ہر تخلیق کار کے باطن میں ایک نقاد پوشیدہ ہوتا ہے۔ یہ نقاد جیسے جیسے بڑا اور با شعور ہوتا جاتا ہے۔ تخلیق کار کا تخلیقی سفر بھی اپنی ارتقائی منزلوں کی طرف بڑھتا جاتا ہے۔ اردو ادب میں تخلیق کار کے تنقیدی رجحان کی ایک لمبی روایت ملتی ہے۔ میرؔ، غالبؔ، حالیؔ، شبلیؔ، سرسید، محمد حسینؔآزاد، پریم چندؔ، مجنوں گورکھپوری، فراقؔ، اقبالؔ، سجاد ظہیر، کرشن چندر، منٹو، عصمت چغتائی، اور علی سردار جعفری کے علاوہ بھی کئی اور نام اس روایت میں شامل کئے جا سکتے ہیں۔ اس روایت میں ایک نام جوگندر پال کے روپ میں جوڑنے کی جسارت کر رہا ہوں۔
تخلیق کار تنقید کو تخلیقی پیکر میں ڈھال کر آسان زبان اور سادہ بیانی کے ساتھ قارئین کو اپنی جانب متوجہ کرتا ہے۔ اس آسان زبان اور سادہ بیانی میں زبردست تہہ داری، گہرائی اور گیرائی ہوتی ہے۔ جوگندر پال نے ایک لمبا تخلیقی سفر طے کیا ہے۔ آج وہ اردو کے افسانوی ادب میں ممتاز حیثیت رکھتے ہیں۔
جوگندر پال ایک ایسا تخلیق کار ہے جس نے ایک طرف تو ترقی پسند تحریک کو ٹوٹتے بکھرتے اور زوال پذیر ہوتے دیکھا تو دوسری طرف جدیدیت کو نمودار ہوتے، بڑھتے اور پھر ختم ہوتے دیکھا۔ بیس برس گزر جانے کے بعد پھر اس نے ما بعد جدیدیت کی آواز سنی۔ لیکن اس کا دھیان اس اٹھنے والی آواز کی طرف بالکل نہ گیا۔ جس عہد میں جوگندر پال نے اپنا تخلیقی سفر شروع کیا تھا اس عہد میں کرشن چندر، راجیندر سنگھ بیدی، عصمت چغتائی، منٹو اور قرۃ العین حیدر وغیرہ افسانوی ادب پر چھائے ہوئے تھے۔ گویا معلوم ہوتا تھا انہیں حضرات پر افسانوی ادب ختم ہو جائے گا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ 1950ء کے بعد ایک اور نئی نسل ابھر کر سامنے آئی۔ اس میں ایک نام جوگندر پال کا ہے۔ ان پچاس برسوں میں ہندوستان کی، بدلتی، بگڑتی، سنورتی، بکھرتی، ہنستی اور روتی تصویر کا اگر جائزہ لینا ہے تو جوگندر پال کے تخلیقی سفر کا مطالعہ ناگزیر ہو جاتا ہے۔ میں اس مضمون میں تخلیق کار جوگندر پال نہیں نقاد جوگندر پال کی طرف آپ کی توجہ کا طالب ہوں۔ جوگندر پال کا مطالعہ بتاتا ہے کہ وہ چھُپے ہوئے نہیں، چھَپے ہوئے نقاد ہیں۔
جوگندر پال نے اپنے تنقیدی مضامین، اردو افسانے کا منظر نامہ، فکشن کی تنقید، نیا اردو افسانہ زبان و بیان کے مسائل، نئے افسانے کا تار و پود، کہانی کا آگا پیچھا، کہانی کار کے شخصی رویے جیسے اہم مضامین لکھ کر اپنے تنقیدی رجحان کو پیش کر دیا ہے۔ انہوں نے اردو افسانے کی ابتدا سے لے کر آج تک کے افسانوی سفر کا بڑی گہرائی سے مطالعہ کیا ہے۔ اور اس مطالعہ کو پیش کرنے میں بھی وہ پوری طرح کامیاب نظر آتے ہیں۔ انہوں نے جو عنوانات اپنے مضامین کے لئے قائم کئے ہیں۔ ان کے ساتھ پوری طرح سے انصاف کیا ہے۔
