پارٹی کے اگلے روز کی اجلی صبح میں شاہ خاندان کے تینوں بیٹوں کے ساتھ منتہی اور رقیہ گھر کے باغ میں موجود تھیں۔ کل کی شاندار تقریب زیر بحث تھی یا یوں کہیں کہ ایلیاء کلماتی کے جلوے زیر بحث تھے۔
“لبنی تو کہہ رہی تھی وہ بس مغرور نظر آرہی تھی حقیت میں نہایت ہی تمیزدار لہجہ تھا محترمہ کا۔ ” شاہ خاندان کے سب سے چھوٹے بیٹے سلیمان کی بات پر منتہی نے معنی خیز مسکراہٹ سجائے اسے دیکھا۔
“لیکن پہلی نظر شخصیت پر پڑتی ہے کردار بعد میں نظر میں آتا ہے۔” رقیہ نے جتانے کے انداز میں بات کہی اور نوجوانوں کی نظروں کا آپس میں تبادلہ ہوا۔ جنھیں سمجھ آگئی تھی کی ان کی اماں حضور کو ایلیاء موجودگی کچھ خاص پسند نہیں تھی۔ ابھی یہ بات سب نے نوٹ کی سوائے عاص کے جو کافی دیر سے اپنی منگیتر تمکین سے ٹکسٹ میسجز پر باتوں میں مصروف تھا۔
لیکن کئی موقعوں پر شخصیت بھی کردار کی صحیح گواہی نہیں دیتی۔ انسان کئی موقعوں پر شخصیت کو دیکھ کر کردار پہچاننے میں غلطی بھی تو کردیتا ہے۔ منتہی کی نظر میں شاید یہی غلطی اس کی ساس رقیہ بیگم بھی کر رہیں تھیں۔
“امی آج کل لڑکیوں کا یہی پہناوا ہے۔ ” منتہی نے بات بنانی چاہی آخر ایلیاء اس کی نئی نئی سہیلی بنی تھی۔ اس رشتے کی لاج رکھتے ہوئے اس نے اپنی نئی نویلی سہیلی کے حق میں کچھ کہنے کی غلطی کردی۔ پہلے تو اسے رقیہ کی جانچتی نظروں کا سامنہ کرنا پڑا۔
“اس کے علاوہ بھی تو لڑکیاں تھیں اس تقریب میں لیکن میں نے کسی بھی لڑکی کو اتنا بولڈ اور فرینک ہوتے ہوئے نہیں دیکھا۔ وہاں میری بھی تینوں بہویں تھیں… تمیز اور سلجھی ہوئی طبیعت کی۔ پہناوئے سے ہی شائستگی اور ادب جھلک رہا تھا۔” رقیہ کی بات سن کر سلیمان کو لبنی کا خیال آیا تھا۔ اس کی کتنی منتیں کرنے پر لبنی نے رقیہ کا بھیجا گیا جوڑا پہنا تھا۔
“آپ کی بہووں کا تو کیا کہنا؟” عقیل نے مضحکہ خیز انداز میں کہا تو سب مسکرا دئیے عاص نے بھی نظریں اٹھا کر اسے دیکھا۔
“ماشاء اللّه ماں اور بچوں میں کیا پلاننگ چل رہی ہے؟ کہیں باپ کو گھر سے باہر کرنے کا منصوبہ تو نہیں بنا رہے؟ “یونس کی آواز پر سب ان کی جانب متوجہ ہوگئے۔
“آئیے بابا آپ کے چہیتے دوست کی لاڈلی زیر موضوع ہیں۔ ” سلیمان نے مسکرا کر کہا وہ اس کا اشارہ سمجھ گئے تھے اور اپنی بیوی کی پسند ناپسند سے باخوبی واقف تھے۔
“کیوں بھئی؟ اتنی پیاری بچی ہے۔ ایسا کیا کر دیا اس نے جو شاہ فیملی اس کا ذکر کر رہی ہے۔ ” یونس نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا اور پاس موڑے پہ بیٹھے سلیمان کے کندھے پر ایک تھپکی دی۔ اس نے بھی فوراً فرمابردار اولاد کی طرح نظروں سے اپنی ماں کی جانب اشارہ کردیا۔ جن کے چہرے کے تیور یونس کی زبان سے ایلیاء کی تعریف سن کر بگڑے تھے۔
