رات کے پہر وہ اپنے دوستوں کے ساتھ مشہور ریستورینٹ میں موجود تھی۔ فاریہ نے اسے آنکھوں کے اشارے سے پیچھے دیکھنے کا کہا۔ ایلیاء نے اپنی کافی کا آخری گھونٹ لے کر پلٹ کر دیکھا۔ اسی وقت ان سے کافی فاصلے پر موجود عاص کی کھوجتی نگاہیں ایلیاء سے ملیں۔ وہ تیزی سے اس کی سمت بڑھا۔
“اوکے اب میں جاتی ہوں۔” ایلیاء فوراً اپنی نشست سے اٹھ گئی کیونکہ عاص کے بگڑے تیور وہ کافی فاصلے سے ہی بھانپ گئ تھی۔
“کیوں؟ اسے آنے دو۔” فاریہ نے آہستہ سے ایلیاء سے کہا کیونکہ اس گروپ میں صرف فاریہ ہی ان دونوں کی منگنی پر عاص سے روبرو ملی تھی۔ باقی سب سے اس کا اب تک غائبانا تعرف ہی تھا۔
“پھر کبھی…” ایلیاء بس کہہ کر تیزی سے پلٹ گئی۔ چند قدم آگے ہی بڑھی تھی جب عاص نے اس کے مقابل پہنچ کر اس کا بازو تھاما اور اپنے ساتھ باہر کی طرف لے جانے لگا۔
” عاص آہستہ چلو میں گر جاوں گی۔” ایلیاء نے لوگوں کی نظروں کو اپنی سمت دیکھتے ہوئے دانت چبا کر عاص سے کہا لیکن اس پر کوئی اثر نہیں ہوا۔
ریستورینٹ سے نکلتے ہی ایلیاء نے ہاتھ زور سے جھٹک کر پیچھے کھینچا۔ جس سے اس کا ہاتھ عاص کے ہاتھ سے چھٹ گیا۔
” کیا بدتمیزی ہے یہ؟ پاگل ہوگئے ہو؟” ایلیاء کے سوالات نے آگ میں تیل چھڑکنے کا کام کیا۔ عاص پھرتی سے آگے بڑھا اور اس کا بازو دبوچ لیا۔
” تم نے پری پلینڈ طریقے سے میرا اور تمکین کا رشتہ ختم کیا؟” عاص کے سوال پر ایلیاء نے حیرت سے اسے دیکھا۔
” چھوڑو مجھے… ” ایلیاء نے سوال نظر انداز کرکے اپنا بازو چھڑانا چاہا لیکن عاص نے جھٹکے سے اسے ساکت کیا۔
“تم نے ہی تمکین کو شہریار سے ملوایا تھا؟” عاص نے مدھم آواز میں سوال پوچھا۔
“اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟” ایلیاء نے دانت بھینچ کر سوال کیا۔ اس سے درد برداشت کرنا مشکل ہورہا تھا۔
“ڈیم اٹ… میری محبت کو مجھ سے دور کرکے پوچھ رہی ہو کیا فرق پڑتا ہے۔” عاص نے اس کے ہاتھ کو جھٹکا۔
“وہ تمھاری محبت تھی ہی نہیں… اگر وہ تمھاری محبت ہوتی تو ابھی یہ رنگ اس کے ہاتھ میں ہوتی نا کہ میرے ہاتھ میں۔” ایلیاء نے دوسرے ہاتھ میں پچھلے ہفتے پہنائی گئی منگنی کی انگوٹھی عاص کو دکھائی۔ عاص نے ایک نظر اس کے ہاتھ کو دیکھا اور باغور ایلیاء کے چہرے کا جائزہ لیا۔
“ایسے معصوم ایکٹ نا کرو کہ جیسے تمھاری چال بازیوں سے میں لاعلم ہوں۔ جس طرح تم نے تمکین سے شہریار کو ملایا ہے نا مجھے سب خبر ہے۔” عاص نے اسے جھٹکے سے خود سے دور کیا۔ ایلیاء لڑکھڑا کے پیچے ہوئی اور اس دوران اس کی سینڈل کی ہیل ٹوٹ گئی۔
” ایڈیٹ دیکھو.. کیا کر دیا تم نے۔” ایلیاء نے پہلے اپنی سلیٹی رنگ کی سینڈل کو دیکھا۔ جس کی اب ہیل نکل چکی تھی۔ پھر منہ بگاڑ کر عاص کو گھورا۔
“تمھیں اپنی سینڈل ٹوٹنے کا دکھ ہے لیکن تمکین کو مجھ سے دور کر دینے کا کوئی افسوس نہیں۔” عاص نے دھیمے لہجے میں طنزیہ کہا۔
