روحاب بیٹا ہمیں تم سے کچھ بات کرنی ہے یہاں بیٹھو۔
بڑے پاپا اور بڑی ماما نے روحاب کو اپنے کمرے میں بلایا اور بیٹھنے کا کہا۔
جی پاپا کوئی خاص بات ہے۔ہاں بیٹا بات تو خاص ہی ہے۔
ہم اصل میں تمہاری شادی کے بارے میں سوچ رہے تھے۔
بہت منع کر لیا تم نے مگر اب نہیں بہت دیر کر لی تم نے مگر اب ہم تمہاری شادی کا فیصلہ کر چکے ہیں۔
مگر پاپا اتنی جلدی کیا ہے۔
روحاب کو کوئی اور بہانہ نا سوجھا تو جلدی کا بہانہ کیا۔
کیا ہوگیا ہے روحاب کس جلدی کی بات کر رہے ہو تم ستائیسویں میں لگ لگنے والے ہو تم اور ابھی بھی تم کہہ رہے ہو کہ ہم جلدی کر رہے ہیں۔اب کی بار شہلا بیگم بولیں۔
تمہاری ماما بلکل ٹھیک کہہ رہی ہیں اب بتاؤ کیا کہتے ہو تم۔
ٹھیک ہے پاپا اگر آپ لوگ پکا ارادہ کر ہی چکے ہیں تو میں انکار نہیں کروں گا روحاب نے ان کے فیصلے پر سر جھکا دیا۔
یہ ہوئی نا بات اب بتاؤ کے کوئی لڑکی تو پسند نہیں تمہیں رفیق صاحب نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
آپ بھی کیسی بات کر رہے ہیں پاپا اگر پسند ہوتی تو اب تک منع کیوں کرتا۔
یعنی یہ تو اور بھی اچھی بات ہوگئی کہ اب تمہیں ہماری پسند کی لڑکی پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔رفیق صاحب کی بات پر روحاب نے چونک کر سر اٹھایا۔
کیا مطلب آپ نے کوئی لڑکی ڈھونڈ کر رکھی ہے یا ڈھونڈنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
ڈھونڈنے کی ضرورت ہی کیا ہے روحاب بیٹا اپنی سجل ہے تو سہی گھر کی بچی ہے اپنے ہاتھوں میں پلی بڑھی ہے پھر بھلا باہر جانے کی کیا ضرورت ہے۔شہلا بیگم سجل کی بات کرتی ہوئیں محبت سے بولیں۔
جبکہ سجل کے نام پر روحاب انہیں حیرت سے دیکھنے لگ گیا۔
کیا ہوا روحاب تمہیں سجل سے شادی پر کوئی اعتراض ہے دیکھا جاۓ تو کوئی کمی نہیں ہے اس میں ہاں بس تھوڑی سی لاپرواہ ہے۔
نہیں ماما ایسی بات نہیں بس میں نے اسکو کبھی اس نظر سے نہیں دیکھا۔
یہ تو ہمیں بھی معلوم ہے روحاب بیٹا سجل بہت معصوم ہے ثانیہ کی طرح بلکل بھی نہیں ہے۔
اور شکر ہے کہ بچپن سے لے کر اب تک اس میں ثانیہ کی کوئی بات نظر نہیں آئی۔تم دونوں ایک دوسرے کے لئے ہر لحاظ سے بہتر ہو۔
شہلا بیگم سجل کو بہو بنانے کا ارادہ پکا ارادہ کر چکی تھیں۔
ماما میں ابھی کچھ نہیں کہہ سکتا مجھے سوچنے کے لئے کچھ وقت چاہیے۔
ہاں ہاں ضرور وقت لو مگر جواب صرف ہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔روحاب بیٹا جواب ہاں میں ہو یا نا میں تمہیں اپنی زندگی کے متعلق فیصلہ کرنے کا پورا حق ہے۔
شہلا کی بات منہ میں ہی رہ گئی جب رفیق صاحب نے ان کی بات کاٹی۔
تم بہتر جانتے جو کہ تم سجل کے ساتھ خوش رہ سکتے ہو یا نہیں اس کے ساتھ تمہارا گزارا ہو سکتا ہے یا نہیں اس لئے تم آرام سے سوچ کر ہمیں جواب دینا۔اب جاؤ شاباش اپنے کمرے میں آرام کرو تھکے ہوئے ہوگے۔
رفیق صاحب کی بات پر روحاب سر ہلاتا ہوا کمرے سے نکل گیا۔
۔*************************
کیا روحاب بھائی؟؟؟؟
سجل کو یقین نا آیا۔
