دو دن سے رخسار نے عندلیب کو کمرے سے باہر آنے کا موقع ہی نہیں دے رہی تھی ہر وقت بس اُسکے سر پر سوار رہتی تھی کھانا کمرے میں ہی مل جاتا تھا اُسے سوائے رونے اور سونے سے کوئی کام نہیں تھا ۔۔۔سب سے زیادہ دُکھ اس بات کا تھا کے طالش ایک مرتبہ دیکھنے بھی نہیں آیا تھا البتہ رخسار نے کافی دھمکیاں دے رکھیں تھی اُسے اور طالش کی طرف سے بد زن کرنے کی بھی پوری کوشش کی تھی ۔۔۔شام کا وقت تھا اور رخسار کمرے میں نہیں آئی تھی اور عندلیب کا پیاس لگ رہی تھی بار بار دروازے کی اوٹ سے باہر دیکھ چُکی تھی لیکن کوئی بھی ماجود نہ تھا
کل ہی اُسکی مما نے کپڑوں کا بیگ دامل کے ہاتھوں بجوایا تھا اور آج وہ کھدر کے بلیک قمیض شلوار اور ساتھ میں گرم چادر اپنے گِرد لیے ہوئے تھی آہستہ آہستہ قدم اُٹھاتی نیچے کی طرف گئی ابھی تین چار اسٹیپ اوپر ہی تھی جب سامنے بیٹھے طالش کو دیکھا ایک منٹ کے لیے جسم سے جان ہی نکل گئی اور جلدی سے واپس پیچھے کو ہوئی
"بھابھی آجائیں آپ بھی چائے پیئے نہ ”
دامل کی آواز پر دوبارہ پھر پیچھے کو دیکھا
بڑے سے لاؤنچ میں ایک صوفہ پر دامل چائے کا کپ لیے اُسکی طرف ہی متوجہ تھا جبکہ برابر ہی سخت تاثرات لیے جبڑے بیچ کر بیٹھا تھا ایسے جیسا آس پاس کوئی زی روح ماجود ہی نہ ہو
"عندلیب میرا بیٹا اِدھر اؤ اپنے دادو سے ناراض ہو ؟؟”
سربراہی کُرسی پر بیٹھے اُسکے دادا نے اپنی بہائیں پھیلا کر کہا
عندلیب کی آنکھوں کے کونے لال ہوئے تھے اتنے دن بعد کسی نے اسکا نام اتنے پیار سے پکارا تھا بھاگ کر اُنکے گلے لگ گی
"اِس بندر نے کچھ کہا ہے کیا مجھے بتاؤ میں طبیعت سیٹ کرتا ہوں اِسکی”
عندلیب کو روتے دیکھ کر لاڈ سے پوچھا جبکہ بندر کہنے پر طالش نے ایک نظر دادا کو دیکھا لیکن چہرے کے تاثرات ابھی سخت تھے
"دادو مجھے اپنے ساتھ لے جائیں ”
ڈر لگنے لگ گیا تھا اسے حویلی میں رہتے بے حس لوگوں سے
"میں تو خود بیٹیوں کے گھروں پر پڑا ہوں میرے بچے ابھی تھوڑی دیر تک رخسار آجائے گی تم تب تک اپنے دادو سے باتیں کرلو رو نہیں”
اُنہوں نے سے پر بوسہ لیا
"بھابھی میرے اور اپنے لئے چائے بنا کر لائیں میری ختم ہوگی ہے ”
دامل پھر بیچ میں بولا تو عندلیب جلدی سے کھڑی ہوئی
"اچھا بناتی ہوں”
اچھے بچوں کی طرح اپنے آنکھیں صاف کرتی دل سے مسکرائی
"عندلیب میری بُک اندر سے لا کر دو”
ساری بکس اُسکے پاس ماجود تھیں لیکن دامل کی بات ماننے پر اُسنے اپنی فرمائش بھی سامنے کی
"کیوں تمہاری ٹانگیں ٹوٹ گئیں ہیں جو میری پھول جیسی بچی اور اوپر بھیج رہے ہو ۔۔۔خود جاؤ ۔۔۔عندلیب بچے تم چائے بناؤ”
عندلیب سے ہلاتی کچن کی طرف چلی گئی اوپن امریکن طرز کا کچن تھا جو لاؤنچ سے تھوڑا دور بنائے گیا تھا لیکن وہاں سے ہال کا اور ہال سے کچن کا منظر واضح طور پر دیکھا جا سکتا تھا
"میں بھابھی کو بتا کر آتا ہوں چیزیں کہاں پڑی ہوئیں ہیں”
دامل آہستہ سے اُٹھ کر چلا گیا
