لاؤنج کے صوفے پہ بیٹھے بیٹھے ہی نہ جانے اس کی کس لمحے آنکھ لگی تھی۔جب کسی نے اس کے گھٹنے کو پکڑ کر ہلایا تو آنکھیں کھول کر دیکھنے لگی۔احمد اپنی خوبصورت گول گول آنکھوں سے اسے دیکھتا ہنس رہا تھا۔ماہ نور نے مسکرا کر اسے اُٹھایا اور اپنے برابر بٹھا لیا۔
میری جان کیا کر رہی ہے۔دھیمے سے اس سے پوچھتے اس کے پھولے پھولے خوبصورت گال کا بوسہ لیا۔تو وہ ہنستا اس کے پشت پہ دھرے بالوں کی چُٹیا سے کھیلنے لگا۔۔۔
احمد کیا کر رہے ہو؟ماہ نور نے اسے اپنی جانب متوجہ کرنے کے لئے اس کے بال بگاڑ کر پوچھا۔تو شرماتا اس کے بالوں کو چھوڑتا اس کے کندھے سے گال رگڑنے لگا۔
مانی۔۔۔آپ تا نام تا ہے؟(ممانی آپ کا نام کیا ہے؟)وہ اپنی توتلی زبان میں پوچھ رہا تھا۔ماہ نور مسکرا دی۔اور پیار سے اس کے گال کا ایک بار پھر سے بوسہ لیا۔
میرا نام ماہ نور ہے۔اور آپ کا؟
میرا امد(احمد)۔۔۔اس کا نام لیتے وہ پھر سے مسکرا یا تھا۔وہ بات بے بات مسکرانے والا بچہ تھا۔
آپ ہنستے بہت کیوٹ ہو احمد ۔اس نے کہا تو احمد نے معصومیت سے آنکھیں پٹپٹا کر اسے دیکھا۔اور ہونٹوں پہ زبا ن پھیرتا گویا ہوا تھا۔کا یوت کیا وتا اے۔(کیوٹ کیا ہوتا ہے۔)اس کے سر کو ہلانے اور بار بار ہونٹوں پہ زبان پھیرنے کے بعد پوچھے گئے سوال پہ ماہ نور مسکرائی تھی۔
کیوٹ احمد ہوتا ہے۔
احمد کے ہاتھ کی غلابی غلابی انگلیوں سے کھیلتے اس نے کہا تو وہ مسکرا دیا۔اسے صرف اپنا نام سمجھ آیا تھا۔
احمد نے پانی پینا ہے؟ماہ نور اس کو بار بار ہونٹوں پہ زبان پھیرتے دیکھ کر پوچھا۔تو وہ مسکرا اس کے کندھے میں منہ چھپاتا،سر ہلانے لگا۔ماہ نور مسکرا دی۔وہ اس سے پانی مانگنے آیا تھا شائد۔
اچھا میں ابھی لاتی ہوں ۔جانا نہیں۔۔۔اسے تاکید کرتے اس نے کہا ۔اور پھر کچن کی طرف بڑھ گئی۔کل سارے مہمان جاچکے تھے۔ولیمے کے بعد ہی سب چلے گئے تھے۔
باجی آپ کو کچھ چاہئے؟اسے اندر آتا دیکھ کر ظفر نے پوچھا تھا۔وہ سر ہلا کر فریج سے پانی کی بوتل نکال کر اور شیلف سے گلاس اُٹھا ئے واپس باہر آ گئی۔
لاؤنج میں ذریت احمد کے پاس بیٹھا تھا۔اور اس کے گال کھینچ رہا تھا۔جس پہ احمد نالاں نظر آتا تھا۔
ماہ نو ر کو دیکھ کر احمد کے چہرے پہ شرمیلی سی مسکراہٹ آ گئی۔اور ماہ نور کے پانی پلانے پہ پانی پینے لگا۔وہ رک رک کر پیتا تھا۔اور گھونٹ اتنے بڑے لیتا ۔کہ پانی ہونٹوں سے باہر نکل آتا۔ماہ نور کو وہ بچہ بہت پیارا لگتا تھا۔اسے وہ اپنا بچپن لگتا۔وہ پیار سے اُسے دیکھتی رہی۔
شام میں تم ہسپتال جاؤ گی۔فون پہ میسج کی بجتی گھنٹی دیکھ کر اور میسج پڑھتے اس نے پوچھا تھا۔ماہ نور نے چونک کر اُسے دیکھا۔اور سر اثبات میں ہلا دیا۔
ڈرائیور کے ساتھ چلی جانا۔۔۔فون پہ ٹائپنگ کرتے وہ کہہ رہا تھا۔ماہ نور نے کوئی جواب نہیں دیا۔
اس کا جواب نہ پا کر اسنے سر اُٹھا کر اُسے دیکھا تھا۔وہ قالین کو گھورنے میں مصروف تھی۔
میں تم سے مخاطب ہوں۔
اگر آپ میرے ہز بنڈ ہو کر میری ذمہ داری نہیں اُٹھا سکتے ۔تو مجھے کسی ڈرائیور کی مدد کی بھی ضرورت نہیں ہے۔میرے ہاتھ پاؤں سلامت ہیں ۔میں خود ہی چلی جاؤں گی۔اسے ذریت کی بات ایک آنکھ نہیں بھائی تھی۔اس لئے بغیر کسی لیحاظ کے کہہ گئی۔
پہلے بھی آپ ہر جگہ انکل اور اپنے بھائیوں کے ساتھ نہیں آتی جاتی ہوں گی۔میسج ٹائپ کر تے وہ مصروف سا کہہ رہا تھا۔
