اسکے بے حس و حرکت وجود میں حرکت ہوئی تھی ۔پانچ منٹ تک وہ اپنی آنکھیں کھولنے کی کوشش کرتا رہا ۔جب وہ آنکھیں کھولنے کے قابل ہوا تو اسے لگا کہ وہ ہمیشہ کے لئے اندھا ہو چکا ہے ۔ارد گرد ناچتے نیلے پیلے دائرے اسکی بصارت میں حائل ہو رہے تھے ۔اسکے کپکپاتے لبوں سے پہلے کچھ بے ربط الفاظ نکلے پھر بدقت اسنے بیٹھی ہوئی آواز میں اپنے مام اور ڈیڈ کو پکارا۔
کوئی اسکی ہتھیلیاں سہلاتے ہوئے کچھ کہہ رہا تھا مگر وہ مہمل آواز تھی۔پھر مہمل آواز نے الفاظ کا روپ دھار کر اسکی سماعت کو جھنجھوڑا ۔
“ایلن! ایلن!” کوئی اسکا نام لے رہا تھا ۔
بند آنکھوں سے اسنے اپنے ذہن پر زور دیا اور آواز کو پہچاننے کی کوشش کی ۔
“ایلن! آنکھیں کھولنے کی کوشش کرو بیٹا ۔”
اس بار وہ پہچان گیا۔وہ اسکے ڈیڈ کی آواز تھی۔
اسنے بمشکل آنکھیں کھولیں۔دھندلے نقوش اسکے ذہن کے پردے پر اترے تھے۔دھندلے چہرے صاف ہوئے اور اسنے دیکھا کہ ہنری اس پر جھکا اسے فکر مندی سے دیکھ رہا تھا ۔دائیں جانب سفید اوور آل پہنے ڈاکٹر اپنے چہرے پر شفیق مسکراہٹ لئے اسکے نبض میں لگی ڈرپ چیک کر رہا تھا ۔
“پپانی۔۔۔” اسنے کہا۔اسکے ہونٹ بہت خشک ہو رہے تھے ۔اسے سہارا دیکر اٹھاتے ہوئے ہنری نے اسے پانی پلایا۔
“کیسے ہو راک اسٹار؟” ڈاکٹر نے اسکا کندھا تھپتھپاتے ہوئے پوچھا۔
وہ کچھ جواب نہیں دے پایا ۔پورا حلق جیسے کانٹوں سے بھر گیا تھا ۔اور سر میں اٹھتی تیز ٹیسیں اسکے اعصاب کو مضمحل کر رہی تھیں ۔
“میرا سر۔۔” اسنے کراہ کر اپنے سر کی طرف اشارہ کیا ۔
“اٹس آل رائٹ۔کچھ گھنٹوں میں ٹھیک ہو جائگا۔” اسنے تسلی دی۔
ہنری محبت آمیز نظروں سے اسے دیکھتا آگے بڑھا اور اسکے سر پر اپنا ہاتھ رکھا۔
“میری کرسمس ایلن! دیکھو گاڈ نے مجھے کرسمس کا کتنا اچھا تحفہ دیا ہے۔میرا بیٹا آج میرے پاس لوٹ کر آ گیا ہے ۔”
“کرسمس۔۔۔” اپنے دکھتے ہوئے سر کو پکڑتے ہوئے اسنے زیرِ لب کہا۔
“ہاں یہ سب ہولی فادر کی مہربانی ہے ۔”
“جون میں کرسمس ۔۔” وہ بڑبڑایا ۔
“جون۔۔۔” ڈاکٹر ہنسا۔” ینگ بوائے ۔تم پورے چھ مہینے کومہ میں تھے۔”
اسکا ذہن بھک سے اڑا۔چھ مہینے ۔۔۔جون سے دسمبر ۔۔پچھلی ہی رات تو۔۔ابھی پچھلی رات وہ پیٹر کے ساتھ کار میں تھا۔۔پیٹر۔۔پیٹر کہاں ہے؟ انکا ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا ۔۔اسنے اپنے جسم پر نظر ڈالی۔ایکسیڈنٹ نے کم از کم اسکے جسم پر کچھ فریکچر تو کرنا تھا۔مگر پوری جسم پر چوٹ کا کوئی نشان نہیں تھا۔ہاں بس وہ اپنے پیروں کو ہلانے کے قابل نہیں لگ رہا تھا ۔