جبکہ طالش کا بس چلتا تو دامل کا سر کچل دیتا بس کیسے کیسے آرام سے بیٹھا تھا
"بھابھی بہن بن کر میرا ایک کام کریں گئی”
پیچھے سے دامل آکر کُرسی کھینچ کر بیٹھ گیا
"کونسا کام بھائی”
چائے کا پانی رکھتی ہوئی بولی
"میں نہ ایک لڑکی کو پسند کرتا ہوں لیکن امی تو میرا جنازہ نکال دیں گی میرا لیکن اُسکی ماں چاہتی ہے کے ہمارے گھر سے کوئی جاکر بات پکی کر دے ۔۔۔۔میری مجبوری سمجھیں”
دُنیا جہاں کی معصومیت اپنے چہرے پر سجا کر بیٹھا
"اپنی عمر دیکھو اور اپنے کام دیکھو ”
حیرت سے آنکھیں پھٹ جانے کو تھیں
"آپکے شوہر شریف سے بس چھ ماہ چھوٹا ہوں ۔۔۔کچھ رحم کرو ”
اب عندلیب اُسکے برابر چیئر پر بیٹھی چُکی تھی جبکہ طالش چور نظروں سے بار بار کچن میں دیکھ رہا تھا جبڑے بیچ رکھے تھے جبکہ گردن کی رگیں تن ہوئیں تھیں
"جائیں گی نہ پلیز بس نکاح ہوجائے پھر آپکا کام ختم ”
اُسکا ہاتھ پکڑ کر منت کی تھی
"اگر چاچی کو پتہ چل گیا تو مجھے تو جان سے ہی مار دیں گی ”
عندلیب نے اپنا خدشہ ظاہر کیا
جب حال میں سے تھوڑی ہلچل سی پیدا ہوئی
"طالش ۔۔۔سرپرائز ”
کوئی لڑکی تھی جس کا منہ کم اوپر میک اپ زیادہ لگا ہوا تھا ۔۔۔جینز کے ساتھ گھٹنوں تک آتی شورٹ شرٹ اور گال بلُش سے لال کر رکھے تھے
"مبارک ہو بھابھی آپکی سوتن پلس میک اپ کی دُکان آپکے شوہر پر ناجائز قبضہ جمانے کے لیے خان حویلی کی دہلیز پار کر چُکی ہیں ۔۔۔۔۔اِس سے پہلے کے وہ سیدھا آپکے اکڑو شوہر کے سینے سے لگ کر اُنکا پیار وصول کریں جلدی سے آپ اپنی جگہ پر چلی جائیں”
باہر کھڑی لڑکی جو طالش سے ہاتھ ملا رہی تھی اُسکو دیکھتے ہوئے اپنی پیشین گوئی کی
"ملیحہ سچ میں تمہیں ہی یاد کر رہا تھا اتنے دنوں بعد ائی ہو آنکھیں ترس گیں تھی میری تو”
ابھی عندلیب کچھ کہتی اُس سے پہلے
طالش انتہائی اونچی آواز جو پوری حویلی میں آسانی سے سنی جا سکتی تھی اُسکے کانوں میں پڑی
"بھابھی جلدی سے کوئی نوٹ بک لے کر آئیں آپکے شوہر آپکے ہاتھ سے نکل رہیں ہیں میں کچھ پوائنٹس نوٹ کروا دوں شوہر کو اپنے ہاتھوں میں رکھنے کے”,
دامل نے سرگوشی کی تو بوجھے ہوئے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ آئی
"پہلی بات ایسی چپکو پلس اًن پڑھ ماڈرن لڑکیوں سے تین سو فٹ کے فاصلے پر اپنے شوہر نامدار کو رکھنا جو ابھی آپکے ہوتے ہوئے ہش ٹیک (#) چپکو نمبر ون بنے بیٹھے ہیں
عندلیب نے پھر سے دیکھا تو سچ میں ملیحہ اُسکے صوفے کی سائڈ پر بیٹھی اُسکی گال کھنچنے میں مصروف تھی جبکہ طالش صاحب انتہائی بيبا بچا بن کر اپنے ڈمپل کی نمائش کر رہا تھا ایک مرتبہ تو عندلیب کا دل کیا اُٹھا کر اُس لڑکی کو باہر مارے اور خود اُسکی گود میں بیٹھ جائے چھوٹے سے بچے کی طرح
طالش اپنے عظیم کارنامہ کے بعد چور آنکھوں سے عندلیب کا جلن کے تاثرات سے بھرپور چہرہ دیکھا تو دل عجیب سی خوشی سے سرشار ہوگیا
"بھابھی آپ جلیس ہو رہیں ہیں کیا ؟؟؟؟”
دامل نے آبرو اچکا کر پوچھا
