بخارا سمرقند اک خالِ ہندو کے بدلے!
بجا ہے، بخارا سمرقند باقی کہاں ہیں؟
بخارا سمرقند نیندوں میں مد ہوش،
اک نیلگوں خامشی کے حجابوں میں مستور
اور رہروؤں کے لئے ان کے در بند،
سوئی ہوئی مہ جبینوں کی پلکوں کے مانند،
روسی “ہمہ اوست” کے تازیانوں سے معذور
دو مہ جبینیں!
بخارا سمرقند کو بھول جاؤ
اب اپنے درخشندہ شہروں کی
طہران و مشہد کے سقف و در و بام کی فکر کر لو،
تم اپنے نئے دَورِ ہوش و عمل کے دل آویز چشموں کو
اپنی نئی آرزوؤں کے ان خوب صورت کنایوں کو
محفوظ کر لو!
ان اونچے درخشندہ شہروں کی
کوتہ فصیلوں کو مضبوط کر لو
ہر اک برج و بارد پر اپنے نگہباں چڑھا دو،
گھروں میں ہوا کے سوا،
سب صداؤں کی شمعیں بجھا دو!
کہ باہر فصیلوں کے نیچے
کئی دن سے رہزن ہیں خیمہ فگن،
تیل کے بوڑھے سوداگروں کے لبادے پہن کر،
وہ کل رات یا آج کی رات کی تیرگی میں،
چلے آئیں گے بن کے مہماں
تمہارے گھروں میں،
وہ دعوت کی شب جام و مینا لنڈھائیں گے
ناچیں گے، گائیں گے،
بے ساختہ قہقہوں ہمہموں سے
وہ گرمائیں گے خونِ محفل!
مگر پو پھٹے گی
تو پلکوں سے کھو دو گے خود اپنے مردوں کی قبریں
بساطِ ضیافت کی خاکسترِ سوختہ کے کنارے
بہاؤ گے آنسو!
بہائے ہیں ہم نے بھی آنسو!
۔۔گو اب خالِ ہندو کی ارزش نہیں ہے
عذارِ جہاں پر وہ رستا ہوا گہرا ناسور
افرنگ کی آزِ خوں خوار سے بن چکا ہے۔۔
بہائے ہیں ہم نے بھی آنسو،
ہماری نگاہوں نے دیکھے ہیں
سیّال سایوں کے مانند گھلتے ہوئے شہر
گرتے ہوئے بام و در
اور مینار و گنبد،
مگر وقت محراب ہے
اور دشمن اب اس کی خمیدہ کمر سے گذرتا ہوا
اس کے نچلے افق پر لڑھکتا چلا جا رہا ہے!
ہمارے برہنہ و کاہیدہ جسموں نے
وہ قید و بند اور وہ تازیانے سہے ہیں
کہ ان سے ہمارا ستمگر
خود اپنے الاؤ میں جلنے لگا ہے!
مرے ہاتھ میں ہاتھ دے دو!
مرے ہاتھ میں ہاتھ دے دو!
کہ دیکھی ہیں میں نے
ہمالہ و الوند کی چوٹیوں پر انا کی شعاعیں،
انہیں سے وہ خورشید پھوٹے گا آخر
بخارا سمرقند بھی سالہا سال سے
جس کی حسرت کے دریوزہ گر ہیں