شبینہ کی بڑی بہن اپنی سہیلی کے بتاے ہوے رشتے کے بارے میں امی کو بتا رہی تھی کے اس نے اپنی شبینہ کے لئے ایک رشتہ بتایا ہے انکے پڑوس کی ایک فیملی ہے دیکھنے میں کیا حرج ہے”وہ انھیں لانے کا کہہ رہی تھی پر مینے بولا پہلے امی کو تو بتا دوں پھر تمہیں فون کر کے بتا دوں گی۔۔۔۔۔”
“”شبینہ کی اممی نے بڑی بیٹی کی بات پے ہامی بھر لی تھی”” ظاہر ہے “جہاں بیری ہوگی پتھر تو آئیں گے ہی” اور اب شبینہ کی پڑھائی بھی مکمل ہو گئی تھی اور گھر والوں نے اسکی شادی کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا شروع کر دیا تھا
شبینہ کوئی زیادہ خوبصورت نہ تھی سانولا سیلونہ سا رنگ مگر پر کشش نین نقش والی دبلی پتلی لڑکی تھی۔۔۔۔اور اسکے لمبے سلکی بال اسکی عام سی صورت میں چار چاند لگا دیتے تھے وہ ہر ایک سے بے لوث محبت سے پیش آنے والی من کی شفاف اور ہنر مند لڑکی تھی اسکے گھر والے اسکے لئے ویسا ہی لڑکا ڈھونڈ رہے تھے جیسا انکی بیٹی ڈیزرو کرتی تھی اسے پہلے بھی اسکے لئے باہر اور خاندان سے اسکی سلیقہ شعاری دیکھ کر رشتے آچکے تھے مگر ان میں کوئی اسکے جوڑ، میعار کا پڑھا لکھا سلجھا لڑکا نہ تھا اور نہ کوئی اسکے خاندان میں اسکے قابل تھا خاندان میں اسکے لئے جو رشتے آے تھے انہوں نے پان گٹکا کھا کھا کر اپنی شکلیں نکل لیں تھی انسے کوئی اگر کچھ پوچھتا تو پہلےوہ گٹکا سائیڈ پر تھوکتے پھر جواب دیتے” اور خاندان بھر میں لڑکوں نے میںٹرک سے آگے تعلیم حاصل کرنا گناہ سمجھا ہوا تھا۔۔۔۔۔ویسے بھی تعلیم ایک زیور ہے اور شبینہ کے خاندان کے لڑکے زیور بلکل نہیں پہنتے تھے اسکے بابا نے خاندان میں اپنی بیٹیوں کی شادی نہ کرنے کے فیصلے پے مہرلگا دی تھی۔ شبینہ چونکہ ایک شعور رکھنے والی لڑکی تھی تو وہ ایسے ماحول سے بہت دور رہتی تھی اسے خاندان کا کوئی لڑکا ایک آنکھ نا بھاتا تھا اور نہ وہ کسی سے مخاطب ہوتی تھی، نا ہی شبینہ کے دل میں کبھی کسی کے لئے کوئی جذبہ بیدار ہوا تھا وہ اپنے ہی جیسا لڑکا چاہتی تھی خوبصورتی یا گورا رنگ یا ہائی بینک بیلنس اسکی سوچ یا اسکا میعار نہیں تھا پر وہ ایک پڑھا لکھا انسان چاہتی تھی جو اسکو سمجھ سکے۔ اسے زن مرید مرد بلکل پسند نہیں تھے جو اپنی بیوں کی ہاں میں ہاں ملاتے ہو اور خود کوئی فیصلہ نا کر پاتے ہوں۔شوخ چنچل تو وہ خود بھی تھی مگر دوسری طرف وہ سنجیدہ مزاج بھی تھی وہ اپنے لئے ایسا شریک حیات چاہتی تھی جو اس پر حکمرانی کرے اسکی ایک نا سنیں۔۔۔۔اور وہ اسکی کنیز بن کر دل کے قریب رہے شاید وہ پہلی لڑکی تھی جو آزادی نہیں عمر بھر کی قید چاہتی تھی۔۔۔۔
**دو دن کے بعد شبینہ آج آن لائن آئ تھی عرفان میں اسے کوئی دلچسبی نہ ہوئی تھی مگر اسکے بے قراری بھرے میسجیز پڑھ کر وہ اسکی طرف مائل ہوگئی تھی شاید یہ عمر ایسی تھی اور اچھے اچھے لوگ اس عمر میں بہک جاتے ہیں وہ تو پھر ایک نادان سی لڑکی تھی۔۔۔۔۔
عرفان نے اسے بہت سارے محبت کے اقرار بھرے مسیجیز کیے تھے شبینہ نے اس کے مسیج کا جواب دیا تو “عرفان نے اسے دیکھنے کی ضد کی تھی پر شبینہ نے انکار کر دیا تو وہ ناراض ہوگیا کے بھروسہ نہیں تمہیں مجھ پر۔۔۔۔۔۔۔”