“بہت خطرناک حادثہ تھا ایلن! تم مرتے مرتے بچے ہو۔تمہارے سر پر لگنے والی چوٹ بہت سیریس تھی۔چھ مہینوں تک میں نے تمہارے لئے دعا کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا کام نہیں کیا ہے۔”
وہ ہکا بکا سا اپنے باپ کا چہرہ دیکھ رہا تھا ۔اسے اسکی باتیں ہذیان لگ رہی تھیں یا وہ خود کوئی خواب دیکھ رہا تھا ۔ایسا کیسے ہو سکتا تھا کہ وہ چھ مہینوں تک مردوں کی طرح پڑا رہا تھا ۔
” واقعی اگر آج تم زندہ ہو تو صرف اسلئے کہ خود گاڈ نے تمہیں واپس زمین پر بھیجا ہے ۔میڈیکل سائنس کی زبان میں ہم ڈاکٹرز اسے میریکل(کرشمہ) کہتے ہیں ۔اگر وہ نا چاہتا تو۔۔۔” ڈاکٹر نے آسمان کی طرف انگلی اٹھائی۔”اگر وہ نا چاہتا تو دنیا کا کوئی بھی ڈاکٹر تمہیں تمہاری زندگی نہیں دے سکتا تھا ۔اسی نے تمہاری سانسیں لوٹائی ہیں ۔”
ایلن نے اپنا جسم بری طرح کانپتا محسوس کیا ۔اسنے خوفزدہ نظروں سے اپنے اطراف دیکھا۔کیا واقعی وہ موت کی دہلیز سے واپس لوٹا تھا؟ اور گاڈ۔۔۔گاڈ پر تو اسے یقین ہی نہیں تھا ۔جس ہستی کا کوئی وجود نہیں تھا وہ کیسے اسکی زندگی بخشنے کے قابل تھا۔
” اور پی۔۔۔پیٹر! “وہ ہکلایا۔”وہ کہاں ہے ڈیڈ؟”
ہنری نے اپنی نظریں پھیر لیں ۔ایلن نے اپنا دل اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبتا محسوس کیا ۔
“ہر کسی پر خدا تمہاری طرح مہربان نہیں ہوتا۔مجھے معلوم ہے کہ تمہیں ابھی یہ خبر دینے کا وقت درست نہیں ہے مگر تمہیں اپنے اندر لڑنے کی ہمت پیدا کرنی ہوگی ایلن ۔”
ڈاکٹر کے مبہم جواب نے ایلن پر سب واضح کر دیا تھا۔اسنے اپنا کانپتا ہوا ہاتھ اپنے چہرے پر رکھا۔اگر خدا نے اس پر رحم کیا تھا تو پھر پیٹر کا کیا قصور تھا ۔وہ اسکا دوست تھا۔۔اسکا بھائی تھا۔۔اسے اس سے دور کرنے کی کیا ضرورت تھی ۔
” پلیز مجھے تھوڑی دیر کے لئے اکیلا چھوڑ دیں ۔” اسنے یونہی اپنے چہرے پر ہاتھ رکھے سخت لہجے میں کہا ۔
“ایلن! کوئی الٹی سیدھی حرکت مت کرنا ۔” ہنری نے اسے تنبیہ کرتے ہوئے کہا ۔
“آپ فکر نہ کریں ۔جب چھ مہینوں کی بے ہوشی سے نہیں مرا تو اب خود کو مارنے کی کوشش نہیں کرونگا۔”اسنے اکھڑ انداز میں کہا ۔