پریم چند اور افسانے کے ارتقاء پر اب تک کافی کچھ لکھا جا چکا ہے۔ ہرکسی نے اس سفر کا اپنے اپنے طور پر ذکر کیا ہے۔ پال صاحب نے بھی اسے اپنے طور پر بیان کیا ہے۔ وہ پریم چند کے تخلیقی سفر ‘‘ سوز وطن‘‘ سے گفتگو شروع کر کے ‘‘ کفن‘‘ پر ختم کرتے ہیں۔ پریم چند کے تخلیقی سفر کو انہوں نے بڑے خوبصورت لب و لہجہ میں بیان کیا ہے۔ یہاں ان کی زبان تنقیدی نہیں بلکہ تخلیقی پیکر میں ڈھل کر منظر پر آتی ہے۔ کہانی کار پریم چند خود ایک افسانے کا کردار معلوم ہونے لگتا ہے۔
‘‘ آدرش وادی دھنپت رائے نے کہانی کے سنگ اپنی گھر گرہستی تو بسالی، تاہم اپنی بیاہتا کی ٹوہوں میں شریک ہو کر جب اسے دھیرے دھیرے ادر اک ہونے لگا کہ آدرشوں میں کیونکر حالات کے جبر سے ناگزیر طور پر ترمیم واقع ہونے لگتی ہے۔ تو اس نے کسی قاضی کی طرح کرداروں کے سزانا مے لکھنے سے ہاتھ کھینچ لیا۔ اور فنکار کی طرح درد مندانہ فہم سے ان تک رسائی حاصل کرنے لگا۔ ‘‘ سوزوطن‘‘ سے شروع ہو کر ‘‘ کفن‘‘ تک آتے آتے پریم چند نے اپنے سینکڑوں افسانوں اور ناولوں میں اسی ہمدردانہ سوجھ سے اپنی یاترا پوری کی۔ اور جہاں سے اس کی یاترا پوری ہوئی وہاں سے نئے لکھنے والوں کو آگے کے راستوں کا بھی سراغ بہم پہنچنے لگا۔ پریم چند کے افسانوں، خاص طور پر اواخر کے افسانوں کی بدولت اردو افسانہ پہلی بار صحیح افسانوی زبان سے روشناس ہوا اور انسانی آدرشوں کو ان کے واقعاتی سیاق میں سینے پرونے پر حاوی ہونے لگا۔ ‘‘
پریم چند کے دور میں ہی افسانوی ادب میں ایک زبردست تبدیلی رونما ہوئی۔ جس کا اثر خود پریم چند پر ہوا۔ 1932ء میں ، انگارے ، کی اشاعت نے ادب میں ایک انقلاب برپا کر دیا۔ ان افسانوں میں ہم عصر مسائل بڑی بے باکی سے پیش کئے گئے تھے۔ بے باکی کا یہ انداز پریم چند سے کافی مختلف تھا۔ پہلی بار افسانہ ، انگارے ، کے ذریعہ اپنی محدود چہار دیواری سے نکل کر باہر آیا۔ اور لوگوں کو شدت کے ساتھ اپنی جانب متوجہ کیا۔ ، انگارے ، کا موضوعی مطالعہ کرتے ہوئے پال صاحب لکھتے ہیں۔
‘‘ اگرچہ پریم چند کا موضوعی تنوع بھی ہمیں فوری طور پر متوجہ کرتا ہے۔ مگر ، انگارے ، کی اشاعت 1932ء ہم عصر ہندوستانی زندگی کے وسیع تر موضوعات و مسائل پر محیط ہے ، انگارے ، کے افسانہ نگاروں سے فنی مسائل پر جھگڑا کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس سے انکار نہیں کہ ان دنوں ہندوستانی معاشرے کی اتھل پتھل بے دھڑک ، انگارے ، کی ہر کہانی میں اتر آئی ہے۔ جس دھکّے میں اردو کہانی گھر کی محفوظ چار دیواری سے باہر نکل آتی ہے۔ ‘‘