شبینہ محبت کی دنیا چاہتی تھی پر اسکی چھٹی حس اسے ایسا کرنے سے روک رہی تھی۔۔۔۔۔
عرفان تھوڑی دیر میں خود ہی مان گیا تھا اور ادھر ادھر کی باتوں میں وہ ایسی باتیں کرنے لگا تھا جو شبینہ کے دل میں جذبہ محبت کے احساس کو لوح دے رہا تھا۔۔۔۔۔۔
“”اسے کچھ ایسا محسوس ہوتا قدرت کی طرف سے جو شبینہ کے دل کو ایک عجیب سا الارم دے رہا تھا شبینہ کی امی نے شبینہ کی تربیت ایسے کی تھی کہ وہ نادان ہونے کے باوجود بھی دنیا کی فطرت ،نگاہ کو سمجھ لیتی تھی
“”مگر حوا ہمیشہ سے نادان رہی ہے””
اس دن عرفان نے کچھ ایسی ہی بات کی تھی جو شبینہ کو صاف دل کی بات کہنے پے مجبور کر گئی تھی۔۔۔۔
عرفان مسلسل اسکی تصویر مانگ رہا تھا۔۔۔۔
شبینہ صرف محبت کی باتیں قسمیں واعدے میسیجیز کی دنیا تک نہیں چاہتی تھی (وہ ایک مضبوط پاکیزہ محبت چاہتی تھی) اور اس دن اسنے عرفان کو کہہ دیا تھا۔۔۔۔۔۔۔
“”آپ اگر مجھسے شادی کرنا چاہتے ہیں تو آپ اپنی اممی کو میرے گھر بھیج سکتے ہیں اگر آپکی اممی مجھے دیکھ کے پسند کر لیں گی تو پھر آپ مجھے دیکھ سکتے ہیں۔۔۔
میں چاہتی ہوں کے آپکی فیملی خود اپنی خوشی سے مجھے اپنی پسند بنا کر لے کر جاے !!!
عرفان نے دل میں بیزاریت سے سوچا۔۔۔۔۔
“مڈل کلاس لڑکی کی مڈل کلاس سوچ”
عرفان کو یہ بات زرا بھی پسند نا آئ تھی اسنے نظر انداز کر کے کہا تھا پہلے مجھے تو دیکھا دو۔۔۔!
*شبینہ نے پلٹ کر اسے پوچھا تھا پر آپ تو کہتے ہیں میں آپکو اچھی لگتی ہوں اور سب سے بڑی بات آپ مجھسے محبت کرتے ہیں۔۔۔۔۔
*عرفان شاید اس بوریت سے تنگ آگیا تھا اسکے لہجے میں اچانک زہر بھر آیا۔۔۔۔
“شبینہ نا تو اسے اپنی تصویر بھیج رہی تھی نا اسکے ساتھ مسیج پے رومینٹک ہوتی تھی جیسی محبت اور جنسی تسکین وہ شبینہ سے چاہتا تھا شبینہ وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی وہ تو بس چاہتی تھی ایک پاکیزہ رشتہ اور عزت سے گھر بسانا”
“”عرفان نے آج کھل کر بات کر لی تھی وہ اسکے ٹائپ کی بلکل نہیں تھی وہ اس قصے کو ختم کر رہا تھا یا وہ جس تعلق کا خواھش مند تھا اسے صاف لفظوں میں سمجھا رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*دیکھو شبینہ میرے گھر والے خاندان سے باہر شادی کبھی نہیں کرے گے میں انھیں نہیں کہہ سکتا یہ سب میں مجبور ہوں۔۔۔۔۔۔۔مگر مجھے تم بہت اچھی لگتی ہو میں تمہیں چاہتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔
“شبینہ کا دل ایک جھٹکے میں ٹوٹا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ ایک دم خاموش ہوگئی تھی”
عرفان کا پھر مسیج آیا تھا”I LOVE U”
شبینہ سمجھ چکی تھی کہ وہ غلط راہ پر بھٹک گئی ہے اسے تکلیف تو بہت ہوئی تھی پر اسنے اللّه کا شکر ادا کیا کہ عرفان پراعتماد نا کیا تھا
اسنے غصے میں عرفان کو آخری جواب لکھا۔۔۔۔
“”عرفان میں بہت اچھی لڑکی تھی مگر تمہارے میعار کی نہیں۔”
کیونکہ میں کوئی کھلونا نہیں جس سے تم محبت کے نام پر اپنا دل بہلا سکو۔۔۔
“تمہاری فیملی خاندان سے باہر شادی کرنے کی اجازت نہیں دیتی پر کیا محبت کرنے کی جذبات سے کھیلنے کی دیتی ہے۔۔!