ان دونوں کے جانے کے بعد اسنے چہرہ سے ہاتھ ہٹایا اور دیر تک اپنے آنسو ضبط کرنے کی کوشش کرتا رہا ۔مگر جب اپنی کوشش میں ناکامیاب ہو گیا تو وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑا تھا۔
________
پیٹر کی قبر کے سامنے وہ اسٹک کے سہارے سر جھکائے کھڑا تھا۔اپنے ارد گرد پھیلی بے شمار بے نام و نشان قبروں کے بیچ اسے وحشت ہونے لگی۔کانپتی ہوئی انگلیوں سے اسنے اپنے سینے پر کراس بنایا اور بغیر اِدھر اُدھر دیکھے واپس پلٹ گیا ۔اسے اس جگہ سے جلد از جلد نکلنا تھا۔تیزی سے چلتا وہ ایک دو دفعہ لڑکھڑایا تھا پھر سنبھل کر چلنے لگا۔اگر۔۔اگر وہ اس طویل موت جیسی بے ہوشی سے باہر نہ آیا ہوتا تو شاید ۔۔شاید ان قبروں کے درمیان یا پیٹر کی قبر کے پہلو میں اسکے نام کی بھی ایک قبر ہوتی ۔وہ اپنے سارے خوابوں، خواہشوں سمیت وہیں دفن ہو گیا ہوتا جس طرح اسکا جان سے عزیز دوست دفن تھا۔
قبرستان کے باہر ہنری اسکا انتظار کر رہا تھا ۔وہ آج ہی ہاسپٹل سے ڈسچارج ہوا تھا۔اسے ابھی چلنے میں دقت آ رہی تھی ۔ڈاکٹر نے کہا تھا کہ ایک ہفتے کی فزیوتھیراپی سے وہ پہلے کی طرح چلنے لگیگا۔
گھر پہنچ کر جب وہ اندر داخل ہوا تو اسکی نظریں کسی کی متلاشی تھیں ۔وہ کسی کی گول چمکیلی آنکھیں تلاش کر رہا تھا ۔اسنے اپنے پیروں کو جھک کر دیکھا۔وہ اپنے پیروں پر کسی کا نرم لمس ڈھونڈ رہا تھا ۔
“اسپارک! اسپارک! اسپارکی!” اسنے آواز دی۔ایسا کیسے ممکن تھا کہ وہ گھر پر آئے اور اسپارک اپنی جگہ سے نہ ہلے۔
“ایلن! اندر چلو تم تھک گئے ہوگے۔” ہنری نے اسکا شانہ پکڑ کر آگے چلنے کا اشارہ کیا ۔
“ڈیڈ! میرا اسپارک کہاں ہے؟” اسنے اسکا ہاتھ اپنے کندھے سے ہٹاتے ہوئے کہا ۔
” تمہارے ایکسیڈنٹ کے بعد اس نے کھانا پینا چھوڑ دیا تھا ۔میں نے اسکا خیال رکھنے کی بہت کوشش کی مگر شاید تمہاری حالت کی وجہ سے میں اسکا اتنا خیال نہیں رکھ پایا۔تمہارے ایکسیڈنٹ کے دو ہفتوں بعد وہ مر گیا تھا ۔”ہنری بہت شرمندگی سے اسے بتا رہا تھا ۔
ایلن نے اپنا سر چکراتا محسوس کیا ۔یہ اسکے ساتھ کیا ہو رہا تھا؟ اسکی ساری عزیز چیزیں اس سے اتنی دور کیوں جا چکی تھیں؟ اسنے زور سے سانس لینے کی کوشش کی ۔یوں لگ رہا تھا کہ ابھی اسکا دم گھٹ جائیگا اور وہ کبھی سانس نہیں لے پائیگا۔نیلی آنکھوں کے کنارے سرخ ہونے لگے۔