ماہ نور کے ماتھے پہ بل پڑ گئے۔میرے باپ بھائی کا ذکر مت کریں ۔آپ ان کا ہر گز بھی مقابلہ نہیں کر سکتے۔اور اُنہوں نے میری شادی اس لئے آپ سے کی تھی۔کہ ان کو لگا تھا۔کہ آپ ان کی بہن کی ذمہ داری اُٹھا لیں گے۔روکھائی سے کہہ کر وہ اسے حیران سا چھوڑ کر اُٹھ کر کمرے میں آ گئی۔
عورت کی زبان پتہ نہیں کس مٹی کی بنی ہے۔بڑ بڑا کر اس نے سکرین کو گھورا تھا۔ایک ادھر سر پہ بیٹھی باتیں سُنا گئی تھی ۔تو دوسری میسج پہ دماغ کا قیمہ بنا رہی تھی۔
وہ سر جھٹک کر احمد کو دیکھنے لگا۔جوجھک کر پاس پڑی کلرنگ بُک کے صفحے پھاڑ رہا تھا۔
میری جان یہ پھاڑنے کے لئے نہیں پڑھنے کے لئے ہوتے ہیں۔اس نے اسے اُٹھا کر گود میں بیٹھا یا ۔اورپھاڑی ہوئی بُک دیکھنے لگا۔جبکہ احمد کی جان پہ بن آئی تھی۔وہ ذریت کی گود میں کم ہی سوار ہوتا تھا۔
::::::::::::
آپ کل سے کہاں ہیں؟
وہ اکمل کے آفس سے ابھی فارغ ہو کر باہر نکلا ہی تھا۔جب نتاشا کی کال آئی تھی۔وہ آج سیاہ چیک والے کوٹ سوٹ میں ملبوس تھا۔جیل میں جکڑے بال ہمیشہ کی طرح اس کے ماتھے سے قدرِ اوپر جمے اچھے لگ رہے تھے۔
آفس میں بزی ہوں۔ کیوں؟کار کا دروازہ کھولتے ہاتھ میں پکڑی چابی کو انگیشن میں لگاتے ۔اس نے با رعب انداز میں پوچھا تھا۔
میرا دل چاہ رہا ہے۔آج آپ سے ملنے کو۔کہیں ملتے ہیں۔اپنے کمرے کے بیڈ پہ چونکڑی مارے بیٹھی۔۔۔ناخن چباتی نوین اور زرناب کی نظروں سے ٹپکتی شرارت کو محسوس کرتی ۔۔۔پُر عتمادی سے کہہ رہی تھی۔بظاہر حُکم دے رہی تھی۔
نہیں آج میں بزی ہوں۔۔۔پھر کبھی۔۔۔اور کچھ؟اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور آگے سے تکرار کرتی۔اس نے جھٹ بات ختم کی۔
نہیں مجھے آج رات میں آپ سے ملنا ہے۔اور آتے ہو ئے۔اپنا وہ ڈاراک براؤن کوٹ سوٹ پہن کر آنا۔ڈھٹائی سے کہہ کر اس نے فون رکھ دیا ۔
واہ کیا بات ہے۔۔۔کہانی اس موڑ تک آگئی اور ہمیں خبر بھی نہیں ہوئی۔نوین ستائش سے کہتی۔۔۔صوفے سے اکھٹے کئے گئے پاؤں سیدھے کر کے بولی تھی۔ساتھ ہی اس نے سامنے پڑی میز پہ پڑی پلیٹ سے پیسٹری اُٹھا لی۔
بس نتاشا جو چاہتی ہے۔حاصل کر لیتی ہے۔نزاکت سے صوفے پہ بیٹھ کر لٹکتے پاؤں کو جھلاتے اس نے کہا تھا۔
زرناب مسکرا دی۔
سچ بتاؤ۔۔۔ایسا کیا کِیا کہ وہ تمہاری سُننے لگا۔
میری جان حُسن ایک ایسا آلہ ہے ۔ایک ایسا منتر ہے۔جو بڑے سے بڑے چنگیز خان کو مسحور کر دے۔حسن اور وہ بھی محبوب کا،کچھ تو ایسا ہے ناں ۔جس پہ لاکھوں کی تعداد میں دیوان لکھے گئے۔چلتے کمرے کی دائیں جانب لگے واڈروب کے پٹ کھولتے اس نے کہا تھا۔زرناب اور نوین ہنس دیں۔۔۔اور ساتھ ہی اُٹھ گئیں۔
ٹھیک ہے۔رات میں ڈنر پہ کیا بات ہو گی بتانا۔ابھی ہم جا رہے ہیں۔دونوں ساتھ آئیں تھیں۔اور اب تو آئے بھی دو گھنٹے ہو چکے تھے۔نوین کے کہنے پہ اس نے سر ہلا کر انہیں بائے بولا تھا۔
ذریت کا موڈ اس وقت سخت آف تھا۔اس نے سر جھٹک کر گاڑی آگے بھگا دی۔
مجھے تو بس عورتوں کے ہی کام رہ گئے ہیں۔
:::::::::::::
دادی میرے بابا ٹھیک ہو جائیں گے ناں۔دادی کی گود میں سر رکھے وہ پوچھ رہی تھی۔دادی نے گہرا سانس لے کر اسے دیکھا تھا۔
ہاں میری جان ۔۔۔اللہ پاک پہ یقین رکھتے ہیں۔ہم اللہ کے بندے ہیں۔اور اللہ کے بندوں کی سب سے بڑی خوبی یہی تو ہوتی ہے۔کہ وہ ہر طرح کے حالات میں صبر کرتے ہیں۔اور اپنے یقین کو مشکل میں اور مضبوط کر لیتے ہیں۔ان کے لہجے میں بہت نرمی اور مٹھاس تھی۔ماہ نور نے ان سے زیادہ خوبصورت بولنے والی عورت شائد ہی کہیں سُنی ہو۔ان کے الفاظ نے اسے تھوڑا حوصلہ دیا تھا۔وہ اُٹھ کر بیٹھ گئی۔اور ان کے دونوں ہاتھوں کو نرمی سے اپنے سفید دودھیائی ہاتھوں میں تھام لیا۔
