جی ایم ۔اصغر صدرشعبہ اردو پبلک اسکول (حیدر آباد )
افسانے میں ایک افسانہ چھپا ہوتا ہے جو انسان اور سماج کی ظاہری خوبیوں اور خامیوں اور خباثتوں کو بیان کر ہے ۔ افسانے کی تخلیق اردو ادب میں بہت عام لیکن اچھے افسانے کی تخلیق ا س دور میں نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہے۔
مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ امین جالندھری ان صاحب اسلوب افسانہ نگاروں میں شامل ہیں جنھوںنے عام ڈگر سے ہٹ کر افسانہ نگاری میں ایک خاص رنگ اختیار کیا ہے۔ ان کے افسانے نہ صرف اپنے بیانیے اور اسلوب بلکہ تکنیک اور تجربے کے لحاظ سے بھی منفرد ہیں۔ صوفی مسلک کا رچائو ، زمینی حقائق ،کچھ غم دوراں کچھ غم جاناں کی کسک، خود کلامی و مکالمہ ان کے افسانوں کی نمایاں خصوصیات ہیں۔ امین جالندھری اپنے افسانے کے پلاٹ پر اس کی عمارت تعمیر کرتے وقت خیالات کی رو میں بہتے چلے جاتے ہیں اور جب ان کا سفینہ قلم ساحل قرطاس پر پہنچتا ہے تو تخلیق کا تاج محل تعمیر ہو چکا ہوتا ہے۔
مجھے خوشی ہے کہ زوال ادب کے اس دور میں “حرف حرف کہانی” کی صورت کچھ خاص افسانے پڑھنے کو ملے۔ ایک نو آموز کی حیثیت سے امین جالندھری جیسے کہنہ مشق افسانہ نگار کے فن پر تبصرہ کرنا کسی گستاخی سے کم نہیں۔ لیکن حضرت کے پر زور اصرار سے رو گردانی کرنا بھی مجھ ناچیز کے لیے ممکن نہ تھا۔ سو اس عمل کو فرض سمجھ کر قرض اتار دیا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