“یہ کیا میں بارہ بجے آیا تھا اب تو دو بج رہے ہیں یعنی میں اتنی دیر سوتا رہا وہ جمائی روکتے ہوئے اٹھ بیٹھا تھا بیگم صاحبہ سے یہ نہیں ہوا جگا ہی دیتی مجھے ہوں فریش ہو کر دیکھتا ہوں اب کہاں ہے ”
لاؤنج میں بیٹھی ملکہ صاحبہ ٹی وی دیکھ رہی ہیں –
وہ اس وقت سفید شلوار قمیض میں ملبوس تھا اس کے پاس ہی صوفے پر بیٹھتے ہوئے بولا تھا –
“جی کھانا لگاؤں ”
حیرانگی ہے کوئی جواب نہیں دیا بلکہ کھانا کا پوچھ رہی ہے –
ہاں لگا دؤ بلکہ لاؤنج میں ہی اس ٹیبل پر لگا دؤ میں ایک ہی تو ہوں کھانا والا وہ ریموٹ اٹھا کر چینل تبدیل کرتے ہوئے بولا –
“جی جیسے آپ کی مرضی ”
یہ میرا وہم تو نہیں جناب کہ مزاج بدلے بدلے لگ رہے ہیں آج تو وہ دل میں اس کے بارے میں سوچ رہا تھا –
کھانا لگ گیا ہے کھا لیں وہ کھانا اس کے سامنے ٹیبل پر لگاتے ہوئے بولی خود بھی ساتھ بیٹھ گئی –
جی شکریہ وہ ٹی وی آف کرتے ہوئے کھانا شروع کرنے لگا –
آپ نے بھی لانچ نہیں کیا ابھی وہ پلیٹ میں اسے بریانی ڈالتے دیکھ کر حیرانگی سے بولا –
“جی وہ نرم لہجے میں بولی ”
آپ کر لیتیں یا مجھے جگا دینا تھا آپ کو بھی میری وجہ سے انتظار کرنا پڑا –
” جی کوئی بات نہیں ”
اتنا نرم لہجہ آج اس کو ہو کیا گیا ہے آخر
“ویسے آپ کھانا بہت اچھا بناتی ہیں اور بریانی تو مجھے بہت پسند ہے یہ بھی بہت اچھی بنائی ہے آپ نے ”
وہ کھانا کھاتے ہوئے بولا تھا –
” جی شکریہ ”
“کچھ زیادہ آج جی جی کر رہی ہے کیا بات ہو سکتی ہے”
وہ اس کا نرم لہجہ دیکھ کر حیرت میں مطلع ہو رہا تھا –
************
ایمان ایمان ۰۰۰۰
وہ اس وقت روم میں اپنے کپڑے پریس کرنے میں مصروف تھی جس وقت اسے سکندر کی آواز سنائی دی –
پتہ نہیں اب اس کو کیا ہو گیا ہے اتنا شور مچا رہا ہے –
“جی کیا بات ہے “وہ لاؤنج میں داخل ہوتی ہوئی اسے دیکھتے ہوئے بولی تھی
کیا چائے مل سکتی ہے وہ لاؤنج میں ٹی وی دیکھنے میں مصروف تھا –
“جی لے آتی ہوں ”
اوکے میں لان میں جا رہا ہوں باہر موسم اچھا ہو رہا ہے ایسا کرنا آپ چائے لے کر لان میں آجانا –
“اوکے ”
***** *****
اس وقت آسمان پر بادل تھے ٹھنڈی ہوا چلی رہی تھی وہ لان میں چیئر پر بیٹھ گیا اور ایمان کا انتظار کرنے کے ساتھ کچھ سوچنے لگا
“یہ لیں چائے ہوں تھنکس ”
وہ چائے دے کر جا رہی تھی کہ سکندر نے روک لیا اسے یہاں بیٹھو مجھے آپ سے بات کرنی ہے وہ اسے دیکھتے ہوئے بولا –
اف پتہ نہیں اب کیا بات کرنے لگا ہے-
کچھ سوچتے ہوئے وہ بھی چئیر پر بیٹھ گئی –
آج بتا دؤ یہ سب کچھ کب تک چلے گا کیا ساری زندگی ایسے گزار دیں گئی آپ وہ نرم لہجے میں بولا –
“اف یہ کیا بول رہا ہے ”
میں آپ کو ایک بات بتاتا ہوں میں تو جانتا بھی نہیں تھا کہ میری شادی آپ سے ہو رہی تھی –
“میں محبت تو آپ سے کرتا تھا ناں لیکن یہ شادی میں نے پاپا کے کہنے پر اور اللہ کی رضا سمجھ کر کی تھی کیونکہ مجھے اللہ پر یقین تھا کہ وہ جو کچھ بھی کر رہے ہیں میری بہتری کے لیے کر رہے ہیں ”
لیکن نکاح کے بعد میں آپ کو دیکھ کر حیران ہو گیا کہ یہ تو وہی لڑکی ہے جس سے میں محبت کرتا ہوں اور آج وہ میری بیوی بن چکی ہے –