دادی جان آپ پلیز میرے بابا کے لئے دعا کریں۔میرا دل بہت ڈر رہا ہے۔میں نے کبھی ان کو اس طرح بے بس نہیں دیکھا ۔ جیسے میں نے اُنہیں کل دیکھا تھا۔مجھے ۔۔۔مجھے سوچ سوچ کر وہم ہونے لگتے ہیں۔میرا دل بند ہونے لگتا ہے۔جب یہ خیال کسی ناگ کی طرح میرے ذہن میں آتا ہے۔کہ۔۔۔وہ آگے سے جملہ ادھورا چھوڑ کر ایک بار پھر سے رونے لگی تھی۔آنسوں رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔کل رات سے وہ وقفے وقفے سے رورہی تھی۔اور اس کی حالت دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا تھا۔کہ وہ ایک یا دو دن کی دُلہن ہے۔اس پہ توبیواؤں کی سی اُداسی چھائی تھی۔دادی کے دل کو کچھ ہوا تھا۔اُنہوں نے بے اختیا ر اپنے پوتے کی لمبی عمر کے لئے دعا مانگی تھی۔اور ماہ نور کو اپنے سینے سے لگا لیا۔
بس کر و ماہ نور میری جان۔بھائی صاحب ٹھیک ہو جائیں گے۔اللہ ان کو ضرور صحت دیں گے۔وہ اس کی پشت سہلا رہی تھیں ۔اور دماغی طور پہ اسے پُر سکون بھی کر رہی تھی۔
ارے کیا ہوا؟مریم آپی ابھی ابھی احمد کو سلا کر ادھر آئیں تھیں۔دادی کے گلے لگ کرروتی ماہ نور کو دیکھ کر انہیں تشویش ہوئی تھی۔وہ کل سے اتنا رو چکی تھی۔کہ اب انہیں خوف تھا ۔کہ کہیں وہ بیمار نہ پڑ جائے۔
مریم آپی کے اس طرح پریشان ہو کر پوچھنے پہ دادی نے مدد طلب نظروں سے انہیں دیکھا تھا۔
مریم آپی سمجھ کر سر ہلا گئیں۔اور بڑھ کر اسے دادی سے ا لگ کیا۔
ماہ نور ۔۔۔رونا بند کرو شاباش ۔۔۔انکل ٹھیک ہو جائیں گے۔اُٹھو شاباش ظہر کی نماز پڑھو۔۔۔دعا مانگو۔۔۔بولنے کے ساتھ وہ خُود بھی اُٹھ کر کھڑی ہو گئیں تھیں۔اور ساتھ اسے بھی بازو سے پکڑ کر کھڑا کیا ۔
ایک بیٹی کے لئے باپ کیاہوتا ہے۔یہ مریم آپی سے زیادہ اچھے طریقے اور کون سمجھ سکتا تھا۔
جس وقت کمرے میں وہ داخل ہوا ماہ نور نماز کے لئے نئیت باندھے کھڑی تھی۔اور کمرے کے ماحول میں عجیب اُداسی سی تھی۔
وہ ابھی ابھی باہر سے لَوٹا تھا۔اور باہر سے آنے کے بعد عادت کے عین مطابق دادی کے کمرے کی جانب آیا تھا۔مگر وہاں کی خاموشی اور اُداس فضا نے اسے گھبراہٹ میں مبتلا کر دیا ۔
ذریت تم کہاں تھے صبح سے ؟دادی جو تسبیح میں مصروف تھیں۔پوتے کے بیٹھتے ہی اسے گھور کر دیکھا تھا۔اور پوچھا ۔وہ گہرا سانس لے کر صوفے سے اُٹھ کر ان کے پاس بیڈ پہ جا بیٹھا۔اور پاؤں سیاہ بوٹوں سے آزاد کر کے نیوی بلو کوٹ سے وجود کو الگ کر کے ان کہ گود میں سر رکھ لیا۔دادی نے اس کی جانب سے خاموشی نوٹ کی تھی۔
ذریت میں نے کچھ پوچھا ہے بچے۔
دادی جان آفس کے سلسلے میں با ہر تھا۔اکمل کے آفس چلا گیا تھا۔اس نے نہ جانے کیوں صفائی دی تھی۔
دادی نے اس کی پیشانی کو دیکھا۔اور جھک کر نرمی سے بوسہ لیا۔اس کی کل رات سے بے آرامی سے وہ آگاہ تھیں۔صبح بھی ہسپتال سے واپسی پہ وہ آرام کر نے کے لئے ایک سیکنڈ کے لئے بھی نہیں لیٹا تھا۔آدھے گھنٹے بعد ہی آفس چلا گیا تھا۔اور اب ظہر کے وقت اس کی واپسی ہو رہی تھی۔
وہ بازو آنکھوں پہ دھرے لیٹا تھا۔جب کسی کی ہچکی کی آواز نے اسے بازو ہٹاکر دیکھنے پہ مجبور کیا تھا۔ماہ نور سامنے ہی سجدے میں جھکی رو رہی تھی۔اس نے دادی کو دیکھا۔جو خود بھی تفکر کی لکیریں چہرے پہ سجائے اسے دیکھ رہی تھیں۔
یہ کب سے ایسے رو رہی ہے؟
