(Last Updated On: )
تمام شہر و دشت اک خدا کے انتظار میں
خدا، کریم، مہرباں دُعا کے انتظار میں
کھنڈر کھڑے ہیں بازگشت کے سقف لئے ہوئے
کسی ثقیل بدنما صدا کے انتظار میں
زمیں ہوا کی آفتوں سے ہے غبار کی طرح
ادھر ہے چاند آج تک ہوا کے انتظار میں
تمام اس کے واقعات بور اور بَد مزہ
ہم اپنی داستاں کی انتہا کے انتظار میں
خرام اس کا دیکھئے تو کیوں نہ ہو یقین پھر
زمیں بچھی ہے اس کے نقش پا کے انتظار میں
وطن کی سمت جانے کی خلش ہمارے دل میں ہے
شقی اُدھر شکارِ خوش نوا کے انتظار میں
نئی زمیں پہ اب کسی نبی کا دہم بھی نہیں
مشیتوں کے مارے ہیں فضا کے انتظار میں
اب اسلمؔ اس کے پیچھے راز کیا ہے کوئی کیا کہے
تمام لوگ اک شکستہ پا کے انتظار میں
٭٭٭