اس وقت سعد آفس میں فائلز میں سر دیئے بیٹھا تھا جب اسے دروازے پر ہلکی سی دستک سنائی دی۔ اس نے فائلز سے سر اٹھائے بغیر یس کہا تو اس کی سیکریٹری اندر آئی۔
” سر باہر کوئی آپ سے ملنے آیا ہے۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ آپ کے جاننے والے ہے” سیکریٹری نے کہا تو سعد نے ذرا کا ذرا سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا.
” بھیج دو” سعد نے کہا۔ ساتھ ہی اس نے فائلز سمیت کر ایک سائٹ پر کی اور گہری سانس لے کر کھڑا ہو گیا۔ ساتھ ہی دروازہ کھول کر موئذ اندر داخل ہوا۔ سعد کے چہرے ہر بے ساختہ مسکراہٹ دوڑ گئی۔ وہ میز کے پیچھے سے نکل کر موئذ کی طرف بڑھا. دونوں ایک دوسرے سےلپٹ گئے۔
” چل کہیں چل کر لنچ کرتے ہیں ہے۔ یہاں بھی لنچ ٹائم ہونے ہی لگا ہے نہ۔۔” موئذ نے اس سے ملنے کے بعد کہا۔
” ہاں۔ چل چلتے ہے۔ ویسے بھی آج کام بہت زیادہ تھا۔ تھک گیا میں بھی۔” سعد اس وقت ڈارک میرون شرٹ پر چاکلیٹ کلر کا 3 پیس سوئٹ پہنے آنکھوں پر چشمہ لگائے کافی خوبصورت لگ رہا تھا۔ سعد کی نسبت موئذ بلیو جیںز پر وائٹ ٹی شرٹ اور براؤن ہلکا سا سویٹر پہنے عام سے حلیے میں تھا۔ سعد نے سٹینڈ پر ٹنگا اپنا کوٹ اٹھا کر پہنا اور موئذ کے ساتھ باہر نکل گئے۔ تھوڑی دیر بعد وہ دونوں ایک قریبی ریسٹورنٹ میں بیٹھے کھانا کھا رہے تھے ساتھ ہی ہلکی پھلکی باتیں بھی کررہے تھے۔
” فہیم نے کوئی رابطہ کرنے کی کوشش نہیں کی تمھارے ساتھ۔ کوئی معافی کوئی یا کوئی اور بات” سعد نے باتوں کے درمیان سنجیدگی سے موئذ سے پوچھا۔ مویذ اس کے سوال پر چونکا تھا۔
” ہنہہ۔۔ معافی۔۔۔ معافی تو دور کی بات اس نے تو مڑ کر ایک مسیج تک نہیں کیا۔ پتہ نہیں کیا ہوگیا ہے اسے۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ انسان اس قدر گر سکتا ہے۔ میری بہن کی زندگی خراب ہوگئی ہے اس کی وجہ سے۔ نجانے کیسے ہر بار شعیب ہر رشتے کا پتہ لگا لیتا ہے۔ نجانے وہ میری بہن کے متعلق کیا کیا بکواس کرتا ہوگا۔” موئذ نے نفرت انگیز لہجے میں کہا تو سعد نے اسے پر سوچ نظروں سے دیکھنے لگا۔
” ہمم۔ ہمارا معاشرا ہے ہی ایسا۔ چاہیے وہاں لوگ جتنے مرضی ترقی کر لیں ان کی سوچیں وہی اپنے بزرگوں کے زمانے میں اٹکی ہوئی ہے۔ وہی پست سوچیں لئے رہ رہے ہے۔ جہاں rapist کو صرف لعنت ملامت کر کے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ لیکن وکٹم کی زرا سی کوتاہی کو وجہ بنا کر اسے قصوروار ٹھہرا دیا جاتا ہے۔ اس کی ساری زندگی برباد کر دی جاتی ہے۔ جہاں اگر لڑکی کچھ گھنٹوں کے لئے کسی حادثے کی وجہ سے گھر سے غائب ہوجائے تو ماں باپ اس ڈر سے رپورٹ نہیں کرواتے کہ بدنامی ہوگی۔۔ زندگی تباہ ہوجائے گی اس لڑکی کی۔ وہاں اگر اس لڑکی کہ ساتھ کچھ نہ بھی ہوا تب بھی کوئی اس کا یقین نہیں کرتا۔ وہ بدکردار ٹہرا دی جاتی ہے۔ ایسے میں ایسی نیچ سوچوں کے ساتھ ہمادا معاشرا آخر ترقی کتیں تو کریں کیسے۔ ” سعد غصے میں بولتا چلا گیا۔ موئذ چپ چاپ اسے سنتا گیا۔ آخر میں فقظ ” ہمم” کہہ کر خاموش ہو گیا۔