صبح سے جب سے تم اسے گھر چھوڑ کر گئے ۔۔۔گہرا سانس لے کر اُنہوں نے کہا تھا۔وہ خاموشی سے ماہ نور کو دیکھنے لگا۔
وہ سجدے میں جھکی مسلسل رو رہی تھی۔تبھی مریم آپی بھی وضو کر کے کمرے میں داخل ہوئی تھیں۔انہوں نے ذریت کو وہاں دیکھا۔اور پھر بڑھ کر اس کے پاس بیٹھ گئیں۔
ذریت نے آپی کے آنے پہ ماہ نور سے نظر پھیر لی تھی۔اس کا رونے سے چہرا سرخ ہو رہا تھا۔اس نے سائڈ سے اس کے اُٹھتے دیکھ لیا تھا۔
ذریت تھوڑی دیر تک ماہ نور کو ہسپتال لے جانا۔انکل سے دور ہونے کی وجہ سے وہ ایسے بے چین ہے۔اور پلیز تم بھی ایک بار آرام سے نرمی سے سمجھاؤ۔۔۔کہ اس طرح رو کر خود کو ہلکان نہ کرے۔۔۔انکل ٹھیک ہو جائیں گے۔اُنہوں نے اسے سمجھایا تھا۔وہ سر اثبات میں ہلا نے لگا۔اور پھر ماہ نور سلام پیرتا دیکھا کر وہیں دادی کی گود میں لیٹے لیٹے ہی چہرے کا رخ بدل گیا۔
ماہ نور نے سلام پھیرتے ہی سب سے پہلے آنکھیں بند کئے لیٹے ذریت کو دیکھا تھا۔اسے دیکھتے ہی ماہ نور کو غصہ آیا ۔وہ رو رو کر اپنے باپ کے لئے ہلکان ہو رہی تھی۔اور جس کو اس کے سر کی چھت بنایا گیا تھا۔وہ آرام سے بستر پہ لیٹا ہوا نیند کے مزے لے رہا تھا۔وہ بہت نرم مزاج اچھی اور مثبت سوچ کی مالک لڑکی تھی۔مگر ذریت کے صبح کے روئے نے اسے خاصا بد زن کر دیا تھا۔وہ وہاں سے اُٹھ گئی۔
ماہ نور بیٹا کھانا کھا کر ہسپتا ل کا چکر لگا لینا۔شام مَیں میں اور مریم بھی آئیں گے ۔زریت تمہارے ساتھ ہی ہو گا پر یشان مت ہونا۔اور اپنے بابا کے سامنے زیادہ رونا مت۔وہ پریشان ہو ں گے۔دادی نے اسے اُٹھا دیکھ کر کہا تو وہ اثبات میں سر ہلا کر جائے نماز سمیت کمرے سے نکل گئی۔باقی کی نماز اس نے اپنے کمرے میں پڑھنے کا سوچا تھا۔
اس کے جاتے ہی ذریت نے آنکھوں سے بازو ہٹا لئے۔اور سامنے کی کھڑکی سے باہر اُڑ تے پرندوں کو دیکھنے لگا۔
::::::::::
ہلکے سروں پہ چلتے میوزک کی آواز کمرے میں بج رہی تھی۔اور وہ کمرے میں قدآدم شیشے کے سامنے کھڑی میک اَپ کر رہی تھی۔جب کوئی بہت تیزی سے اس کے کمرے میں داخل ہوا تھا۔داخل ہونے والے نے دروازہ بجانے کی بھی زحمت گوارا نہیں کی تھی۔اس نے تعجب سے ڈیڈ کو دیکھا۔اور ہاتھ میں پکڑی لپسٹک کو واپس رکھ دیا۔وہ رات کے ڈنر کے لئے تیار ہو رہی تھی۔
نتاشا یہ میں کیا سُن رہا ہوں۔کڑے تیوروں کے ساتھ اسے گھورتے وہ کہہ رہے تھے۔نتاشا نے ذرا چوکنی ہو کر انہیں دیکھا تھا۔
کیا ڈیڈ۔۔۔؟
تم نے اسفند اکرام سے منگنی ختم کر دی؟ان کے لہجے میں نرمی ہلکی سی بھی نہ تھی۔نتاشا ذرا سی ٹھٹکی اور کچھ سوچ کر سر نفی میں ہلا یا۔
نہیں ہر گز نہیں ۔۔۔بلکہ اسفند کو خُد ہی مجھ میں اب اٹریکشن فیل نہیں ہوتی ۔اس لئے ایسے فضول سے بہانے اور وہ بھی جھوٹے بہانے بنا بنا کر رشتہ ختم کر نے کے در پہ ہے۔اس نے صاف جھوٹ بول دیا تھا۔ابھی اس کی اورذریت کے حالات کے پیشے نظر شادی ممکن نہیں تھی(یہ ذریت کا خیال تھا۔)اس لئے اس نے بات کو پھیل جانے سے روکا تھا۔
ڈیڈ نے وہیں کمرے کے وسط میں کھڑے کھڑے ایک ابرو اُٹھا کر اسے دیکھا تھا۔
تم جانتی ہو۔وہ ہمارے بزنس کے لئے کتنا ضروری ہے۔اسے ہاتھ سے ہر گز جانے نہیں دینا ہے ہم نے۔اگر وہ ہاتھ سے چلا گیا۔تو ہمارے بز نس کو جو تھوڑی بہت ساکھ ملی ہے۔وہ بھی اس کے پیچھے ہٹتے ہی واپس گِر جائے گی۔ان کی بات میں چھپا لالچ صاف محسوس کیا جاسکتا تھا۔اس نے سر اثبات میں ہلا دیا۔
