تخیل کی قوت کو حالیؔ شاعر کے لیے انتہائی ضروری خیال کرتے ہیں۔ اُن کے خیال میں :
’’سب سے مقدم اور ضروری چیز جو کہ شاعر کو غیر شاعر سے تمیز دیتی ہے قوت متخیلہ یا تخیل ہے ، جس کو انگریزی میں امیجینیشن کہتے ہیں۔ ‘‘
وہ اسے ایسی قوت بتاتے ہیں جسے محنت اور کوشش سے حاصل نہیں کیا جا سکتا، بلکہ یہ ایک فطری قوت ہے۔ اُن کے الفاظ میں :
’’یہ وہ ملکہ ہے جس کو شاعر ماں کے پیٹ سے اپنے ساتھ لے کر نکلتا ہے اور جو اکتساب سے حاصل نہیں ہوسکتا۔ اگر شاعر کی ذات میں یہ ملکہ موجود ہے اور باقی شرطوں میں جو کہ کمال شاعری کے لیے ضروری ہیں کچھ کمی ہے تو وہ اُسی کمی کا تدارک اس ملکے سے کر سکتا ہے ، لیکن اگر یہ ملکۂ فطری کسی میں موجود نہیں ہے تو اور ضروری شرطوں کا کتنا ہی بڑا مجموعہ اُس کے قبضے میں ہو وہ ہرگز شاعر کہلانے کا مستحق نہیں ہے۔ ‘‘
اس کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے حالیؔ لکھتے ہیں :
’’یہ وہ طاقت ہے جو شاعر کو وقت اور زمانے کی قید سے آزاد کرتی ہے اور ماضی و استقبال کو اُس کے لیے زمانۂ حال میں کھینچ لاتی ہے۔ وہ آدم اور جنت کی سرگزشت اور حشرونشر کا بیان اس طرح کرتا ہے گویا اُس نے تمام واقعات اپنی آنکھ سے دیکھے ہیں اور ہر شخص اس سے ایسا ہی متاثر ہوتا ہے جیسا کہ ایک واقعی بیان سے ہونا چاہیے۔ اُس میں یہ طاقت ہوتی ہے کہ وہ جن اور پَری، عنقا اور آب حیواں جیسی فرضی اور معدوم چیزوں کو ایسے معقول اوصاف کے ساتھ متصِف کر سکتا ہے کہ اُن کی تصویر آنکھوں کے سامنے پھر جاتی ہے۔ ‘‘
اس کی تعریف کرتے ہوئے حالیؔ لکھتے ہیں :
’’وہ ایک ایسی قوت ہے کہ معلومات کا ذخیرہ جو تجربے یا مشاہدے کے ذریعے سے ذہن میں پہلے سے مہیا ہوتا ہے یہ اس کو مکرّر ترتیب دے کر ایک نئی صورت بخشتی ہے ، اور پھر اُس کو الفاظ کے ایسے دل کش پیرایے میں جلوہ گر کرتی ہے جو معمولی پیرایوں سے بالکل یا کسی قدر الگ ہوتا ہے۔ ‘‘
اپنی اس بات کی وضاحت کے لیے وہ غالبؔ کے اس شعر کی مثال دیتے ہیں :
اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا
جام جم سے یہ مرا جام سفال اچھا ہے
اس کی وضاحت کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں :
’’شاعر کے ذہن میں پہلے سے اپنی اپنی جگہ یہ باتیں ترتیب وار موجود تھیں کہ مٹی کا کوزہ ایک نہایت کم قیمت اور ارزاں چیز ہے جو بازار میں ہر وقت مل سکتی ہے ، اور جام جمشید ایک ایسی چیز تھی جس کا بدل دنیا میں موجود نہ تھا۔ اُس کو یہ بھی معلوم تھا کہ تمام عالم کے نزدیک جامِ سفال میں کوئی خوبی ایسی نہیں ہے جس کی وجہ سے وہ جام جم جیسی چیز سے فائق اور افضل سمجھا جائے۔ نیز یہ بھی معلوم تھا کہ جام جم میں شراب پی جاتی تھی اور مٹی کے کوزے میں بھی شراب پی جا سکتی ہے۔ اب قوت متخیلہ نے اس تمام معلومات کو ایک نئے ڈھنگ سے ترتیب دے کر ایسی صورت میں جلوہ گر کر دیا کہ جامِ سفال کے آگے جامِ جم کی کچھ حقیقت نہ رہی، اور پھر اُس صورت موجود فی الذہن کو بیان کا ایک دل فریب پیرایہ دے کر اس قابل کر دیا کہ زبان اُس کو پڑھ کر متلذِّذ اور کان اُس کو سن کر محظوظ، اور دل اس کو سمجھ کر متاثر ہوسکے۔ اس مثال میں وہ قوت جس نے شاعر کی معلومات سابقہ کو دوبارہ ترتیب دے کر ایک نئی صورت بخشی ہے۔ تخیل یا امیجینیشن ہے اور اس نئی صورتِ موجودہ فی الذہن نے جب الفاظ کا لباس پہن کر عالم محسوسات میں قدم رکھا ہے اُس کا نام شعر ہے۔ ‘‘