مقالہ دبستان صبح، میں بیدل رقمطراز ہیں:
“تجدد امثال اشتعال ورق گردانی است و تجدد آثار بی اختیار معنی تازہ رسانی”
تجدد امثال بلا تکلف ورق گردانی کر رہا ہے اور تجدد آثار غیر اختیاری طور پر تازہ بہ تازہ معانی پیش کرنے میں لگا ہوا ہے.
“بہ تکلف اعزہ ناچار رنگ سودائی از کلک خیال بیرون ریخت و بآہنگ بہارستان جنون شور تحریری بر انگیخت”
.یعنی مجبوراً احباب کی فرمائش پر کلک خیال نے سودائی رنگ کی داغ بیل رکھی اور بہارستان جنوں کے عنوان سے شور تحریر بر انگیخت کیا۔ بقول بیدل یہ جنوں ہے جس نے ہر ایک مظہر قدرت کو اپنی آغوش میں لے رکھا ہے اور اشیا کو اپنے وظائف کی ادائیگی میں اعلے ذوق اور بہترین سلیقہ سے لگا رکھا ہے۔
بیدل کے مطابق معشوق حقیقی یعنی ذات احدیت تجدید ناز کہیے یا پھر لباس آرائی کی سخت مشتاق بے
ہر آن اس سے بیشمار تجلیات کا ظہور ہوتا ہے ۔ قرآن میں واضح اور دوٹوک الفاظ میں کہا گیا ہے ۔
إِذَا شِئْنَا بَدَّلْنَا أَمْثَالَهُمْ تَبْدِيلًا اور ایک دوسری آیہ میں کہا ہے
أَفَعَيِينَا بِالْخَلْقِ الْأَوَّلِ بَلْ هُمْ فِي لَبْسٍ مِنْ خَلْقٍ جَدِيدٍ *
محولہ بالا آیات سے خلق جدید اور تجدد امثال کا بین ثبوت ملتا ہے ۔ بیدل نے تجدد امثال پر بہت سے اشعار کہے ہیں، منفرد انداز اور شعری استدلال دلچسپ ہے۔
تجدید ناز آشفتۂ رنگ لباس آرائیت
بے پردگئ دیوانۂ رنگ نقاب افگندنت
بیدل
یعنی تجدید ناز، تیری لباس آرائیت کے رنگ کو آشفتہ کرتی ہے۔ بے پردگی دیوانہ وار طرح نقاب افگنی کے درپئے رہتی ہے۔یہی وجہہ ہے اسکی تجلیات کو استقرار نہیں ہے۔ تیرا ناز، تجدید کے شوق میں ہر آن میں بے شمار لباس بدلتا ہے اور دوسری طرف بے پردگی یعنی عریاں ہونے کے شغف نے تجھےدیوانہ بنا رکھا ہے۔ ناز بیشمار لباس پہنواتا ہے اور شوق عریانی اسی قدر انکےنقاب اترواتی ہے۔ ازل سے ابد یہی سفر جاری و ساری ہے ۔یعنی اس کی پردہ داری و پردہ دری کا عجیب سلسلہ چل رہا ہے۔
تکرار مبندید بر اوراق تجدد
تقویم نفس را خطہ پارینہ نباشد
بیدل
یعنی تکرار اوراق تجدد پر کوئی پابندی نہیں لگاتا ۔یہ مکتوب سانس کی تقویم سے پرانا نہیں ہوتا۔ یعنی ہر لحظہ نئی شکلیں ظاہر ہوتی ہیں۔
بیدل کے یہاں تجدد کا نظریہ قرآنی آیات کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے۔ انکے تجدد میں رجعت نہیں ۔ بیدل انسانی وجود کو شرر کے وجود طرح ایکبار ہی تسلیم کرتے ہیں۔ لہذا انکے نظریات کو آواگون کے عقیدہ سے خلط کرنا درست نہیں ۔تناسخ ایک اعتبار سے سائنسی عمل ہے یہ شعر کسی ہندوانہ شرح کا پابند نہیں ۔بلکہ یہاں شاعرانہ استدلال مراد ہے ۔وہ تناسخ کو وسیع معانی میں لیتے ہیں۔ تناسخ و تبدل کی کئی صورتیں ہیں۔
بقول رومی
ہفت صد ہفتاد قالب دیدہ ام
ہمچو سبزہ بارہا روئیدہ ام
بیدل اس قسم کا تناسخ مانتے ہیں
در مزاج اهل جهان صد تناسخ است نهان .
طفل شیر اگر نخورد خون دوباره خون نشود
بیدل
بہار وحدت است اینجا دویی صورت نمی بندد
خیال آیینہ دارد لیک بر روی تماشایی
یہاں وحدت کی بہار ہے دویی کا تصور نہیں کرسکتے آیینے میں عکس خیال ہے اسکے علاوہ اس کا کوئی وجود نہیں۔
گہر محیط توہمی نہ سفر گزین نہ اقامتی
قدم و حدوث تخیلی نہ شکستی و سلامتی
آدمی بحر توہم کا وہ گوہر مقصود ہے جو نہ اس محیط وجود میں نہ تو مقیم ہے اور نہ مسافر۔ تخیل جس قدم و حدوث کا احاطہ کرتا ہے اس کا نقطۂ انتہا بھی وجودآدم ہے۔ سالم ہو تو رنگ شکست اس سے ٹپکتا ہے اور اگر مائل شکست خیال تو رنگ سرمایہ اس کا سرمایہ معلوم ہوتا ہے ۔
بہ بیان کمال شریعتی بہ عمل شکوہ طریقتی
بہ خیال حشر حقیقتی تو قیامتی تو قیامتی
اس کا بیان مکمل شریعت اسلام، عمل شکوہ طریقت اور اس کا خیال بہار طریقت، یہ آدمی ہے یس کسی قیامت کا ظہور؟
مرغ لاہوتی چہ محبوس طبایع ماندہ ایک
شاہباز قدسی و بر جیفہ ای مایل چرا؟
اے لاہوت کےمرغ تو کیسےطبائع کا اسیر ہوگیا شہباز قدس ہو کر مردار کھانے کو کیسے مائل ہوا؟
شہباز قدسی اور مرغ لاہوت اقبال نے غالباً بیدل سے لئے ہیں۔
اے طاہر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہے پرواز میں کوتاہی
اقبال
گل نو بھار تنزھی ثمر نھال تجردی
بہ کجاست بار تعلقی کہ کشی بہ دوش فگندنی
اے انسان تو عالم تنزیہ کا گل نو بہار ہے اور جہان تجرید کا ثمر نہال، ہستی کا بار کیوں لاد رکھا ہے؟
خجل از لباس غرور شو بہ تجرد از ہمہ عور شو
کہ نشد ہوس بہ ہزار جامہ کفیل پوشش سوزنی
لباس غرور تیرے لئے عار ہے عالم تجرد ختیار کر سوئی ہزار جامہ سوزنی کے باوجود ننگی رہتی ہے۔
تیری دنیائے معنی وہ عالم تجرید ہے جسے صورت اورلفظ کے تصنع اور بناوٹ نے موہوم بنا کر رکھ دیا ہے گویا تو وہ تسبیح کا دھاگہ جو سو دانوں کے منہ سے گزر کر بھی ناپید ہے۔