“کیوں زوجہ محترمہ کیا آپ کو بچی پسند نہیں آئی؟” ان کے سوال سے بے نیاز ہوتے ہوئے رقیہ نے بھویں تانے پہلو بدلہ۔
“کس سلسلے میں اسے پسند کروں؟ کہیں آپ بھول تو نہیں رہے ہیں کہ آپ کی تین بہویں موجود ہیں… تو آپ اس لڑکی کی متعلق میری پسند ، ناپسند کیوں جاننا چاہ رہے ہیں؟” ان کے طنز پر یونس مسکرا دئیے اور باری باری اپنے دونوں چھوٹے بیٹوں کی جانب دیکھا۔
“عاص…” یونس کے بلانے پر نا چاہتے ہوئے بھی اس نے اپنے موبائل کو لاک کرکے ان کی جانب دیکھا۔
“تمھارے انکل کو آج میں نے اداس کر دیا۔” یونس نے مسکرا کر بات کہی وہیں عاص کے ماتھے پر سوالیہ شکن ابھری۔
“کیوں؟” عاص نے نارمل انداز میں سوال پوچھا۔
“اس نے کل رات تقریب میں اپنے دل کا ارمان میرے سامنے ادا کر دیا تھا۔ میں نہ چاہ کر بھی انکار کر گیا۔” یونس کی الجھی باتوں پر سب ہی حیرت اور تجسوس میں تھے۔
“پہیلیاں نا بجھائیں شاہ صاحب… بتائیں کیا کہا مسٹر عارف نے؟” رقیہ بھی بے تاب نظر آرہیں تھیں۔
“عارف چاہتا تھا کہ کاروباری دوستی کو رشتے کا روپ دے دیں۔” ان کی بات سن کر رقیہ تو سانس خارج کر کے سیٹ سے پشت ٹکا کر بیٹھ گئیں۔ ” ایلیاء بیٹی کا رشتہ میں اپنے کسی ایک بیٹے سے طے کردوں۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کا اصل مقصد عاص کا نام لینا تھا لیکن.. معلوم نہیں اس نے نام نہیں لیا۔” یونس نے مسکرا کر کہا۔ عاص تو خاموش تھا لیکن ساتھ بیٹھے سلیمان کے اندر شرارت کی لہر دوڑی۔
“عقیل بھائی تو چاہ کر بھی ہاں نہیں کہہ سکتے بھابی نے انھیں مار ڈالنا ہے۔” اس کے جملے پر عقیل نے اپنے پیچھے سے کشن اٹھا کر اس کو مارا۔
“بے حیا… آگ لگاو بس تم تو۔” عقیل کے زچ ہونے پر سب مسکرا دئیے اور سلیمان نے کسی سپاہی کی طرح سلوٹ کیا۔
“خیر.. اور عاص کو تو ٹی۔بی کا مرض ہے۔” اس کے جملے پر یونس نے اس کے سر کے پچھلے حصے کو چپت سے نوازا۔
“ٹی ۔ بی یعنی تمکین بھابی کا مرض…” سلیمان نے سر سہلا کر ترجمہ کیا اور عاص نے اسے گھور کر دیکھا۔
” کیوں نہیں ہے کیا؟ ” سلیمان نے حیرت سے پوچھا۔ ” بھابی گواہی دیں یہ کب سے تمکین سے باتیں کر رہا ہے؟” سلیمان نے منتہی سے سوال کیا۔
“جب سے ہم یہاں آکر بیٹھے ہیں۔” اس نے بھی فوراً چھوٹے دیور کا ساتھ نبھایا۔
“تو تم بات اتنی کیوں گھما رہے ہو؟ سیدھا کہو کہ تمھاری نیت خراب ہوگئی ہے۔” عاص نے گھور کر سلیمان سے کہا۔
“ہاں… بیٹا.. میں تو ابھی لبنی کو کال پر بتاتا ہوں کہ اس گدھے کی لگام کسو۔ یہ راہ بدلنے والا ہے۔” عقیل کے کہنے پر سب مسکرائے اور سلیمان نے کانوں کو ہاتھ لگایا۔
” توبہ توبہ دونوں شروع سے ہی چھوٹے بھائی کے دشمن ہیں۔” سلیمان کی بات پر عاص اور عقیل ایک دوسرے کے ہاتھ پر تالی مار کر ہسنے لگے۔