"نہیں مجھے کیا جو مرضی اُسکی کے پاس بیٹھے ”
معصوم سا منہ بنا کر بولی اور پیر پٹختی اندر کی طرف چلی گئی
"ملیحہ پلیز دور ہوکر بیٹھو ”
طالش نے کچن سے اُسے جاتا دیکھ کر ملیحہ کا ہاتھ جھٹکا
"ہنی کیا ہوا ۔۔۔پتہ ہے ایسا منہ بنا کر بلکل بھلو لگتے ہو”
اُسکی بات کا رتِ برابر اثر نہیں ہوا اور طالش کا ناک چھوتی ہوئی بولی
"کوئی مینر ہیں تمہیں ۔۔۔اپنی بیہودہ حرکتیں کسی اور کے ساتھ جا کر کیا کرو ۔۔۔ ایڈیٹ”
اتنی دیر سے بدلہ لینے کی غرض سے دل پر پتھر رکھ کر اُسکی قربت برداشت کر رہا تھا اب عندلیب کے جاتے ہی اُسے دھکا دیا تھا اور خود باہر چلا گیا
"ویسے اتنی سی کتے کی ہوجائے تو وہ گھر کیا گاؤں چھوڑ کر بھاگ جاتا ہے کیا خیال ہے ملیحہ عرف میک اپ کی دُکان”
پہلی بات پورے جوش سے کہی جبکہ اینڈ پر آواز صرف اُسے اور دادا کو ہی سنائی دی و بھی اُسکے ساتھ ہنس ہنس کے لوٹ پوٹ ہوگے
"اپنی شکل بھی دیکھ لیا کرو ۔۔۔ویسے بھی میرا سسرال ہے تمہیں کیا تکلیف ہے”
ملیحہ غُصہ سے سُرخ ہوتےچہرہ کے ساتھ غرائی
"واہ اُنکے حوصلے تھے داد کے قابل
وہاں پر منہ مارتے تھے یہاں اور ہاتھ مشکل تھا”
دامل پیٹ پر ہاتھ رکھ کر ہنستا ہوا بولا اور دادا نے ہاتھ اُٹھا کر اُسکے نئے نویلے شعر پر داد دی جسے سینے پر ہاتھ رکھ کر وصول کیا گیا
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
"خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تدبیر سے پہلے
خُدا بندہ سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے”
کواٹر میں داخل ہوتے ہی پپو نے اونچی آواز میں شعر پڑھا تو کپڑے دھوتے ہیں فتر نے ہاتھ روک کر اُسے دیکھا
"ویسے یہاں تک مجھے پتہ ہے تم تب ہی دو واحد شعر پڑھتے ہو جب کوئی خوشی کی بات ہو”
اب کپڑوں پر ڈنڈا چلاتے ہوئے بولا تھا
"ہاں اللّٰہ مغفرت فرمائے میری اُستانی جی کی پانچویں جماعت میں وہ اسمبلی کے بعد تین چار بار دونوں شعر ہمیں یاد کرواتیں تھیں پھر اُردو کے پریڈ میں وہی شعر سن کر کھڑا کر دیتیں تھی کبھی سبق سنانے کی نوبت ہی نہیں ائی تھی فتر کے بچے ۔۔۔۔ویسے ایک بات ہے ایسی استانیاں آج کل کے بچوں کو کہاں ملتی ہیں ”
بیسویں مرتبہ بتائی ہوئی بات آج پھر دہرائی تھی
"بات بتا میرے پیٹ میں کچھ کچھ ہو رہا ہے ”
نوفل نے پیٹ پر ہاتھ رکھ کر دُھائی دی
"بہت ہی عورتوں والا پیٹ لے کر پیدا ہوا ہے انوی نہیں تیرا نام فتر مطلب گندی فطرت رکھا ہوا”
محد کمر پر ہاتھ رکھ کر خالص عورتوں والے لہجے میں بولا
"چل آجا پھر کپڑوں کو پانی سے نکال اگر نہیں بتانا تو”
نوفل انتہائی معصوم منہ بنا کر بولا
"نہ بیٹا نہ اب تیرا بھائی بڑا ادمی بن گیا ہے اب یہ کام تو نوکر کیا کریں گے”
محد خیالی دنیا میں سیر کو نکلتے ہوئے بولا
"خیر ہے میرے یار کو کسی نے کچھ کہا ہے یہ پھر دماغ میں کوئی چوٹ تو نہیں آگئی ”
نوفل جلدی سے اُٹھ کر اُسکے پاس آیا اور سر کا معائنہ کیا