ہنری نے معذرت خواہانہ انداز میں اسے دیکھا ۔وہ جانتا تھا کہ اسکے بیٹے کے لئے اسپارک کتنی اہمیت کا حامل تھا ۔
“آئی ایم سوری ایلن!” اسنے اسکی پشت تھپکتے ہوئے کہا ۔
“آپکے سوری کرنے سے کیا ہوگا؟” وہ جیسے بہت ضبط سے بولا۔”اصل میں میری ہر پریشانی کا سبب آپ ہیں ۔آپکی وجہ سے میری مام نے مجھے چھوڑا۔پیٹر اور اسپارک کی موت کی وجہ بھی آپ ہی ہیں ۔میں آپ سے بات نہیں کرنا چاہتا ۔”
” ایلن۔۔۔”ہنری نے بہت دکھ سے اسے دیکھا ۔
“میں اپنے کمرے میں جا رہا ہوں ۔مجھے پریشان مت کیجئے گا۔” وہ اسٹک کی مدد سے لڑکھڑاتا ہوا اپنے کمرے کی طرف جانے لگا۔ہنری نے بڑھ کر اسکی مدد کرنے کی کوشش کی مگر اسنے سردمہری سے اسے روک دیا تھا ۔
_______
اسنے اپنی بند آنکھیں کھولیں اور تیزی سے اٹھ کر بیٹھ گئی ۔وہ کسی پر آرائش کمرے کے ایک صاف بستر پر تھی۔ایک نرم سا کمبل اسکے گرد لپٹا ہوا تھا ۔زخموں پر شاید کوئی مرہم لگایا گیا تھا ۔اسنے اپنے چہرے کو چھوا۔وہ اب بھی متورم تھا۔زخموں میں اٹھتی ٹیس یونہی تھی۔
اس وقت وہ کہاں تھی اسے کوئی اندازہ نہیں تھا ۔اپنے جسم سے کمبل ہٹا کر وہ اٹھنے کو تھی جب ایک سفید فام عورت کمرے میں داخل ہوئی۔اسنے عیسائی ننوں کا سا لباس پہنا ہوا تھا ۔عمر میں لگ بھگ پچاس پچپن کے قریب تھی۔اپنے چہرے پر ایک نرم سی مسکراہٹ لئے وہ اسکے قریب آ گئی۔
“اب کیسی ہو؟” اسنے شفقت سے پوچھا۔
“یہاں مجھے کس نے لایا ہے؟ اور آپ کون ہیں؟” اسکے سوال کو نظر انداز کر کے زنیرہ نے تیز لہجے میں پوچھا۔
“ریلیکس چائلڈ! تمہارے پاس ہمیں ہولی فادر نے بھیجا تھا اور تم مجھے اپنی ماں سمجھ سکتی ہو۔” اسکے تیز لہجے پر اس عورت نے کوئی ناگواری ظاہر نہیں کی۔
“آپ میری ماں نہیں ہیں ۔اور مجھے یہ بتائیں کہ میں اس وقت کہاں ہوں؟” اسنے روکھے انداز میں کہا ۔
وہ عورت ایک بار پھر نرمی سے مسکرائی تھی۔
” مجھے معلوم ہے کہ تم نے اپنی زندگی میں بہت پریشانیاں دیکھی ہیں اور تم اس دنیا سے بیزار ہو ۔تم جیسے لوگوں کی مدد کرنے کے لئے ہی عیسی مسیح نے ہمیں دنیا میں اتارا ہے ۔تم اب بالکل فکر مت کرو ۔تمہارے ہر زخم پر مرہم رکھا جائیگا اور تمہارے سارے دکھوں کا مداوا کیا جائیگا۔”اسکے ہاتھ کی پشت کو نرمی سے سہلاتی وہ کہہ رہی تھی ۔
زنیرہ الجھی۔
