رام پرکاش سکسینہ
رام پر کاش سکسینہ ۳۰؍ جنوری ۱۹۴۱ کو قصبہ ککرالہ ضلع بدایوں (اتر پر دیش)میں پیدا ہوئے۔ ایم اے انگریزی، ہندی اور لسانیات کے علاوہ ایل ایل بی، ڈاکٹریٹ اور ڈی لٹ کی اعلیٰ اسناد حاصل کیں۔ ناگپور یونیورسٹی میں ڈین فیکلٹی اور دیگر اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔ ہندی میں ان کی کئی کتابیں شائع ہوئیں۔
اردو میں ان کے ۲۶ مزاحیہ مضامین کا مجموعہ ’’جمانے کا زمانہ‘‘ (۲۰۰۲) میں ناگپور سے شائع ہوا۔ اپنی کتاب کے پیش لفظ میں انھوں نے لکھا ہے میری ابتدائی تعلیم اردو میں ہوئی۔ مجھے اپنے والد سے اردو زبان وراثت میں ملی۔ رام پر کاش سکسینہ کے مزاحیہ مضامین زندگی کے خوشگوار اور ناگوار لمحات کو اپنے مخصوص اسلوب سے ظریفانہ رنگ عطا کرتے ہیں۔
تلاش ایک استاد کی
ڈاکٹر رام پرکاش سکسینہ
بچپن میں مجھے سب سے زیادہ میرے چچا جان اچھے لگتے تھے۔ چچا جان اپنے قصبے کے سب سے بڑے شاعر تھے۔ لوگ بتاتے ہیں کہ ہمارے قصبے کا یہ حال تھا کہ لوگ غالبؔ اور اقبالؔ کو بھی ہمارے چچا کا شاگرد مانتے تھے۔۔ چونکہ چچا زمیندار تھے اس لیے ان کے لیے کوئی کام کرنے کا سوال ہی نہ اٹھتا تھا۔ ان کے دو ہی کام تھے۔ ایک حقہ پینا اور دوسرا شاعری کرنا۔ وہ شام کو اپنے چاہنے والوں میں گھرے رہتے۔
چچا جان کی چلم میں گھر کے چولہے سے آگ ڈالنے کا کام میرا ہی تھا۔ اس لیے چچا جان کا میں بہت پیارا تھا۔ ان کی خواہش تھی کہ میں بڑا ہو کر شاعر بنوں، لیکن ابا حضور کو یہ شوق پسند نہیں تھا۔ وہ ہمیشہ شاعر اور شاعری سے دور رہنے کی صلاح دیتے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب شیطان کسی پر حاوی ہو جاتا ہے تو وہ شاعری کرنے لگتا ہے۔
چچا جان کا تخلص درد تھا اور وہ ترنم میں شعر پڑھا کرتے تھے۔ میں ان کو توجہ سے سنتا اور خود بھی تک بندی کر تا۔ چچا جان ہمیشہ حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہتے ’’بیٹے، تم خاندان کا نام روشن کرو گے، تم ہندوستان کے بہت بڑے شاعر بنو گے۔‘‘
اچانک دل کا دورہ پڑنے سے چچا جان کا انتقال ہو گیا اور میری شاعری بھی ان کے ساتھ قبر میں دفن ہو گئی۔ میں بڑا ہوا۔ پڑھ لکھ کر نوکری کر لی۔ شادی بھی ہو گئی اور ایک بچہ بھی۔ اب ایک بار پھر شاعری کرنے کا شوق چرایا۔ جب اپنا کلام بیگم کو سنایا تو انھوں نے پہلے تو دھمکی بھرے لہجے میں کہا: ’ اگر میرے والد کو پہلے معلوم ہوتا کہ آپ کو شاعری کی بری عادت ہے تو وہ کبھی میری شادی آپ کے ساتھ نہ کرتے۔ خیر اب میں طلاق تو دینے سے رہی۔ ایک شرط ہے کہ آپ گھر میں کسی کو اپنا کلام نہیں سنائیں گے کیونکہ اب اپنا بِلو بھی تو بڑا ہونے لگا ہے۔‘‘
میں نے ان کی شرط مان لی تو انھوں نے ایک اور نیک صلاح دے ڈالی: ’’پہلے آپ اصلاح کے لیے ایک استاد تلاش کیجئے۔‘‘
جب میں نے استاد کی تلاش شروع کی تو معلوم ہوا کہ یہ کتنا مشکل کام ہے۔ ہمارے قصبے میں پانچ سو گھر ہیں اور ہر گھر میں کم از کم ایک شاعر ضرور ہے۔ اس طرح اوسطاً پانچ سو شاعر ہوئے۔ پھر شاعروں کے چار گروپ ہیں اور ہر ایک گروپ کا شاعر دوسرے گروپ کے شاعر کو شاعر ہی نہیں مانتا۔ ہمارے قصبے میں دو تین شاعر ایسے بھی ہیں جن کی کوئی نظم یا غزل کبھی کبھی کسی اخبار یا رسالے میں شائع ہو جاتی ہے۔ ان میں ایک ہیں نور صاحب۔ سب سے پہلے میں نور صاحب کے دولت کدے پر پہنچا۔ جب میں نے ان سے اصلاح کے لیے گذارش کی تو فرمانے لگے ’’بر خور دار استاد بنانا کوئی ہنسی کھیل تو نہیں ہے۔ استاد کی خدمت کرنی پڑتی ہے۔ میں نے کہا: ’’میں تیار ہوں۔‘‘