” ایک بات پوچھو” چند لمحے خاموش رہنے کے بعد سعد نے گہری سنجیدگی سے موئذ کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔
” یہ بھی کوئی پوچھنے والی بات ہے” موئذ نے مسکرا کر جواب دیا۔
” تجھے مجھ پر اعتبار ہے ”
” ہمم۔۔۔ اعتبار تو مجھے اللّٰہ کے بعد سب سے زیادہ تجھ ہر ہی ہے۔ لیکن تو کس سینس میں پوچھ رہا ہے” موئذ آگے کو ہو کر بیٹھا۔
“میں۔۔۔ وہ۔۔۔ مطلب ۔۔ اگر میں تجھ سے مایا کے بارے میں کچھ کہوں تو تجھے برا تو نہیں لگے گا نہ۔۔۔ مطلب مطلب تو مجھے غلط تو نہیں سمجھے گا” سعد نے پہلے اٹکتے ہوئے تہمید باندھنی چاہی مگر پھر اس نے تیزی سے وہ پوچھ لیا جو وہ پوچھنا چاہتا تھا۔
” ہاااا۔۔۔ نہیں۔۔۔ مجھے معلوم ہے تو کوئی ایسیبات بلکل نہیں کرے گا جو مجھے تکلیف دے۔ ” موئذ نے مسکرا کر اسے تسلی دی۔
” ہنہہہ۔۔۔ اوکے۔۔۔ پھر سن۔۔۔ ماہی کے ہر رشتے میں بقول تیرے شعیب ہر باد کوئی نہ کوئی رکاوٹ ڈال رہا ہے۔ لوگوں کو مایا کو کی طرف سے مشکوک کردیتا ہے اور لوگ اس کا یقین بھی کر لیتے ہیں” وی ابھی بول ہی رہا تھا جب نوئذ نے اسکی بات کاٹی اور کہا ” سعدی میری جان۔۔۔ مجھے پتہ چل گیا ہےکہ میرا پرانا سعدی واپس آگیا ہے جو کوئی بھی ضروری بات کرنے سے پہلے لمبی لمبی تہمید باندھا کرتا تھا۔۔ اس لئے اس لئے پلیز پوائنٹ پر آؤ” موئذ کی بات پر وہ کھسیانہ سا ہو کر ہنسا۔
” ہاہاہا۔۔ اچھااا جییی۔۔۔ میں کہہ رہا تھا کہ میرے علاوہ شاید اور کوئی نہیں ہے جو ماہی کی بے گناہی پر اعتبار کریں۔
شاید تقدیر بھی یہی چاہتی ہے۔ ورنہ اس دن ندا اس طرح اغوا نہ ہوتی۔ اللّٰہ فہیم کے دماغ میں ندا سے بات کرنے کا بھی خیال ڈال سکتا تھا بے شک اس کے لئے کچھ بھی مشکل نہیں۔
مگر اللّٰہ یہی چاہتا تھا کہ میں خود اپنی آنکھوں سے اس کی بے گناہی دیکھوں۔۔
تقدیر کا یہی فیصلہ ہے۔
تو بتا تو تقدیر کے اس فیصلے سے اتفاق کر کے ہمین ایک کرتا ہے یا اختلاف کرتا ہے۔” سعد نے پر اعتماد انداز میں موئذ کو دیکھتے ہوئے دھکے چھپے انداز میں اس سے اس کی دضامندی مانگی تھی ۔ جبکہ موئذ بے تاثر چہرہ لیے اسے دیکھتا اندر ہی اندد حیران کو رہا تھا۔ یہ بات بلکل خلاف توقع تھی۔ سعد خاموشی سے اس کے چہرے جو دیکھ دہا تھا۔ چند کمحوں بعد موئذ زور سے ہنسا۔