اس ہسی مزاق سے دور ہلکی فضاوں میں باتیں کرتے پتوں کی چھاوں میں وہ گھاس پر لیٹی ہوئی تھی۔
“خیالوں میں اپنے سلطان سے ملاقات ہورہی ہے؟” آواز پر ایلیاء نے آنکھیں کھول کر زرا سر اٹھا کر پیچھے کی جانب دیکھا۔
“ظالم سماجھ سے وہ بھی برداشت نہیں ہوا تو آگئے مداخلت کرنے۔” ایلیاء نے اٹھ کر بیٹھتے ہوئے کہا۔ سونیا جو ایلیاء کی کالج کے زمانے سے چند بہترین دوستوں میں سے ایک تھی۔ وہ رات تقریب میں اپنی سہیلی کی محبت سے ملاقات کے بعد اب صبح اسے عقل دینے لوٹی تھی۔
“بے حیا.. شرم کرو پہلی بار محبت کی وہ بھی انگیجڈ بندے سے۔” سونیا نے بیٹھتے کے ساتھ ہی ایلیاء کی کمر پر اپنا چھوٹا کلچ مارا تھا۔
” ایکسکیوز می…” ایلیاء نے طنزیہ اس کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔ “میں نے اس کا قتل نہیں کیا ہے جو تم مقدمہ لڑنے آگئی ہو۔” اس نے منہ بنا کر کہا اور پھر درخت سے ٹیک لگا کر لیٹ گئی۔ کل ہوٹل سے آکر ایلیاء نے ساری بات کال پر سونیا کو بتادی تھی۔
سونیا بہت خوش تھی کہ آخر اس کی سہیلی کو محبت ہو ہی گئی لیکن تقریب میں عاص کے ساتھ تمکین کو دیکھ کر دونوں کو ہی حیرت کا جھٹکا لگا تھا۔ ایلیاء نے باخوبی خود کو سنبھالا تھا لیکن وہ جلد ہی عقرب کے ساتھ سونیا کو گھر چھوڑنے کا بہانا بنا کر تقریب سے لوٹ آئی تھی۔
“تو یک طرفہ محبت خاموش محبت رہے گی؟” سونیا کے سوال پر ایلیاء طنزیہ مسکرائی۔
” معلوم نہیں ابھی مجھے اس پہلے عشق کے سرور میں ڈوبنے دو۔ میں بس ابھی اس لمحے کو فل انجوائے کرنا چاہتی ہوں۔” ایلیاء نے باہیں پھیلا کر مسکراتے ہوئے کہا۔
“عاص سلطان کے خیالوں میں کھو کر؟” سونیا کے مضحکہ خیز انداز پر ایلیاء نے اثبات میں سر ہلایا۔
” دماغ خراب نا کرو۔” ایلیاء کے چڑنے پر سونیا نے مسکرا کر دوسری جانب دیکھا۔
“لو تمھارا کھڑوس گارڈ بھی آگیا۔” سونیا کے مخاطب کرنے پر ایلیاء فوراً اٹھ کر بیٹھ گئی۔
“معلوم ہے باقی لڑکیوں کی طرح تمھارا بھی عقرب سیکرٹ کرش ہے۔” ایلیاء نے سونیا کے گال کو نوچ کر کہا اور بدلے میں اپنے ہاتھ پر ایک چپت بھی کھائی۔
شکر کے کل کا زخم اب ٹھیک تھا۔ آخر ایلیاء کی دادی ماں کے کارآمد ٹوٹکے کا کمال تھا کہ اس کے ہاتھ پر جلنے کا گہرا نشان نہیں تھا لیکن حکیمی پیسٹ کی وجہ سے اس کے ہاتھ پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔
“میڈم آپ کے لیے اینویلپ کمرے میں رکھ دیا ہے۔ اگر آپ فری ہیں تو ہم ابھی بات کرسکتے ہیں۔” عقرب کی بات ایلیاء مسکراتے ہوئے سن رہی تھی۔
” تم چلو میں آتی ہوں۔” وہ بھی اثبات میں سر ہلا کر وہاں سے جانے لگا لیکن جاتے جاتے سونیا کو رسماً دیکھ کر مسکرا دیا۔ سونیا بھی جواب میں ہلکا سا مسکرا دی۔