ڈیڈ آپ کی وجہ سے صرف آپ کی وجہ سے میں اسے بر داشت کر رہی ہوں۔ورنہ آپ جانتے ہیں شادی وغیرہ میں مجھے بلکل بھی دلچسپی نہیں ہے۔اس نے ناک سے مکھی اُڑا کر کہا تھا۔اور ڈیڈ جیسے کِھل سے گئے۔
بس میری جان کچھ دیر بر داشت کر لو۔پھر میں تمہیں زیادہ دیر اسے بر داشت کر نے کو نہیں کہوں گا۔وہ ایک ساٹھ کے ہندسے کو چھوتی عمر کے گریس فل انسان تھے۔ان کے چہرے کی تراشی ہوئی موچھیں ان کے گندمی سے جھریوں سے پاک چہرے پہ خوب جچ رہی تھیں۔اور ان کی شخصیت کو دیکھ کر کوئی بھی اندازہ نہیں لگا سکتا تھا ۔کہ وہ کس قسم کی ذہنیت رکھتے ہیں۔
صرف آپ کی خاطر ۔۔۔مسکرا کر اس نے کہا تھا۔وہ مسکرا کر اسے سر سے پاؤں تک دیکھتے واپس مُڑ گئے۔
وہ کہاں جا رہی ہے۔یہ اُنہوں نے پوچھنا ضروری نہیں سمجھا تھا۔وہ اپنی مرضی کی مالک ہے۔جو چاہے کرے۔یہ ان کا خیال ہے۔
نتاشا نے ڈیڈ کو کمرے سے جاتے دیکھا۔تو اٹکی سانس جیسے بہال ہوئی ۔شکر ہے۔۔۔اگر ڈیڈ کو خبر ہو جاتی ۔وہ مجھے زندہ نہ چھوڑتے۔بلکہ کوئی شک نہیں کہ اسفند اکرام سے ابھی نکاح کروا دیتے۔ذرا سا کپکپا کر اس نے واپس چہرا شیشے کی جانب موڑ لیا تھا۔
ذریت اس کی زندگی میں کیا اہمیت رکھتا تھا۔کاش یہ بات کوئی سمجھ سکتا۔وہ تو اس ے ہر سانس کے ساتھ سوچتی تھی۔اس کے بس میں نہیں تھا۔ورنہ وہ کبھی اس کے لئے اتنے دیر خوار نہ ہوتی۔البتہ یقینِ کامل تو اسے اب بھی تھا۔کہ وہ اسے چھوڑ کر کہیں نہیں جائے گا۔بس یہ اگر ڈیڈ نام کی ہڈی نہ ہی ہوتی تو کیا ہی اچھا تھا۔
::::::؛::؛
جس وقت وہ کمرے میں واپس آیا وہ ابھی تک جائے نماز پہ تھی۔وہ خاموشی سے باتھ روم کی جانب بڑھ گیا۔اسے کچھ دیر پہلے ہی ابرار کی کال موصول ہوئی تھی۔انکل کی طبیعت کافی بگڑ رہی تھی۔وہ کل سے ایمرجنسی میں تھے۔ مسلسل بے حوشی کے زیرِ اثر تھے۔اوردل کام کرنے سے انکاری تھا۔
اب ڈاکٹرز کا خیال تھا ۔کہ ان کے دل کی دھڑکن کو نارمل کرنے کے لئے وقتی طور پہ پیس میکر کو لگا دیا جائے جس کے لئے ان کے سینے کا مائنر اپریشن کیا جانا تھا۔اب اسی کے لئے اُنہیں جانا تھا۔
ماہ نور تیار ہو جاؤ۔ہم انکل سے ملنے جا ہے ہیں۔واش روم سے وہ فریش ہو کر نکلا تھا۔جب گیلے بالوں کو خشک کرتے اس نے ماہ نور کو دیکھا۔وہ اُداسی سے ہاتھوں کی ہتھیلیاں دیکھ رہی تھی۔چہرہ ابھی بھی گہرے امرود رنگ دپٹے کے ہالے میں تھا
میں آپ کے ساتھ نہیں جاؤں گی۔اسے اس کی صبح کی بات یاد تھی۔وہ اس سے اس قسم کی سنگ دلی کی ہر گز اُمید نہیں کر سکتی تھی۔اب اس کے بولنے پہ بھی ماہ نور کا دل صاف نہیں ہو سکتا تھا۔وہ جو بال خشک کرتا
شیشے کے سامنے کھڑا تھا۔حیرت سے مُڑا تھا۔
اچھا۔۔۔صبح تو بڑا بول رہی تھی۔بڑا ذمہ داری ۔۔۔ذمہ داری کر رہی تھی۔اب کیا ہوا۔اس نے قدرِ نا گواری سے کہا تھا۔اسے عادت نہیں تھی۔نرمی سے بات کرنے کی۔اس لئے غیر دانستہ بول گیا۔ ماہ نور نے چہرہ موڑ کر بڑے سرد انداز میں اسے دیکھا تھا۔
ہاں تو اگر آپ کو احساس ہوتا ۔تو آپ مجھے واپس لاتے ہی کیوں۔اور لے آئے تھے۔تو لے بھی جاتے۔مگر آپ نے صاف انکار کر دیا۔۔۔آپ کو لگا۔میں آپ کی محتاج ہوں۔
میں زیادہ باتیں سُننے کے موڈ نہیں ہوں۔چُپ چاپ چادر اُٹھاؤ۔اور میرے ساتھ آؤ۔اس نے اب کی بار رُکھائی سے کہا تھا۔ماہ نور نے سر جھٹک کر چہرہ واپس موڑ لیا۔
جب ماں نہ ہو۔باپ بستر پہ پڑا ہو۔تب آپ جیسے ایسے ہی باتیں سُناتے ہیں۔وہ اس وقت خُد ترسی کی انتہا پہ تھی۔
