اخترالایمان
میری ماں اب مٹی کے ڈھیر کے نیچے سوتی ہے
اس کے جملے،اس کی باتیں،جب وہ زندہ تھی،
کتنا برہم کرتی تھیں
میری روشن طبعی،اس کی جہالت
ہم دونوں کے بین اک دیوار تھی جیسے
رات کو خوشبو کا جھونکا آئے۔ذکر نہ کرنا
پیروں کی سواری جاتی ہے
دن میں بگولے کی زد میں مت آنا
سائے کا اثر ہوجاتا ہے
بارش پانی میں گھر سے باہر جانا تو چوکس رہنا
بجلی گر پڑتی ہے،تو پہلوٹی کا بیٹا ہے
جب تو میرے پیٹ میں تھا میں نے اک سپنا دیکھا تھا
گود میں اپنی سانپ لیے بیٹھی ہوں
تیری عمر بڑی لمبی ہے
لوگ محبت کرکے بھی تجھ سے ڈرتے رہیں گے
میری ماں اب ڈھیروں من مٹی کے نیچے سوتی ہے
سانپ سے میں بے حد خائف ہوں
ماں کی باتوں سے گھبرا کر میں نے اپنا
سارا زہر اگل ڈالا ہی
لیکن جب سے سب کو معلوم ہوا ہے،
میرے اندر کوئی زہر نہیں ،
اکثر لوگ مجھے احمق کہتے ہیں