زریاب اور اس کا دوست عدنان دونوں اسٹوڈیو میں بیٹھے گیم کھیل رہے تھے۔ زریاب ہمیشہ کی طرح ہر گیم میں عدنان سے جیت جایا کرتا تھا اور پھر عدنان ایک لمبی چوڑی تکرار لے کر خوب بحث کیا کرتا تھا۔ آج کے اس گیم میں عدنان نےموقع غنیمت جان کر فوراً اپنی باری چل دی مگر زریاب ہمیشہ کی طرح اس کی ہر چال سمجھ جایا کرتا تھا اس لیئے اس نے بڑے آرام سے عدنان کو ایک بار پھر شکست دے دی۔
”یہ کیا یار؟ تو ہمیشہ جیت جاتا ہے۔“ عدنان نے غصہ سے کہا اور پھر ہاتھوں پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گیا۔ زریاب کی تو ہنسی ہی نہیں رک رہی تھی اور عدنان کو ہرا کر وہ بہت خوشی محسوس کر رہا تھا۔
”یار یہ تو گیم ہے اور تو اس پر اتنا ناراض ہو رہا ہے۔۔۔ یہاں لوگوں کی زندگى سے محبت فنا ہو جاتی ہے اور وہ مسکراتے رہتے ہیں۔“ زریاب نے اپنے دل میں پیوست زخموں کو محسوس کرتے ہوئے کہا۔
”چار سال ہو گئے ہیں زریاب اور تو اب تک اس کی یاد میں اپنی زندگی برباد کر رہا ہے۔ ابھی جو تو یہ سمر کلاسز شروع کرے گا وہاں بہت لڑکياں ہوں گی اور مجھے یقین ہے کے ان میں سے کوئی نہ کوئی تیرا دل ضرور جیت لے گی۔“ عدنان نے بڑے آرام سے یہ بات سامنے بیٹھے زریاب سے کہہ دی مگر وہ جانتا تھا کے اس کی زندگى میں مہرین کے سوا نہ کوئی تھا اور نہ کوئى ہے۔
” کوئى لڑکی میرا دل نہیں جیت سکتی! “ زریاب نے بڑی بہادری سے جواب دیا۔
” ارے دل کا کیا ہے؟ ایک گئ دوسری آئى مگر تو بڑا عجيب ہے بھولتا نہیں اس بے وفا کو! “
عدنان نے خفگی کا اظہار کیا تو زریاب نے اسے گھورا مگر بات عدنان کی کسى حد تک صحیح تھى کے آخر کب تک وہ اس کی یادوں میں جی سکتا ہے۔
**********
وہ ٹرین میں چڑھنے کے لیئے کافی آگے نکل گیا تھا اور مہرین ابھی تک ضد میں وہیں کھڑی تھی۔
” یہ جان بوجھ کر کر رہا ہے ایسا!“ اس نے منہ بنا کر کہا۔ سامنے کھڑے لوگ سب مہرین کی طرف دیکھ رہے تھے۔ رات کا وقت تھا اور وہ یوں کونے پر اکیلی کھڑی تیار ہو کر عجوبہ لگ رہی تھی۔ آخرکار اپنا بیگ اٹھا کر وہ ٹرین کی طرف بڑھ گئی اور اپنی انا کو پاؤں کے نیچے کچل کر وہ ٹرین میں چڑھ گئی۔
”بھائی صاحب یہ سامان لوڈ کر دیں مہربانی ہوگی۔“ مہرین نے سامنے کھڑے آدمی سے گزارش کی۔ عاشر نے اپنا سامان پہلے ہی رکھ دیا تھا اور اب وہ اپنی سیٹ پر بیٹھ کر ‘Dan Brown’ کا ناول پڑھنے لگا تھا۔ اسے اس سے کوئی سروکار نہیں تھا کے مہرین اس وقت کہاں ہے؟ کس کے ساتھ ہے؟ کس جگہ پر ہے؟
مہرین نے سامان رکھوا کر عاشر کی طرف دیکھا پھر بغیر کچھ کہے عاشر کے سامنے والی سیٹ پر بیٹھ گئی۔ اس وقت وہ رنج و الم سے گزر رہی تھی جو اسے سکون کا سانس لینے نہیں دے رہا تھا۔ وہ دونوں چپ چاپ بیٹھے اپنی اپنی دنيا ميں گم تھے۔ اس لیئے ٹرین سٹارٹ ہوئی تو شاید دونوں کو خبر ہی نہیں ہوئی اور وہ لوگ اپنی منزل کی جانب بڑھنے لگے۔
وہ ابھی صفحہ پلٹ ہی رہا تھا کے اس کا فون زور زور سے بجنے لگا۔ اس نے کتاب کو سائڈ پر رکھا اور پھر فون اٹینڈ کرنے لگا۔
”ہیلو!“ اس نے بجھے انداز میں کہا۔
”ہاں بھئی یہ کیا خبر مل رہی ہے مجھے؟ تو نے شادی کر لی اور مجھ غریب کو بتایا تک نہیں؟
صحیح کہتے ہیں لوگ آج کل کے زمانے میں دوست دوست نہیں سانپ ہوتا ہے۔“ عدیل نے مذاق کرتے ہوئے عاشر سے کہا۔
” شادی! “ وہ شادی کے نام سے چکرا گیا۔
“ابے! کیا نشہ کر کے بات کر رہا ہے! شادی ہو گئی ہے تو اب ہمیں لفٹ بھی نہیں کرواؤ گے؟” عدیل کا تو بس نہیں چل رہا تھا کے وہ عاشر کے زخموں پر مزید نمک چھڑکے۔
” زبردستی پہنایا ہوا طوق؟ میں اسے شادی نہیں مانتا! “ وہ صرف اتنا کہہ سکا تھا اور پھر اس سے پہلے عدیل کچھ بولتا اس نے کال کاٹ دی اور موبائل بند کرکے جیب میں ڈال لیا۔
اس نے اپنی کتاب کھولی اور اسے پڑھنے لگا۔ مہرین ابھی تک خاموش تھی اس لیۓ شاید کیونکہ وہ اپنا مستقبل سوچ رہی تھی کے پتہ نہیں آگے اس کے ساتھ کیا ہونے والا تھا۔ اس وقت اس کے موبائل پر ایک عجیب سا میسج آیا جو کے کچھ یوں تھا:
”I miss you“
نمبر جانا پہچانا نہیں تھا اس لیے اس نے اس میسج کو اگنور کیا اور پھر سے خیالوں میں گم ہوگئی۔
******
آج پوری کلاس جمع تھی اور سب حد سے زیادہ شور کر رہے تھے جس پر زریاب کو شدید غصہ آ رہا تھا۔
