مناہل کی بچی اتنی مرچیں نہ ڈالو لڑکے والے کہیں مائنڈ ہی نہ کر جائیں،
ارج نے اسے گلاب جامن میں زیادہ پیسی ہوئی مرچیں بھرتے ہوئے دیکھا جو بڑی مہارت سے گلاب جامن کو درمیان میں سے توڑ کر بھر رہی تھی،
اور ساتھ تھال میں سجا رہی تھی یہ سب اتنی مہارت سے کر رہی تھی کہ کسی کو گمان بھی نہیں ہو سکتا تھا کہ اس میں کچھ بھرا گیا ہے-
ارے بھابھی کچھ نہیں ہوتا اشتہار دیکھ دیکھ کر لڑکے خاصے چلاک ہو چکے ہیں،
اس دن آپ نے سنا نہیں تھا بھابھی سدرہ اپنی کزن کی شادی کی مہندی کا قصہ سنا رہی تھی کہ لڑکوں نے گلاب جامن چکھے تک نہیں تھے-
اور دوسری بات ارج بھابھی کہ ایسی باتوں کو کوئی مائنڈ نہیں کرتا-
یہ شرارتیں ہی تو رسموں کو رنگین اور خاص خوبصورت بناتی ہیں، بھابھی آپ اس کی فکر نہ کریں- بس آپ یہ سب مجھ پر چھوڑ دیں دیکھنا کیسے نہیں لڑکے والے گلاب جامن کھاتے،
کیوں نہیں!! جب گلاب جامن پیش کرنے والی تم ہو گی تو کون کافر گلاب جامن نہیں کھائے گا-
لڑکے مرچوں سے کیا بےہوش ہونگے تمہارے حسن کے جلووں کی ہی تاب نہ لا پائیں گے، ارج بھابھی بڑھی اور مناہل کو بے ساختہ پیار کر لیا تو وہ جھینپ گئی، اب ایسی بھی بات نہیں بھابھی،
اچھا خیر باقی سب تیار ہے آج لڑکے والوں کے چھکے چوکے چھڑا کر بھیجا جائے گا
کیوں ایمان ؟
ارے آپ فکر ہی نہ کریں بھابھی – مناہل کے ماموں کی بیٹی اسماء کی شادی تھی اور لڑکے والوں کو تنگ کرنے کے سارے پروگرام اس نے سوچ کر ترتیب دیئے تھے – آج لڑکے والے مہندی لے کر آئے تھے اور مناہل کے ساتھ مل کر باقی دوستوں اور کزنز نے کافی خوب شرارتیں سوچی تھیں
جن میں گلاب جامن میں مرچیں اہم آئٹم تھی-
مناہل ہر جگہ اور ہر کام میں پیش پیش تھی ایک وہ ہی تو اکلوتی سگی کزن تھی اسماء کی بہن نہ ہونے کی کمی پوری کر رہی تھی –
پہلے اور سبز رنگ کے گوٹہ کناری والے لہنگے میں شوخ سی تتلی لگ رہی تھی’ رنگین لباس لہنگے اور شراروں میں اگر لڑکیاں جچ رہی تھی تو لڑکے بھی سفید کرتا شلوار میں اور گلے میں پیلے اور سبز دوپٹے ڈالے شوخ نظروں سے جملے اچھالے بہت اسمارٹ لگ رہے تھے،
او ہیلو! ذرا راستہ دیجئے –
مناہل مہندی کے تھال پر موم بتیاں راشن کیئے کھڑی تھی ،
لیجئے گا – حسین اس کے انداز میں بولتا پیچھے مڑا تو کچھ وقت کے لیے مناہل کے طلسمائی حسن میں کھو گیا-
وہ آگے بڑھ گئی،
یار ولید ! تیرے سسرال میں تو بڑے طلسمائی حسن والے لوگ ہیں،
ہاں ذرا خود پر قابو رکھنا،
مرروانہ دینا مجھے میں تو پہلے ہی بہت کم نصیب ہوں میری تو رشتے کی سالی بھی ایک ہی ہے،
ولید نے افسردہ سا چہرہ بنا کے کہا تو حسن ہنس دیا،
تب ہی ولید کی بہنیں اور بھابھی آ گئیں-
وہ ان کے ساتھ اسٹیج پر رسم کے لیے آگئے-
مسٹر ذرا جگہ دیجئے پلیز وہ ہی طلسمائی حسن والی پری وش ہاتھ میں مہندی کا تھال لیے کھڑی کہہ رہی تھی-
حسن کی آنکھوں میں شرارت اور بہت ساری شوخیاں اتر آئیں-
وہ بہت سارے شوخ جملے اچھال رہا تھا مناہل کو دیکھ کر،
مناہل اس کو نظر انداز کرتے ہوئے ولید کے پاس بیٹھ گئی اور مہندی کی رسم ادا کرنے لگی،
تب ہی حسن نے ولید کا ہاتھ پیچھے کر لیا اور خود ساتھ بیٹھ گیا،
