ڈاکٹر بلند اقبال (کینیڈا)
پھر ایک کرب ناک خاموشی کچھ لمحوں کے لیے اُن سفید پوش بیواؤں اور یتیم بچوں کے اندر ماتم کی طرح گونجنے لگی ۔ سسکیاں اُن کی ناکوں کے سِروں پر قطار در قطار آنسووں کی شکل میں ٹھیرنے لگیں ، آہیں سانسوں کی شکل میں اُن کے سینوں کے زیروبم میں بسنے لگیں ۔یکایک ایک فوجی آواز فضا کا سینہ چیرنے لگی اور شہیدوں کے ناموں سے بیواؤں کو طلائی تمغے اور سلائی مشینیں نوازی جانے لگیں ۔
لانس نائیک شفقت رسول شہید کی بیوہ نے اپنی کرسی کے دونوں داہنوں کو اور بھی مضبو طی سے تھام لیا ،پل بھر میں اُسے لگا جیسے اگر اُس کی کرسی پر گرفت زرا بھی دھیمی پڑی تو وہ سیدھی زمین پر ڈھہ جائے گی اور کرسی کے نیچے بچھی ہوئی یہ بے درد زمین اُسے بھی اُسی طرح درندگی سے نگل جائے گی جس طرح اُسکے جوان جہان شوہر کو زندہ چبا گئی۔ ۔زمین۔۔ماں جائی ۔۔اُس نے حقارت سے سوچا ۔۔اونہہ۔۔اُس کا اندر ہی اندر جلنے لگا ۔۔آگ تھی جو اُس میں پھیلتی ہی چلی جارہی تھی ۔۔ اور پھر لمحے بھر میں شعلے آسمانوں سے باتیں کرنے لگے۔پل بھر میں آگ کے شعلوں میں اُس کے ارد گرد پھیلی ہوئی ساری ہی روشنیاں ر اکھ ہوگئی اور پھر یکا یک وہ گُھپ اند ھیرا پھیلا کہ وہ خود کو آس پاس نہ پاکر بلک بلک کر رونے لگی۔زرا سی دیر میں آنسوجو پلکوں سے گرے تو دھوئیں کا ایک بادل سا اُٹھا اور اُس کے ارد گرد کا نظارہ ایک نئے ہی منظر میں ڈھلنے لگا۔۔
زمین ۔۔ایک بھیانک عفریت کا روپ دھارے خلاؤں میں گھوم رہی تھی۔انسانی ہڈیوں سے بھرا قبرستان زمین کے دہانے سے دھیرے دھیرے اُتر کر اُس کی آنتوں کوبھر رہا تھا ۔ گرم گرم خون کی لہریں اُس کی رگوں میں موج در موج اُبل رہی تھیں اور ٹھا ٹھے مارتے ہوئے اُس کی شہِ رگ کو سیراب کر رہی تھیں۔ ۔۔یہ خون ہی تھا جو پگھلتا تھاتو اُس کے بدن کے سیاہ بدبو دار تیل کے ندی نالے بن جاتا تھا اور جو جمتا تھا تو سونے، چاندی اور پیتل کی دھاتوں کی شکل میں ڈھل کر اُس کے پیٹ میں جمع ہو جاتا تھا ۔۔مگر پھر بھی وہ بھاری بھرکم بدنما سا پھولا ہوا پیٹ، اپنی بھوکی نظروں سے خود پر پھیلے ہوئے انسانی زندگیوں کے بے کداں سمندر کو للچائی نظروں سے تک رہاتھا۔دور خلا میں پھیلے ہوئے اُس کے انت گنت بازوں انسانی گردنوں کو دبوچنے کے لیے بے تابی سے خود کو مسل رہے تھے ۔۔۔وہ خوفناک عفریت ہر ایک لمحے میں سیکڑوں بار اپنی شکل بد لتا تھا ۔۔۔کبھی بھیانک زلزلہ بن کر ہزاروں ، لاکھوں بے بس لوگوں کا زندہ نوالہ بنالیتا ،تو کبھی لمحے بھر میں اُنہیں آندھی و طوفان میں سمیٹ کراپنے بھوکے معدے کا حصہ بنا دیتا، کبھی گل گلزار میں ڈھل کر معصوم انسانوں کو للچاتا اور پھر اُن کی لاشوں کے تر نوالے چباتا تو کبھی مادر وطن اوردھرتی ماتا کا تلنگا بن کر جنگ کے دلدل میں اُنہیں جھونک دیتا ور پھر اُن کی لاشوں پر لپٹ کر بے رحمی سے اُنہیں اپنے سینے میں اُتار لیتا۔۔۔