” یار تو واقعی پورا پاگل ہے۔ مطلب سچ میں۔ نیں جو سمجھا تھا کہ اس واقعے کے بعد تو تھوڑا میچور یو چکے ہوگے آج بھی بلکل بچے ہو۔ وہی عادت پہلے لمبی سی تہمید باندھنا اور پھر گھما پھرا کر وہ بات کرنا۔ہاہاہا۔۔۔۔ تیرا کچھ نہیں ہو سکتا بھائی۔ پتہ نہیں میری بہن کا کیا بنے گا۔ ” موئذ ہنستا ہوا بول رہا تھا۔ آخری جملہ اس نے شرارت بھںرے لہجے میں ادا کیا تھا جیسے اس نے سعد کے سوال کا جواب اسی کے انداز میں دیا ہو۔۔ گھما پھرا کے۔
جبکہ اس کے اس انداز پر سعد نے سکون بھری سانس لی اور پھر اس کا ساتھ دیتا وہ بھی ہنس پڑا۔ موئذ کو ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے اس کے کندھوں سے بھاری بوجھ ہٹ گیا ہو۔
فہیم شام کے چھ بجے آفس کے بعد کافی دیر گاڑی میں گھومتے رہنے کے بعد گھر سے کافی دور ایک پارک میں بینچ پر بیٹھا ہوا تھا۔ اس کا ضمیر مسلسل اسے ملامت کررہا تھا۔ ایک پل کے لئے بھی اسے سکون نہیں مل رہا تھا۔ سوچیں اسکی جان نہیں چھوڑ رہی تھی۔ وہ سکون کی تلاش میں بھٹک رہا تھا۔ سوچوں سے بھاگ رہا تھا۔ لیکن ناکام ہو کر تھک اب وہ اس بینچ پر سر دونوں ہاتھوں میں گرائے بیٹھا تھا۔
کیونکہ نہ ہی وہ اس طرح سے کہیں دور چلے جانے سے سوچوں سے بھاگ سکتا تھا اور نہ ہی دنیا میں سکون کو تلاش کرنے کے بھٹک سکتا تھا۔ کیونکہ یہ سب اس کے جذبات تھے۔ اس کے وجود کا حصہ تھا جس سے وہ بھاگ نہیں سکتا تھا۔
آج اسے ایک سال سے چھڑی دماغ اور دل کی جنگ کو انجام تک پہنچانا تھا۔
آج یا تو نفس جیتے گا یا ضمیر۔!!
” غلطی میری نہیں تھی۔ ساری غلطی سراسر ندا کی تھی۔ اس نے میرے اوپر سعد کو ترجیع دی۔ مجھے آزمانے کے لئے سعد سے منگنی کی۔ سب اس کی غلطی۔ ہے اسے آخر ضرورت ہی کیا تھی یہ سب کرنے کی” اس کا دماغ مسلسل اسے بہلا رہا تھا۔
” تھیک ہے۔ ندا کو اغوا کرنے تک سمجھ آتا ہے۔ کرنا یہ بھی نہیں چاہیے تھا مگر چھوڑو۔ مسئلہ اول میں یہ ہے سب کو کہ آخر تمھیں دو لڑکیوں کی زندگی خراب کرنے میں شعیب کی مدد کرنے کی ضرورت کیا تھی۔ ایسی کیا قیامت آگئی تھی جو تم اس حد تک چلے گئے تھے۔ صرف ایک گھر اور چند دوائیوں کے کی قیمت انہوں نے دو لڑکیوں کی زندگیاں مانگ لی۔ اور تم مان بھی گئے۔ گھر تو تم بھی خرید سکتے تھے۔ دوائیاں تم بھی لا سکتے تھے۔ اس کے لئے ان جہنمی لوگوں کی مدد کر کے ان کی مدد لینے کی کیا ضرورت تھی۔
اس کے بعد بجائے اپنی غلطی سدھارنے کی بجائے تم ندا کو سزا دیتے رہے۔ جبکہ اس کی غلظی تمھاری غلطی کے سامنے غلطی ہے ہی نہیں۔ وہ چپ چاپ سہتی رہی۔ جب اس نے تمھیں آئینہ دکھایا تو تم سے برداشت نہیں ہوا۔ بہت خوب۔ معافی مانگنی چاہیے تھی تمھیں سب سے الٹا تم ہی مجرم ہو کر دوسروں کو مجرم کہہ کر ان کو سزا دیتے پھر رہے ہو۔” ایک سال سے وہ دل کو ہمیشہ چپ کرواتا آیا تھا۔ مگر آج سننا شروع کیا تو سنتا ہی چلا گیا۔ آج جیسے ساری تلخ حقیقتیں واضح ہوگئی تھی۔
اور پھر فیصلہ ہو گیا۔
دماغ ہار آگیا….. دل جیت گیا!!