، انگارے ، کے افسانہ نگاروں سے فنی مسائل پر جھگڑا کیا جا سکتا ہے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ افسانے فنی اعتبار سے ذرا کمزور ہیں۔ لیکن ظاہر ہے کہ وہ صرف ان افسانوں کی فنی خامیوں تک ہی محدود نہیں رہتے بلکہ وہ ان افسانوں کی بدلتی ہوئی شکل کو بھی پیش کرتے ہیں۔ گویا چند جملوں میں انہوں نے اردو افسانے کے ارتقاء میں ، انگارے ، کی حقیقت متعین کر دی۔
اردو افسانوی ادب میں یقیناً ، انگارے ، نے ایک نئی روایت اور بغاوت کو جنم دیا۔ جس کا اثر آنے والی نئی نسل پر ہوا۔ 1934ء میں ترقی پسند تحریک وجود میں آئی۔ اس تحریک کے زیرِ اثر جو قلم کار ابھر کر سامنے آئے اور اپنی منفرد پہچان قائم کی ان میں کرشن چندر، راجیندر سنگھ بیدی، منٹو، عصمت چغتائی، احمد ندیم قاسمی اور حیات اللہ انصاری پیش پیش ہیں۔ ان اہم قلم کاروں پر پال صاحب کی بڑی گہری نظر ہے۔ وہ ان افسانہ نگاروں کا فنی اور موضوعی دونوں اعتبار سے مطالعہ کرتے ہیں۔ وہ نہ صرف یہ کہ ان افسانہ نگاروں کا مطالعہ کرتے ہیں بلکہ ان کے تنقیدی رجحان پر بھی روشنی ڈالتے ہیں۔ جس سے ان اہم قلم کاروں کے تنقیدی رجحانات ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ ان قلم کاروں کے تنقیدی رجحان کی کل خواہ کوئی اہمیت نہ رہی ہو لیکن آج ان کی اہمیت ہے اور ان کے رجحانات کا مطالعہ ناگزیر ہے۔
منٹو پر تنقید کرتے وقت جو ناقدین ان کے چندافسانوں کا ذکر کرتے ہیں اور ان میں خامیاں تلاش کر لیتے ہیں ان پر پال صاحب کا تنقیدی رویہ ذرا سخت معلوم ہوتا ہے۔ کیونکہ ایسے نقاد یقیناً قارئین کو گمراہ کرتے ہیں۔ اور پھر منٹو کی فنی خوبیوں کا ذکر کرتے ہیں۔ منٹو پر بے باکی سے کیا گیا مطالعہ نہ صرف یہ کہ منٹو کے فن اور شخصیت کو اجاگر کرتا ہے بلکہ اس سے خود پال کے فن اور شخصیت کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ ان کے فکری چشمے سامنے آ جاتے ہیں۔ اسی طرح انہوں نے دوسرے اہم قلم کاروں پر خاصی گفتگو کی ہے۔