” پہیلیاں مت بھجوائیں ۔میں جاننا چاہتی ہوں کہ میں کس جگہ ہوں؟ “وہ سخت لہجے میں بولی۔
” تم مدر ٹریسا مشنری میں ہو اور میں سسٹر ایما ہوں ۔”
” مجھے یہاں کیوں لایا گیا ہے؟ ”
” ہم وہاں سے گزر رہے تھے تو تم بہت بری حالت میں سڑک پر بے ہوش ملی تھیں اسلئے ہم تمہیں اپنے ساتھ لے آئے۔تمہیں مزید کوئی سوال کرنا ہے؟ “اسکا لہجہ اب بھی شفقت آمیز تھا۔
زنیرہ کے چہرے کی الجھن سمٹی تھی۔اسنے آہستہ سے نفی میں سر ہلایا۔
” تمہاری فیملی میں کوئی ہے؟ “سسٹر نے اسکا چہرہ بغور دیکھتے ہوئے سوال کیا۔
” نن۔۔نہیں میں بالکل اکیلی ہوں ۔”اسنے جھوٹ بول دیا۔
” جبران ۔۔جبران تمہارے کسی دوست کا نام ہے؟”
اسکے سوال پر زنیرہ کا چہرہ فق ہو گیا تھا ۔”آپ۔۔.آپ کو کیسے پتہ اسکے بارے میں؟” وہ ہکلائی۔
” تمہارے موبائل پر اس نام سے کافی کالز آ چکی ہیں ۔” ایما نے اسکی طرف اسکا موبائل بڑھاتے ہوئے کہا ۔
اسنے تھرتھراتے ہاتھ سے موبائل تھاما۔کیا وہ اسے ڈھونڈ رہا تھا؟ مگر وہ اسکے پاس واپس نہیں جانا چاہتی تھی ۔
“تم مجھے اچھے خاندان کی لگ رہی ہو۔اور تمہارے جسم پر استحصال کے نشان بھی موجود ہیں ۔اگر تمہیں کسی بھی قسم کی مدد کی ضرورت ہے تو بلا جھجھک کہہ سکتی ہو۔ہم اپنی لا فرم سے ایسے معاملات حل کرتے ہیں ۔”
“پلیز سسٹر! میں ابھی آپکے کسی سوال کا جواب دینے کی کیفیت میں نہیں ہوں ۔”اسنے کہا۔اسکی آنکھوں میں پچھلی گزری رات کا کرب ابھر آیا تھا ۔
” جیسا تمہیں مناسب لگے۔اور تم جب تک چاہو یہاں سکون سے رہ سکتی ہو۔”اسنے بیڈ سے اٹھتے ہوئے کہا ۔” میں تمہارے لئے کچھ کھانے کو بھجواتی ہوں ۔”وہ کمرے سے باہر چلی گئی تھی ۔
اسکے جاتے ہی زنیرہ نے اپنے موبائل کا سم نکال دیا۔وہ اب جبران سے کبھی رابطہ نہیں کرنا چاہتی تھی۔
_______
یونیورسٹی جانے کے لئے تیار ہوتے ایلن نے آئینے میں ابھرتی اپنی شبیہ پر نظر ڈالی ۔اسکے ریڈ ڈائی بال اپنی رنگت کھو چکے تھے اور اسکے بالوں کا اصل گولڈن رنگ ظاہر ہو رہا تھا ۔ان چھ مہینوں میں بال بہت بڑھ گئے تھے ۔ماتھے پر گرنے والے بال آنکھوں تک آ رہے تھے ۔جیل لگا کر اسنے بالوں کو اوپر کیا اور اپنے بائیں کان میں ہیرے کی اسٹڈ ڈالتے ہوئے اسنے اپنے چہرے کو دیکھا۔نیلی آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے نظر آ رہے تھے اور چہرہ بہت کمزور لگ رہا تھا ۔سفید شرٹ کے اوپر براؤن اوور کوٹ پہنتے ہوئے اسنے گٹار اٹھاتے ہوئے اسے پشت پر لٹکا لیا۔