میرے جیسے سے کیا مطلب۔۔۔اور شادی کی خواہش آپ محترمہ کی تھی۔میں انکار کر چکا تھا۔اس نے اب کی بار روکھائی سے کہا ۔تو ماہ نور نے ہونٹ بھینچ لئے تھے۔
آپ میں اگر اتنی ہی ہمت تھی۔تو کر دیتے خود انکار۔۔۔اور آپ میں کوئی ایسی خوبی نہیں ہے۔جس کی وجہ سے میں یا کوئی اور احمق لڑکی آپ کے پیچھے اپنے آپ کو ساری زندگی عذاب میں مبتلا رکھتی۔اس نے صبح کی ساری آگ بھی ابھی نکال دینا ضروری سمجھا تھا۔ذریت جو ہاتھ میں برش پکڑے کھڑا تھا۔بڑے غصے سے مُڑا تھا۔
اب تم زیادہ بول رہی ہو۔۔۔انگلی اُٹھا کر لہجے کو دھیمہ رکھتے اس نے کہا تھا۔
ماہ نور اُٹھ کر سامنے آ گئی۔۔۔نہیں کچھ زیادہ نہیں ہو رہا۔میں بس آپ کو احساس دلا رہی ہوں ۔کہ مجھے کمزور سمجھ کر کوئی بھی بات بولنے کی یا طنز کرنے کی غلطی بھی مت کیجئے گا۔کیونکہ اب میں لیحاظ نہیں کروں گی۔اور اگر آپ نے ذرا سا بھی مجھے رعب دیکھانے کی کوشش کی تو یاد رکھئے گا۔کہ میں آپی دادی اور ابرار بھائی کو بتا دوں گی۔وہ ایک ہی سانس میں سب واضح کر گئی تھی۔ذریت سینے پہ بازو باندھے اسے دیکھتا رہا تھا۔اس کے چُپ ہو نے پہ ایک نا گوار نظر ڈال کر واپس پھر سے شیشے کی جانب مُڑ گیا۔
اپنے چھوٹے سے ذہن میں ایک بات بٹھا لو۔کہ مجھے تم میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔تم جو مرضی کرو میری بلا سے۔۔اور اب کچھ بھی بولے بغیر باہر نکلو۔۔۔کچھ دیر میں مجھے ایک میٹنگ کے لئے بھی جانا ہے۔دادی کی تاکید نہ ہوتی ۔تو وہ کبھی اسے اس قدر بد تمیزی پہ دوبارہ نہ بولتا۔مگر وہ دادی کی نظر میں بُرا بننا ہر گِز افورڈ نہیں کر سکتا تھا۔
::::::::::
سورج کی نرم نرم حدت میں بیٹھ کر کینوں کھانا،ایک بہت دلچسپ ا مر تصور کیا جاتا ہے۔وہ بھی اس وقت لان کے وسط میں بیٹھی لان چئیر پہ ٹانگیں اکھٹی کئے کینوں کی ٹوکری جھولی میں دھرے دھڑا دھڑ کینوں چھیل چھیل کر غڑپ غڑپ کھانے میں مشغول تھی۔جب پھوپھو عین اس کے پیچھے آن کھڑی ہوئی تھیں۔
صدقے جاؤ ں موٹی ۔۔۔کیا یاجوج ماجوج سے شرط لگائی ہے کھانے کی؟مسکراہٹ کو ہونٹوں کی دہلیز پہ چھپاتے اُنہوں نے پوچھا تھا۔فرح نے ایک مصنوعی نا گوار نظر ان پہ ڈالی ۔مگر پھر کچھ بھی بولے بغیر خاموشی سے کھانے میں مصروف رہی۔
بولو بھی۔۔۔کونٹیسٹ میں انعامی رقم کتنی رکھی گئی ہے؟اس کے کندھوں کو دباتے اُنہوں نے پھر سے چھیڑا تھا۔
کیا ہے پھوپھو۔۔۔مائیں تو اپنے بچوں کو کھاتا دیکھ کر جی اُٹھتی ہیں۔اور ایک آ پ ہیں۔مجال ہے ۔جو مجھے ذرا کچھ اپنی پسند کا شوق سے کھانے دیں۔ناک چڑھا کر اس نے کہا ۔تو وہ ہنس دیں۔
ہاں ایسی مائیں بعد میں اپنی تھیلے جیسی لڑکیاں لئے پِھر رہی ہوتی ہیں۔کہ کوئی ان شاہ جہان کی چال ڈھال والی لڑکیوں سے بیاہ رچا لے۔بات سُنو۔۔۔ہمارے خاندان میں تو پہلے ہی اگر کوئی لڑکی چھبیس سے اُپر ہو جائے تو اکسپائر سمجھی جاتی ہے۔ایسے میں تم کھا کھا کر اور ڈائناسور بن جاؤ۔تاکہ بعد میں بھوگتنا ہمیں پڑے۔مسکراہٹ سے لہجے کو چھپاتے اُنہوں نے اسے تنگ کرنے کو ایک نیا نُکتہ اُٹھا دیا تھا۔
لیں رکھی ٹوکری۔۔۔آپ کو جو چُبھ رہی تھی۔منہ بگاڑ کر اس نے ٹوکری جھولی سے اُٹھا کر زمین پہ پاس ہی پھینکنے کے انداز میں رکھی تھی۔پھوپھو ہنس دیں۔
السلام علیکم۔۔۔
گوری گول مٹول سی شائستہ سی مسکراتی پورے قد کے ساتھ کھڑی مسکرا رہی تھی۔ان کو دونوں کو اپنی جانب دیکھتا پا کر اس نے بھی اپنے قدم آگے بڑھا دئے۔