تم مجھسے شادی اسلئے نہیں کر سکتے کے تم مجبور ہو۔۔۔۔
“””پر مرد کبھی مجبور نہیں ہوتا اور محبت کے معملے میں کبھی نہیں۔۔۔۔کیونکہ جو واقعی مرد ہوتا ہے اسکی غیرت کبھی یہ اجازت نہیں دیتی کے وہ اپنی محبت کو دوسرے مرد کے لئے چھوڑ دے (اگر واقعی محبت ہو )””
ہاں مرد کو شادی سے پہلے اپنی راحت کے لئے محبت کے نام پر لڑکی کی خواھش ہوتی جو اسے محبت کی باتیں کرے پر شادی کے لئے وہ ایسی لڑکی چاہتا ہے
“جسے نا کبھی کسی نے دیکھا اور نا چھوا ہو۔۔۔۔۔۔اور ایسی لڑکی جو محبت کی پیاس میں خوابوں کی راہ پر چلتی چلتی کنویں کے قریب چلی جاۓ تو تم مرد اسے وہی دھکا دے کر نکل جاتے ہو ایک نئی جنت کی حور کی تلاش میں” وہ لڑکی جس سے محبت ہوجاۓ پھر کیوں وہ اس قابل نہیں ہوتی کے اسکو اپنے گھر کی عزت بنایا جاۓ۔۔۔۔۔۔۔؟
آج کے بعد میرا نام تک اپنی ذبان پر مت لانا محبت کچھ نہیں ہوتی عزت اور ضمیر ہوتا ہے سب کچھ جو میں تمہیں کبھی نہیں دے سکتی۔۔۔۔۔۔۔۔اور ہاں پاکیزہ کی خواھش جو کرنا کبھی تو خود کو بھی پاک رکھنا””
الودع!!!!!!!
وہ اکاونٹ ڈی ایکٹیویٹ کر کے جا کر بستر پر گر کر روتی رہی تھی۔۔۔۔۔
وہ فیصلہ کر چکی تھی کے پلٹ کے اسے اب کبھی کسی پر یقین نہیں کرنا اسے نفرت سی ہوگئی تھی ہر مرد سے۔۔۔۔۔!!
اسکی عادت تھی رو پیٹ کر وہ پھر سے خود کو ریپئر کر لیتی تھی
وہ نارمل ہوگئی تھی۔۔۔۔۔ گھر والوں کے سامنے اسے خود کو نارمل رکھنا تھا پر ہمیشہ کے لئے وہ مرد ذات پر اعتماد کھو چکی تھی۔۔۔۔۔۔۔!!
ایک ہفتے بعد۔۔۔۔
*اس نے بہت دنوں سے سر میں آئل نہیں لگایا تھا امی نے آج چار باتیں سنا کر اسکے سر میں دل کھول کر تیل ڈالا تھا اور آئل مساج کے ساتھ ہی بالوں کو لے کرکافی باتیں بھی سنا رہی تھی۔۔۔۔۔یہ بال ہیں سوکھ کے گھاس ہورے ہیں آگ لگے اسے فیشن کو بال لئے اور جوڑا لپیٹ کے کچر لگا لیا “تیل ڈالو کس کے چٹیا باندھو پھر دیکھو یہی بال کیسے ریشم جیسے ہوتے ہیں” بالوں کو باندھ کے رکھا کرو دونو ٹائم مل رہے ہوتے ہیں بال کھولے پھرتی رہتی ہو کسی دن آگئیں نا لپیٹ میں زندگی برباد ہوجاتی ہے۔۔!!