پال صاحب حلقہ ارباب ذوق کا مطالعہ پیش کرتے ہیں تو ان کا تنقیدی رویہ بہت ہی سائنٹی فک ہوتا ہے۔ وہ کسی ایک خاص نظریہ کی پیروی کرنے والوں کی طرح گفتگو نہیں کرتے بلکہ حالات و ماحول، اسباب و علل کا جائزہ لیتے ہوئے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ حلقہ ارباب ذوق کیوں وجود میں آیا؟ جب اس پر پال صاحب نظر ڈالتے ہیں تو انہیں سب سے بڑی وجہ ترقی پسند تحریک پر کمیونسٹ پارٹی کی غیر ضروری مداخلت نظر آتی ہے۔ پارٹی کی مداخلت کا اثر یہ ہوا کہ ادب میں فنی خامیاں پیدا ہوتی گئیں۔ جب ادب، ادب نہ رہ کر اشتہاراتی ادب میں تبدیل ہونے لگا یا کیا جانے لگا تو کچھ لوگ جو ادب میں ہیئت کو کم اور معنی کو زیادہ اہمیت دیتے تھے اس کے مخالف ہو گئے۔ اس طرح چند قلم کاروں کا ایک گروپ تیار ہوا۔ پال صاحب کی نگاہ میں آج اس حلقہ ارباب ذوق کی کوئی اہمیت نہیں ہے لیکن جب یہ رجحان وجود میں آیا تھا تو ضرور اس نے ادب کو فائدہ پہنچایا تھا اور ادب کو فن کی طرف لانے میں اہم رول ادا کیا تھا۔ وہ لکھتے ہیں۔
‘‘ اگرچہ آج ان دنوں کے حلقہ ارباب ذوق کی کتابیت اور ضابطہ پرستی مضحکہ خیز معلوم ہوتی ہیں پھر بھی اس امر سے انکار نہیں کہ ترقی پسندوں کے روز افزوں اشتہار اور اسراف کی روک تھام میں حلقہ کا کام قابلِ قدر رہا ہے۔ ‘‘
پال صاحب جب ترقی پسند قلم کاروں کا مطالعہ کرتے ہیں تو صاف طور پر وہ کہتے ہیں کہ اس وقت حالات کچھ یوں ہو رہے تھے کہ بڑے بڑے ترقی پسند قلم کار بھی حلقۂ ارباب ذوق کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے کرشن چندر، بیدی اور اوپیندر ناتھ رشک کے نام بطور خاص لئے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں۔
‘‘ یہی وجہ ہے کہ کرشن چندر، بیدی اور اوپیندر ناتھ اشک جہاں کہلوانا تو ترقی پسند چاہتے تھے وہاں ان کی دلی خواہش سدا یہی رہی تھی کہ ان کی کہانیوں کو ارباب حلقہ کی جمالیاتی منظوری بھی حاصل ہو۔ ‘‘
پال صاحب کے مندرجہ بالا اقتباس سے نا اتفاقی بھی ظاہر کی جا سکتی ہے اور ان جملوں کو نظر انداز بھی کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ادب کے لئے ان دونوں باتوں سے بہتر اور صحت مند بات یہ ہو گی کہ ہم ان جملوں کی روشنی میں اس عہد کے حالات کا ایمانداری سے بہ غور مطالعہ کریں۔ عنقریب آزادی اور آ زادی کے فوراً بعد جو ترقی پسند ادب کا معیار قائم کیا گیا تھا اور ادب کو جدھر لے جانے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ ظاہر ہے کہ اس سے ایک صحت مند اور روشن خیال ادیب ضرور بچنے کی کوشش کرے گا۔ آزادی کا دور ایک ہنگامی دور تھا۔ اس لئے ترقی پسند تحریک میں شامل ادیبوں کی توجہ اس طرف نہ ہو سکتی تھی کہ جس کی طرف حلقہ ارباب ذوق نے توجہ دلائی تھی۔ یہ بات حلقہ ارباب ذوق کی حمایت میں نہیں کہی جا رہی ہے بلکہ یہ ایک سچائی کا اعتراف ہے۔ پال صاحب اس ادبی ہنگامی دور میں تحریک کی کیا صورتِ حال تھی کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں۔