“عنبر…”ایلیاء کے بلانے پر میز پر چائے کی ٹرے رکھتی عنبر نے اس کی جانب دیکھا۔
“تم سونیا کے ساتھ یہاں رکو میں زرا کام سمیٹ کے آتی ہوں ۔” ایلیاء مسکرا کر دونوں لڑکیوں کو دیکھ کر وہاں سے چلی گئی۔ سونیا کی نظروں نے اس کا دور تک پیچھا کیا تھا۔
برسوں بعد کسی انسان پر عشق کا بھوت سوار ہو اور اتنی آسانی سے اتر جائے ناممکن سی بات ہے۔ خیر سونیا نے اپنی سوچوں کو جھڑکا اور عنبر کی جانب متوجہ ہوگئی۔
•••••••
شام کی سرد فضا میں آسمان پر بادل بکھرے ہوئے تھے۔ سبز گھاس پر وہ اپنے کیچڑ لگی چپل سمیت منہ پھلائے کھڑی تھی۔ لہروں کی بناوٹ رکھتے لمبے بال ڈھیلے جوڑے میں بندھے تھے۔ کُرتا ، پاجامہ زیب تن کیے ہوئے اس نے دوپٹے کو کمر پر ایک جانب باندھا ہوا تھا۔
“آپ کو جب پتہ ہے کہ میں شام میں یہاں آتی ہوں تو کیا ضرورت تھی ابھی میدان بھگونے کی؟ پاوں خراب کردئیے۔” ایلیاء کی سانولی تیکھی ناک پر غصہ سجا ہوا تھا۔ اس کی آواز سن کر پورچ سے نکلتا ہوا عاص بھی باغ کی جانب آگیا تھا۔
“میڈم صبح پانی دینا بھول گیا تھا۔ اس لیے ابھی…” مالی نے صفائی دینا چاہی ایلیاء نے ہاتھ کے اشارے سے خاموش رہنے کا کہا۔ پھر گھاس سے پائپ اٹھایا۔
“پاوں دھلوائیں۔” پائپ مالی کو پکڑا کر خود چبوترے پر بیٹھ گئی۔
“میڈم میں؟ ” اس کے سوال پر ایلیاء نے اسے گھور کر دیکھا۔
” میرے چاچے لگتے ہو؟ جو تم سے دھلواں گی؟” ایلیاء نے غصے میں جھڑکا۔
“جاکے پانی چلاو اور پائپ ادھر لاو۔ تھلی اونچی ہے اس لیے بیٹھنے تک کے لیے پائپ آپ کو دیا تھا۔” مالی اس کے ہاتھ میں پائپ پکڑوا کر فوراً احکام پر عمل کرنے بھاگ گیا۔ ایلیاء منہ بناتے ہوئے پاوں سے چپل اتارنے لگی۔
“ویسے.. ایک منٹ کے لیے مجھے بھی لگا تھا.. کہ شائد آپ نے مالی کو ہی پاوں دھونے کا کہا.” اپنے عقب سے آتی عاص کی آواز سن کر ایلیاء کے اپنے پاوں پر چلتا ہاتھ رک گیا لیکن پھر سر جھٹک کر جلدی جلدی دونوں پاوں دھوئے اور کھڑی ہوگئی۔ پائپ وہیں گھاس پر پھینک دیا۔
“مس کلماتی…کیا آپ کسی بات پر ناراض ہیں؟” ایلیاء کے یوں نظر انداز کرکے سامنے سے گزرنے پر عاص نے سوال کیا۔
” نہیں تو… “ایلیاء نے رخ موڑ کر اس کی جانب دیکھا۔
” تو میری بات کا جواب دئیے بغیر کیوں چلی جاتی ہیں؟” عاص نے اس کی جانب دیکھ کر سوال کیا۔
” لازم تو نہیں ہر سوال کا جواب دیا جائے۔” ایلیاء کے جواب نے تو اسے واقعی حیران کیا تھا۔ عاص کے ماتھے پر حیرت کی شکن ابھری۔
“اکسکیوزمی۔” وہ وہاں سے جانے کے لیے رخ مڑ گئی۔
“ایلین۔” عاص زیر لب کہہ کر مسکرایا۔ اس کے نظروں سے اوجھل ہوجانے کے بعد عاص نے پاوں کی ان نشانات کو دیکھا۔ جو ایلیاء کے بھیگے پاوں کی وجہ سے فرش پر بنے تھے۔
••••••••••
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...