جب وہ یونیورسٹی کیمپس میں داخل ہوا تو جیسے ساری کلاس اسکے استقبال میں کھڑی تھی ۔سب کے گلے لگتے، ہاتھ ملاتے اسے بہت عجیب محسوس ہو رہا تھا ۔اگر وہ مر گیا ہوتا تو ۔۔۔تو کیا یہ سارے لوگ اسے یاد رکھتے۔اسے معلوم تھا کہ ایسا کچھ نہیں ہونے والا تھا۔ہر کسی نے بس اسکے جنازے پر شرکت کرنی تھی۔چند موم بتیاں جلائی جاتیں، چرچ میں ایک فیونرل پرئیر۔۔اور بس ۔۔پھر سب اپنے اپنے معمول میں مصروف ہو جاتے۔اگر وہ مر جاتا تو کسی کو کوئی فرق نہیں پڑنے والا تھا ۔دنیا اور دوسروں کی زندگی یونہی رواں دواں رہنے والی تھی۔اسکے چہرے پر پر مژدگی چھانے لگی۔اسکی نظر روژا پر پڑی۔وہ مسکراتی اسکی طرف آ رہی تھی ۔مگر ایلن کی توجہ جس چیز نے مرکوز کی تھی وہ روژا کے ہاتھ میں جمی کا ہاتھ تھا۔اسکی آنکھیں میں تکلیف ابھری۔بس چھ مہینے اور پوری دنیا تبدیل ہو گئی تھی ۔
“کیسے ہو ایلن؟” اسنے قریب آ کر کہا۔
“ٹھیک ہوں ۔” اسنے مدھم لہجے میں جواب دیتے ہوئے رخ پھیر لیا ۔
“چلو پھر بعد میں ملتے ہیں ۔ابھی تو میری کلاس ہے۔” اسنے اسکی بے رخی محسوس کر لی تھی۔
ایلن کو یاد آیا کہ وہ پورے ایک سمسٹر پیچھے ہو چکا ہے ۔اسکے ساتھ پڑھنے والے آگے بڑھ چکے تھے ۔ایک وہی تو تھا جسکے لئے وقت کی گردش تھم چکی تھی ۔سب کے ہجوم سے نکلتا وہ خالی گوشے کی طرف چلا گیا ۔
گھاس پر بیٹھتے ہوئے اسنے گٹار ہاتھوں میں لیا اور اسکے تاروں پر انگلی پھیری۔ایک مدھم سی دھن ابھری اور پھر معدوم ہو گئی۔پھر وہ بیحد دھیمے دھیمے اپنی انگلیاں گٹار پر پھیرنے لگا۔وہ کون تھا؟ اور اس دنیا میں کیوں تھا؟ اسے موت کے قریب لا کر پھر زندگی کیوں دی گئی؟ اسکی انگلیاں گٹار پر تیزی سے رقص کرنے لگیں ۔کیا دنیا میں خدا کا وجود ہے؟ اگر ہے تو پھر اسے کبھی کیوں نہیں ملا؟ وہ ایک لمحہ کے لئے رکا اور دوبارہ گٹار بجانے لگا۔اسنے کبھی خدا کو تلاش کرنے کی کوشش بھی نہیں کی۔۔۔مگر یقیناً خدا کا وجود ہے۔۔۔ہاں وہ اس دنیا میں ہے۔۔۔اسکی زندگی کی ڈور تھامے وہ اسے اپنے وجود کا احساس دلا رہا ہے ۔۔۔گٹار سے ایک ہاتھ ہٹا کر اسنے اپنی آنکھیں رگڑیں ۔
I wanna believe in you
I wanna find you
Please show me your sign
I wanna be yours.