کیسی لپیٹ میں؟
شبینہ نے حیرانی سے امی سے سوال کیا تھا۔۔۔۔!!!
ہوا کی لپیٹ میں۔۔۔۔”””
،،امی نےاسے ڈرا کر سمجھانا چاہا،،
*لڑکیوں کی آنکھوں اور بالوں پے “جن”عاشق ہوجاتے ہیں اس عمر میں لڑکیاں پھول کی طرح مہکتی ہے اس لئے کبھی بھی رات یا مغرب کے وقت بال نہیں کھولنا چاہیے۔۔ !!
شبینہ کی سوئی اٹک گئی تھی
اممی جن عاشق ہوجاتے ہیں تو کیا ہوتا ہے۔۔۔۔مر جاتے ہیں۔۔۔؟؟
(لے جاتے ہیں اپنے ساتھ)”
* “امی نے پھر اسے ٹوکا تھا”ایسی باتیں نہیں کرنا چاہیے کسکا کب کہاں سے گزر ہورہا ہے اپنا ذکر سن کر قریب آجاتے ہیں۔۔۔۔!!!
وہ سچ میں ڈر کر پیچھے ہوگئی تھی امی ہنس دیں تھی اور ساتھ کھیچ کر ایک لمبی سی چھوٹی باندھ کر پونی لگا دی تھی۔۔۔۔۔!!
“””وہ دل میں سوچ رہی تھی “جن” بھی کتنے اچھے ہوتے ہیں اپنے محبوب کو اپنے ساتھ لے جاتے ہیں اپنی دنیا میں پر ہم لوگوں میں کتنا (بھائی چاره ) ہے اپنی محبوبہ کو دوسرے بھائی کے لئے چھوڑ دیتے ہیں اور دوسرے بھائی کی محبوبہ کو اپنی بیوی بنا کر اچھے بیٹے ہونے کا ثبوت دے دیتے ہیں۔۔۔!!!!
* شام چار بجے باجی کا فون آیا تھا انھوں نےچھے بجے مہمانوں کی آمد کی اطلاح دی اور اچھا سا تیار ہونے کا بولا تھا۔۔۔۔۔
آج اسکے رشتے کے لئےوہی لوگ آرہے تھےجنکا ذکر شبینہ کی بڑی بہن نے کیا تھا۔
امی نے کمرے میں آکر اسے کوئی اچھا سا جوڑا پہنے کو کہا تو وہ سمجھ گئی تھی پر اس سے پہلے وہ کوئی سوال کرتی ،اسے امی نے خود بتا دیا تھا کے بڑی بہن کے ساتھ کچھ مہمان آرہے ہیں گھر کی صفائی اور خود کا حلیہ درست کر لو۔۔۔۔!!