ہاں اور نہیں تو کیا ابھی کچھ دیر پہلے ہی اس بدتمیز موحد کی شکایت کرنے گئی تھی پاپا سے تو انہیں روحاب بھائی سے تمہارے لئے بات کرتے سنا۔
معارج نے کچھ دیر پہلے ہونے والی گفتگو سے سجل کو آگاہ کیا۔
اچھا تو پھر روحاب بھائی نے کیا کہا۔
سجل کو جاننے کی بے چینی ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ میں ابھی کچھ نہیں کہہ سکتا سوچ کر جواب دوں گا۔
اس بات پر سجل کا منہ بن گیا۔
وہ سوچنے لگی اگر انہوں نے سوچنے کے بعد انکار کر دیا تو۔
اور یہی بات معارج بھی اس سے کہنے لگی تو سجل بولی۔
ہاں تو کر دیں انکار مجھے کیا۔
مگر اندر سے تو اس کی بھی خواہش تھی کہ اس رشتے کے مطلق روحاب کا انکار نہیں بلکہ اقرار ہو۔
اور وہ سوچے بیٹھی تھی کہ اگر ماما پاپا نے اس سے بات کی تو وہ فوراً ہاں کر دے گی۔
ویسے اب تو بس روحاب بھائی کے ہاں کرنے کی دیر ہے پھر تو میرے تم سے تین تین رشتے بن جائیں گے۔یعنی کزن اور دوست کے ساتھ ساتھ بھابھی کا بھی۔معارج شرارت سے بولی۔
اچھا اب بس کر دو جو ہوگا دیکھا جاۓ گا۔
سجل نے اسے چپ کروانا چاہا مگر وہ چپ نا کی۔
کیا مطلب جو بھی ہوگا۔
مطلب انکار یا اقرار۔
سجل نے اسے سمجھایا۔
اچھا میں ذرا اس موحد کی شکایت لگا کر آئی پہلے تو روحاب بھائی کمرے میں تھے اس لئے واپس آگئی مگر اب تو یہ نہیں بچنے والا۔
معارج موحد کی شکایت بڑے پاپا کو لگانے کے لئے ان کے کمرے میں چلی گئی۔
موحد نے اس کے بیگ سے نوٹس نکال کر انہیں پھاڑ کر رومان کے ساتھ مل کے ان کے جہاز بناۓ تھے اور پھر پورے لان میں ادھر سے ادھر اڑائے۔
معارج کو معلوم ہوا تو ان دونوں پر برس پڑی۔
موحد نے تو اپنے دونوں کان بند کر لئے مگر رومان کو جب معلوم ہوا کہ جن کے جہاز بنا بنا کر وہ اڑا رہا تھا وہ دراصل معارج کے نوٹس تھے تو جلدی سے وہاں سے کھسک گیا۔
۔**********************
تم کیا چاہتے ہو مجھ سے۔
کمرے میں اس وقت دو نفوس موجود تھے یعنی روحاب اور زارون۔
وہ دونوں ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے۔
کیا مطلب میں سمجھا نہیں۔
زارون نے انجان بنتے ہوئے پوچھا۔
تم اچھی طرح جانتے ہو کہ میں کس بارے میں بات کر رہا ہوں اس لئے زیادہ انجان مت بنو۔
انجان تو بنو گا جب تک تم سیدھی طرح مجھے ساری بات نہیں بتاؤ گے۔
زارون ہونٹوں پر مسکراہٹ لئے بولا۔
سونا نامی لڑکی کو میرے ساتھ تصویریں بنوانے کے لئے بھیجنا اور پھر ان تصویروں میں ردو بدل کر کے انکا میرے لئے غلط استعمال کرنا اس سب کے پیچھے تمہارا کیا مقصد تھا۔
روحاب نے بغیر کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر ساری بات کہہ ڈالی۔
اوہو تو تمہیں معلوم ہو ہی گیا۔
ویسے میں جانتا تھا کہ انسپکٹر روحاب سے کوئی بات چھپی رہ ہی نہیں سکتی اور لگتا ہے کہ وہ تصویریں گھر کے بڑوں کے ہاتھ نہیں لگیں نہیں تو اب تک گھر کی فضا اتنی پر سکون نا ہوتی۔
میں یہاں تم سے گھر کی فضا کے متعلق بات کرنے نہیں آیا بلکہ میں وہ وجہ جاننے آیا ہوں جس کو مد نظر رکھتے ہوئے تم نے بغیر کسی رشتے کا لحاظ رکھے بغیر یہ غلط کام کروایا۔
