خدا خلّاق ہے انسان کی تخلیق کرتا ہے
یہی انساں پھر اپنی جستجو میں خود نئی تخلیق کرتا ہے
یہی انسان لفظوں سے ، سُروں سے اور رنگوں سے
کہیں نظموں ،کہیں نغموں،
کہیں پینٹنگز کو زنجیر کرتا ہے
یہ نظمیں ، گیت، تصویریں کہ تخلیقات ہیں اس کی
مگر اس کی طرح یہ سب بھی اپنے اپنے
جسموں کے گھروں میں
سانس لیتی ہیں،
معافی کے کئی پرتوں کی صورت خود نئی تخلیق
کرتی ہیں، نئی تخلیق میں پھر اپنی ہی تفہیم کرتی ہیں
یہ ہر خلاّق کا، تخلیق کا ، جیسے
خود اپنی کھوج، اپنی جستجو، تفہیم کا
تخلیق در تخلیق کا کوئی انوکھا سلسلہ سا ہے
اسی تخلیق در تخلیق ہی میں ارتقا کی داستاں
جادو جگاتی ہے
’کہانی ارتقا کی کیا فقط آگے کو ہی بڑھتی چلی جاتی ہے یا بس اک دائرے میں گھومنا اس کا مقدر ہے؟۔
زمانہ سوچ میں غلطاں و پیچاں ہے!
مگر مجھ سے مری اک نظم سرگوشی میں کہتی تھی:
”زمانہ جو بھی کہتا ہے، یقیناً اس کی ہر اک بات میں
اک جزوی سچائی بھی ہوتی ہے۔ کہانی ارتقا کی
آگے بھی بڑھتی ہے لیکن دائرے کی شکل میں
ایسے !“
یہ کہہ کر نظم نے اس دائرے کو
ڈرائنگ کر کے ہی دکھایا تھا کہ اس میں سے
کوئی الہامی نغمہ سا اُبھر آیا!