ایسا پہلی بار نہیں ہوا تھا۔۔۔۔۔
اسے پہلے بھی وہ ان مراحل سے گزر چکی تھی پر اسکے لئے اس جیسا لڑکا ہی نہیں مل رہا تھا۔۔۔۔۔
وہ خاموشی سے اٹھ کر گھر کی صفائی میں لگ گئی تھی کہ اسے وقت گزرنے کا اندازه بھی نا ہوا۔امی کی آواز پراس نے گھڑی کی طرف دیکھا تو چھے بج چکے تھے۔۔۔۔
وہ کام ختم کر کے تیار ہونےچلی گئی اور شاور لے کے باہر نکلی ہی تھی کے دروازے پے دستک ہوئی بھابھی نے اسے مہمانوں کے آنے کا اشارہ دیا تو وہ تیزی سے اپنے کمرے میں بھاگ گئی جلدی جلدی گیلے بالوں کو سلجھاتی ہوئی ایک خوبصورت بندھن میں بندھنے کا احساس اسکے وجود کو ایک نیچرل گلو دے رہا تھا
“اسکی بڑی بہن بھی مہمانوں کے ساتھ آئ تھی تو وہ اسکے کمرے میں اسکی تیاری میں مدد کے لئے آگئی تھیں۔اسنے جلدی جلدی چہرے پے فیئر اینڈ لولی لگائی اور بالوں کو سنوار کر کھلے چھوڑدیا اور بالوں میں چھوٹا سا کیچر لگا لیا۔
باجی کے کہنے پے اسنے لائٹ سی لپسٹک اپنے ہونٹوں پے لگای تو وہ سادگی میں بھی بہت پیاری لگ رہی تھی باجی نے اسے “اوکے” ہونے کا اشارہ دیا اور کہا کہ دوپٹہ سر پے لے کر آنا۔۔۔
شبینہ کی بہن پھر سے مہمانوں کے پاس جا کے بیٹھ گئیں تھی اور شبینہ بھی کچن میں جا کر بھابھی کے ساتھ مہمانوں کے لئے ناشتے کی تیاری میں لگ گئی۔۔۔۔
تھوڑی دیر میں اندر سے اسکا بلاوا آگیا یہ لمحہ کسی بھی لڑکی کے لئے بہت عجیب سا احساس ہوتا ہے وہ بھی بہت نروس تھی جب کے یہ کوئی پہلی بار نا تھا مگر ہر بار نیو مہمان وہ لاکھ نارمل رہنا چاہتی پر اسے لمحات میں وہ بہت گھبراجاتی تھی وہ جانتی تھی کے ماں باپ اچھا ہی چاہتے ہیں اور ویسے بھی وہ اب سب کچھ اپنے گھر والوں کے حوالے کر چکی تھی وہ جو بھی فیصلہ کرتے اسسے قبول ہوتا۔۔۔۔۔۔!!!
سر پے دوپٹہ لئے وہ کمرے میں داخل ہوئی تھی امی باجی اور انکی سہیلی کے علاوہ کمرے میں دو خاتون اور موجود تھیں۔۔۔۔۔!!
شبینہ نے سلام کر کے باری باری ہاتھ ملایا تو دوسری خاتون جو شاید لڑکے کی ممانی تھی شبینہ کا ہاتھ شیک کر کے چھوڑنے کے بجاے بکل اپنے پاس ہی بیٹھا لیا تھا وہ اسکے چہرے کا بہت قریب سے دیدار فرمارہی تھی شبینہ کو اس بات کا اندازہ تھا کے فرنٹ کمرے میں قریب ہونےکی وجہ سے منہ کتنا بڑا آتا ہے
پر وہ بے بس تھی صرف یہی نہیں۔۔۔دوسرے سائیڈ پے بیٹھی ہوئی لڑکے کی والدہ بھی اسے اپنی نگاہوں سے جج کر رہی تھیں
انکی نگاہیں چہرے کے علاوہ ہاتھ پاؤں ناک کان بال سب کا جائزہ لے رہی تھیں۔۔۔۔!!
باجی کی سہیلی جو یہ رشتہ لائی تھی۔۔۔انھوں نے بہت پیار سے اسسے پوچھا تھا اور آج کل کیا کر رہی ہو۔۔۔؟ شبینہ نے آہستہ سے کہا !
“”کچھ خاص نہیں بس گھر کے کام۔۔۔۔۔”اتنا کہہ کے وہ چپ ہوگئی تھی
دوسری خاتون نے پڑھائی کا پوچھا تھا کہاں تک پڑھی ہو؟
“میں نے بی اے کیا ہے”
اچھا اچھا۔۔۔۔۔
اب لڑکے کی امی کی باری تھی
ماشاءاللّه آپکا نام تو بہت پیارا ہے کیا مطلب ہے آپکے نام کا؟؟
“شبینہ نے امی کی طرف دیکھا تھا تو امی نے اسکی مدد کرنا چاہی اور خود ہی بتانے لگیں۔۔۔۔۔
یہ ستائیسویں رمضان کی طاق رات میں پیدا ہوئی تھی جاگنے کی عبادت کی رات ہوتی ہے تو مسجدوں میں شبینہ(ختم قرآن) پڑھی جاتی ہے بس جب یہ پیدا ہوئی تو ہوسپٹل کے سامنے مسجد سے شبینہ پڑھنے کی آواز آرہی تھی تو ان کی دادی نے انکا نام شبینہ رکھ دیا۔۔۔۔
شبینہ کو امی کا تفصیلی جواب اپنے بارے میں سن کر اچھا لگا تھا
لڑکے کی ممانی اور لڑکے کی والدہ اب مطمئن ہوگئی تھیں اور کہا کہ!