”آپ سب لوگ خاموش ہو جائیں!“ اس نے غصہ پیتے ہوئے ان سب کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ سب ایک بار پھر خاموش ہوگئے اور زریاب کی طرف دیکھنے لگے۔ عروسہ مسلسل ہنس رہی تھی وہ بھی کسی کی باتوں پر نہیں فون پر آنے والے میسجز پر اسے اس چیز سے کوئی سروکار نہیں تھا کے زریاب نے کتنی ہی بار کلاس کو خاموش ہونے کے لئے کہا تھا۔ اب زریاب دانت پیستے ہوئے اسے دیکھنے لگا تو سب ہی عروسہ کو پیچھے مڑ مڑ کر گھورنے لگے۔ مگر وہ ان سب سے غافل تھی کے پوری کلاس اس وقت اس کی طرف مخاطب ہے وہ بڑے آرام سے ہنس ہنس کر میسجز پڑھ رہی تھی کے زریاب نے آخرکار زور سے کھانسا جس کی وجہ سے عروسہ کی توجہ زریاب کی طرف مائل ہوئی۔ جیسے ہی اس نے سر اٹھا کر اوپر دیکھا تو پوری کلاس کو اپنی طرف دیکھ کر وہ گھبرا گئی۔
”کیا میں نے کچھ کیا ہے؟“ اس نے حیرانی کے عالم میں پوچھا۔
”نہیں بلکل نہیں آپ نے کچھ نہیں کیا مگر ہم سب آپ کا انتظار کر رہے تھے کے کب آپ اپنے مزاحیہ میسجز ہم سے شیئر کریں گی۔“ اس نے عروسہ کو طنزیہ کہا تو وہ سمجھ ہی نہ سکی۔
”جی؟ “
آپ کیوں ہنس رہی تھی؟ ہمیں بھی تو پتا چلے تاکہ ہم سب مل کر ہنسیں! “ اس نے آگے آتے ہوئے عروسہ سے کیا تو وہ اور زیادہ ہنسنے لگی۔ زریاب سے تو اس کی یہ بدتمیزی برداشت ہو رہی تھی۔
” اگر آپ کو ہنسنا ہے تو باہر چلی جائیے مگر میں مزید بدتمیزی برداشت نہیں کروں گا۔“ اس نے اسے آخری بار تنبیہ کی اور پھر سب کو اسٹل ارٹس ڈرائنگ کے بارے ميں بتانے لگا۔
عروسہ اب خاموشی سے زریاب کو دیکھنے لگی۔
اسے سمجھ تو کچھ آ نہیں رہا تھا مگر وہ سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی۔
”سب کو سمجھ آگیا نا کے ہمیں کس طرح سٹارٹ کرنا ہے؟“ اس نے کلاس سے پوچھا تو سب نے کہا:
”جی سر“
”ٹھیک ہے پھر مس عروسہ آ کر ہمیں تھوڑا سا دوبارہ سے سنائیں گی۔“ اس نے جیسے ہی یہ جملہ ادا کیا تو عروسہ چونک گئی۔
”سر میں؟“ اس نے گھبرا کر کہا۔
”عروسہ آپ ہی ہیں فلحال اس کلاس میں۔“ اس نے عروسہ کی طرف رخ کر کے بولا۔
”مگر مجھے ہی کیوں؟ “ عروسہ نے جواب میں کہا تو پوری کلاس زور زور سے ہنسنا شروع ہو گئی۔
” کیونکہ آپ بہت اسپیشل ہیں۔“ اس نے تلملاتے ہوئے کہا تو عروسہ کو مجبوراً اپنی جگہ سے اٹھنا ہی پڑا۔
*******
ٹرین اسلام آباد کے سٹیشن پر آکر رک گئی تھی۔
اس پورے سفر کے دوران دونوں میں ایک لفظ کا بھی تبادلہ نہیں ہوا۔ عاشر نے آدھے گھنٹے پہلے ہی اپنے ڈرائیور کو کال کر دی تھی۔ مہرین نے اپنا سامان اٹھا لیا تھا اور عاشر نے اپنا سامان اور اب دونوں ہی سامان لے کر آگے بڑھ رہے تھے۔ مہرین تو لمبے سفر کی وجہ سے تھک گئی تھی اور اس وقت اس کا دماغ صرف یہ سوچ سوچ کر پھٹ رہا تھا کے آخرکار وہ کیسے رہے گی عاشر کے ساتھ اس کے گھر میں۔
کہاں تو وہ اس کا وجود برداشت نہیں کر پا رہی تھی اور کہاں اب اس کے ساتھ زندگى بھر کا ساتھ اسے یہ سوچ کر ہی ٹینشن ہو رہی تھی۔ تھوڑی ہی آگے جا کر ایک بڑی سی گاڑی کھڑی تھی جس کے ساتھ کھڑا شخص شاید عاشر کا ڈرائیور لگ رہا تھا۔
”سامان رکھو گل خان! “ عاشر نے سامنے کھڑے گل خان کو حکم دیا۔ عاشر کا دماغ ویسے ہی درد سے پھٹ رہا تھا اور گل خان ہمیشہ کی طرح مدد کرنے کے بجائے کھڑا اس کی شکل تک رہا تھا۔ مگر عاشر کے کہنے پر فورا ً جاگا۔
”جی لالہ!“ اس نے سامان مہرین کے ہاتھ سے لیا اور پھر سارا سامان رکھ کر گاڑی اسٹاڑٹ کرنے لگا۔ عاشر آگے والی سیٹ پر بیٹھ گیا اور مہرین پیچھے والی سیٹ پر۔ جب سب بیٹھ گئے تو پھر گاڑی عاشر کے گھر کی طرف روانہ ہوئی۔
” ویسے لالہ کہاں تھا تم؟ ہم تو آپ کو یاد کر کر کے تھک گیا تھا۔“ گل خان نے عاشر سے شکايت کی تو عاشر نے جواب میں لب بھینچ لیۓ۔
” گل خان کراچی میں بابا جان کے پاس تھا مگر اب کافی عرصے تک اسلام آباد میں رہوں گا۔“ عاشر نے گل خان کو اپنے آنے کے بارے میں معلومات دی۔ مہرین تو اتنا تھک گئی تھی کے وہ گاڑی میں ہی سو گئ۔
” لالہ ہم آپ کو مبارک دینا بھول گیا۔ ہم بہت خوش ہے آپ کی شادی پر ماشاءاللہ سے دلہن بی بی بہت خوبصورت ہے۔“ جیسے ہی گل خان نے یہ جملے ادا کئے تو عاشر کے تو دل میں ایک طوفان برپا ہو گیا۔ اس کو مہرین کے متعلق کوئی بھی بات سننے میں دلچسبی نہیں تھی۔
”ذرا جلدی گاڑی چلاؤ گل خان بہت نیند آرہی ہے۔”
عاشر نے جمائی لیتے ہوئے کہا اور بات بڑی آسانی سے پلٹ دی۔