اپنی لرزتی ہوئی آواز میں گاتا ہوا وہ رو رہا تھا ۔انگلیاں گٹار پر یونہی حرکت کر رہی تھیں ۔اسکی آواز اب بھی خوبصورت تھی۔اب بھی وہ جو گا رہا تھا پورے جذب سے گا رہا تھا ۔اب بھی ہجوم اسکے گرد اکٹھا ہو کر تالیاں بجانے لگا تھا۔سب کچھ پہلے کی طرح تھا بس ایلن ہنری کا دل بدل گیا تھا ۔
_______
اسے مدر ٹریسا مشنری میں رہتے دو مہینے ہو چکے تھے ۔اس دوران وہ سسٹر ایما اور یہاں رہنے والے دوسرے لوگوں سے بہت قریب ہو گئی تھی ۔اسنے ان لوگوں سے زیادہ محبت کرنے والے اور بے ضرر لوگوں کو نہیں دیکھا تھا ۔وہ سب اسکا بہت خیال رکھتے تھے ۔اسے انکے درمیان رہتے اس بات کا کبھی احساس نہیں ہوا کہ وہ نا ہی انکی ہم مذہب ہے اور نا ہی ہم قوم ۔سسٹر ایما کی مدد سے اسنے جبران کو طلاق کے لئے نوٹس بھیج دیا تھا۔
وہ اس وقت کاریڈور میں کھڑی وہاں رکھے شو پیس کی صفائی کر رہی تھی جب سسٹر میریا اسکے قریب آئی۔
“ہیلو زنیرہ!”
“ہیلو!” اسنے مسکرا کر اپنے سر کو خم دیا۔
“ہم لوگ چرچ جا رہے ہیں ۔تم بھی ہمارے ساتھ چلو۔”
اسکی بات سے وہ چونکی۔”چرچ۔۔میں کس طرح ۔۔” وہ زیرِ لب بڑبڑائی۔
“تم ایتھیسٹ نہیں ہو نا۔” سسٹر میریا اسکی طرف بغور دیکھتی کہہ رہی تھی ۔
زنیرہ کے چہرے پر ڈھیروں حیرت آئی۔اس جگہ پہلی دفعہ کوئی اسکے ساتھ مذہب ڈسکس کر رہا تھا ۔
” دیکھو زنیرہ۔زندگی مذہب اور خدا کے تعلق کے بغیر نہیں گزاری جا سکتی۔اگر خدا کی طرف جانے والے ایک راستہ سے تمہیں سوائے خسارے کے کچھ اور نہیں ملا۔تو اسکا مطلب یہ نہیں ہے کہ باقی زندگی اسی طرح گزار دی جائے ۔اب تمہیں خدا سے اپنا تعلق بنانے کے لئے کسی دوسرے راستہ کی ضرورت ہے ۔”
” مگر۔۔۔”اسکے چہرے پر پس و پیش تھا۔
” میں تم پر کچھ تھوپنا نہیں چاہتی۔تم ہمارے ساتھ چرچ چلو۔اگر وہاں تمہیں سکون ملے تمہارا دل راضی ہو تو ہی کوئی فیصلہ کرنا۔مگر یونہی وہاں جانے میں تو میرے خیال میں کوئی حرج نہیں ہے ۔”اسکا ہاتھ تھامے وہ نرم سے انداز میں کہہ رہی تھی ۔
زنیرہ نے اپنا سر اثبات میں ہلا دیا ۔وہ اسے انکار کر ہی نہیں پائی تھی۔
_________
وہ آج پہلی دفعہ چرچ آئی تھی۔وہ وہاں سارا وقت سر جھکائے آخری بینچ پر بیٹھی رہی۔اسکا دل ہر قسم کے جذبات سے عاری تھا۔اسے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ وہ کسی چرچ میں صلیب کے سامنے بیٹھی ہے یا کسی مسجد میں ۔اسے کوئی پروا نہیں تھی اگر اسکے سامنے قرآن کے بجائے بائیبل رکھی تھی ۔وہ اپنا تلخ ماضی ہمیشہ کے لئے بھول جانا چاہتی تھی۔ اسکے لئے وہ ہر قدم اٹھانے کے لئے شاید خود کو ذہنی طور پر تیار کر چکی تھی۔اسے ایک پر سکون زندگی گزارنی تھی۔ایک باعزت زندگی ۔کسی انسان کی طرح زندگی ۔وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی اور اب خود کو جوڑنا چاہتی تھی۔ٹھیک ہے اگر اسے دوسرے مذہب کا سہارا لینا پڑے تو کوئی حرج نہیں تھا۔ویسے بھی اسکے اپنے مذہب نے اسے رسوائی کے سوا کچھ اور دیا تھا کیا؟
________
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...