“ماشاءاللّه” بہت پیارا نام ہے میری دور کی رشتے داروں میں بھی ایک شبینہ ہیں ماشاءاللّه بہت اچھا نصیب ہے انکابھی اتنی بار حج عمرہ کر چکی ہیں “اللّه تمہارا نصیب بھی اچھا کرے”
(شبینہ کو اچھا لگا وہ مسکرا دی)
خواتین آپس میں لڑکے کی بات کرنا شروع ہوگئی تو وہ وہاں سے اٹھ کے آگئی تھی!
رشتے کے لیےآئ ہوئیں لیڈیز اچھی فمیلی کی لگ رہی تھی اور لڑکے کی تعلیم اور کام بھی بہت اچھا تھا۔۔۔۔۔
مہمانوں کے جانے کے بعد وہ کپڑے بدل کر اپنے کمرے میں آرام کرنے لگی تھی۔۔۔۔۔!!
*دوسرے دن باجی کی سہیلی کا فون باجی کے پاس آگیا انھوں نے بتایا کے شبینہ ان کو بہت پسند ائی ہے کہہ رہی تھی ہم اپنے بیٹے کے لئے ایسی ہی تو نازک سی لڑکی ڈھونڈ رہے تھے آپ لوگ جمعہ کے دن لڑکا دیکھنے آجائیں۔۔۔۔۔!
*گھر والوں کو لڑکا کافی اچھا تھا سب کو بہت پسند آیا پر جب شبینہ کے والد اور بھائی نے لڑکے کی معلومات کرنا چاہی تو معلوم ہوا لڑکا سیاسی تنظیم میں ہے اسکے بابا جان نے فورا انکار کر وا دیا۔تنظیم میں ہونے والے لڑکے اسکے بابا کے لیے اچھے لڑکے نہیں تھے وہ چاہتے تھے کے انکی بیٹی ہمیشہ خوش و سہاگن رہے اور جہاں وہ رہتی تھی وہاں تنظیم،پارٹی کے لڑکوں کو معمولی سی دشمنی پے گولیوں سے چھلنی کر دیا جاتا تھا اسکے محلے کے دو لڑکوں کو بھی سر پے گولیاں مار کر ہلاک کیا جا چکا تھا *لڑکے کے پاس اچھی صورت اچھی فیملی تعلیم،جاب۔۔۔۔۔سب تو تھا پر شبینہ کے بابا بیٹی کی آنے والی زندگی کے لیے کوئی خطرہ مول لینا نہیں چاہتے تھے
“شبینہ کا دل بجھ سا گیا تھا وہ دل میں سوچ رہی تھی آخر کیا مسلہ ہے میرے ساتھ۔۔۔۔۔!!
اسکے ساتھ کی سہیلیوں اور کزنز کی شادیاں منگنیاں رسمیں ہورہی تھیں پر اسکے ساتھ ہر بار ہی ایسا ہورہا تھا۔۔۔۔۔!!
کچھ دن بعد وہ پھر اس ہی طرح نئی خواتین کے سامنے بیٹھی تھی اس بار خواتین میں اول درجے کی جہالت جھلک رہی تھی۔۔۔۔
شبینہ ایک بے زبان جانور کی طرح ایک مشرقی لڑکی ہونے کا فرض نبھا رہی تھی پر خواتین اسکی موجودگی میں جیسی باتیں کر رہیں تھی اسے بلکل اچھی نہیں لگ رہی تھی اور خواتین اسکی امی سے مخاطب ہو کر کہہ رہی تھی “میرا بیٹا تو ہیرا ہے ہیرا”
بڑا فرما بردار ہے بس کہتا ہے لڑکی کو ایک بار دیکھوں گا
شبینہ کی امی نے وہی خلاصہ کر دیا تھا کے انکے ابو اس بات کی اجازت نہیں دیں گے اسے پہلے بھی بڑی بیٹیوں کی شادی کی ہے صرف گھر کی خواتین نے دیکھا تھا لڑکا لڑکی نے شادی کے بعد دیکھا پر اب زمانہ اور ہے آپ تصویر دیکھا دیجئے گا
“پاس بیٹھی لڑکے کی کنواری بہن نے مذید اپنی ماں کا ساتھ دیا بھائی تو کہتے ہیں لڑکی جیسی بھی ہو پر رنگ گورا ہونا چاہیے”
شبینہ کو اپنے سانولے رنگ کا احساس شدت سے ہوا تھا۔۔۔۔
اسنے اس لڑکی کو نگاہ اٹھا کر دیکھا۔۔۔۔۔سانولا رنگ پکّا سا چہرہ لمبی چوڑی اٹھان۔۔۔۔۔اسکے آگے تو شبینہ دبلی پتلی لمبے بالوں والی گڑیا لگ رہی تھی۔۔۔۔!