آخر کیا چاہتے ہو تم مجھ سے۔
اس وقت روحاب کو اس کی مسکراہٹ زہر لگ رہی تھی۔تمہاری طرف سے انکار۔
کیا مطلب۔
روحاب کو سمجھ نا آئی۔
تمہاری طرف سے سجل کے لئے انکار۔
سجل سے شادی سے منع کر دو۔
کیوں کہ سجل صرف میری ہے اور میں اس کی شادی تم سے تو کیا کسی سے بھی نہیں ہونے دونگا۔
کیا گھٹیا پن ہے یہ۔
روحاب کو ایک دم غصہ آگیا۔
ڈیر کزن یہ گھٹیا پن نہیں بلکہ محبت ہے۔
میں نے وہ تصویریں اس لئے بھیجیں تا کہ گھر کے تمام افراد انھیں دیکھیں اور پھر چھوٹے مامو اور مامی تو کیا سجل بھی تم سے شادی کے لئے ہرگز راضی نا ہو۔
مگر افسوس وہ تصویریں تمہارے ہاتھ لگ گئیں۔زارون نے افسوس کیا۔
روحاب اس کی بات پر مسکرایا اور بولا۔
سجل مجھ سے شادی کے لئے انکار نہیں کرے گی کیوں کہ تمہاری بے خبری کے لئے تمہیں بتاتا چلوں کہ وہ تصویریں میرے نہیں بلکہ سجل کے ہاتھ لگی تھیں اور وہ انہیں کسی اور کے پاس لے جانے کی بجاۓ میرے پاس لے کر آئی تھی۔
اور پھر میرے کہنے پر ان تصویروں کو جلا بھی ڈالا۔اس بات سے تم اندازہ لگا سکتے ہو کہ اسے مجھ پر کتنا یقین ہے اور وہ مجھے کسی کی بھی نظروں میں گرانا نہیں چاہتی۔
بس یہی تو بات ہے روحاب کہ اس وقت قسمت تمہارے حق میں تھی اور۔۔۔۔۔۔۔
اور آگے بھی میرے حق میں ہی رہے گی۔روحاب نے اسکی بات بیچ میں کاٹی۔
اور میں جان چکا ہوں کہ ثانیہ نے چاہے جھوٹ ہی بولا ہو کہ تم نے اسے طلاق کی دھمکی دی ہے صرف چھوٹی سی بات پر مگر اندر کی بات تو یہ ہے کہ تم واقعی میں اسے طلاق دینے کا ارادہ رکھتے ہو۔
اور اگر تو تم مرد ہو تو تم کبھی بھی ایسا مت کرنا۔روحاب کی اس بات پر زارون نے قہقہ لگایا اور بولا۔واہ میرے بھائی کیا بات کہہ دی تم نے آئی لائک اٹ۔اور ہاں اندر کی بات تو تم جانتے ہی نہیں۔
تم جانتے ہی نہیں کہ میں نے ثانیہ سے شادی صرف اپنی انا کو تسکین پہنچانے کے لئے کی تھی۔
اس نے ٹھکرایا تھا مجھے اور وہ بھی تمہارے لئے اور مزے کی بات تو یہ کہ اس نے تمہیں بھی ٹھکرا دیا میرے لئے اوہ سوری نا تمہارے لئے نا میرے لئے بلکہ پیسوں کے لئے۔
مگر میں نے بھی سوچ لیا تھا کہ جب تک اسے اپنا کر ٹھکرا نا دوں اسے وہ ساری سہولتیں آسائشیں دے کر جن کی وہ تمنا رکھتی تھی وہ واپس نا چھین لوں تب تک چین سے نہیں بیٹھوں گا۔
یہ سب تو میں نے پہلے سے ہی سوچ کر رکھا تھا مگر اس سب میں جو چیز نئی ہوئی وہ تھی سجل سے محبت اور وہ بھی مہندی کی رات۔
اب بتاؤ بندہ شادی اس سے کرے جس سے اسکو محبت ہے یا اس سے جس سے اسے سخت نفرت ہے۔تم کیا جانو کہ شادی کے بعد کے دنوں میں میں نے اس لڑکی سے جس سے میرا روا روا محبت کرتا ہے کیسے گزارا کیا ہوگا۔
اب بھی وہ میرے کمرے میں ہوتی ہے تو میرا اپنے ہی کمرے میں سانس لینے کو دل نہیں کرتا۔
کوئی کہہ ہی نہیں سکتا کہ ثانیہ وہی لڑکی ہے جس سے کبھی میں نے دل و جان سے محبت کی تھی۔
مگر اب وہ لڑکی میری نفرت کے قابل بھی نہیں۔روحاب نے زارون کی باتوں کو خاموشی سے سنا اور اٹھ کھڑا ہوا۔