‘‘ در اصل ملک کی آزادی اور تقسیم سے پہلے ہی ترقی پسند تحریک میں غیر ادبی عناصر کی پیدا کردہ نظریاتی اور کساد بازاری اور عملی سیاست سے ادیبوں کی زمین تنگ ہونی شروع ہو چکی تھی۔ اور تحریک کے بعض رہنماؤں کے یہاں اچھی کہانیوں کا یہ معیار تسلیم کیا جانے لگا تھا کہ وہ کہاں تک کمیونسٹ پارٹی کے مینوفسٹو پر پورا اترتی ہیں۔ ‘‘
پر بڑا تخلیق کار اس لئے بڑا ہوتا ہے کہ وہ آزاد ہوتا ہے۔ وہ تخلیقی کام کے لئے آزادی کو اولیت دیتا ہے۔ کیونکہ بندھے ہوئے اصولوں کی جکڑ بندیوں میں کوئی تخلیق بڑی اور اعلیٰ درجہ کی نہیں ہو سکتی اور یہی وجہ ہے کہ بڑا تخلیق کار اپنے آپ سے بھی تخلیق کو دور رکھتا ہے۔ اس لحاظ سے پال صاحب کا یہ خیال بالکل درست ہے کہ کوئی اچھی یا بلند پایہ کی کہانی اس لئے نہیں ہوتی ہے کہ وہ کسی نظریہ کی پابند ہو کر لکھی گئی ہے۔ بلکہ وہ اس لئے بڑی ہوتی ہے کہ وہ اپنے سیاق کے مخصوص تقاضے کو نبھاتی ہے یعنی وہ تخلیق کی منطق کے سبب بڑی ہوتی ہے۔ ‘‘
جدیدیت کے دور میں علامتی اور تجریدی افسانہ نگاری کو افسانہ کا معیار تصور کیا گیا۔ پال صاحب ان افسانہ نگاروں پر سخت تنقید کرتے ہیں جو افسانہ نگاری کے لئے نہیں بلکہ علامت اور تجرید کو ہی پیش کرنے کے لئے اس فن کا سہارا لیتے ہیں۔ جدیدیت کے اس رجحان نے تھوڑی دیر کے لئے افسانہ نگاروں کو اپنی جانب متوجہ کیا اور علامتی اور تجریدی اظہار کے لئے ان افسانہ نگاروں سے افسانے تخلیق کروائے۔ ایسی افسانہ نگاری اور افسانہ نگاروں کی جن نقادوں نے حمایت کی اور اس رجحان کو بڑھاوا دیا ان کی بھی پال صاحب مذمت کرتے ہوئے ان کے اس رویہ کی تردید کرتے نظر آتے ہیں۔ ‘‘ گذشتہ دنوں غالب ناقدانہ رائے کے زیرِ اثر بہت سے نئے لکھنے والے یہ سمجھ بیٹھے کہ نئی کہانی اظہار کے بعض نئے پیرایوں سے ہی منسوب ہے۔ سوادھر کہانیوں میں علامت اور تجرید کی اتنی لیپا پوتی کی گئی کہ کوئی علامتی یا تجریدی کہانی نہ ہو، علامتی یا تجریدی ہو۔ ‘‘
جدیدیت کی زندگی عام طور پر 1960ء تا 1970ء گردانی جاتی ہے۔ لیکن میرے نزدیک جدیدیت کی یہ عمر صرف شاعری کے لئے ہو سکتی ہے افسانوی ادب کے لئے نہیں۔ افسانوی ادب نے بہت جلد اپنے کو اس رجحان سے آزاد کر لیا تھا۔ اور نئے لکھنے والوں کو ایک نئی راہ دکھائی تھی۔ 1965ء کے آس پاس سے ہی ایک نیا رجحان افسانہ نگاروں میں نظر آنے لگتا ہے۔ اس رجحان نے آزاد قلم کاروں کی نمائندگی کی۔ یہ نئے افسانہ نگار نہ تو ترقی پسند تحریک کا اشتہاراتی آہنگ اور پارٹی کے مینوفیسٹو کو قبول کرتے ہیں اور نہ جدیدیت کے علامتی اور تجریدی دام کا شکار ہوتے ہیں بلکہ وہ کہانی کی مشرقی روایت کا لحاظ رکھتے ہوئے ایک بار پھر افسانے کو بیانیہ اور قصہ پن سے جوڑتے ہیں۔ افسانوی ادب سے دور بھاگنے والے قارئین کو ان نئے لکھنے والوں نے ایک بار پھر اپنی جانب متوجہ کیا۔ یہ ضرور ہوا کہ جدیدیت کی ہنگامی اور گرما گرم بحثوں کی وجہ سے ابتدا میں ان افسانہ نگاروں کی طرف قارئین کی نگاہ نہ جا سکی تھی۔ پال صاحب نے ان نئی لکھنے والوں کا بڑی سنجیدگی اور گہرائی کے ساتھ مطالعہ پیش کیا ہے۔ 1980ء کے بعد ایک اور نئی نسل ابھر کر سامنے آتی ہے اور ہر اعتبار سے قارئین کو اپنی جانب متوجہ کرتی ہے۔ ان کا بھی پال صاف اچھا مطالعہ پیش کرتے ہیں۔
جوگندر پال خواہ اپنے کو ترقی پسند تصور نہ کرتے ہوں تا ہم وہ ادب اور زندگی کے بھر پور حامی نظر آتے ہیں۔ وہ ادب کے بدلتے ہوئے لہجہ کو زندگی اور سماج اور اس کے عہد و ماحول سے جوڑ کر دیکھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ہر افسانے کے دو تخلیق کار ہوتے ہیں۔ ایک افسانہ نگار اور دوسرا افسانہ نگار کا زمانہ، افسانہ نگار کی ذاتی صلاحیت میں اس کے دور کی نمائندہ صلاحیت بھی کام کرتی ہے۔ پال صاحب ان لوگوں کو سچا اور حقیقی افسانہ نگار نہیں مانتے کہ جو ذات اور کائنات کو الگ کر کے افسانہ کی تخلیق کرتے ہیں۔
پال صاحب جو ہم عصر فکشن کی تنقید کا جائزہ لیتے ہیں تو ان کا مشرقی رجحان واضح طور پر نظر آنے لگتا ہے۔ وہ ان نقادوں پر سخت تنقید کرتے ہیں کہ جو مغربی نظریہ کی عینک لگا کر مشرقی ادب کو پرکھنے کا ڈھونگ رچتے ہیں۔ وہ مغربی پہچان پر بنائے گئے تنقیدی اصولوں کو مشرقی ادب کے لئے استعمال کرنا غیر صحت مند رویہ قرار دیتے ہیں۔ پال صاحب کا یہ خیال بالکل درست معلوم ہوتا ہے کہ اس طرح کے نقادوں نے اس لئے اس طرح کی تنقید کرنی شروع کی کہ انہیں مغرب سے بنے بنائے اصول بہ آسانی فراہم ہو گئے۔ جس سے خود انہیں کوئی محنت نہ کرنی پڑی۔ گویا ہم عصر نقاد یا تو خود کوئی اصول وضع کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور اگر صلاحیت رکھتے بھی ہیں تو وہ محنت نہیں کرتا چاہتے۔ ورنہ یہ مغربی نظریہ کو، ان کے بنائے گئے افسانوی اصولوں کو من و عن نہ قبول کرتے۔