تھوڑی دیر میں لڑکے کی ماں خود ہی بول پڑی آپکی بیٹی کا رنگ سانولا ہے پر کشش بہت ہے۔۔۔۔۔۔
(تعریف کرنے سے پہلے اسکی خامی بتائی گئی تھی)
میرا بیٹا بہت اچھا ہے ورنہ آج کل کی لڑکیاں تو ایسی ہیں پنھسا لیتی ہیں لڑکوں کو اپنے قابو میں کر لیتی ہیں آج کل کے لڑکےدیکھو نا ماں باپ سے کیسے باغی ہورہے ہیں جب سارا سارا دن ساری ساری رات مسیج پے لگی رہیں گی پیار محبت کی باتیں کرے گی تو کیوں نہیں لڑکے بگڑے گے اور ایسی لڑکیاں گھر بسانے کے بعد بھی بھرے گھر سے لڑکے کے کان بھر بھر کر لے کر الگ ہوجاتی ہیں
“شبینہ کا دل چاہا اٹھ کر چلی جاۓ پر اچانک اٹھ کے لڑکی کا جانا مطلب ماں کی تربیت پے حرف آنا تھا”
(لڑکی میں زارا برداشت نہ تھی)
*جاتے ھوۓ وہ لڑکا دیکھنے آنے کا کہہ گئی تھی وہ لوگ امی کو بھی زرا پسند نا آے پر بھابھی نے کہا کے اسکی امی اتنی پڑھی لکھی نہیں ہونگی مگر ہوسکتا ہے لڑکا اچھا ہو ایک بار دیکھ لیتے ہیں۔۔۔۔۔(بن دیکھے رشتے نہیں ٹھکرانا چاہیے)
*شبینہ کے گھر والے پھر سے لڑکا دیکھنے گئے تھے وہ اکیلی گھر میں بیٹھی سوچ رہی تھی کے “اللّه” وہ کون ہے!!!”اسے بھیج دے اب” میں کب تک اس طرح لوگوں کے سامنے جاتی رہوں گی۔۔۔۔۔!!
شبینہ کے گھر والے لوٹ کر آے تو سب خاموش تھے اسکی بھابھی نے اشارے سے اسے بتایا تھا کے “”لڑکا نہیں سمجھ آیا۔۔۔۔””
رات بھابھی اسے اکیلے میں بتا رہی تھیں کے لڑکا کہیں سے بھی تمہارے جوڑ کا نہیں تھاعمر میں بھی بہت بڑا رنگ بھی اتنا ڈارک تھا مجھے تو دیکھ کے اسکی بات پے اتنا غصہ آیا کے لڑکی گوری چاہیے بھابھی نے منہ بنا کر کہا تو وہ مسکرا دی تھی پر اندر ہی اندر وہ کمزور ہورہی تھی کے آخر کب تک وہ یہ سب برداشت کرے گی کب اسکی زندگی میں خوشی کا لمحات آئیں گے
یہ حالات اسکی زندگی کا حصہ بن گئے تھےجب کہیں وہ اپنی کزن سے ملتی تو سب اسسے یہی سوال کرتیں کے ” تمہاری شادی کب ہورہی ہے” لوگوں کی نظریں سوال کرنے لگی تھی کے بولنے والے منہ پے بولنے لگے تھے کےوہ عجیب سی محرومی کا شکار ہوتی جا رہی تھی وہ تھک گئی تھی لوگوں کے سامنے پیش ہوتے ہوتے اور ایک دن وہ تنہائی میں رو پڑی تھی اللّه کے سامنے۔۔۔۔!!!