تقریباً ایک گھنٹے بعد وہ لوگ عاشر کے گھر پر آکر رکے تھے۔ وہ گھر تھا یا کوئى شاندار بنگلہ یہ کہنا مشکل ہو گا مگر باہر سے ہی اس کی خوبصورتی ہر آنے والے کو اپنی طرف مائل کررہی تھی۔ لوہے کا بڑا سا گیٹ کھلا تھا جس میں گاڑی اندر آئى تھى۔ اندر آتے ہی ایک بڑا سا لان تھا جس میں ہر طرف سفيد پھول لگے تھے۔ لان کے ہر طرف منی پلانٹ اگے ہوئے تھے اور پھر لان کے دوسری طرف ہی گھر کے اندر والا حصہ شروع ہو رہا تھا جو کے خاصا وسیع نمایاں ہو رہا تھا۔ لان کی پچھلی سائید کی طرف گیراج تھا جس میں دو گاڑیاں کھڑی ہوئی تھیں۔
” لالہ آپ کا سامان نکال دوں؟ “ گل خان نے گاڑی سے باہر نکلتے ہی پوچھا۔
” ہاں میرے کمرے میں میرا سامان رکھوا دینا۔“وہ یہ کہہ کر آگے جانے لگا تو گل خان نے عاشر کو پکار کر کہا۔
“لالہ دلہن بی بی گاڑی میں سو رہی ہیں۔” گل خان نے سوئی ہوئی مہرین کی طرف اشارہ کرا۔
” تو سونے دو خود اٹھ کر آجائیں گی۔“ وہ کندھے اچکا کر بولا اور گھر میں داخل ہو گیا۔ سامنے ہی کھڑی بانو شاید رات کا کھانا لگا رہیں تھی۔
“اسلام وعلیکم!” اس نے تھکے تھکے انداز سے کہا۔
“وعليکم اسلام!” وہ اسے اکیلا دیکھ کر تھوڑی پریشان ہو گئیں۔
”بیٹا مہرین بیٹی نہیں آئى؟“ انہوں نے فکرمندی سے عاشر سے پوچھا۔ مہرین وہ اس دنیا کا آخرى نام تھا جو وہ اس وقت سننا چاہتا تھا۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کے یا تو وہ خود مر جائے یا مہرین کو مار ڈالے۔
” گاڑی میں ہیں آپ ان کا سامان رکھوا دیں۔“ یہ کہہ کر وہ وہاں سے تیزی سے نکل گیا اور پیچھے کھڑی بانو اسے دیکھتی رہ گئیں۔
مہرین کی آنکھ جب کھلی جب بانو نے آکر زور سے اس کا کندھا ہلایا۔ وہ انہیں دیکھ کر دو منٹ تک حیرانی کے عالم میں ادھر ادھر دیکھنے لگی۔
”آؤ بیٹی تمہارا اپنا گھر ہے۔“ بانو نے اس کا ہاتھ تھاما۔ وہ نئی نویلی دلہن کہیں سے نہیں لگ رہی تھی بلکہ وہ تو کوئی زخموں سے چور مسافر لگ رہی تھی جسے سکون کی تلاش تھى۔
”یہ عاشر کا گھر ہے؟“ اس نے گاڑی سے اترتے ہی بڑی حیرانی سے پوچھا۔ وه تو کبھى خوابوں میں بھی نہیں سوچ سکتی تھی کے عاشر کا گھر ایسا بھی ہو سکتا ہے اسے تو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔
” ہاں اب آؤ اندر بھی آجاؤ! “ بانو نے مہرین سے کہا جو کے عاشر کے گھر سے متاثر ہو کر کسى اور دنيا ميں ہی گم ہو گئی تھی۔
وہ آہستہ آہستہ قدم بڑھاتے ہوئے اندر آئى تو اس کا دماغ ہل گیا۔ اتنا خوبصورت اور شاندار گھر اس نے شاید ہی کہیں دیکھا ہو۔
”یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ “ وہ خود سے بولنے لگی۔
“مہرین بیٹا سب حیرت تو ہے؟” بانو نے اس کی بات پر اس سے پوچھا مگر وہ اس وقت کسی شاک میں تھی۔
”یہ گھر اس نے کیسے بنا لیا؟” وہ ابھی تک شاک سے باہر نہیں آئى تھى۔
“آپ یہ باتیں چھوڑیں آپ کمرے میں جا کر آرام کر لیں پھر سب ساتھ کھانا کھاتے ہیں۔” انہوں نے زبردستی مہرین کا ہاتھ پکڑا اور اس کے اس کے کمرے میں لے گئیں۔
کمرے میں جاتے ہی اس نے خود کو کمرے میں لاک کر لیا۔ مہرین کا کمرہ اوپر ہی تھا مگر عاشر کے کمرے سے تھوڑا دور اور ساتھ میں ایک لاؤنج بھی تھا جو کے کافی وسیع اور خوبصورتی سے سجا ہوا تھا۔
وہ باتھ روم میں داخل ہوئی اور اپنے منہ پر لگا ہوا سارا میک اپ دھونے لگی اور اس کے بعد اپنے بالوں میں سے ساری ہیر پنز نکال کر آئینہ کے سامنے کھڑی ہوگئی۔
”یہ کیا ہو گیا ہے؟ میں یہاں ہرگز نہیں رہوں گی۔“
وہ زور زور سے بول رہی تھی پر اندر کی وحشت کم نہیں ہو رہی تھی۔ اس نے غور سے دیواروں کو دیکھا پھر زور زور سے رونے لگی مگر ان آنسوں کا اب کوئی فائدہ نہیں تھا کیونکہ قسمت نے اسے ایسی جگہ لا کر کھڑا کردیا تھا جہاں تو وہ نہ مر سکتی تھی اور نہ ہی جی سکتی تھی۔
عاشر نے آتے ہی بابا جان اور ماما جان کو فون کر دیا تھا۔
”بیٹا مہرین سے بات کرادو۔“ ماما جان نے عاشر سے گزارش کی۔
“وہ سو گئ ہیں۔” اس نے مختصر سا جواب دیا۔
“ٹھیک ہے تم بھی آرام کرو تھک گئے ہوگے میں بعد میں فون کرتى ہوں۔” ماما جان نے کہا اور عاشر نے فون بند کردیا۔ پھر اس نے اپنے کسی ورکر کو کل کی اور اسے کل کی ہونے والی میٹنگ کے بارے میں بتانے لگا۔ بات کرنے کے بعد اس نے کچھ دیر لیپ ٹاپ پر کام کیا اس کے بعد وہ اس قدر تھک چکا تھا کے وہ بستر پر لیٹتے ہی سو گیا۔
***
عاشر صبح ہی آفس کے لیے نکل گیا تھا اور مہرین تو گولیاں لے کر سوئی ہوئی تھی اس لئے وہ بانو کے اٹھانے پر بھی نہیں اٹھی۔