1970ء کے بعد جب نئے لکھنے والے ابھر کر سامنے آئے تو ان کی زبان، ان کا لب و لہجہ اور انداز بیان ذرا مختلف تھا۔ لہٰذا ان نئے لکھنے والوں پر انگلیاں اٹھنے لگیں۔ سب سے زیادہ ان نقادوں نے اعتراض کیا کہ جو جدیدیت کی حمایت اور علامتی اور تجریدی افسانے کی زبان کو پسند کرتے تھے۔ لیکن جوگندر پال جیسے تخلیق کار اور دوسرے روشن خیال نقادوں نے اس کا استقبال کیا کہ بدلتے ہوئے ماحول، اور بدلتے ہوئے حالات میں اس طرح کی تبدیلی فطری ہے لہٰذا اس پر کسی طرح کی پابندی مناسب نہیں ہے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ جو گندر پال جیسے نقادوں نے ان نئے قلم کاروں کو پوری آزادی دے دی ہے۔ بلکہ یہ کہ انہیں اپنے تخلیق کاروں پر بھروسہ ہے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ کبھی بھی کوئی تخلیق کار ایسی زبان کا استعمال نہ کرے گا کہ جس سے اس کے فنی ارتقاء میں کسی طرح کی رکاوٹ پیدا ہو اور قارئین اس سے دور ہو جائیں۔ پال صاحب نے نئے افسانے کی زبان و بیان اور ہیئت و معنی کو لے کر کافی اچھی اور سلجھی باتیں کی ہیں۔ وہ الفاظ کی کسی بھی صورت تخلیقی ادب پر حکمرانی سے اختلاف کرتے ہیں۔ وہ صرف اچھی زبان کو فن کا معیار تصور نہیں کرتے۔ وہ لکھتے ہیں:
‘‘ اچھی زبان بھی اس وقت بری لگتی ہے جب بلاوجہ اپنی طرف متوجہ کر کے ہمیں ڈسٹرب کئے جانے پر اتر آئے۔ کسی بت کو دیکھ کر اگر بار بار اس کے پتھر کی بہتر کوالٹی کی طرف دھیان جائے تو ہم کیونکر باور کر پائیں گے کہ وہ ذی جان ہے۔ ‘‘
پال صاحب زبان و بیان کی آزادی کے حامی نظر آتے ہیں۔ کیونکہ وہ اس میں افسانوی ادب کا روشن مستقبل دیکھ رہے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
‘‘ افسانہ نگار کو اگر ہر دور کے مفاہیم کو گرفت میں لائے جانا ہے اور نئے نئے قارئین کو اپنے تخلیقی سفر میں شریک رکھنا ہے تو اس زبان و بیان کی آزادی بہر صورت بنی رہنی چاہئے۔ ‘‘
جس طرح علامت و تجرید اور استعارہ وغیرہ افسانوی ادب میں ثانوی حیثیت رکھتے ہیں اسی طرح حقیقت نگاری بھی افسانوں ادب میں اپنی ثانوی حیثیت رکھتی ہے۔ کیونکہ تجرید و علامت کی طرح صرف حقیقت نگاری بھی فنی افسانہ کی دلیل نہیں ہو سکتی۔ ان سب کا استعمال افسانہ کو بیان سے بیانیہ تک لے جاتا ہے۔ اور کسی واقعہ کو قصہ میں تبدیل کر دینا ہے۔
پال صاحب بیانیہ کو مرکزی حیثیت کی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ حقیقت پسندی ایک اچھی عادت تو ہے لیکن اس کی حیثیت ادب میں ثانوی ہے اور اسی لئے وہ ہم عصر زندگی میں سائنس سے پیدا شدہ حقائق کو قبول کرنے کی ضرورت کو محسوس کرتے ہیں۔ کیونکہ اگر ایسا نہ ہوا تو فن بے وقعت ہوتا چلا جائے گا۔ وہ لکھتے ہیں کہ زندگی محض اس لئے افسانہ نہیں لگتی کہ وہ آزاد روہے۔ فن کی معراج کا تصور بھی در اصل زندگی کے مانند آزادہ روی سے وابستہ ہے۔ جو کہانی کار اپنی کہانیوں میں واقعات کو قابلِ یقین بنانے پر اڑے ہوتے ہیں وہ اپنے اس کاز کی نفی کرتے ہیں جن پر وہ بہ ظاہر اڑے ہوتے ہیں۔
