی کا پیش خیمہ ہے۔ لہٰذا میں جب بھی کسی صحت مند آدمی کو دیکھتا ہوں، خوش ہونے کے بجائے اس سے ہمدردی کا اظہار کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ وہ بھی صحت مند ہونے کی سزا نہ بھگتے۔ اسکول میں دیکھیے …! آفیسر یا ہیڈ ماسٹر صاحب بھی اچھے خاصے تندرست استاد کو اسکول کے لیے کوئی خدائی انعام سمجھتے ہیں۔ ہمیشہ انھیں کوئی نہ کوئی کام سونپ دیتے ہیں۔ اسکول کے لاغر اور مریض قسم کے اساتذہ ان کے صحت مند ہونے کا نہ صرف مذاق اڑاتے ہیں بلکہ مشورہ بھی دیتے ہیں کہ اگر اس طرح کے کاموں سے ہمیشہ کے لیے نجات پانی ہو تو فوراً کسی اچھی سی بیماری کا انتخاب کر لو اور پھر اس میں مبتلا ہو جاؤ۔ کیا مجال ہے کہ کوئی آپ کو کام کے لیے مجبور کرے۔ ایک دن ہم نے احتجاجاً ہیڈ ماسٹر صاحب سے بہت زیادہ کام دیے جانے کی شکایت کی تو فوراً کہنے لگے: جناب! ایسا مت سمجھیے کہ ہم آپ کی صحت کے دشمن ہیں۔ خدا آپ کو یوں ہی سدا صحت مند رکھے۔ ذرا دیکھیے انوار صاحب کو! وہ بے چارے یوں ہی بیماری سے پریشان ہیں۔ اس سے زیادہ ان کے طالب علم اور گھر والے پریشان ہیں۔ اگر ہم انھیں کوئی کام دے دیں اور خدا نخواستہ کام کے بوجھ اور تنخواہ دیر سے ملنے کے تناؤ سے ان کی طبیعت بگڑ گئی تو اسکول کی چھٹی کرنی پڑے گی۔ دوم ان کی ناگہانی موت کا الزام ہم اپنے قطعی نہیں لینا چاہیں گے۔ آپ چوں کہ ماشاء اللہ صحت مند ہیں، لہٰذا آپ کو کام دینے میں ایسا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ پھر یہ بھی تو دیکھیے کہ اس طرح کے کام دے کر ہم نہ صرف آپ کی صحت کے قائل ہیں بلکہ جتنا کام آپ کرتے ہیں آپ کی قابلیت اور صحت میں اتنا اضافہ ہوتا ہے۔ ان کی دلیل سن کر ہم لاجواب ہو گئے۔
اپنی صحت کو بحال رکھنے کے لیے ہم علی الصبح اٹھتے ہیں اور پیدل چلتے ہوئے کسی ہرے بھرے باغ یا میدان کا رخ کرتے ہیں۔ لوگ باگ کہہ گئے ہیں کہ پیدل چلنے سے صحت اچھی رہتی ہے۔ حالانکہ پیدل چلنے کے لیے پہلے سے صحت کا اچھا ہونا ضروری ہے۔ بہر حال میدان میں پہنچ کر ہلکی پھلکی ورزش کرتے ہیں، دوستوں سے ملتے ہیں، ہیڈ ماسٹر کی غیبت کرتے ہیں اور گھر واپس آتے ہیں۔ صحت مند ہونے سے سب سے زیادہ پریشانی گھر والوں کو ہوتی ہے۔ ایک دن بیگم صاحبہ جھنجھلا کر کہنے لگیں: آپ صبح اٹھ کر ایسا کون سا کام کر لیں گے جس سے ملک کی غریبی یا بے روزگاری دوٗر ہو جائے گی۔ ہمارے جلدی اٹھنے سے بیگم صاحبہ کی نیند اور دماغ میں خلل ہوتا ہے۔ انھیں معلوم ہے کہ نیند سے بیدار ہوتے ہی ہم ہوا خوری کے لیے نکل جاتے ہیں۔ وہاں سے ایک گھنٹے کی واپسی کے بعد چائے اور ناشتہ تیار ملنا چاہیے۔ اگر اس میں ذرا سی بھی تاخیر ہو گئی تو پھر طرح طرح کی باتیں سننی پڑیں گی۔ لہٰذا وہ خود ہماری صحت سے قدرے ناخوش ہیں۔ ایک دن کہنے لگیں: ہمارے پڑوسی قاسم بھائی کو دیکھیے! ہمیشہ بیمار رہتے ہیں۔ خود دیر تک سوتے ہیں اور گھر والوں کو زیادہ سے زیادہ آرام کرنے کی صلاح دیتے ہیں۔ کھانا نہایت سادہ اور وہ بھی برائے نام کھاتے ہیں۔ اس سے نہ صرف رسوئی گیس کی بچت ہوتی ہے بلکہ طرح طرح کے کھانے بنانے کی جھنجھٹ سے بھی گھر والوں کو نجات مل گئی۔ بیماری کی وجہ سے ان کی طبّی معلومات میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ اکثر گھر آنے والوں کو مفت طبّی مشورہ دیتے ہیں۔ دواؤں کے نام اور ان کے استعمال کی ترکیب بتاتے ہیں۔
صحت مند آدمی کو ہر وقت نظر لگنے کا ڈر رہتا ہے۔ جسے دیکھیے اسے تندرست دیکھ کر ٹوکنا شروع کر دیتا ہے۔ ڈاکٹر صاحبان بالخصوص صحت مند انسان سے ایسے ہی دور رہتے ہیں جیسے مہاتما گاندھی سینما سے یا ہمارے نیتا ایمانداری سے!