“تم مانو یا نہ مانو… لیکن اس بے وقوف لڑکی کو تمھاری کوئی فکر نہیں تھی۔ وہ یہ رشتہ بھی صرف اپنے ابا کے کہنے پر نبھا رہی تھی۔” ایلیاء تو غصے میں فر فر بولنے لگ گئی۔ عاص نے گھور کر اسے دیکھا اور رخ موڑ کر وہاں سے جانے لگا۔
“ارے مسٹر..” ایلیاء کے بلانے پر عاص رک گیا لیکن مڑ کر اس کی جانب نہیں دیکھا۔
” شرم کرو تمھاری منگیتر کی سینڈل ٹوٹی ہے تم اسے یہی چھوڑ کر جارہے ہو؟ جاو گاڑی لاو اور مجھے میری گاڑی تک چھوڑ دو.. پھر چاہے تو چلے جانا۔” ایلیاء نے دوسرے پاوں سے سینڈل اتار کر کہا۔ عاص نے مڑ کر اسے دیکھا۔
“تمھارا گارڈ نہیں آیا اس پر اپنے حکم چلاو… اور مجھے ایسی چال باز منگیتر نہیں چاہیے۔” عاص طنزیہ کہہ کر آگے بڑھ گیا۔ ایلیاء سینڈل وہیں چھوڑ کر اس کی سمت بھاگی اور اس کے مقابل پہنچ کر اس کا بازو تھام کر اسے روکا۔
“دماغ تو ٹھیک ہے ؟ تم نے تمکین کا انکار سن لیا اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں بھی تمھارا انکار سن لوں گی۔” ایلیاء نے بھویں تانے زرا بلند آواز میں کہا۔
“میں نے گن پوائنٹ پر نہیں کہا تھا کہ مجھ سے ہی منگنی کرو۔ تم اپنی مرضی سے راضی تھے۔ ” ایلیاء کی بات پر چہرے کے تیور بگاڑے عاص اس کی جانب بڑھا اور ایلیاء ایک قدم پیچھے ہٹی۔
“لیکن تم نے میری اور تمکین کی منگنی تڑوائی ہے۔ تمکین کو شہریار سے ملوانے تم لے گئی تھیں۔ جھوٹ مت بولنا۔ مجھے سب پتا ہے۔” عاص نے اسے گھورتے ہوئے دھمکایا۔
“ملوانا؟” ایلیاء نے چونک کر سوال کیا پھر طنزیہ مسکرائی اور عاص کی نگاہوں میں دیکھا۔ “تمکین مجھ سے ریستورینٹ میں ملنا چاہتی تھی۔ شہریار وہاں پہلے سے موجود تھا تو اس میں میری کیا غلطی ہے؟؟ تمھاری سو کالڈ منگیتر کو اپنے ایکس بوائے فرینڈ کو دیکھ کر محبت یاد آگئی تو اس میں میرا کیا قصور؟” ایلیاء نے تو منٹ میں اپنی بھڑاس نکال دی۔
” ایلیاء…” عاص نے اس کا نام پکار کر اسے مزید کچھ کہنے سے روکا۔ یہ پہلی مرتبہ تھا جب عاص نے اسے نام سے پکارا تھا۔ “اب ایک لفظ ادا کیا تو میں بھول جاوں گا کہ تم عارف انکل کی بیٹی ہو۔ ” عاص نے مدھم لہجے میں اسے دھمکایا اور اس کے سائیڈ سے گزر کر جانے لگا۔
” یہ تو نہیں بھول گئے کہ میں تمھاری منگیتر ہوں… تمکین نہیں.” ایلیاء کے طنز پر عاص نے رک کر ضبط کا سانس لیا۔ ایلیاء نےآہستہ سے رخ موڑ کر اسے دیکھا۔
“عاص سلطان یہ نہ بھولنا کہ تمھارا رشتہ مجھ سے جڑا ہے۔” اس کے سرد لہجے پر عاص نے رخ موڑ کر اسے دیکھا۔
” جسے میں آج ختم کرتا ہوں۔” عاص نے اسی سرد لہجے میں جواب دیا۔ ایلیاء چند قدم بڑھ کر اس کے مقابل کھڑی ہوگئی۔
“کر کے تو دکھاو… تمھارے کاروبار کی ٹانگیں نا توڑ دیں تو میرا نام ایلیاء سلطان نہیں۔” ایلیاء نے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ اسے للکارا تھا۔