ا چانک فوجی بینڈاور توپوں کی بھونڈی آوازوں سے فضا کا سینہ پھر سے شہید ہونے لگا۔
لاس نائیک شفغت رسول کی بیو ہ جھر جھری لے کر اپنی جگہ پر کانپنے لگی ۔اُس نے سہمی سہمی نظروں سے ارد گرد دیکھا ۔ہر ایک بیوہ طلائی تمغے ہاتھوں میں لیے ،سر جھکائے اپنی اپنی سلائی مشینوں کو، کھو ئی کھوئی نظروں سے تک رہی تھی۔پل بھر میں اُسے لگا جیسے اُس کے ارد گرد پھیلی ہوئی بے رحم زمین نے ان عورتوں کے شوہروں کو چبا کر سلائی مشینوں سے بدل دیا ہو اور پھر اُنہیں کے لہوکے رنگوں سے سجے دجے طلائی تمغوں سے نواز دیا ہو ۔ایک شدید نفرت کا طوفان اُس کے اندر سے اُ ٹھا اور اُس نے غصے سے اپنے پاؤں زمین پر رکھ دیے جیسے اُس کے سینے پر جوتے رکھ کر اپنے سینے میں لگی آگ کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کررہی ہو اور جب اُس سے مزید برداشت نہ ہوا تو اچانک کھڑی ہوکر اپنے پیروں سے زمین کو بار بار روند نے لگی اور منہ ہی منہ میں بڑ بڑانے لگی۔۔ مائیں اپنے بچوں کا خون نہیں پیتی ، مائیں اپنے بچوں کا خون نہیں پیتی۔
کچھ ہی دیر میں فوجی بینڈ پھر سے چپ ہوگیا اور ایک بار پھر شہیدوں کے نام پکارے جانے لگے۔
اس بارپہلا نام لاس نائیک شفغت رسول شہید کا تھا ۔
ــ’’ لاس نائیک شفغت رسول شہید ۔۔رجمنٹ ۲أ۲، مادر وطن کے لیے جان کا نذرانہ دے کے تمغہ جرات کے حق دار قرار پائے ۔‘‘
یہ سنتے ہی لاس نائیک شفقت رسول کی بیوہ دوڑتی ہوئی فوجی افسروں کے پا س پہنچی ۔۔۔اوراپنی پوری جُرات سے اُن سے چیخ چخ کر کہنے لگی ۔۔یہ دھات کا ٹکڑا اور لوہے کی مشین اس کلموہی زمین کو واپس کر دو اور میرے شوہر کا خون اِس سے واپس لے لو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’مجھے لگتا ہے،امی مری نہیں،ہمیں یونہی وہم ہو گیا ہے کہ وہ مر چکی ہے۔۔۔ذرا سوچو ماں مرجائے،ہماری زمین ہی مر جائے تو ہم کیونکر اپنے پَیروں پر کھڑے رہ سکتے ہیں؟نہیں خورشیؔ ماں ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔کون سی ماں چاہے گی کہ اس کے لہلہاتے پودے کھڑے کھڑے سوکھ جائیں؟قدرت معصوموں کے ساتھ بے انصافی نہیں برتتی،ماں ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔ہمیشہ!‘‘ (جوگندر پال کے افسانہ مقامات سے اقتباس)