تخلیق کاروں یا کہانی کاروں کے شخصی رویے پر اگر کوئی بہتر طریقہ سے روشنی ڈال سکتا ہے اور اپنی باتوں سے قارئین کو مطمئن کر سکتا ہے تو وہ خود ایک تخلیق کار ہو سکتا ہے۔ تخلیق کار جوگندر پال جب کہانی کاروں کے شخصی رویے کو قلم بند کرتے ہیں تو قارئین شدت کے ساتھ ان کی جانب متوجہ ہوتے ہیں۔ ایک کہانی کار اگر یہ لکھے کہ کہانی کار کو اپنی ہنر مندی کی نمائش نہیں کرنی ہوتی بلکہ اپنی کہانی کو ویسے ہی جینا بھوگنا ہوتا ہے جیسے وہ زندگی کو جینے اور بھوگنے کا خوگر ہو۔ اگر وہ یہ کہے کہ آج ہماری کہانی کو سب سے زیادہ خطرہ در اصل اپنے لکھنے والوں سے ہی لاحق ہے تو ہم اس کی اس بات کو کسی بھی صورت میں نظر انداز نہیں کر سکتے۔
آخر میں تخلیق کار جوگندر پال کے تنقیدی رجحان کے سلسلے میں صرف اتنا ہی عرض کروں گا کہ ان کا یہ تنقیدی رجحان ایک سائنٹفک رجحان ہے۔ یہ رجحان افسانوی ادب کے مستقبل کے لئے ضرور مشعل راہ ثابت ہو گا۔
٭٭
‘‘ کیا تم دلیپ چندر پتر گیان چندر ہمیشہ کے لئے اپنا سارے کا سارا سیما پتری امیس رائے کے حوالے کر تے ہو؟
یہ کیونکر ممکن ہے کہ میں سداکے لئے اپنے آپ کو ایک ہی سیما کے حوالے کر دوں ؟ اس سیما کے پار ان گنت سیمائیں ہیں اور ان کے پار اور ان گنت سیمائیں، مگر میرے لمحاتی جذبے سے میری آنکھیں کھلی رہ گئیں ہیں اور میری اندھی اندھی گویائی نے بڑی معصومیت سے اقرار کر لیا ہے کہ مجھے یہی سیما سدا کے لئے قبول ہے۔ پر ایک ساعت کی بات سدا کی بات نہیں ہو تی، سدا کی بات تو ساعت ساعت بے ساعت ہو جاتی ہے میں چاہوں تو بھی ایک پل کی کیفیت کو ہمیشہ کے لئے اپنے اوپر کیونکر طاری کئے رکھوں ؟ میرے سارے وعدے منھ سے نکلتے ہی اسی پل نبھ جاتے ہیں اور نہ بھی نبھیں تو میں ذمہ دار نہیں، کیونکہ ایک آدمی سدا وہی ایک نہیں ہو تا۔ بس اسی ایک پل وہی ایک ہوتا ہے، اپنا کو ئی وعدہ نبھانے کا جتن کئے جانا خواہ مخواہ کسی مر کھپ گئے شخص کے وعدہ کو اپنے اوپر لادے چلے جانا ہے۔ وعدہ کرنا شاید غیر فطری نہیں پر وعدہ نبھانا بڑا غیر فطری ہے۔ میں اپنے ایک ساعت کے جذبے کے لئے ساری عمر کیوں قربان کروں۔ ایک ہی سیما اتنی بڑی زندگی کو کیسے سمیٹ سکتی ہے۔ ‘‘
(جوگندر پال کے ناولٹ ‘‘ بیانات‘‘ سے اقتباس)
٭٭٭
ماخذ: شمارہ ۲۳، عکاس انٹر نیشنل ، اسلام آباد
ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید