میں کبھی اڑتے ہوئے رنگوں
کبھی بوئے گریزاں کے تعاقب میں اکیلا
شہرو صحرا میں پھرا
تاکہ مل جائے ہجوم ناشناساں میں وہ صورت آشنا
جس کو میں نے جسم بے ہیئت کی صورت
حرف بے اظہار کی مانند سوچا تھا
مگر دیکھا نہ تھا
جس کی چاہت میں نگاہیں
رنگ و صوت و جسم و جاں کو جمع کر کے
(اور غیر آسودہ ہو کر)
منتشر کرتی رہیں
اور میں ناقابل تعبیر خوابوں کے خرابے میں
خجل ہوتا رہا
میں کہ تھا نا خود شناس
ششدر و حیران ہزاروں آئنوں کے درمیاں
دور سے آتی شعاعوں کے بدلتے زاویوں کے ساتھ ساتھ
رو نما ہوتے ہوئے ہر واقعے کے پیش و پس منظر کو
نقشِ دل بناتا تھا، مٹاتا تھا کبھی
بے افق۔ نادیدہ ساحل آنکھ کے
قربتوں کے اس طرف اور دوریوں کے اس طرف
اور مفروضہ حدوں کے درمیاں بھی
دوریاں ہی دوریاں
ظاہر و باطن کی دنیاؤں میں ہر سو
لا تعلق صورتیں
روپ، رشتے۔ رفتہ و آئندہ کی جادوگری
میں اسے شکلیں بدلتے
شہرِ بے تشبیہ میں کیسے ڈھونڈتا
غالباً
ہر تماشا، واقعہ۔ حرف و نظر کے دام کوتاہی میں تھا
میں گرفت نیم آگاہی میں تھا
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...