عاشر نے سب کے ساتھ پورے مہینے کی تفصیلات پر میٹنگ کی جس پر اس نے سارى باتیں ڈسکس کیں۔اس میٹنگ میں سب ہی موجود تھے اور ان میں عدیل بھی شامل تھا جو بار بار شرارتی انداز میں عاشر کو دیکھ رہا تھا۔ اس کی ان حرکتوں کی وجہ سے عاشر نے فوراً میٹنگ ختم کر دی۔ میٹنگ ختم ہوتے ہی سب اپنے کام میں مصروف ہو گئے تو عدیل اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر مسکرانے لگا۔
”تو پاگل تو نہیں ہو گیا؟ “ عدیل نے دھیمے لہجے میں عاشر سے کہا۔ عاشر جو فائلز چیک کر رہا تھا فائلز رکھ کر نا سمجھنے والے انداز میں اسے دیکھنے لگا۔
“سمجھ لو کے آج کے بعد میں پاگل ہی ہونے والا ہوں۔“ عاشر نے ایک طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ اس کی بات کا جواب دیا۔
”دیکھ تو پاگل ہو یا نہ ہو مگر اب وہ چڑیل مسز عاشر ہے۔ اس بات کو تم جھٹلا نہیں سکتے؟ “ عدیل تو اس وقت بھی مذاق کے موڈ میں تھا۔
“میں انہیں اپنی زندگی میں رکھوں گا ہی نہیں۔”
عاشر کے چہرے پر بیزاری صاف نمایاں تھی۔
“یار تو بڑا عجیب ہے کل تیری شادی ہوئی ہے اور تو یہاں بیٹھا ایسی باتیں کر رہا ہے۔ جو بھی ہوا ہے مگر اب وہ ہے تو تمہارى بیوی نا؟” عدیل نے عاشر کو بتانا چاہا جو اس بات پر مزید آگ بگولہ ہو گیا۔
اس کو لگ رہا تھا جیسے کوئی پگھلا ہوا سیسہ اس کے کانوں میں اتار رہا ہے۔
“عدیل ہميں کمپنی کے بارے میں بہت سے معاملات پر ڈسکس کرنا ہے۔ اور میں ابھی اس ٹوپک پر بات نہیں کرنا چاہتا!” وہ اس کی بات کو مکمل طور پر نظرانداز کر کے اپنے آفس کی طرف بڑھ گیا۔ اس وقت وہ کسی ذہنی اذیت سے گزر رہا تھا جس کا اندازہ کوئى نہیں کر سکتا تھا۔ کہاں وہ خشگوار دن تھے جب وہ شیزہ کے ساتھ ہوا کرتا تھا۔ اس کی ایک مسکراہٹ اس کے دل کی دھڑکن کو تیز کر دیا کرتى تھی۔ وہ اس کی زندگى سے شاید بہت دور جا چکی تھی مگر دل میں اب بھی اس کی یادوں کا بسیرا تھا۔ وہ ابھی تک اس کی بیوفائی اور اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو درگزر نہیں کر سکا تھا۔
مہرین رات کو سوئی اگلے دن کی شام کو بیدار ہوئی تھی۔ اس نے بہت آہستہ سے آنکھوں کو کھولا تھا اور پھر دبے قدموں کے ساتھ واش روم کی طرف بڑھی تھى۔ پانى کا چھیںنٹا اس نے منہ پر مارا اور پھر کچھ دیر بعد وہ نیچے آ کر ادھر ادھر گھومنے لگی۔ اس نے پورے دو دنوں سے کچھ نہیں کھایا تھا جس کی وجہ سے اس کا پورا جسم کمزوری کی وجہ سے کانپ رہا تھا۔ اس نے گھڑی کی طرف دیکھا تو اس وقت شام کے چھ بج رہے تھے اور عاشر غالباً گھر پر نہیں تھا۔ بانو نے مہرین کو آتا دیکھا تو فوراً اس کے پاس آکر کھڑی ہوگئیں۔
“مہرین بیٹا! ہم کب سے آپ کو جگا رہے ہیں مگر آپ گہری نیند سو رہی تھیں۔ اب آپ اٹھ گئی ہیں تو کھانا کھا لیجئیے۔” بانو نے مہرین کی طرف دیکھ کر کہا جو کسی گہری سوچ میں گم تھى۔
“جی لگا دیں کھانا بہت بھوک لگ رہی ہے۔” اس نے ایک گہری سانس لی۔
کجھ ہی دیر بعد بانو نے مہرین کی پسند کا کھانا ٹیبل پر سجا دیا۔ اس نے ایک لمحہ کی تاخیر کیئے بغیر کھانا کھایا اور پھر بانو کے ساتھ مل کر سارے برتن رکھوا کر لاؤنج میں جا کر بیٹھ گئی۔ اسے اس گھر کے ماحول سے کچھ ہو رہا تھا۔ وہ واپس کراچی جانا چاہتی تھی ماما جان کے پاس۔
مہرین کچھ دیر تک تو ٹی وی دیکھتی رہی پھر اس نے دل میں سوچا کے وہ عاشر سے بات کرے گی۔
وہ رات گیارہ بجے واپس آیا تھا۔ چہرے پر ناگواری کے تاثرات صاف نمایاں تھے۔ آنے پر مہرین کی شکل دیکھ کر وہ مزید افسردگی میں مبتلا ہو گیا۔
اس نے اسے اگنور کیا اور اوپر جانے لگا جب مہرین کی آواز پر وہ پیچھے مڑا تھا۔
”عاشر! “
”فرمائیے! “ اس نے بہت بے پرواہی سے جواب دیا۔
“میں بات کرنا چاہتی ہوں تم سے۔” وہ اس سے بات کرنا چاہ رہی تھی مگر وہ اس سے بات تو کیا اس کی طرف دیکھنا بھی نہیں چاہتا تھا۔
“میں آپ سے کوئی بات نہیں کرنا چاہتا۔”
“تمہيں بات کرنی ہوگی! میں یہ سب برداشت نہیں کر سکتی۔” اسے لگ رہا تھا وہ مزید وہاں عاشر کے ساتھ رہی تو وہ مر جائے گی۔
“تو نہ کریں نا برداشت میں نے آپ کو روکا ہے کیا؟”
وہ مزید کچھ بولے بغیر وہاں سے چلا گیا۔
***
صبح صبح ٹائی، بوٹس اور سوٹ میں تیار ہو کر وہ آفس کے لیے نکل رہا تھا۔ مہرین ﺍپنے کمرے میں سو رہی تھی اور وہ بغیر اسے کچھ کہے وہ آفس کے لئے نکل گیا۔
مہرین بھی شام کو ہی اٹھی تھی اور اس طرح کرتے کرتے تقریباً ایک ہفتہ گزر گیا تھا۔ بابا جان سے اس کی دو بار ہی فون پر بات ہوئی تھى مگر اسے ہر بات پر جھوٹ کا سہارا لینا پڑا تھا۔