’’کیا تیار ہیں! معلوم ہے میں نے تین سال بغیر کچھ کہے اپنے استاد کا حقہ بھرا تھا، تب انھوں نے ایک دن ترس کھا کر میری ایک نظم سنی اور اس میں کچھ ترمیم کی۔‘‘
میں نے عرض کیا: ’’حضور! اگر آپ کی شاگردی اختیار کر لوں تو مجھے کتنے سالوں میں یہ موقع ملے گا۔؟‘‘
اس پر وہ غصہ ہو گئے اور ڈانٹتے ہوئے کہنے لگے: مذاق کرتا ہے، زبان لڑاتا ہے۔‘‘
وہاں سے آنے کے بعد استاد کی تلاش کچھ دنوں کے لیے ملتوی کر دی۔
ایک دن ایک اچھی نظم لکھی تو سیدھے ایک رسالے کے ایڈیٹر کے پاس گیا اور ان سے درخواست کی کہ وہ میری نظم کو شائع کر دیں۔ انھوں نے سوال کیا ’ آپ کا استاد کون ہے؟‘‘ جواب نہ پا کر انھوں نے یہ کہہ کر بھگا دیا ’ کہیں بنا استاد شاعری آتی ہے۔‘‘
مجبوراً استاد کی تلاش پھر جاری کر دی۔ ایک دوست کے معرفت ایک شاعرہ کے پاس گیا تو انھوں نے خوشی خوشی اپنا شاگرد بنا لیا۔ جیسے ہی صلاح کے لیے میرا ان کے گھر آنا جانا شروع ہوا تو ایک دن انھوں نے کہا۔ ’’معاف کرنا۔ آپ برا نہ مانیں۔ آپ کا آنا میرے خاوند کو پسند نہیں ہے۔‘‘
چند ہفتوں کے بعد ایک مشاعرے میں ایک شاعرہ سے ملاقات ہو گئی۔ وہ کنواری تھی۔ انھوں نے بھی مجھے اپنی شاگردی میں لینا منظور کر لیا۔ اصلاح کے لیے میں نے ان کے گھر جانا شروع ہی کیا تھا کہ میری بیگم کو خبر لگ گئی۔ انھوں نے گھر میں ہائے توبہ مچا دی۔ اور زور زور سے محلے کو سنا کر کہنے لگی: ’’میرے والد ٹھیک ہی کہتے تھے کہ یہ شاعر ہوتے ہی بد چلن ہیں۔ شراب اور شباب ہی انھیں بھاتا ہے۔‘‘
میں نے کہا: ’ میں تو شراب چھوتا بھی نہیں۔‘‘
’’اسی لیے شباب کی طرف زیادہ بھاگ رہے ہیں۔ خیر آپ کو بد چلنی ہی کرنی ہے تو میں میکے چلی جاتی ہوں۔ آپ شاعری بھی کرنا اور اپنے لڑ کے کو بھی پالنا۔‘‘
اس دھمکی کا مجھ پر اثر ہوا اور میں نے محترمہ کے ہاں جانا چھوڑ دیا۔
ایک دن میرے دوست قمر میاں مجھے پروفیسر حسین صاحب کے گھر لے گئے۔ پروفیسر صاحب نے میرا رونا سنا تو موم کی طرح پگھل گئے، بولے: ’ ’کوئی بات نہیں ہے، مجھے بھی ایک شاگرد کی تلاش ہے۔ پچھلے ہفتے میں نے اپنے شاگرد کو اسلامیہ انٹر کالج میں اردو کا مدرس بنوا دیا ہے۔ کچھ دنوں آپ ہماری خدمت کیجئے۔ آپ کو بھی کہیں پروفیسر بنوا دیں گے۔‘‘
میں نے عرض کیا: ’’سر، میں تو اردو میں ایم اے نہیں ہوں۔‘‘
’’تو کیا ہوا۔ ہم آپ کو ایم اے بھی کر وا دیں گے اور پی ایچ ڈی بھی۔‘‘
’’سر یہ تو پانچ سالہ پلان ہے۔‘‘
’’تو کیا ہوا، ہماری سر کار کتنے پانچ سالہ پلان بناتی ہے، تبھی اپنا ملک ترقی کر پا یا ہے۔‘‘
میں نے پوچھا: ’’سر مجھے کرنا کیا ہے؟‘‘
انھوں نے بے تکلفی سے کہا: مجھے ڈاکٹر نے تازہ پالک کھانے کی صلاح دی ہے۔ آپ کا کام یہ ہو گا کہ کھیت سے روز ایک کلو تازہ پالک لا کر دیا کریں۔ باقی آپ اپنا کام کیجیے۔‘‘
پروفیسر صاحب کو تازہ پالک کھلاتے ایک سال ہو گیا ہے۔ ابھی تک اصلاح کے لئے انھیں وقت نہیں ملا۔ روز صبح اٹھ کر خدا سے دعا مانگتا ہوں کہ آج تو ان کی نظر عنایت ہو جائے۔
(جمانے کا زمانہ۔ ۲۰۰۲)