کہاں جا رہے ہو میری بات کا جواب نہیں دیا تم نے۔زارون نے اسے بغیر کسی بات کا جواب دیے واپس جانے کے لئے تیار دیکھا تو پوچھنے لگا۔
میرا جواب صرف اتنا سا ہے کہ جس طرح تمہاری ضد ہے کہ سجل کی شادی اپنے علاوہ کسی اور سے نہیں ہونے دو گے اسی طرح اب میری بھی ضد ہے کہ شادی کروں گا تو صرف سجل سے اور وہ بھی بہت جلد۔روحاب کی اس بات پر زارون کی مسکراہٹ کہیں غائب ہوگئی۔
مگر پھر وہ دوبارہ مسکراتے ہوئے بولا چلو پھر دیکھتے ہیں کہ کس کی ضد پوری ہوتی ہے کس کی جیت ہوتی ہے اور کس کی ہار۔
۔******************
یہ میرے لیپ ٹاپ پر پانی تم نے گرایا ہے۔
زارون نے دیکھا کہ اسکا لیپ ٹاپ پانی سے نچر رہا تھا۔
میرا ہاتھ لگ گیا تو گر گیا جگ۔
ثانیہ نے ایسے کہا جیسے وہ کوئی کپڑا ہو جس پر پانی گر جاۓ تو سوکھ کر پھر سے ویسا ہی ہو جاۓ گا جیسا پہلے تھا۔
تمہیں اتنی بھی سینس نہیں کہ ایسی چیزوں کو پانی کے پاس نہیں رکھتے۔
اور پھر جب گر گیا تھا پانی تو کیا منہ اٹھا کر دیکھتی رہی تھی لیپ ٹاپ اٹھا کر پیچھے نہیں کر سکتی تھی۔
زارون اس کی کم عقلی پر تپ کر بولا۔میں کیوں اٹھاتی تمہاری نوکر ہوں کیا۔
ہاں ایک نوکر سے بڑھ کر میری نظر میں تمہاری کوئی حثیت ہے بھی نہیں۔
کیا کہا تم نے آخر سمجھتے کیا ہو تم خود کو ایک نمبر کے دھوکے باز گھٹیا آدمی۔
ثانیہ کو زارون کا اسے نوکر کہنا تپا ہی تو گیا تھا۔
ہاں ہوں میں گھٹیا اور دھوکے باز مگر پھر بھی میں تمہارے لیول تک نہیں پہنچ سکتا۔
یہ پکڑو اپنا سرہانہ اور نکلو میرے کمرے سے اور جا کر جہاں مرضی سو۔
زارون نے اسے اس کا سرہانہ تھمایا اور کمرے سے نکل جانے کا کہا۔
ثانیہ نے سرہانہ غصے سے اس کے منہ پر مارا۔
مجھے بھی کوئی شوق نہیں ہے تم جیسے گھٹیا انسان کے ساتھ ایک ہی بیڈ پر سونے کا۔
ثانیہ یہ کہتی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئی۔
زارون کو ثانیہ کی اس حرکت پر بہت غصہ آیا۔
اس نے پاؤں سے زور سے کمرے کا دروازہ بند کیا اور بیڈ پر بیٹھ کر لیپ ٹاپ کو چیک کرنے لگا جس کا ثانیہ نے پانی گرا کر کوئی حال نا چھوڑا تھا۔
۔******************
روحاب نے سجل سے شادی کے لئے ہاں کر دی جب یہ بات سجل کو معلوم ہوئی تو اسے یقین نا آیا۔
سجل آپی آپ روحاب بھائی سے شادی کے لئے خوش تو ہیں ناں۔
سجل روحاب کے بارے میں ہی سوچ رہی تھی جب انعم نے اس سے پوچھا۔
معلوم نہیں۔
یہ تو کوئی جواب نا ہوا ٹھیک سے بتائیں آپ خوش ہیں یا نہیں۔
شائد ہاں۔
سجل نے کہا۔
آپی شائد یا پکا۔
انعم نے اب قدرے اونچی آواز میں پوچھا۔
ہاں۔
سجل نے دھیمی آواز میں جواب دیا۔
یہ ہوئی نا بات ویسے میں تو بہت خوش ہوں روحاب بھائی میرے جی جو بننے والے ہیں آپ دونوں کی جوڑی ویسے بہت کمال کی لگے گی۔
ہاں جیسے تمہاری اور موحد کی۔
انعم اپنی ہی جون میں بولی جا رہی تھی جب سجل نے بیچ میں لقمہ دیا۔
کیا کہا۔میں نے کہا جیسے تمہاری اور موحد کی۔
سجل نے مزے سے دوبارہ کہا۔
سجل آپی آپ بھی ناں۔
انعم شرماتی ہوئی وہاں سے اٹھ گئی۔
۔******************
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...