و علیکم السلام شائستہ۔۔۔کیسی ہو بچے؟انیس سالہ شائستہ کو دیکھ کر پھوپھو نے نرمی سے اور پیار سے پوچھا تھا۔وہ مسکرا کر سر ہلا تی بیٹھ گئی۔
ٹھیک آپی ۔۔۔آپ کیسی ہیں؟اور فری تم کیسی ہو؟ میں نے بھائی کو تمہیں پیغام دینے کو بولا تھا۔وہ تو شائد جواب بھی لے آیا تھا۔کہہ رہا تھا ۔تم نے آنے سے انکار کر دیا،قسم سے مجھے اتنا دُکھ ہوا۔بھلا مجھ چھوٹی بہن سے کیا غلطی ہو گئی ۔کہ آپ نے آنے سے بھائی کے منہ پہ ہی انکار کر دیا۔میں نے سوچا ۔آج میں خود جا کر ذرا پوچھ کر تو آؤں۔
کمال کا ضبط تھا دونوں کا۔جو اس کی لمبی لفاظی سُن بھی رہی تھیں ساتھ ہی ساتھ مسکرانے کا کام بھی جاری رکھا ہوا تھا۔
اصل میں پھوپھو جی کی شادی کی تیاری چل رہی ہے ناں۔تو گھر میں سو کام ہوتے ہیں۔اس لئے کہیں باہر آ یا جایا نہیں جاتا۔اس نے ذرا مروتاً مسکرا کر کہا تھا۔ساتھ ہی ٹانگیں بھی سیدھی کر لیں۔
لے۔۔۔اب ایسی بھی کیا مصروفیت کہ بندہ اپنوں کو ہی بھول جائے۔اس نے ناک سے مکھی اُڑا کر کہا۔تو فرح کو سخت اُلجھن ہوئی۔وہ اسے ہر گز پسند نہیں کرتی تھی۔شائستہ کا عجیب چغل خور عورتوں والا ہی رویہ رہا جب بھی وہ اس سے ملی تھی۔اس لئے وہ اسے کچھ خاص پسند نہیں کر تی تھی۔اکثر تو شائستہ ایسی بات کر جاتی تھی۔کہ فرح محض خون کے گھونٹ پی کر ہی رہ جاتی تھی۔مگر خاندان کی وجہ سے منہ بند کر جاتی تھی۔ورنہ کوئی بعید نہیں تھا۔کہ اچھی خاصی کھری کھری سُنا جاتی جیسے کاشف بھائی کو سُنائی تھیں۔مگر جی کیا کریں خاندان کی روایات کا۔۔۔
پھوپھو آپ شائستہ کے پاس بیٹھیں۔میں اس کے لئے کافی لاتی ہوں۔اس سے جان چھوڑانے کا بہترین حل اسے یہی لگا تھا۔کہ وہ وہاں سے ہی غائب ہو جاتی۔
نئیں نئیں کیا ضرورت ہے۔ میرے لئے یہ کینوں ہی کافی ہیں۔کہنے کے ساتھ اس نے زمین پہ دھری ٹوکری بھی اُٹھا لی تھی۔اور اُٹھا کر مزے سے چھیل چھیل کر کھانے بھی لگی تھی۔فرح اپنا سا منہ لے کر رہ گئی۔
ایسے مہمان کم ہی دیکھے ہوں گے۔جو اس جیسے تھے۔
ہم م بھوکی۔۔۔اپنے کینوں اسے اتنی رغبت سے کھاتا دیکھ کر اس نے منہ بنا کر سوچا۔اور پھر واپس پاؤں اوپر کرسی پہ چڑھا لئے۔
پھوپو اس کے چہرے کے بدلتے زاویئے دیکھ کر ہونٹوں پہ آتی ہنسی بمشکل ہی روک پا رہی تھیں۔
:::::::::
بارش بھل بھل برس رہی تھی۔اور وہ اندر کھڑکی کے سامنے کھڑی ان برستی بارش کے قطروں کو گِرتا دیکھ رہی تھی۔اس نے کچھ دیر تک سامنے بھیگتی بالکنی کو دیکھا۔اور پھر سر پہ اونی ٹوپی اوڑھتی کمرے سے باہر نکل آئی۔
سلام علیکم دادی جان! دادی جان کے کمرے میں داخل ہوتے ہی اس نے با آواز بلندسلام کیا تھا۔کمرے کا ماحول باہر راہداری سے ذرا زیادہ گرم تھا۔
دادی جان معمول کے مطابق کلام اللہ میں مصروف ،ساتھ ہی ساتھ ماہ نور کی فرمائش پہ اس کے لئے سویٹر بُننے میں مصروف تھیں۔اس کے سلام پہ مسکرا کر سر کو اثبات میں ہلایا تھا۔
آؤ۔۔۔گڑیا بیٹھ جاؤ۔اُنہوں نے اسے دیکھ کر پاس آنے کا شارہ کیا تھا۔
ابھی نہیں۔۔۔پکوڑے اور چائے نہ ہو ۔تو بارش انجوائے کرنے میں مزہ نہیں آتا۔پہلے میں وہ بنا ؤں گی ۔پھر آپ اور میں بیٹھ کر باتیں بھی کریں گے۔اور مریم آپی کو کال بھی کریں گے۔مریم آپی دو دن قبل ہی واپس فرانس لوٹیں تھیں۔اور ان کو دو دن میں اس نے کافی مِس کیا تھا۔
اس نے چہک کر کہا۔تو دادی کا دل پُر سکون سا ہو گیا۔ایک پریشانی اور بے تابی جس نے پیچھلے دو ہفتوں سے اسے جکڑ رکھا تھا۔اب جو و ہ پُر سکون ہوئی۔تو دادی کو بھی سکون محسوس ہوا۔ابتسام صاحب کی صحت اب پہلے سے کچھ بہتر تھی۔۔اسی لئے وہ بھی پُر سکون تھی۔