عاص بس اندر ہی اندرسلگھ کے رہ گیا۔ اس کی وجہ ان کے کاروبار کو ختم کرنے کی دھمکی تھی۔ دوسرے جملے کو سن کر عاص نے اپنے اندر سلگتی آگ کو قابو کر لیا تھا کہ کتنی جلدی اس لڑکی نے اپنے نام کے ساتھ اس کا نام جوڑ لیا تھا۔
اس کے اندر جلتی آگ کے شولے اس کی نگاہوں میں دیکھ کر ایلیاء کو دکھ ہوا تھا لیکن اسی نے تو ایسا کرنے پر ایلیاء کو مجبور کیا تھا۔ ورنہ وہ عاص کے دل کو جلانے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔
“کیا عشق ہوگیا جو ایسے گھور رہے ہو؟” ایلیاء نے آنکھ دبا کر کہا۔
“تمھاری وجہ سے عارف انکل اور بابا کی دوستی خراب ہوئی.. تو یاد رکھنا پھر تمھیں مجھ سے عارف انکل بھی نہیں بچا سکیں گے۔ ” عاص نے جبڑے کستے ہوئے اسے دھمکایا جسے وہ اپنے بالوں کو جھٹک کر نظر انداز کر گئی۔
“پھر مجبور نا کرو۔” ایلیاء ایک قدم پیچھے ہوکر کھڑی ہوگئی۔ “یا تو ہمارا رشتہ قائم رہنے دو نہیں تو میں ایک رشتہ بھی قائم رہنے نہیں دوں گی۔” ایلیاء نے مسکرا کر کہا عاص نے آگے بڑھ کر اس کا بازو پھر سے جکڑ لیا۔
“میرا صبر نا آزماو پاگل لڑکی۔ ورنہ پچتاوگی۔” عاص نے کہہ کر اسے ایک جھٹکے سے چھوڑا تھا۔
“رہو یہاں پر.. ” عاص مڑ کر وہاں سے چل دیا۔
“کس لیے؟” ایلیاء نے مسکرا کر بلند آواز میں کہا لیکن عاص نے مڑ کر نہیں دیکھا۔ اسے زچ کرنے میں کتنا مزا آتا تھا۔
ایلیاء ننگے پاوں ہی پارکنگ کی جانب چل دی۔ تیز تیز چلتے ہوئے وہ عاص کے سامنے سے اسے منہ چڑاتی ہوئی گزر گئی۔ عاص نے اس کے بچپنے پر آنکھیں گھما کر دیکھا لیکن اس کی نگاہیں ایلیاء کے سینڈلز سے آزاد پاوں پر رکیں۔
” بے عقل..” عاص نے زیر لب کہا۔ وہ بھی اسے نظر انداز کرکے اپنی گاڑی کی جانب چل دیا۔ ناجانے اس کا غصہ اب کہاں غائب ہوگیا تھا؟ بس ساتھ تھیں تو.. مسز ایلیاء سلطان کے چہرے پر سجے مغرور سے نقش اور خوبصورت پاوں۔
کوئی انھیں ایسے لڑتا دیکھ لیتا تو یقین ہی نا کرتا کہ ایک ہفتہ پہلے ان دونوں کی خوب دھوم دھام سے منگنی ہوئی تھی۔
“اگر اس کی بات پر سب راضی ہوگئے؟” اپنی گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھتی ہوئی ایلیاء نے نچلا لب کاٹتے ہوئے سوچا۔
“ایسے کیسے؟ ” ایلیاء کے شیطانی دماغ نے سوال کیا اور اگلے ہی لمحے اس کے ہاتھ میں موبائل تھا جس سے وہ یونس صاحب کے نمبر پر کال ملا چکی تھی۔
“اسلام و علیکم… انکل آپ سے ایک بات کہنی تھی۔” یہ کہہ کر اس کے لبوں پر بے ساختہ شیطانی مسکراہٹ بکھر گئی۔
وہ اتنی آسانی سے تو اپنی زندگی کے فیصلے کسی اور کو کرنے کی اجازت نہیں دے سکتی تھی۔ چاہے وہ اس شخص کے عشق میں گرفتا ہی کیوں نا ہو۔
چند گھنٹے بعد عاص اپنے دوستوں سے مل کر گھر میں داخل ہوا اور ملازم سے خبر ملی کہ سب لیونگ روم میں موجود ہیں۔ وہ بھی وہیں بڑھ گیا۔
” آئیے آئیے برخوردار… آپ ہی کا ذکر کر رہے ہیں۔” یونس کے طنز پر عاص نے رک کر سب کے چہروں کا جائزہ لیا۔ سب ہی الجھے تاثرات کے ساتھ اسے اپنی ہمدرد نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔
