(Last Updated On: )
تمام عمر نہ حائل کبھی غلاف کیا
تمام عمر ہی ننگے قدم طواف کیا
تمام عمر حقیقت پسند تھا پھر بھی
تمام عمر حقیقت کے برخلاف کیا
تمام عمر ہی لہجہ ہمارا خشک رہا
تمام عمر سمندر میں اعتکاف کیا
تمام عمر ملی روشنی اسی در سے
تمام عمر اسی در سے انحراف کیا
تمام عمر انہیں عاشقی سے بیر رہا
تمام عمر محبت کا اعتراف کیا
تمام عمر ہی اک بھید بن گئی ہم پر
تمام عمر ہی رازوں کا انکشاف کیا
تمام عمر تجھے درد کا سبب جانا
تمام عمر تجھے زندگی معاف کیا
تمام عمر تری سعئ مستقل میں رہے
تمام عمر ترے ہجر کا طواف کیا
تمام عمر دوا کھائی جس موئے کے لیے
تمام عمر اسی درد کو لحاف کیا
تمام عمر اندھیروں کی سلطنت میں رہا
تمام عمر شبِ تار میں شگاف کیا