او ہو تو محترمہ کو اتنا شوق ہے مہندی لگانے کا – اپنا شوق پورا کرنا ہے تو میرے ہاتھ پر کرو میرے یار کے ہاتھ خراب مت کرو،
مناہل یہ سن کر چڑ گئی اور وہ مناہل کو چڑانے کے لیے بولی جا رہا تھا،
اوئے مسڑ! چپ رہئے آپ کا کوئی تعلق نہیں بلاوجہ بولی جا رہے ہو،
تین میں نہ تیرہ میں
جی آپ یہ 3 اور 13 کا حساب رہنے ہی دے
رشتہ اور تعلق بنتے کیا دیر لگتی ہے ولید بھائی یہ ہے کون ؟
بلاوجہ رنگ میں بھنگ ڈال رہے ہیں،
لائیے ولید بھائی ہاتھ دے دیر ہو رہی ہے،
مناہل نے خود ہی ولید کا ہاتھ پکڑ کر مہندی لگانی چاہی تو حسن نے جھٹ سے اس کے ہاتھ سے ولید کا ہاتھ چھڑا لیا-
ارے خواہ مخواہ میں میرے یار کا ہاتھ خراب نہ کریں، اگر اتنا ہی شوق ہے میرے ہاتھ پر پورا کر لو ہم اپنے خوبصورت ہاتھ کی قربانی دیتے ہیں –
ہرگز نہیں آج ولید بھائی کی مہندی ہے تو صرف ولید بھائی کے ہاتھ ہر ہی مہندی لگے گی،
حسین نے جان بوجھ کر ولید کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں پکڑ رکھا تھا اور مناہل کو مسلسل چڑا رہا تھا –
چھوڑو ولید بھائی کا ہاتھ وہ حسین کا ہاتھ دیکھ کر بولی
اس نے ہاتھ نہیں چھوڑا اور مناہل اس کو دیکھ کر گھورنے لگی،
اوئے ہیلو ! نظر ہی لگاتی رہو گی یا پھر مہندی بھی لگاو گی
وہ شرارت اور شوخی سے بولا تو مناہل تپ گئی،
تب ہی بھابھی جلدی سے آگئی ورنہ تو مناہل شروع ہونے والی تھی –
وہ بھی غصے کی بہت تیز تھی ، مناہل جانے لگی تو ولید نے جلدی سے اپنا ہاتھ آگے کر دیا اور مناہل نے ولید کو مہندی لگا کر رسم ادا کی ، جب مناہل جانے لگی تو پھر سے حسین نے شعر کہا –
مہندی کی خوشبو سانسوں پر چھا جائیں۔۔
ہم آئے تجھ کو نذرانہ دل کا دینے۔۔۔
ہم تیرے ھو جائیں گے یہ ہی ہے اک لگن۔۔
اور مناہل نے شرمندگی سے اپنا چہرہ چھپا لیا،
پھر جلدی سے خود پر قابو پا کر بولی آپ انتہائی بدتمیز آدمی ہیں مجھے نہیں معلوم تھا،
ولید بھئی دوستوں کے معاملے میں اتنے بدذوق تھے پر اب معلوم ہوا،
جی بالکل درست کہا آپ نے کتنے ملتے جلتے آپ کے اور میرے خیالات ہیں،
اور ساتھ ہی حسین نے مناہل کا ہاتھ پکڑ کر اس پر اپنا نام لکھ دیا،
مناہل سے یہ برداشت نہ ہوا اور اس نے مٹھی بھر کر مہندی حسین کے منہ پر مل دی –
حسین اس حملے کے لیے تیار نہیں تھا،
جب حسین کو ہوش آیا تو اس نے مناہل کا دوپٹہ پکڑ کر مہندی صاف کر لی –
مناہل یہ دیکھ کر چیخ ہی تو پڑی تھی۔۔۔ ارے بدتمیز آدمی یہ کیا کر رہے ہیں آپ۔۔ نطر نہیں آرہا آپ کا ہی کارنامہ تھا۔۔
شٹ اپ!!
اور غصے سے لال ھوتی ھوئی اسٹیج سے اتر گئی۔۔ ارے یہ کیا بھئی!
کیوں منہدی اتاررہی ہو۔۔ بھابھی نے اسے ٹوکا۔۔ نجانے کون جنگی بدتمیز آدمی ہے تمیز نام کو چھو کر نہیں گزری اور اپنا نام میرے ھاتھ پر لکھ دیا۔۔
اور مہندی تو دیکھیے۔ اتنی سی دیر میں اتنا رنگ آ گیا۔۔
بھئ کیوں اتنا الجھ رہی ہو مہندی اپنا رنگ چھڑڑ گئی ہے تو اچھی بات ہے اسی طرح ہی تو ایک چراغ سے دوسرا چراغ روشن ہوتا ہے اور پھر ارج بھابھی بھی شرارت سے بولی۔۔ ویسے یہ ولید کا دوست تو بہت خوبرو اور اسمارٹ ہے۔۔
بھابھی آپ بھی!!!