نفس ہار گیا….. ضمیر جیت گیا!!
” ہاں مجھے معافی مانگنی چاہیے۔ سب سے۔۔ مجھے سب سے معافی مانگنی ہے۔ ہر اس شخص سے جس کو میں نے تکلیف پہنچائی۔ سعد، ندا ، عنایہ، موئذ، مایا، امی، ابو۔۔۔ میں سب سے معافی مانگو گا۔ وہ سب مجھے معاف کر دیں گے۔ وہ یقینا مجھے سمجھے گے۔” وہ خود سے بڑبڑاتا بھاگتا ہوا پارکنگ میں کھڑی اپنی گاڑی کی طرف آیا تھا۔ اسے لگ رہا تھا کہ ابھی معافی نہ مانگی تو شاید پھر کبھی نہ مانگ سکے۔ وہ اس وقت بلکل بھی اپنے حواسوں میں نہیں تھا۔ گاڑی کی سپید بھی خطرناک حد تک تیز تھی۔
فہیم نے تھوڑا آگے جا کر قدرے سنسان سی جگہ پر ایک موڑ کاٹا۔
مگر سامنے سے آتی گاڑی کو دیکھ کر بھی وہ کچھ نہ کر سکا۔ دماغ اس کے کنٹرول میں نہیں تھا۔ وہ بلکل ماؤف ہو چکا تھا۔ جیسے اپنی ہار پر ناراض ہو۔ سامنے سے آتی گاڑی کی سپیڈ کافی ہلکی تھی۔ مگر وہ بھی گاڑی روکنے کی بجائے مسلسل ہارن پر ہاتھ رکھے ہوئے تھا جیسے اس کی گاڑی کی بریکز فیل ہوگئی ہو۔
اور پھر ایک زور دار آواز اس ویران سی جگہ پر گونج اٹھی۔
سعد اس وقت اپنے کمرے میں بیٹھا کافی پیتا ویڈیو کال پر وقار صاحب اور سعدیہ بیگم سے باتوں میں مصروف تھا۔
” جاب کیسی جا رہی ہے تمھاری۔ کیا چل رہا ہے آج کل۔ واپس آنے کا کوئی ارادہ ہے کہ وہی دل لگ گیا ہے تمھارا” وقار صاحب سعد سے پوچھ رہے تھے۔
” ہاہاہاہا۔۔۔ بہت جلد۔۔۔ اپنی شادی پر واپس آؤ گا انشاءاللہ۔ اور جاب الحمدللّٰہ پرفکٹ جارہی ہے” سعد نے سعدیہ بیگم کو دیکھتے ہوئے معنی خیز انداز میں مسکرتے ہوئے کہا۔ جبکہ اس کی بات پر وقاد صاحب نے مسکرا کر سعدیہ بیگم اور پھر سعد کی پرف دیکھا۔
” اوو ہو۔۔۔ تو یہ بات ہے۔ لگتا ہے صاحب ذادے کے اپنے سالے صاحب کے ساتھ مزاکرات کامیاب ہوگئے ہے۔” وقار صاحب نے بھی مسکراتے ہوئے جتاتے ہوئے لہجے میں کہا تو سعد منہ کھول کر وقار صاحب کو دیکھتا تو کبھی سعدیہ بیگم کو۔
” ماما۔۔۔ آپ نے بتا دیا۔۔۔ میں نے آپ کو منع بھی کیا تھا ” سعد نے بچوں کی سی ناراضگی لئے کہا۔
” بھئی میں نے تو پوری کوشش کی تھی۔ لیکن انہوں نے سن لیا تو اب میں کیا کرتی” سعدیہ بیگم بےچارگی سے بولی تو سعد ان کے انداز پر مسکرا دیا۔
” اچھا چلے۔۔۔ میں نے موئذ سے بات کرلی تھی۔۔۔ کافی خوش اور مطمئن نظر آیا تھا وہ مجھے۔۔۔ الحمدللّٰہ۔۔۔!!” سعد نے بتایا تو دونوں کے چہروں پر خوشگواد تاثرات آگئے۔
” ماشاءاللہ۔۔ یہ تو بہت اچھی بات ہے۔۔ میں مایا سے بھی بات کر لوں گی اب۔۔” سعدیہ بیگم جوش لئے بولی۔
” ہمم۔۔۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں اس طرح بات کرنے کی بجائے موئذ کے آنے کے بعد ان کے گھر رشتہ لے کر جانا چاہیے” وقار صاحب نے انہیں روکتے ہوئے کہا۔