“کیا کہہ کر آئے ہو تم اس بچی کو؟” یونس کے سوال پر پہلے تو وہ نا سمجھی سے بھویں جوڑے انھیں دیکھ رہا تھا۔ پھر اس کے دماغ میں ایلیاء کا نام جھمکا تو اس کے چہرے کے تاثرات بھی سخت ہوگئے۔
“بابا آپ میری بات سنیں..” وہ کچھ کہنے لگا لیکن یونس اپنی نشست سے کھڑے ہوگئے۔
” تم میری بات سنو..” آواز دھیمی مگر لہجہ سخت تھا۔ “تمکین سے تمھارا رشتہ ختم ہو چکا ہے یعنی اب تمھارے دل و دماغ اور زندگی میں اس کی کوئی جگہ نہیں۔ بہتر ہوگا تم آگے بڑھو۔ میں جانتا ہوں سب ایک رات کی کہانی نہیں لیکن اگر ایسے ہی تم ایلیاء کو چھوڑ کر ایک جگہ ٹھرے رہو گے تو زندگی آگے کیسے بڑھے گی؟” یونس کی باتوں نے عاص کا دماغ گھما دیا تھا۔ وہ لڑکی اس کے گھر واپس آنے تک نا جانے یونس کو کیا کیا کہہ گئی تھی۔ وہ ضبط سے کمر کے پیچھے ہاتھوں کی مٹھیا بنائے لیکچر سن رہا تھا۔
“وہ عارف کی لاڈلی ہے۔ اس کی آنکھوں میں وہ ایک آنسو برداشت نہیں کرتا۔ آج جیسے وہ بچی رو رہی تھی…”
” رو رہی تھی؟” عاص حیرت سے پوچھے بغیر نہ رہ سکا۔
“ہاں.. رو رہی تھی۔ کہہ رہی تھی کہ میں عارف سے بات کرکے منگنی تڑوا دوں کیونکہ تم اس منگنی سے خوش نہیں۔” یونس کی آواز زرا بلند ہوئی۔ رقیہ نے آگے بڑھ کر ان کے شانے پر ہاتھ رکھا۔ یونس نے اپنا غصہ ضبط کرتے ہوئے ایک نظر انھیں دیکھا پھر سامنے کھڑے اپنے اٹھائس سالہ بیٹے کو۔
” دیکھو بیٹا… عارف نے تمھارے باپ کا جب ساتھ دیا۔ جب میرے اپنے بھائی میری مدد کے لیے نہیں آئے۔ میں اس شخص کو تکلیف پہنچانے کا سوچ نہیں سکتا۔ تمھیں اگر اس منگنی سے کچھ مسلہ ہے۔ مجھے بتاو… یا اپنی ماں کو بتاو.. تاکہ ہم ہینڈل کرسکیں۔ خود سے اس کے متعلق کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے ایک بار ہم سے مشورہ ضرور کر لینا۔ یہ رشتے یوں ہی ختم نہیں ہو جاتے۔ ایک رشتے کے ٹوٹنے سے باقی رشتے بھی بکھر جاتے ہیں۔” یونس کہتے ہوئے چند قدم آگے بڑھے اور اس کے مقابل کھڑے ہوگئے۔
“جو فیصلہ لوگے.. تم ہمیں ضرور بتاوگے ٹھیک ہے؟” یونس کے سوال پر عاص نے اثبات میں سر ہلایا۔ انھوں نے اس کا شانہ تھپکایا اور وہاں سے چلے گئے۔
“تم ٹھیک ہو؟” رقیہ نے آگے بڑھ کر عاص کا بازو تھاما۔ اس نے ایک نظر انھیں دیکھا اور ان کی پیشانی پر پیار کیا۔ پھر وہاں سے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔
کمرے میں داخل ہوتے ہی اس نے دروازہ زور سے بند کیا اور بیڈ کی جانب بڑھا ساتھ ہی موبائل پر ایلیاء کا نمبر ڈائل کرنے لگا۔ جو اسے منگنی کے دوران منتہی بھابی نے سینڈ کیا تھا۔
“ہیلو…” اس کی مصروف سی آواز سنائی دی۔
“تم سمجھتی کیا ہو خود کو ؟” عاص نے دانت بھینچ کر سوال کیا.
“تمھارا…”اس کی آواز سے صاف ظاہر تھا وہ اسے مزید تپانے کے موڈ میں ہے۔
•••••••••
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...