ایک دن ہمیں نہ جانے کیا سوجھی۔ اپنے ڈاکٹر دوست کے گھر اُن سے ملنے کے لیے چلے گئے۔ دوران گفتگو شکایت بھی کر دی کہ آپ تو ہمارے گھر آتے ہی نہیں۔ فوراً تنک کر بولے۔ حضور والا، اس کی واحد وجہ ہماری بد اخلاقی نہیں بلکہ آپ کی تندرستی ہے۔ ہم ٹھہرے ڈاکٹر۔ ہماری غیرت یہ کبھی گوارا نہیں کرتی کہ ہم کسی بھلے چنگے اور صحت مند آدمی سے ملنے اس کے گھر جائیں۔ بہتر ہو گا کہ آپ جلدی سے کوئی چھوٹی موٹی بیماری پال لیں۔ اس سے نہ صرف ہماری آمدنی میں اضافہ ہو گا بلکہ آپ سے ملاقات بھی ہوتی رہے گی۔ ایک راز کی بات یہ بھی بتا دیں کہ ہم ڈاکٹروں کو کسی کی موت کا اتنا افسوس نہیں ہوتا جتنا ایک گاہک کے کم ہو جانے کا ہوتا ہے۔ اُن کا دعویٰ ہے کہ صحت مند آدمی نہایت خود غرض اور بیکار ہوتا ہے۔ انسانیت کی معراج یہ ہے کہ آدمی دوسروں کے کام آئے۔ ذرا سوچیے بیمار آدمی سے کتنے لوگوں کو روزی ملتی ہے۔ آپ صحت مند ہیں، بتائیے اپنے علاوہ آپ کی ذات سے کسی کو کوئی فائدہ پہنچ رہا ہے؟
ہمارے ایک اور دوست ہیں شرما جی! ایک دن کہنے لگے: یار! ابھی تک ہم اِس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ تندرست آدمی کی زندگی قابل رشک ہوتی ہے۔ مگر یہ غلط فہمی اُس وقت دوٗر ہو گئی جب کسی بیماری کی پاداش میں ہمیں شہر کے مشہور اسپتال میں بھرتی کروایا گیا۔ اُس وقت ہمیں محسوس ہوا کہ تندرست رہ کر ہم نے زندگی کے کتنے بہترین دن برباد کر دیے۔ بڑا شاندار اے، سی کمرہ، ایل سی ڈی اور خوشنما پردوں سے مزین۔ سنگ مرمر کا فرش۔ تین چار خوبصورت نرسیں جو ہر لمحہ مسکراتے ہوئے نہ صرف حال چال پوچھتی ہیں بلکہ اتنی پابندی سے مقر رہ وقت پر دوائیں دیتی ہیں کہ گھر والے بھی کیا ایسی تیمار داری کریں گے۔ ملنے جلنے والے طرح طرح کے پھل اور بسکٹ وغیرہ لاتے ہیں وہ الگ! آپ بیمار ہو جائیے اور پھر دیکھیے آپ کسی وی آئی پی سے کم نہیں معلوم ہوتے۔ پھلوں کی بات تو چھوڑیے لیکن خوبصورت نرسوں کا خیال آتے ہی ہمیں ہماری تندرستی بری لگتے لگی اور ہم من ہی من بیمار ہونے کی دعا کرنے لگے۔
تندرست آدمی گہری نیند سوتا ہے۔ اس لیے ہر وقت چوری کا کھٹکا لگا رہتا ہے۔ اس کے برعکس بیمار آدمی رات بھر بے چین رہتا ہے، کروٹیں بدلتا ہے، کھانستا ہے، خود جاگتا ہے اور گھر والوں کو جگاتا ہے۔ کس چور کی شامت آئی ہے جو ایسے گھر میں چوری کرنے کی حماقت کرے!
غرض تندرستی بڑی مصیبت ہے!!