کارگاہِ جہاں، کار گاہِ جہاں
کارخانوں کا
پھیلا ہوا سلسلہ:
کارخانے جو قدرت کی تخلیق ہیں
اور قدرت کی تخلیق رکتی نہیں!
چائے، کوفی کا
یا، لنچ کا
کوئی وقفہ نہیں
کوئی چھٹی نہیں—
کام شفٹوں کی صورت میں ہوتا بھی ہو
پھر بھی رکتا نہیں
فرد ہو یا گروہ، لاکھ چھٹی منائے مگر
کام سے مُکت ہوتے نہیں
— کام کی نوعیت کو بھی جانے بنا
کام کی نوعیت، ماہیت، جبریت
جانتا کون ہے؟ سوچتا کون ہے؟
مانتا کون ہے؟
کارگاہِ جہاں کے سبھی ذی حیات
سارے مزدور
رہتے ہیں مصروفِ کار
خواہ دن ہو کہ رات
کام رکتا نہیں—!
شرف کا تاج، پہنا ہوا— آدمی
چار پایہ دو پایہ— پرندہ کوئی
ننھا کیڑا کوئی، کوئی آبی حیات
مزد میں ہیں جُٹے، سب ہی مزدور یاں
کام رکتا نہیں—!
آئی، می، مائن کا شور اور غلغلہ
صرف خوش فہمیاں
’’میں‘‘ کا مفہوم گم، ’’مجھ کو‘‘ کہنا عبث
اور ’’میرا‘‘ یہاں — کچھ نہیں!
آپ اور ہم— یہاں
اک طلسمات میں— ہیں
اگر ہیں کہیں:
ورنہ کیا آپ، کیا ہم
کہیں ہیں—؟
’’کہیں بھی نہیں
کہیں بھی نہیں
کہیں بھی نہیں—‘‘