” جی۔۔ پاپا ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ آپ لوگ اب رشتہ لے کر جاہیے گا” سعد نے بھی وقار واحب کی حمایت کی۔
” ٹھیک ہے۔ جیسا آپ چاہیے۔” سعدیہ بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا تو وہ دونوں بھی مسکرا دیے۔
مسکرایا تو کوئی اور بھی تھا۔ چھپکے سے۔۔۔۔
مایا ابھی تک شاک کی سی کیفیت میں تھی۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ تقدیر اس طرح بھی اچانک سے ہمیں اپنی زندگی کے ملنے کی نوید سناتی ہے۔
وہ اس وقت اپنے کمرے سے ملعقہ گیلری میں کھڑی تھی۔ اس نے بےاختیار تشکر بھری نظر اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا۔ جیسے اس ذات کا شکر ادا کررہی ہو جس نے اس کے کہے بغیر زبان سے اقرار سنے بغیر ہی اس کے دل کی بات سن لی تھی۔
جو شخص ہر بار میری حفاظت کا ذریعہ بنا وہ عمر بھر کے لئے میرا محافظ مقرر ہوگیا ہے۔
“ہمم۔۔ واقعی۔۔ ہر بار میری حفاظت اللّٰہ کے حکم سے اس نے ہی تو کی۔ پہلی بار جب وہ شعیب میرے پیچھے آیا تھا تب وہ مجھے ٹکرائے اس سنسان سی جگہ پر۔ اس دن جلدی میں انہیں غور سے دیکھ نہیں پائی تھی۔ مگر جب بعد میں انہیں منگنی پر دیکھا تب پہچان گئی تھی۔ پھر اس کے بعد ان کے نکاح کے دن میری عزت خراب ہونے سے بچ گئی۔ کیونکہ ٹریکر کا مشورہ ان کا ہی تھا۔ اور اس دن مجھے دوپٹہ بھی انہوں نے ہی اوڑیا تھا۔ جو شخص کسی رشتے کے بغیر میری حفاظت کر سکتا ہے وہ میری عزت کو اپنی عزت بنا کر میری کتنی حفاظت کریں گا۔۔!!” یہ سب سوچتے اس کے چہرے ہر خوبصورت مسکراہٹ تھی۔
وہ سب ہوسپٹل میں ICU کے باہر کھڑے تھے۔ جس گاڑی کے ساتھ ایکسیڈنٹ ہوا تھا اس کے ڈرائیور کو کچھ خاص چوٹ نہیں آئی تھی۔ ساتھ ہی وہ پولیس آفسر تھا۔ فہیم کو بہت زیادہ زخم آئے تھے۔ کیونکہ اس کی گاڑی کی سپیڈ تیز تھی اور دوسرا اس کی گاڑی دوسری گاڑی سے ٹکرانے کے بعد سائیڈ پر بنی دیوار سے زوردار انداز میں ٹکرائی تھی۔
آفیسر اسے قریبی ہوسپٹل میں لے آیا تھا۔ آتے ہوئے اس نے گاڑی کی چابی اور فون بھی لے آیا تھا۔ فہیم کو ڈاکٹرز کے حوالے کرنے کے بعد اس نے فہیم کے گھر فون کر کے اطلاع دے دی تھی۔
اب ان سب کو یہاں آئے دو گھنٹے گزر چکے تھے مگر ابھی تک کوئی ڈاکٹر باہر نہیں آیا تھا۔