آج اتوار تھا اور وہ جانتی تھی کے عاشر اپنے آفس نہیں جائے گا اس نے سوچا کے وہ آج ہی اس سے اس رشتے کو ختم کرنے کی بات کرے گی۔
وہ درختوں کو پانى دے رہا تھا جب مہرین نے آ کر اس کو نہ چاہتے ہوئے بھی مخاطب کیا۔
“میں تم سے بات کرنا چاہتی ہوں عاشر احمد!” اس نے آنکھیں گھما کر اس سے کہا۔
“جو بھی بولنا ہے بولیئے۔” وہ پھولوں پر سے مٹی دھوتے ہوئے آہستہ سے کہنے لگا۔
“میں یہاں اس طرح نہیں رہ سکتی! تم ۔۔۔ تم کچھ کرو۔۔۔” وہ ہچکچاتے ہوئے اس سے اپنا دکھ بیان کرنے لگی۔ وہ پانی دے رہا تھا مگر مہرین کی بےچینی دیکھ کر اس نے اپنا کام روک دیا۔
“آخر آپ چاہتی کیا ہیں؟” وہ غصہ قابو کرتے ہوئے بولا۔
“میں بس یہ چاہتی ہوں کے تم مجھے طلاق دے دو۔ میں آزادی چاہتی ہوں کیونکہ میں یہ قید کی زندگی نہیں گزار سکتی دم گھٹتا ہے میرا۔” وہ اب بھی بڑی ڈھیٹائی سے عاشر سے طلاق کا مطالبہ کر رہی تھی۔ عاشرنے جوں ہی مہرین کی بے بسی دیکھی تو ایک مسکراہٹ اس کے چہرے پر پھیل گئی۔
“واہ! کتنی بہادر ہیں آپ! ایک طلاق کے بعد دوسری کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ حیرت ہے مجھے آپ کی شجاعت پر۔” وہ جیسے طنز کرنے سے باز نہیں آیا تھا۔
“تم حد سے بڑھ رہے ہو۔ میں بس یہ کہہ رہی ہوں کے تم مجھے طلاق دے دو تا کہ میں یہاں سے چلی جاؤں اور تم اپنی مرضی سے زندگی گزارو۔۔۔ شیزہ کے ساتھ۔ اور تم یہ بات اچھی طرح جانتے ہو کے میں تم سے شدید نفرت کرتی ہوں اور تمہارا وجود برداشت کرنا میرے لیۓ بہت مشکل ہے۔” اس نے تلخ لہجے میں کہا۔ عاشر کے صبر کا پیمانہ اب لبریز کر گیا تھا۔
“اتنی جلدی ہار مان لی؟ ابھی تو ساری زندگی آپ نے سسک سسک کر گزارنی ہے۔۔۔ حوصلہ رکھیں۔” وہ زچ ہوا۔
“تمہاری ابھی اتنی حیثیت نہیں ہے کے تم مجھے باتیں سناؤ۔ اپنی دو ٹکے کی حیثیت مت بھولو۔” مہرین نے ایک بار پھر اس کی روح کو زخمی کرنا چاہا تھا۔
”میں آپ کو طلاق نہیں دوں گا میں نے بابا جان سے وعدہ کیا ہے اور ہاں اتنا برا نہیں ہوں کے آپ کو طلاق دے کر خود برا بن جاؤں اور مزید یہ کہ اگر آپ کو طلاق لینا ہے تو کورٹ سے جا کر لے لیں۔” اس نے نفرت سے اپنی نگاہیں دوسری سمت کر لیں۔
”اگر میں خود کورٹ سے لے سکتی تو تم سے مطالبہ کر رہی ہوتی؟” اس نے اسے جتایا۔
”تو میں کیا کروں؟” اس نے بےفکری سے کندھے اچکائے اور پھر سے پھولوں کو پانی دینے لگا۔
”تمہاری اتنی اوقات نہیں ہے کہ تم مجھ سے ایسے بات کرو۔” اس سے پہلے کے وہ مزید کچھ کہتی عاشر کافون بجا اور وہ بات کرنے ایک کونے میں چلا گیا۔ مہرین سن رہی تھی کہ وہ بابا جان سے بات کر رہا ہے۔
”جی بابا جان مہرین کو اسلام آباد بہت پسند آیا ہے اور مجھ سے ضد کر رہی ہیں کہ انہیں ڈنر پر لے کر چلوں۔” وہ زور زور سے ہنستے ہوئے بات کر رہا تھا اور کتنی مکاری سے جھوٹ بول رہا تھا۔
”ارے ہم کل ہی ڈنر پر گئے تھے، آپ فکر نہ کریں انہیں دو دن میں ہی پورا اسلام آباد گھما دوں گا۔”
وہ بڑے آرام سے جھوٹی کہانیاں بابا جان کو سنا رہا تھا اور وہ اس کی باتوں پر یقین کر رہے تھے۔
فون بند کر کے وہ بہت آرام سے آکر پودوں کو پانی دینے لگا اور مہرین ہاتھ پر ہاتھ رکھے اس کے اچھا بننے کا ڈرامہ دیکھ رہی تھی۔
”مجھے یقین نہیں آ رہا کہ تم اس قدر گھٹیا انسان ہو گے۔” اس نے عاشر کی مکاری پر اس کو سنائی۔
”تعریف کے لیۓ شکریہ مگر ہاں آپ سے کم۔” آج وہ دوبدو اس کے مقابل کھڑا جواب دے رہا تھا۔
” مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ میں اب تک تمہارے ساتھ اس گھر میں کیوں ہوں۔۔۔” اس کے اندر بچپن کا زہر ابھی تک بھرا ہوا تھا۔
عاشر نے اپنی جیب سے ہیڈفونز نکالے اور گانا لگا کر دوبارہ پھولوں کو پانی دینے میں مصروف ہو گیا۔
”میں تمہیں برباد کر دوں گی عاشر! تم نے میرا سکون برباد کر دیا ہے۔” اس نے زور سے پاؤں زمین پر پٹخا اور غصّے میں وہاں سے چلی گئ۔
★★★★★
“I don’t know how to explain this۔”
عروسہ نے بہت ہی عجیب و غریب اکسینٹ میں زریاب سے کہا۔
”تو آپ تب کہاں تھیں جب میں یہ لیکچر دے رہا تھا؟” زریاب کو اس لڑکی کی لاپرواہی پر حیرت ہو رہی تھی۔
”It was so boring that it made me sleep۔”
”اس نے معصومیت سے کہا تو پوری کلاس قہقوں سے گونج اٹھی اور زریاب اس لڑکی کی بہادری پرحیران ہوا۔
” تو آپ دوبارہ کیوں نہیں سوجاتیں؟ میں نے آپ جیسی لڑکی اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھی!” زریاب نے غصّہ کنٹرول کرتے ہوئے کہا۔