"لعنتی انسان میں امریکہ جا رہا ہوں آفس کی طرف سے ”
"چل ڈاکٹر کے پاس چلیں ”
نوفل واقعی پریشان ہوگیا تھا محد نے اپنا پھٹا ہوا جوتا اُسکے سر پر مارا
"یہ دیکھ کل کو شام میں چلا جاؤں گا میں آنکھیں کھول کر دیکھ”
ایک جعلی ٹکٹ اور کسی اور کے نام کا پاسورڈ دیکھتے ہوئے بولا
"پر یار یہ تو کسی اور کا نام ہے اور تصویر تیری ہے”
نوفل کو جھٹکا لگا تھا
"جانی سر کہہ رہے تھے کے دفتری کاموں میں اتنا سا آگے پیچھے ہوجاتا ہے ۔۔۔۔۔کوئی مجھے روکے گا نہیں بلکہ اُنکی گاڑی مجھے ایئرپورٹ پر چھوڑ کر آئے گی اور کراچی جاکر بھی خود مجھے جہاز میں بیٹھیں گے”
رٹا رٹایا سبق دوہرایا
"تیری شکل دیکھ کر اوپر یہ مرغی کی دم گوروں نے جہاز سے ہی واپس بھیج دینا”
نوفل نے اُسکے بالوں کو طنہ دیا
"نہ کر میرے آفس کی جو لڑکیاں ہیں نہ میرا ایک گندہ سا لفظ لے کر بات کرتیں ہیں تُجھے کیا پتہ”
محد نے شرماتے ہوئے منہ پر رومال رکھ کر بہت ہی آہستہ آواز میں راز کی بات بتائی
"کونسا گندہ نام”
نوفل تھوڑا سا کھسک کر اُسکے پاس کو ہوا
"مجھے ہات(ہاٹ) مین کہتی ہیں”
اب آواز پہلے سے بھی دھیمی تھی
نوفل بچارا جھٹکے سے پیچھے ہوا اور دونوں کانوں کو بار بار ہاتھ لگائے جبکہ محد ابھی بھی منہ پر رومال رکھ کر شرما رہا تھا
"توبہ توبہ اتنا گندہ نام ۔۔۔۔۔۔۔کتنی بیشرم لڑکیاں ہیں میرے اتنے پیارے جگری یار کو ہات مین بنا دیا”
نوفل افسوس سے وہیں بیٹھ گیا
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
ابھی بھی عندلیب منہ پھیلائے چاچی کے کمرے میں بیٹھی تھی
"جب میں اجازت دی ہے شادی کی پھر مجھے کیا ہو رہا ہے۔۔۔۔۔میں کیسے برداشت کروں گی ”
یہی سوال بار بار ذہن میں گردش کر رہا جب سانسوں میں جانی پہچانی سی خوشبو کا احساس ہوا وہم سمجھ کر سے جھٹک کے پھر گھٹنوں میں منہ دیکر بیٹھ گئی
"اگر آپکو یاد ہو تو ایک عدد شوہر ہے آپکا جس کے ہر کام کی ذمےداری آپکی ہی ہے اگر نہیں کر سکتی تو بتا دیں میں کل ہی کوئی اور انتظام کر لیتا ہوں”
لہجہ ابھی بھی سخت تھا چہرے اور غُصہ ہوبہو قائم تھا تین دن سے برداشت کر رہا تھا لیکن آج خود ہی انا کے بت کو توڑ کر آنا پڑا
"ن۔۔۔۔نہیں میں کروں گی”
آخری بات پر دل کانپا تھا جلدی سے اُٹھ کر بھاگنے کی تیاری کی لیکن جلد ہی سامنے کھڑے جیسے انسان کے کاندہ سے ٹکڑا گئی
کچھ لمحوں کے لیے دونوں کی آنکھیں ایک ہوئیں دل کی دھڑکنوں میں انتشال بھرپا ہوا
طالش کا دل کیا اُس معصوم آنکھوں والی کو ساری دُنیا سے چھپا کر اپنے آپ میں گُم کر دے اُسے ان ساری الجنھوں سے ساری تکلیف سے دور لے جائے
"دیب”
ہلکی سی سرگوشی ہوا میں معدوم ہوگئی فضا میں بس دھڑکنوں کا شور تھا جو کچھ اور سننے ہی نہیں دے رہا تھا
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
جب قانون موجود نہ ہو۔۔۔۔ ایک حیرت انگیز سچا واقعہ
یہ 1 نومبر 1955 کی بات ہے کہ جان گلبرٹ گراہم نامی ایک امریکی شہری کہ جس کا اس کی...