اس کے لیے میں جتنا بھی اللہ تعالی کا شکر ادا کرؤں وہ کم ہے کہ اللہ تعالی نے ہی میری زندگی میں آپ کو شامل کیا اور مجھے میری محبت مل گئی –
یہ سب وہی باتيں کر رہا ہے جو میں اس کی ڈائری میں پڑھ چکی ہوں –
لیکن میں اب کوئی فیصلہ کرنا چاہتا ہوں میں جانتا ہوں زبردستی محبت نہیں کی جاتی یہ تو بس ہو جاتی ہے –
اسے آج اس کی باتوں سے ڈر لگ رہا تھا کہ پتہ نہیں کیا فیصلہ کرنا والا ہے –
وہ بول رہا تھا لیکن آج وہ خاموشی سے اس کی باتیں سن رہی تھی –
ایک بات بتائیں آپ نماز بھی پڑھتی ہیں کیا آپ کو اللہ پر یقین نہیں ہے وہ اسے دیکھتے ہوئے بولا –
مجھے اللہ پر یقین ہے ہر کسی کو وہ تو ہوتا ہے وہ اسے گھورتے ہوئے بولی –
اف عجیب باتیں کرتا ہے اب مجھے اللہ میاں پر بھی یقین نہیں ہو گا –
“تو پھر آپ نے کبھی یہ بات کیوں نہیں سوچی کہ اللہ تعالی ہمارے لیے جو کچھ بھی کرتے ہیں بہتری کے لیے کرتے ہیں اب نے تو آج تک اس شادی کو تسلیم نہیں کیا ”
وہ اس کے سامنے آج لاجواب ہو گئی-
“میں کوئی زبردستی آپ کے ساتھ نہیں کرنا چاہتا آج آپ سوچ کر بتا دیں آپ میرے ساتھ نہیں رہنا چاہتی تو میں آپ کو طلاق دینے کے لیے تیار ہوں اور آپ پر کوئی الزام نہیں آئے گا میں خود ہی کوئی طلاق کی وجہ بنا لوں گا ”
“کیونکہ میں آپ کو ہمیشہ خوش دیکھنا چاہتا ہوں میں جانتا ہوں آپ میرے ساتھ تو کبھی خوش رہے نہیں سکتی ہیں”
کیونکہ آپ کو تو نفرت ہے ناں مجھے سے رات تک آپ سوچ کر بتا دینا وہ اٹھتے ہوئے بولا اور کچھ سننے بغیر کار نکالتے ہوئے باہر چلا گیا –
“ہوں خود ہی بولتا گیا میری تو کوئی بات سننی نہیں ہر وقت ہیرو بنے کا شوق ہوتا ہے مجھے سے تو کچھ پوچھا نہیں ”
“آج میں نے اس کی ہر بات پر جی جی کی نرم لہجے میں بات کی یہ سب کچھ اسے نظر نہیں آیا اور تو اس کی پسند کی بریانی بھی بنائی ”
“پوچھ ہی لیتا کیا بات ہے آپ آج بدلی ہوئی لگ رہی ہیں ہوں یہ نہیں ہوا اسے اور اب اتنی باتیں سنا کر چلا گیا اف میں کیسے بات کرؤں گئی اب ”
اب اسے سکندر پر غصہ آرہا تھا –
**********
مجھے آج اس کے لہجے سے پتا لگ گیا تھا کہ وہ کوئی بات کرنا چاہتی ہے –
“لانچ کے بعد جب میں روم میں رائٹنگ ٹیبل سے آفس کے فائل اٹھانے گیا تو تب میری نظر ڈائری پر پڑی جو رات کو میں ٹیبل پر ہی بھول گیا تھا ڈائری دیکھ کر مجھے پتہ چل گیا وہ پڑھ چکی ہے اور اس لیے اس کا مزاج بھی آج بدلہ ہوا لگ رہا تھا ”
اب میں کب سے انتظار کر رہا ہے کوئی بات کرے گئی لیکن نہیں ملکہ صاحبہ تو کچھ کہنے کی ہمت نہیں کر رہی تھی
میں نے سوچا میں ہی بات شروع کر دؤں تاکہ اسے کہنے میں بھئی آسانی ہو جائے گی –
مجھے پتہ ہے اب غصہ تو اسے آ رہا ہوگا پر مجھے یقین ہے رات تک خود ہی سوری بول دے گئی اور کہہ دے گئی مجھے آپ سے محبت ہے –
اس وقت اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی اسے کے بارے میں سوچتے ہوئے –
**********
یار بیٹھو ڈنر کر کے جانا شاہ یار شادی پر آخری بار ملا تھا –
ہاں شاہ یار فرقان ٹھیک کہہ رہا ہے تم تو آج کل ملتے بھی نہیں –
احمد اور فرقان جانتے ہو بزنس میں آج کل بزی ہوتا ہوں –
لیکن سوری اب اتوار کی ہر شام تم دونوں کے نام لیکن آج ڈنر نہیں پھر کبھی سہی –
یوں کہہ ناں بھابی کے پاس اب جانے کی جلدی ہے -وہ مسکراہٹ ہوئے بولا
