سیف محمد شیخ۔ سینئر نائب صدر، انجمن فدائیانِ پاکستان۔ رجسٹرڈ حیدر آباد
معروف مصنف، ادیب، نقاد، فسانہ طراز، بینکار قانونی مشیر، محمد امین جالندھری کی تصنیف نو “حرف حرف کہانی” بہ توسط جناب سید صادق حسین صادق عطا ہوئی حکم صادر ہو ا کچھ لکھیں۔ مصروف تعمیل ہوں۔
جناب محمد امین جالندھری کی پہلے دو حرف، بعدہ حرف حرف روشنی اور اب حرف حرف کہانی (شاید امین بھائی حرفوں کے بنے ہیں) کہانی ملی، پڑھی، اور پڑھتا ہی چلا گیا کچھ افسانے ایسے بھی ہیں کہ جو قاری کو تحیرات کی دنیا میں لے جاتے ہیں یعنی عجب محیر العقول مضامین۔ کتاب سے متعلق دو مضامین شامل اشاعت ایسے بھی ہیں جو کہ خواجہ غریب نواز ؒکے شہر اجمیر شریف سے آئے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ امین صاحب کی نسبت و عقیدت خواجہ صاحب سے زیادہ ہے اس موقع پر حضرت داغ دہلوی کا ایک واقعہ یاد آیا کہ جب نواب اودھ نے کسی بھی وجہ سے داغ صاحب کو ملازمت سے فارغ کر دیا اور وہ نان شبینہ کو محتاج ہو گئے بعد از وہ سلطان الہند کے دربار اجمیر شریف تشریف لائے کہ دربار چشت میں اپنی عرضی پیش کروں جب داغ صاحب اجمیر پہنچے تو ادبی حلقو ںمیں ہلچل مچ گئی کہ داغ صاحب آئے ہیں۔ داغ صاحب آئے ہیں چنانچہ ادبی تنظیموں نے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا اور ان کی صدارت میں درگاہ کے وسیع و عریض صحن جو کہ جنتی دروازے اور محفل خانہ کے درمیان ہے میں ایک محفل سخن سجائی گئی جس میں جناب داغ نے اپنی عرضی بصورت دعائیہ منقبت پیش کی ۔
یا خواجہ معین الدین چشتی سلطان الہند غریب نواز
یا واقف راز خفی و جلی سلطان الہند غریب نواز
لائی ہے مجھے امید کرم، اس خاک کی اور اس در کی قسم
آیا ہوں پہ حاجت طلبی، سلطان الہند غریب نواز
مونھ عیش و طرب نے پھیر لیا دن رات کے غم نے گھیر لیا
ہو داد طلب کی داد رسی، سلطان الہند غریب نواز
یہ داغ کہاں تک رنج سہے، تم سے نہ کہے تو کس سے کہے
تم آلِ نبیؐ، اولادِ نبیؐ، سلطان الہند غریب نواز
اس کلام نے گویا آگ لگادی اتنی پذیرائی ملی کہ اجمیر کے ہر شخص کے زیر لب یہ ہی مصرعے تھے۔ یہ شہرت اڑتے اڑتے نظام دکن تک پہنچی جب ان کے کسی درباری مشیر نے بتلایا کہ حضور نظام حضرات داغ نہ صرف فارغ ہیں بلکہ کسمپرسی کا شکار ہیں اور درگاہ غریب نواز میں یہ کلام پیش کیا ہے ۔ نظام نے یہ کلام اور واقع سن کر حکم دیا۔ کہ داغ صاحب کو فوراً بلایا جائے اور ہمارے دربار میں ملازمت پہ رکھا جائے اس طرح داغ صاحب کی عرضی شرف قبو لیت کو پہنچی یہ تو ایک ضمناً تحریر تھی اصل غایت تو یہ ہے کہ صاحب کتاب جناب محمد امین جالندھری کو خراجِ تحسین و سپاس اور ہدیہ تہنیت پیش کرتا ہوں اوردعا گو ہوں کہ رب العزت امین بھائی کو صحت و تندرستی کے ساتھ عمر ہزاری عطا فرمائے اور زورِ قلم میں مزید اضافہ و نکھار فرمائے۔ (آمین)
٭٭٭٭٭٭٭٭
تیرے دل میں گر نہ تھا آشوبِ غم کا حوصلہ
تونے پھر کیوں کی تھی میری غمگساری ہائے ہائے
عمر بھر کا تو نے پیمانِ وفا باندھا تو کیا
عمر کو بھی تو نہیں ہے پائیداری ہائے ہائے
(غالبؔ)