سونیا بیگم اور شگفتہ بیگم بینچ پر بیٹھی مسلسل رونے میں مصروف تھیں۔ ندا صدمے کی سی حالت لئے ساتھ بیٹھی تھی۔ حسین صاحب دراوزے کے ساتھ کھڑے تھے جبکہ حسن صاحب دروازے کی سامنے کھڑے تھے۔ اور عنایہ۔۔ وہ بے تاثر سی دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑی کبھی دوتی ہوئی اپنی چچی اور ماں کو دیکھتی تو کبھی دروازے کے پاس کھڑے اپنے باپ اور چچا کو اور کبھی ندا پر نظریں جماتی سوچوں کے جہان میں چلی جاتی۔ عنایہ کو خود بھی اپنی کیفیت سمجھ نہیں آرہی تھی۔ وہ نہ رو رہی تھی، نہ ہنس رہی تھی۔ نہ دکھ تھا نہ خوشی۔ الگ ہی کیفیت تھی۔ جسے وہ خود بھی سمجھنے سے قاصر تھی۔ مگر کوئی تھا جو اس کے کچھ کہیے بغیر اسکی کیفیت سمجھ سکتا تھا۔ اس کو اس کیفیت سے باہر نکال سکتا تھا۔ عنایہ کسی روبوٹ کی طرح چلتی ہوئی prayer روم کی طرف بڑھ گئی۔ حسین صاحب نے اسے جاتے دیکھا تو تھا مگر روکا نہیں۔ prayer روم میں 4,5 عورتیں اور بھی تھیں مگر وہ کسی پر بھی دھیان دیئے بغیر الگ تلگ ہوکر بیٹھ گئی۔
وہاں آکر اسے اپنی کیفیت سمجھنے اور بتانے کی ضرورت پیش نہیں آئی تھی۔ وہ اللّٰہ ہے۔ ہماری شے رگ سے بھی زیادہ قریب۔ ہمارے دلوں کے حال کو ہم سے زیادہ اور بہتر جانتا ہے۔ چند لمحے وہ ایسی ہی بیٹھی رہی۔ دعا کے لئے ہاتھ تک نہ اٹھائے اس نے۔ کچھ ہی دیر میں ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔ اور پھر گرتے چلے گئے۔ وہ بے اختیار سجدے میں جھک گئی۔۔ اسے سکون چاہیے تھا اس وقت اور سکون حاصل کرنے کے لئے اس سے بہتر جگہ کوئی نہیں تھی۔
” اے اللّٰہ مجھے معاف کردیں۔ میں کم ظرف نکلی۔ میں اپنے بھائی کو معاف نہ کرسکی۔ میں اپنا دل بڑا نہ کرسکی۔ میں تیرے فیصلے کو غلط کہتی رہی۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ کبھی ہمارے ساتھ کچھ غلط کچھ برا کرسکتا۔ میں پھر بھی تیرے فیصلے لر خوش نہ ہوسکی۔ میں بھائی کو برا سمجھتے رہی کہ اس کی وجہ سے میرے ساتھ مایا کہ ساتھ یہ سب کچھ ہوا لیکن تو میری تقدیر میں لکھا بھائی نہیں تو کوئی اور کردیتا اس لئے میں تیرا شکر نہ کرسکی کہ یہ بھائی نے کردیا۔ کوئی اور ہوتا تو کیا ہوتا۔ میں ہمیشہ تجھ سے شکوہ کرتی رہی لیکن آج شکر کرتی ہوں کہ وہاں میرا بھائی… میرا ایک محرم رشتہ وہاں موجود تھا۔ میرے بھائی نے بھی غلطی کی یا اللّٰہ انہیں معاف کردیں۔ تو رحیم ہے تو کریم۔ بھائی کے گناہ معاف کردیں۔ انہیں ان کی زندگی واپس لوٹا دیں۔ انہیں صحت یاب کردیں۔ بے شک تیرے کئے کچھ بھی مشکل نہیں۔ عنایہ سجدے میں سر جھکائے روتی جا رہی تھی۔ زیادہ رونے سے اس کی ہچکی بندھ گئی تھی۔
روتے روتے کافی وقت ایسے ہی گزر گیا جب کسی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور پھر دونوں ہاتھوں سے اسے پکڑ کر اٹھایا اور اپنے ساتھ لگا لیا۔ وہ ندا تھی۔ نجانے وہ کب وہاں آئی تھی۔
اس کی آنکھوں سے بھی آنسو بہہ رہے تھے۔ وہ کچھ بھی کہہ نہیں رہی تھی بس اس کے روتے ہوئے وجود کو سنبھال رہی تھی۔