وہ تینوں ریسٹورنٹ میں کافی پینے کے بعد بیٹھے ہوئے تھے –
ہاہاہاہا ہاہاہاہا یار فرقان ایسی بات نہیں ہے تمہیں بتایا تو ہے آج کل سب گھر والے جرمنی گئے ہوئے ہیں تو گھر میں ہم دونوں ہیں اور اس وقت رات ہو رہی ہے اس لیے میں جا رہا تھا تمہاری بھابی اکیلی ہے گھر پر –
چل یار کیا یاد کرے گا پھر تم چلے جاؤ آج بھابی کی وجہ سے چھوڑ رہےہیں احمد مسکراتے ہوئے بولا تھا –
ہاں شاہ احمد ٹھیک کہہ رہا ہے ہم تو ڈنر کر کہ ہی جائیں گئے اب –
پھر تو تھنکس یارو وہ مسکراتے ہوئے بولا –
ٹھیک ہے پھر ملتے ہیں وہ کار کی چابی اٹھاتے ہوئے بولا –
**********
بیٹا کہاں جا رہے ہو وہ اس وقت وائٹ ٹی شرٹ اور بلیک جینز میں ملبوس تھا لندن سے آ کر ایک دن ریسٹ کے بعد آج وہ یونیورسٹی جا رہا تھا تاکہ ایمان سے مل سکے –
“ماما دوستوں کے پاس جا رہا تھا کب سےملا نہیں ہوں آپ کو تو پتا ہے وہ وضاحت دیتے ہوئے بولا کیونکہ سچ تو وہ بتا نہیں سکتا تھا کہ وہ یونیورسٹی اس لڑکی سے ملنے جارہا ہے نہیں تو وہ منع کرتیں وہ جانتا تھا ”
وہ جنید کو سیڑھیوں سے اترتے ہوئے دیکھتے ہوئے بولیں تھیں –
وہ اس وقت لاؤنج میں بیٹھی ٹی وی دیکھنے میں مصروف تھیں –
“اوکے بیٹا ”
ٹھیک ہے ماما پھر میں چلتا ہوں وہ قدم اٹھاتے ہوئے باہر چلا گیا –
*************
اکنامکس ڈیپارٹمنٹ میں بھی نظر نہیں آرہی ہے کینٹین میں بھی نہیں ہے –
کہاں ہو سکتی ہے وہ ایمان کو ڈھونڈ رہا تھا –
“کیا پتہ پھر آئی نہ ہو ”
چلو ایک چکر لگاتا ہوں یونیورسٹی کا کیا پتہ کسی لان میں بیٹھی ہوئی نظر آ جائے –
آج مل جائے تو بات کرتا ہوں اب بہت ہو گیا انتظار یا تو شادی کے لیے ہاں کہہ دے ورنہ اب میں زبردستی اس کو اغواء کر کے شادی کرؤں گا –
“خوش فہمی میں مطلع ہو رہے ہو گئی میں نے کب سے کچھ نہیں کہا اسے لیکن یہ وہ نہیں جانتی میں کبھی اپنے دشمن کو نہیں چھوڑتا ”
یہ تو اس کی دوست لگ رہی ہے اس کو ضرور پتہ ہو گا کہ وہ کہاں ہے –
“وہ چلتے ہوئے لان میں دیکھ رہا تھا کہ اچانک اس کی نظر فائزہ پر پڑی جو لان میں لڑکیوں کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی ”
پتہ نہیں اس کا نام کیا ہے ؟
وہ اس کے پاس آتے ہوئے بولا تھا –
سنیں کیا آپ میرے ساتھ آ سکتی ہیں کچھ دیر مجھے آپ سے بات کرنی ہے
وہ تو جنید کو دیکھ کر حیران ہو گی تھی جی –
جی میں آپ سے ہی پوچھ رہا ہوں –
جی چلیں وہ اٹھتے ہوئے بولی تھی –
“میں آپ سے یہ پوچھنا چاہتا تھا کہ آپ کی دوست آج نظر نہیں آ رہی ہے کہاں ہیں ”
وہ اس کے ساتھ چلتے ہوئے بولا –
جی وہ یونیورسٹی آج کل نہیں آرہی ہے
کیوں نہیں آ رہی ہیں ؟
اف کیا کرؤں بتاؤ یا نہیں پتہ نہیں آج یہ جنید آ کہاں سے گیا ہے چلو بتا ہی دیتی ہوں کیا پتا پھر باز آ جائے اپنی حرکتوں سے نہیں تو یونیورسٹی آتا رہے گا –
میں نے آپ سے کچھ پوچھا ہے آپ کیا سوچنے لگ گئی ہیں کچھ دیر اس کو خاموش دیکھ کر وہ بولا تھا –
جی کچھ نہیں وہ گبھرائے ہوئے لہجے میں بولی –
میں اتنا برا بھی نہیں جتنی آپ مجھ سے گبھرا رہی ہیں وہ مسکراتے ہوئے بولا –
“نہیں ایسی بات تو نہیں ہے ”
************
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...