اچھا اچھا خیر چھوڑو اپنا موڈ ٹھیک کرو اور جلدی سے باہر چلو اور ھاں یاد آیا وہ گلاب جامن تو لے جاؤ۔۔ چلو میں ساتھ چلتی ہوں۔۔۔
پر بھابھی آپ نے اس جنگی آدمی کے منہ میں دو گلاب جامن ٹھونسنے ھیں وہ بھی ایک ساتھ اتنی مرچیں ہیں کہ موصوف کو پتہ چل جائے گا۔۔
اچھا یار ٹھیک ہے جسے تم کہو ویسا ہی کروں گی۔۔ تم چلو تو۔۔ آرج بھابھی نے اس کو ٹالا۔۔
وہ گلاب جامن لے کر ھال میں آئی تو اس حسن کی دیوی کو دیکھ کر شوخی سے آواز لگائی۔۔ گلاب جامن نہ کھانا یاروں ساری زندگی پچھتاؤ گئے۔۔ حسین نے بلند آواز میں گایا تو کسی نے گلاب جامن کی طرف دیکھا تک نہیں۔۔
مناہل تو جل کر رہ گئی۔۔ بھابھی یہ لوگ کھائیں نہ کھائیں ھم تو کھائیں گے۔۔ ایک طرف مرچوں کے بغیر رکھے ھوے گلاب جامن میں سے ایک بھابھی کی طرف بڑھایا اور دوسرا خود اٹھایا۔۔
ولید کے دوست مطمئن ہو گئے کہ گلاب جامن میں کوئی خطرہ نہیں حسین پھر شوخ ہو رہا تھا،
مناہل کے ہاتھ میں تھال دیکھ کر
آپ اپنے ہاتھ سے کھلائے گی تو ضرور کھائیں گے –
لائیے کھلائیے حسین مناہل کی شرارت سے بے خبر منہ کھولے اس کے ساتھ کھڑا تھا،
اور مناہل یہ انتقام کا موقع ہاتھ سے گنوانا نہیں چاہتی تھی،
اس لیے فورا دو گلاب جامن ایک ساتھ حسین کے منہ میں ٹھونس دیئے،
اور وہ جو شرارت سے قطعی لا علم تھا اتنی ڈھیر ساری مرچیں کھا کر چکرا کر رہ گیا اور غیرارادی طور پر ایسے ایسے منہ بنائے کہ لڑکیاں ہنس ہنس کر بے حال ہو گئیں –
اب تو مناہل کا مقصد پورا ہو چکا تھا،
مناہل تو اتنا ہنسی کہ آنکھوں میں آنسو آگئے اور حسین جلتی زبان سے اس حسن کی دیوی کو دیکھتا رہ گیا-
اتنی سی جلن کے غرض اتنی خوبصورت ہنسی جلترنگ اندر رنگ گونج جائے تو سودا مہنگا نہیں،
لائیے میڈم دو گلاب جامن اور دیجئے،
حسین مناہل کے قریب آیا تو وہ منہ بنا کر چلی گئی،
حسین” ولید حسن کا بہت اچھا دوست تھا اسی وجہ سے وہ شادی کی ہر رسم میں پیش پیش تھا اور بارات والے دن خوب جچ رہا تھا –
بارات والے دن مناہل نے سیاہ لباس زیب تن کر رکھا تھا اور بے حد خوبصورت لگ رہی تھی،
بہنوں والی ساری رسمیں مناہل نے ہی ادا کرنی تھیں،
بارات ہال میں داخل ہوئی تو تمام لڑکیاں ہال کے دروازے پر دونوں طرف پھولوں کی پتیاں لے کر باراتیوں کا استقبال کرنے لگیں،
تب ہی حسین کی نظر مناہل پر پڑی تو کچھ وقت کے لیے پلٹنا بھول گئی ،
خواتین کے بعد مردوں کا آنا شروع ہوا تو سب سے پہلے حسین سیاہ سوٹ میں سب سے آگے تھا۔
مناہل کے ہاتھ میں پھولوں کی پلیٹ دیکھ کر وہ کچھ زیادہ ہی شوخ ہو گیا تھا،
مگر مناہل اس کو نظرانداز کر کے ہال کی طرف چلی گئی،
اور حسین بھی ولید کی طرف چلا گیا،
پر ولید کے پاس بیٹھ کر بھی حسین تمام وقت اس حسن کی دیوی کو ہی دیکھتا رہا،
مناہل بھی اس کی نظروں کو خود پر محسوس کر رہی تھی
اور اپنے غصے پر قابوں کر رہی تھی،
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...