وہ اس وقت کوریڈور میں کھڑے تھے جب ڈاکٹر ICU کا دروازہ کھول کر باہر نکلا۔ حسن صاحب اور حسین صاحب لپک کر ان کی طرف بڑھے تھے۔
” کیسا ہے اب وہ” حسین صاحب نے پوچھا۔ حسن واحب چپ چاپ ڈاکٹر کو دیکھے گئے۔
” کافی سیرئس کنڈیشن ہے۔ آپ سب دعا کیجیئے۔ اللّٰہ بہتر کریں گا انشاءاللّٰہ ۔ اور آپ دونوں میرے ساتھ آئیں۔” ڈاکٹر کہہ کر آگے بڑھ گیا۔ جبکہ وہ دونوں ان کی پچھلی بات کے اثر سے نکل کر ان کے پیچھے چلنے لگے تھے۔ ڈاکٹر چلتا ہوا اپنے آفس کے اندر داخل ہوا۔
” بیٹھیئے۔” ڈاکٹر نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے ان دونوں کو بھی کہا۔
” ڈاکٹر سب خیریت ہے نہ۔ میرا بیٹا ٹھیک تو ہوجائے گا نہ”حسن صاحب نے پوچھا۔
” نہیں۔ سب ٹھیک نہیں ہے۔ پہلے آپ یہ بتائیں کہ کبھی پہلے فہیم کے سر پر چوٹ تو نہیں لگی۔ بچپن میں کبھی۔ گہری چوٹ ” ڈاکٹر نے آگے کی طرف جھکتے ہوئے پوچھا۔
” نہیں۔ ہلکی پھلکی بچپن میں لگ جاتی تھی۔ںسیریس قسم کی تو الحمدللّٰہ کبھی نہیں لگی”
” ہمم۔۔ حسن صاحب۔۔۔ آپ کے بیٹے کو ایک عرصے سے برین ہیمبرج ہے۔ ان کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آچکا ہے جس میں ان کے سر پر گہری چوٹ لگی ہے اور خون نکلنے کی بجائے اندر ہی جم گیا تھا جس کی وجہ سے انہیں ہیمبرج ہوگیا تھا۔
شکر کیجئے کہ ان کا ہیمبرج پٹھا نہیں ورنہ آن دی سپوٹ ان کی ڈیتھ ہوسکتی تھی۔ اصل مسئلہ بھی ہیمبرج کی وجہ سے ہی ہو رہا ہے ورنہ ایکسیڈنٹ میں چوٹیں تو انہیں آئی ہے مگر کوئی اتنی سیریس نہیں سوائے سر کی ایک چوٹ کے جو ہیمبرج کے بہت نزدیک لگی ہے۔ ان کے سر میں وہاں شیشہ لگا ہے اور وہ جگہ سٹیچڈ ہونی ہے مگر ہم اس ڈر سے رکے ہوئے ہے کہ کہی وہ ہیمبرج کو ٹچ نہ کرجائے۔ ایسا ہونے کی صورت میں ان کی ڈیتھ ہو سکتی ہے۔ اور دوسری بات بروقت علاج نہ ہونے جی وجہ سے ان کا ہیمبرج بڑھ چکا ہے۔” ڈاکٹر نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا تو حسن صاحب کو اپنا دل ڈوبتا ہوا محسوس ہوا۔
” اس کا علاج کیا ہے پھر۔ کوئی تو حل ہوگا۔ کوئی تو علاج ہوگا نہ. کیا اس کی سرجری نہیں ہو سکتی۔” حسین صاحب نے بمشکل خود کو سمبھالتے ہوئے بے تابی سے پوچھا۔
” سرجری فلحال نہیں ہوسکتی۔ ہاں ایک کام۔ہو سکتا ہے کہ آپ باہر سے کسی اچھے ڈاکٹر سے اپائنٹمنٹ لیں لیں تو ہو سکتا ہے کچھ۔ ادروائز، یہ ایک بہت بڑا رسک ہے” ڈاکٹر نے کہا۔
” ٹھیک ہے ٹھیک بہت جلد ڈاکٹر اپائنٹ کرلیں گے آپ بتائے ہمارے پاس زیادہ سے زیادہ کتنا ٹائم ہے؟؟” حسین صاحب نے پوچھا۔
“زیادہ سے زیادہ ہمارے پاس 10 گھنٹے ہیں۔ ” ڈاکٹر نے جواب دیا تو حسین صاحب فورا اٹھ کھڑے ہوئے اور باہر نکل گئے۔ باہر نکلتے ہی وہ کسی کا نمبر ملاتے بات کرنے لگے۔