پھر وہ سیٹ پر آ کر بیٹھ گئی اور زریاب نے سب کو اسٹیل آرٹس بنانے کیلیے ایک خالی گلاس دیا۔ سب اس کام میں مصروف ہو گئے سواۓ عروسہ کے جسے تو اسٹل آرٹس کا ایک لفظ بھی نہیں پتا تھا۔ زریاب باری باری سب کا کم چیک کرنے لگا لیکن عروسہ کے پاس آ کر اسکی ہنسی چھوٹ گی۔
” Pathetic”
اس نے اس کے کام کو دیکھ کر کہا جس پر عروسہ نادم ہونے کی بجاۓ ہنس پڑی۔
★★★★★
وہ دوپہر سے اکیلے بیٹھی بیٹھی تھک گئی تھی۔ اس کا اس گھر میں دم گھٹ رہا تھا۔ وہ یوں اکیلے بیٹھنے کے بجاۓ کہیں باہر جانا چاہتی تھی۔ اس نے جلدی جلدی کپڑے تبدیل کیے اور کہیں باہر جانے کے لیے نکلنے لگی تب ہی گل خان اس کے راستہ میں آ کر کھڑا ہو گیا۔
”مجھے یہاں سے دور کہیں خوبصورت جگہ پر لے چلو۔” اس نے فورا حکم نازل کیا اور گاڑی کا دروازہ کھول کر بیٹھنے لگی تو گل خان نے اسے روکا۔
”آپ کہیں نہیں جا سکتا !” گل خان نے گاڑی کے دروازے پر ہاتھ رکھ کر اس سے کہا۔
”عاشر صاحب نے کہا ہے کہ آپ کہیں نہیں جاۓ گا اور اگر جاۓ گا تو اس گاڑی میں نہیں جاۓ گا۔” اس نے جیسے ہی اپنی بات کہی تو مہرین کے تو ہوش اڑ گئے۔
”یہ کیا بکواس کررہے ہو تم؟ مجھے باہر جانا ہے مجھے جانے دو۔” وو زور زور سے چینخنے لگی۔
”ہم نے کہا نہ کہ تم کہیں نہیں جا سکتا۔” گل خان اسے سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا۔ گل خان نے دروازے پر تالا لگایا اور خود وہاں سے چلا گیا اور مہرین شدید غصّے اور رنج کے عالم میں اپنے کمرے میں چلی گئی۔
عاشر جب حسب معمول رات کو دیر سے آیا اور سیڑھیاں چڑھ کر اپنے کمرے میں جانے لگا تو مہرین نے اس کا راستہ روک لیا۔
”راستہ دیں مجھے۔” وہ اس وقت کافی تھکا ہوا تھا۔
”مجھے یقین نہیں آ رہا کہ تم اس قدر گرے ہوئے انسان نکلو گے۔” وہ کسی شیرنی کی طرح دھاڑی۔
” میرے پاس آپ کی کسی فضول بات کا جواب نہیں ہے۔” اسے اس وقت مہرین سے کوئی بات نہیں کرنی تھی۔
”اب تمہاری اتنی ہمّت ہو گئی ہے کہ تم مجھ پر پابندی لگاؤ گے یو بلڈی۔۔۔۔۔۔۔”’ مہرین نے زہر خند لہجے میں کہا۔
”اپنی حد میں رہیں اور یہ مت بھولیں کہ آپ اس وقت میرے گھر میں کھڑی ہیں۔” اس نے دو ٹوک انداز میں جواب دیا۔
”اور تم یہ مت بھولو کہ تم ساری زندگی میرے باپ کے احسانوں پر پلے ہو۔” اس نے فورا اسے احسانوں تلے دبانے کی کوشش کی۔
” ہاں مگر آپ یہ مت بھولیں کہ اب آپ میرے احسانوں کے بوجھ تلے جی رہی ہیں۔” اس نے بھی حساب برابر کیا۔ عاشر کو مہرین کو یوں تڑپتا دیکھ کر خوشی ہورہی تھی۔
” کون سا احسان؟” اس نے عاشر سے سوال کیا۔
”میں پھر دوہراتا ہوں احسان نہیں احسانات مہرین حسن!” اس نے گویا دو سیکنڈ میں مہرین کو عرش سے فرش پر پٹخ دیا تھا۔
مہرین کےماتھے پربل صاف نمایاں تھے۔
” میرا احسان اس سے زیادہ اور کیا ہو گا کہ میں نے آپ سے شادی کی جبکہ آپ میرے معیار پر پورا تو کیا آدھا بھی نہیں اترتیں اور آپ کی خوش فہمی دور کرنے کے لیے آپ کو بتا دوں کے آپ کے والد نے ہاتھ جوڑ کر مجھ سے التجا کی تھی کہ میں آپ سے شادی کر لوں۔ اب آپ کو پتا چلا ہوگا کے احسان تلے دبنا کیا ہوتا ہے؟ میں بھی اس کرب سے گزرا تھا جب آپ دن رات اپنے احسانات جتا کر میری روح کو زخمی کرتی تھیں۔۔۔۔۔” اب اس کی زبان اس کا ساتھ نہیں دے رہی تھی وہ بولتے بولتے چپ ہو گیا۔
” کیا بابا جان نے تم سے ہاتھ جوڑ کر التجا کی تھی؟” اس وقت اس کا دل کسی ننھی چڑیا کی طرح پھڑپھڑا رہا تھا۔
” جی ہاں ورنہ میں آپ سے شادی کی بجاۓ مرنا پسند کرتا۔” وہ آج پہلی بار مہرین کو اس کی حیثیت جتا رہا تھا۔
” اگر ایسا ہے تو تم مجھے اسی وقت طلاق دو۔” اس نےعاشر سے کہا۔
” میں نے آپ سے ہزار بار کہا ہے اور پھر کہوں گا کہ اگر آپ کو طلاق چاہیے توآپ کورٹ سے جا کر لے لیں مجھے بہت خوشی ہوگی مگر جب تک میں آپ کو اپنے سامنے ہی تڑپتا ہوا دیکھنا چاہتا ہوں۔” وہ آج مہرین کو ہارتا ہوا دیکھنا چاہتا تھا۔
”تو یوں بولو کہ تم اپنا بدلہ لے رہے ہو۔” وہ آہستہ آہستہ اپنے حواس کھو رہی تھی۔
”مجھے اگر بدلہ لینا ہوتا تو میں آپ کو وہ سزا دیتا جو آپ سوچ بھی نہیں سکتیں تھی مگر میں معاف کرنے والا اور سیکھنے والا شخص ہوں تو میں نے سوچا آپ سے سیکھی ہوئی سازشیں آپ پر ہی اپپلای کروں۔” اس نے زہریلی مسکراہٹ سے کہا تو مہرین بامشکل ہی سانس لے سکی تھی۔
”Now will you please excuse me?”