کچھ مہینوں بعد وہ امی کے سامنے نئی ضد لے کر کھڑی تھی مجھے کمپوٹر ڈپلومہ کرنا ہے !
امی نے اسکی بات خاطر میں نا لائی تھی اور وہ ضد کیے جا رہی تھی
امی نے تنگ آ کر پوچھا تھا
کیا کروگی سیکھ کر نوکری کرو گی؟
ہاں تو اس میں کیا برائی ہے
اسنے بھی ایڑی چوٹی کا زور لگایاتھا
امی نے جان چھڑانے کے لیے غصے میں کہا کہ جاؤ اپنے باپ بھائی سے پوچھ لو جا کر پھر چلی جانا۔۔۔
اس میں اتنی ہمت نہیں تھی جو وہ اپنے بھائی یا بابا سے مذید پڑھنے اور جاب کا کہتی اسکے گھر والوں نے اسکے ذھن میں ایک ہی بات بیٹھا دی تھی کہ تمہیں بڑے ہو کر بس شادی کرنی ہے گھر سمبھالنا ہے اور یہی ایک لڑکی کی حقیقی زندگی ہے مگر اسنے کب کسی قسم کی بغاوت کی تھی وہ تو خود ہی گھر کو جنت بنانے اور شوہر کے ساتھ محبت سے رہنے کے خواب دیکھ رہی تھی! “بیٹیاں بہت اچھی ہوتی ہیں پر انکے نصیب سے ڈر لگتا ہے اور عورت کا نصیب اسکی زندگی میں آنے والے مرد پر ڈیپینڈ کرتا ہے۔۔۔۔!!!
*وہ دو دن بعد پھر سے امی سے ضد کرنے لگی تھی کہ مجھے کچھ کرنے دیں پر امی بھی کیا کرتیں گھر میں صرف شبینہ کے بابا کا حکم چلتا تھا اور شبینہ کی امی اپنی بیٹی کہ ہر جذبات کو سمجھتی تھیں اس لیے انھوں اس بار اسے بہت پیار سے سمجھایا تھا کے “”بیٹا اتنا پڑھ لیا بہت ہے تمہارے ابو آج کل کے ماحول سے بہت ڈرتے ہیں اور کوئی بھائی ایسا نہیں کے تمہیں لانے لےجانے کے لیے گھر میں موجود ہو صبح کے گئے سب رات کو آتے ہیں۔۔۔””اور اللّه کا شکر کرو تمہیں کسی قسم کی ضرورت نہیں ہے کے eتم باہر نکل کر نوکری کرو،باہر نکلنے والی لڑکیوں کو لوگ اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے رشتوں میں مشکل ہوتی ہے کہ نہیں بھئ باہر نکلنے والی لڑکی ہے بہت تیز ہوگی!
شبینہ کو یہ سن کر اور بھی غصہ آیا تھا اور اسنے تلخ لہجے میں کہا!!!
امی لوگوں کو گھر میں رہنے والی لڑکیاں بھی اچھی نہیں لگتی اگر وہ خوبصورت نا ہوں “” “اسکی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے
آپ لوگوں کی پرواہ کریں گی تو اپنی بیٹی کھو دیں گی ایک دن”
“”آنسوں اسکے چہرے کو تر کر گئے تھے۔۔۔۔۔ “وہی لڑکی خراب نہیں ہوسکتی جو باہر نکلتی ہو اکثر گھروں میں قید لڑکیاں بھی اپنے ناخنوں سے دیوارو ں میں سوراخ کر کے اڑھ جاتی ہیں””
وہ بہت تلخ لہجےمیں آج زہر اگل گئی تھی۔۔۔۔۔۔اور جا کر کمرے میں خود کو لاک کر لیا۔۔۔۔
شبینہ کی امی اسے حیرت سے دیکھتی رہیں۔۔۔۔۔
آج وہ بہت بڑی بات کہہ گئی تھی ہنستی مسکراتی بیٹی کے اندر کب اتنا زہر بھر دیا تھا حالات نے وہ پریشان ہوگئی تھیں۔۔۔۔