وہ یہ کہتا ہوا اپنے روم میں چلا گیا۔ اور مہرین دل ہی دل میں اسے کوس کے اپنی غبار نکلنے لگی۔
”تو یہ کھیل کھیلا ہے بابا جان کے لاڈلے نے۔۔۔ میں مہرین حسن اتنی جلدی ہر ماننے والوں میں سے نہیں ہوں۔” اس نے لب بھینچ کر سوچا۔
عاشر نے زور سے دروازہ بند کیا اور اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے بالوں کو نوچنے لگا۔ اسے وہ سب یاد آ رہا تھا جو مہرین نے اس کے ساتھ کیا تھا وہ بے عزتی اور وہ طنز کے تیر وہ کبھی نہیں بھول سکتا تھا۔
★★★★★
وہ آفس میں بیٹھا کام کر رہا تھا جب عدیل نے دروازہ کھٹکھٹایا۔
”آجاؤ!” اس نے فائلز اوپر نیچے کرتے ہوئے کہا۔
”یار کیا عاشر ہر وقت کام میں مصروف رہتا ہے؟ ” عدیل نے ناراضگی سے عاشر کو کہا جو اب بھی فائلز میں کچھ ڈھونڈھ رہا تھا۔
”تو کیا کام ایسے ہی چھوڑ دوں؟” اس نے فائلز کو کونے میں رکھتے ہوئے جواب دیا۔
”دیکھ یار اب تیری شادی ہو گئی ہے تمہیں اس وقت گھر پر ہونا چاہیئے مہرین بھابھی تمہارا انتظار کرتی ہوں گی۔” عدیل نے شرارتی انداز میں کہا تو عاشر کا رنگ فق ہو گیا۔
”مہرین بھابھی نہیں وہ چڑیل ہے اور وہ وقت دور نہیں جب وہ خود مجھ سے طلاق لے لے گی۔” اس نے بے فکری سے کہا۔
”مگر ابھی تو۔۔۔۔۔۔” عدیل نےابھی اپنی بات مکمل نہیں کی تھی کہ ایک اور ورکر نے اندر آ کر انہیں میٹنگ کے لیے بلا لیا۔
*******
فون بہت دیر سے بج رہا تھا مگر مہرین کو شاید پتا نہیں چلا۔ کچھ دیر بعد وہ فون کی بیل پر دوڑی دوڑی نیچے آئی۔
”ہیلو؟”
”ہیلو مہرین؟” ماما جان نے فون پر اسے مخاطب کیا۔
”ماما جان کیسی ہیں آپ؟ میں آپ کو مس کر رہی ہوں۔” اس نے افسردگی سے کہا۔
”میں بھی تمہیں مس کر رہی تھی اس لیے میں نے تمھیں فون کیا ہے۔” ماما جان نے اسے بتایا۔
”کیوں کیا بات ہے؟”
”میں سوچ رہی تھی کے وہاں آجاؤں تمہارے پاس تین دن کے لیے تمہارا دل بھی بہل جاۓ گا اور میرا بھی۔ میں تمہارے بابا جان کو خلیل کے پاس چھوڑ کر آؤں گی۔” انہوں نے یہ خوشخبری سنائی تو مہرین خوشی سے اچھل پڑی۔
” کیا واقعی؟ میں انتظار کروں گی۔” مہرین کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
“پرسوں انشااللہ میں آرہی ہوں عاشر کو بتا دینا یا سرپرائز رکھنا جیسے مرضی اور تم اپنا خیال رکھنا۔” انہوں نے مہرین کو تاکید کی اور فون بند کر دیا۔
مہرین کی تو خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہا۔ وہ جانتی تھی کہ اب اسے کیسے عاشر سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے۔
★★★★★
کلاس ختم ہونے کے بعد زریاب نے عروسہ کو اپنے آفس میں بلایا۔
”میں اندر آ جاؤں؟” اس نے دروازے سے جھانک کر زریاب کے چہرے کے تاثرات پڑھے۔
”آپ اندر آ چکی ہیں۔” زریاب نے سنجیدگی سے جواب دیا تو عروسہ چلتی ہوئی اس کی ٹیبل کے سامنے کھڑی ہو گئی۔
”آج آپ نے بہت غیر زمدارانہ انداز اختیار کیا ہے۔ یہ میں آپ کی پہلی غلطی سمجھ کر درگزر کر رہا ہوں۔ مگر اگر آیندہ آپ نے ایسا رویہ اختیار کیا اور ایسے بہانے بناۓ تو آپ اسٹوڈیو میں قدم نہیں رکھ سکیں گی۔ کیا آپ کو میری بات سمجھ آ رہی ہے؟” زریاب نے عروسہ سے پوچھا جوخاموشی سے کھڑی اس کی باتیں سن رہی تھی۔
”جی۔”
”گڈ! اب آپ جا سکتی ہیں۔” پھر وہ اپنے موبائل پر کوئی ویڈیو دیکھنے لگا۔ وہ ابھی جانے کے لیے مڑی ہی تھی کہ سامنے دیوار پر فریم کیے ہوئےاسکیچ پر اس کی کی نظر پڑی۔
وہ سکیچ کسی لڑکی کا لگ رہا تھا جسے بہت خوبصورتی اور نزاکت سے سکیچ کیا گیا تھا۔
”واہ! marvelous! یہ کس کا اسکیچ ہے؟” عروسہ تو جیسے اس تصویر میں گم ہو گئی تھی۔ زریاب نے جیسے ہی تصویر کو دیکھا اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔ دل جیسے دھڑکنا بھول گیا اور سانسیں جیسے رک سی گئی تھیں۔
”آپ جا سکتی ہیں۔” اس نے دروازہ کھول کرعروسہ کو اشارہ کیا اور اس کے نکلتے ہی زریاب نے دروازہ زور سے بند کیا اور پھر کرسی کا سہارا لے کر آنکھیں بند کر لیں۔
★★★★★
دروازے پردستک ہوئی تو بانو نے جا کر دروازہ کھولا۔ مہرین اس وقت جھاڑو دے رہی تھی۔ ماما جان کو دیکھ کر اس نے فوراً جھاڑو رکھ دی اور بھاگتی ہوئی آ کر ماما جان کے گلے لگ گئی۔
”ماما جان!” اس نے ان سے لپٹ کر پیار کا اظہار کیا۔مگر ماما جان اس کی حالت دیکھ کر پریشان ہو گئیں وہ اس حلیے میں ماسی لگ رہی تھی۔
”تم ٹھیک تو ہو نا مہرین؟” ماما جان فکرمندی سے اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے بولیں۔
”ہاں بس ذرا کام کر رہی تھی۔ آپ اندر آئیں۔” اس نے ان کے ہاتھوں سے سارا سامان لے کر نیچے والے کمرے میں رکھوا دیا۔ پھر وہ کچھ دیر بات چیت کرنے کے بعد ان کو ان کے کمرے میں لے گئی۔ کچھ دیر بعد اس نے سارے گھر کی صفائی کی اور رات کا کھانا بنایا۔ اس نے بانو کو تین دن تک کوئی بھی کام کرنے سے منع کر دیا تھا۔ جب عاشر کو پتا چلا کہ ماما جان آئی ہیں تو وہ ان سے ملنے چلا گیا۔
”آپ نے بتایا نہیں؟ “عاشر نے خشک لہجے میں پوچھا۔
”مہرین کو بتایا تھا۔ خیر آؤ کھانا کھاتے ہیں۔” انہوں نے عاشر کا ہاتھ تھاما اور دونوں کھانے کی ٹیبل پر بیٹھ گئے۔
سب لوگ کھانے کی ٹیبل پر بیٹھے ہوئے تھے اور عاشر حیرانی سے مہرین کو دیکھ رہا تھا کہ وہ کیوں آگے بڑھ بڑھ کر کام کر رہی ہے۔
”واہ مہرین! آپ نے اچھا کھانا بنایا ہے۔” ماما جان نے جوں ہی یہ کہا عاشر زور سے کھانسا۔ مہرین نے فوراً پانی عاشر کے ہاتھ میں تھمایا اور پھر ہلکا سا مسکرائی۔ عاشر کو ایک اور جھٹکا لگا تھا۔
” کیا ہوا عاشر تمہیں کھانا اچھا نہیں لگا؟” وہ دل ہی دل میں ہنس رہی تھی۔ عاشر کو سارا معاملہ سمجھ میں آ گیا کہ مہرین کیا کھل کھیل رہی ہے۔اس نے چپ چاپ کھانا شروع کیا لیکن ہر نوالہ اسے زہر جیسا کڑوا لگ رہا تھا۔
وہ دونوں بہت زیادہ نارمل ہونے کی اداکاری کر رہے تھے جس پر ماما جان کو شک ہو گیا تھا کہ کہیں تو کچھ گڑبڑ ہے مگر وہ سمجھ نہیں پا رہی تھیں۔
★★★★★
جب تک ماما جان وہاں رہیں مہرین نے سارا کام خود کیا صبح صبح لان کی دھلائی، دوپہر کا کھانا، شام کی چاۓ، رات کا کھانا اور پھر ہر چیز کو جگہ پر رکھنا وہ یہ سب بہت خوشی سے کر رہی تھی۔ ماما جان کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ مہرین اتنا کام کیوں کر رہی ہے۔ ان سے رہا نہ گیا تو انہوں نے یہی بات مہرین سے پوچھ لی۔
مہرین نے موقع دیکھ کر فورا اپنا دکھ نامہ ماما جان کے سامنے رکھ دیا۔
“تو تم پورا دن کام کر کے گزرتی ہو؟ مگر عاشر نے کہا تھا کے کام کرنے کے لیۓ کام والی آتی ہے؟” انہوں نے مہرین سے دریافت کیا کے وہ سارا کام کیوں کر رہی ہے۔ مہرین ک چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی اس نے موقع کا فائدہ اٹھا کر اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی بیان کی۔
“ماما جان آپ نہیں جانتی ۔۔۔۔” ابھی وہ یہ جملہ مکمل کرنے والی ہی تھی کے سامنے سے آتے عاشر نے اس کے پلان پر پانی پھیر دیا۔
“ماما جان کام والی سے زیادہ مجھے اپنی بیوی کے ہاتھ سے کیا ہوا کام اچھا لگتا ہے ۔۔۔” وہ یہ کہتے کہتے قریب آیا اور پھر اپنے بازوں کو مہرین کے گرد لپیٹ کر طنزیہ مسکرایا تو مہرین اسے خون خوار نظروں سے غورنے لگی۔
”یہ تو بہت اچھی بات ہے کہ تم نے ایک دوسرے کا ساتھ نبھانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔” ماما جان خوشی سے بولیں۔ مہرین نے اس کی اس حرکت پر اس کا ہاتھ نوچا تھا مگر وہ بلکل بغیر کوئی ایکسپریشن دئے آرام سے بیٹھا رہا۔
ماما جان کے جانے کے بعد عاشر نے مہرین کو کافی باتیں سنائیں جس پر ان دونوں کی کافی لڑائی ہوئی۔
”آئندہ اگر تم نے مجھے ہاتھ لگایا تو یاد رکھنا۔۔۔۔
I’ll kill you in your sleep”
اس نے اسے دھمکی دی۔
” ارے بلکل پھر تو مجھے بہت خوشی ہو گی مر کر کیونکہ مر کر آپ کی شکل تو نہیں دیکھنی پڑے گی۔” اس نے طنزیہ جواب دیا۔ مہرین نے سوچا کے اب وہ پہلے جیسا کمزور عاشر نہیں رہا ہے اس لیۓ اسے کسی طرح اپنی بات پر آمدہ کرنا ہوگا۔
”عاشر بہت ہو گیا ہے اب تم مجھے آزاد کر دو پلیز میں یہ سب اور برداشت نہیں کر سکتی۔” وہ عاشر سے التجا کرتے ہوئے بولی مگر وہ جواب میں صرف مسکرایا
”آپ التجا کرتی ہوئی اچھی لگتی ہیں مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں اتنا پاگل نہیں ہوں کہ آپ کو طلاق دے کر سب کی نظروں میں برا بن جاؤں میں نے ابھی ابھی یہ گیم جوائن کیا ہے مجھے بھی کچھ انجوائے کرنے دیں۔” وہ اب مہرین پر اپنی حیثیت واضح کر دینا چاہتا تھا۔
”میں آخری بار تم سے التجا کر رہی ہوں اس کے بعد جو ہوا اس کے زمہ دار تم خود ہو گے۔” وہ دھمکی دیتے ہوئے وہاں سے نکل گئی۔
****
سب لوگوں کے عجیب و غریب میسیجز آرہے تھے۔ وہ پھوٹ پھوٹ کے رو رہی تھی۔ ہر جگہ اس کی رسوائی ہوئی تھی۔ کہاں گیا تھا اس کا غرور؟ کہاں گیا وہ عاشر کو محفل میں ذلیل کرنا؟ کہاں گیا تھا وہ گھمنڈجس کے بنا پر وہ دنیا کو اپنے پیروں تلے کچل دیتی تھی؟
“What you married your stepbrother? This is the end of this world!” کسی نے یہ
مسیج اسے کیا تھا۔
ایک میسج ارحم سے طلاق سے متعلق بھی تھا جس پر اس کا دل پھڑپھڑانے لگا۔
وہ ایک دو دن سے کمرے میں بند ہوگئی تھی اور کمرے کی ہر چیز اس نے توڑ ڈالی تھی۔ اس کا ہاتھ زخموں سے چور تھا جو اس نے خود اپنے ہاتھوں کو دیوار سے مار مار کے زخمی کیئے تھے۔ اس کا سر چکرا رہا تھا، دماغ میں ٹھیسیں اٹھ رہی تھیں۔ آنکھیں رونے کی وجہ سے سرخ ہورہی تھیں۔ عاشر نے اسے طلاق دینے سے انکار کر دیا تھا اور سارے دوست اس کا مذاق اڑا رہے تھے۔ اس کی زندگی تماشہ بن کر رہ گئی تھی اسے اپنے جینے سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ اس نے دراز میں پڑی نیند کی گولیاں لیں اور اپنی آنکھیں موند لیں۔
********
وہ دونوں بھاگتے ہوئے اس کے کمرے کی طرف آئے۔ بانو تو مسلسل دعائیں کر رہی تھیں کے کچھ نہ ہوا ہو۔
“مہرین دروازہ کھولیں!” وہ دروازہ پیٹ کر چیخ رہا تھا مگر بہت دیر تک دروازہ نہ کھلنے پر اس نے اللّه کا نام لے کر دروازہ کا تالا توڑ ڈالا اور اندر گیا تو سامنے کا منظر دیکھ کر دونوں کے ہوش اڑ گئے۔ مہرین بستر سے لگی بے جان پھول کی طرح پڑی ہوئی تھی جس میں زندگی ہونے کا کوئی گمان نہیں تھا۔ منہ سے جھاگ نکل رہا تھا اس نے خودکشی کی کوشش کی تھی اور اب عاشر کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کے وہ کیا کرے۔
“مہرین!” وہ بہت زور سے چیخ کر بولا مگر شاید بہت دیر ہو چکی تھی
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...