جلدی سے آ جاؤ پھر تو۔انہوں نے بھی اسی کا انداز میں کہا۔تو وہ سر ہلاتی کمرے سے نکل گئی۔
کچن میں جلتے برنر کی بدولت خاصی حدت تھی۔
اس نے کچن میں کام کرتے ملازم ظفر کود یکھا۔اور دوپٹے کو دُرست کر تی کچن میں آ گئی۔
ظفر بھائی۔۔۔رات کا کھانا آج میں بناؤں گی۔آپ جانا چاہیں تو چلے جائیں۔طاہرہ کی طبیعت بھی ٹھیک نہیں ہے۔طاہرہ ظفر کی بیوی تھی۔
بہت شکریہ باجی۔وہ جیسے پہلے ہی بھاگنا چاہتا تھا۔سُنتے ہی نکل گیا۔ماہ نور نے ایک نظر کچن کا جائزہ لیا۔اور کیبن کھول کھول کر اندر جھانکنے لگی۔ضرورت طلب سامان جلد ہی مل گیا۔تو اس کے کام میں تیزی آ گئی۔اس سے پہلے کہ بارش رکتی۔وہ کام کر لینا چاہتی تھی۔
لاہور شہر میں برستی بارش نے ایک واحد وہ تھا۔جسے بور اور بد مذاج بنا دیا تھا۔وہ جس وقت لاؤنج میں داخل ہوا۔کانچ کی دیوار کے پار کام کرتی ماہ نور نے اسے اپنی جانب متوجہ کر لیا۔یہ اس کے لئے غیر متوقع تھا۔
وہ ایک نظر اسے دیکھ کر دادی کے کمرے میں آ گیا۔
::::::::::::::
یہ لیں گرم گرم پکوڑے۔۔۔اس نے کمرے میں داخل ہوتے ہی جوش میں کہا۔مگر سامنے ٹانگیں پسار کر لیٹے ذریت کو دیکھ۔کرمنہ بنا لیا۔ذریت جو بیڈ پہ لیٹا۔آج بڑی فرصت سے موبائل پہ گیم کھیلنے میں مصروف تھا۔نے ایک نظر اسے دیکھا تھا۔جو اس کے تاثرات تھے۔اس سے خاصا نا گوار ہوا۔
میری شکل کو ایسا کیا ہوا ہے۔جو ایسے منہ بنا لیا۔محض سوچا۔
ماہ نور نے ایک نظر دادی کی خالی کُرسی کو دیکھا۔اور پھر سامنے کی میز پہ پکوڑوں کی بھری پلیٹ رکھ دی۔
دادی جان کہاں ہیں؟وہ اس سے پوچھنا تو نہیں چاہتی تھی۔مگر پھر پوچھا لیا۔کہ کہیں پکوڑے ٹھنڈے نہ ہو جائیں۔اور چائے بھی ٹھنڈی ہو جاتی تو بد مزہ ہو کر اپنا ذائقہ کھو دیتی۔
واش روم میں ہیں۔۔۔اس نے مختصر بتا کر ایک اچٹتی نگاہ میں انگلیاں چٹخاتی ماہ نور کو بھی دیکھاتھا۔
ماہ نور نے ظفر کے جاتے ہی دوپٹہ سر سے اُتار کر گلے میں ڈال لیا تھا۔اور اب اونی ٹوپی میں ،خوبصورت فروزی کھدر کے سوٹ میں وہ خاصی معصوم اور سادہ سی لگ رہی تھی۔اس نے یہ بھی اس ایک نظر میں پا لیا تھا۔کہ اس کی چوٹیا کے کچھ بال اس کی اونی ٹوپی سے باہر جھانکتے اس کی گالوں کا طواف کر رہے تھے۔
دادی جان آپ کی چائے تو اب تک ٹھنڈی ہو گئی ہو گی۔وہ مزے سے آخر خود بیٹھ کر کھانے میں مصروف تھی،جب دادی جان واپس آئیں۔
میز پہ دھری ان کی چائے کے کپ پہ تیرتی ملائی کی تیہہ کو دیکھ کر اس نے کہا تھا۔
ذریت جو کافی دیر سے اس اُمید میں تھا۔کہ ماہ نور اسے بھی پوچھ ہی لے گی۔اور وہ جو آفس سے بھوکا لوٹا ہے۔انکار کئے بغیر کھا لے گا۔اپنا منہ لے کر رہ گیا تھا۔اسے پکوڑے بہت پسند تھے۔مگر آج شائد اس کی قسمت میں نہ ہوتے۔
ذریت بچے آؤ۔۔۔ادھر کیوں بیٹھے ہو۔اسے سیدھے لیٹے ماحول سے یکسر بے نیاز ہوکر گیم کھیلتے دیکھ کر کہا تھا۔انہیں حیرت تھی۔کہ پکوڑے ابھی تک اس کی پہنچ سے دور کیسے ہیں۔
دیکھیں ناں دادی جان۔میں نے اتنی محنت سے بنائے پکوڑے اور اِنہوں نے انکار کر دیا۔وہ جو اُٹھنے والا تھا۔ماہ نور کے صفا چٹ جواب پہ ہونٹ بھینچ کر رہ گیا تھا۔
جھوٹی ۔۔۔سوچ کر سر جھٹکا۔
ہیں۔۔۔ذریت نے پکوڑوں سے انکار کر دیا۔لیکن بچے تم تو پکوڑوں کے بہت شوقین ہو۔۔۔دادی کو جیسے یقین نہ آیا۔
وہی۔۔۔میں نے بھی کہا۔مجھے مریم آپی نے بتایا تھا(اسی لئے تو کہہ رہی ہوں)۔کہ ذریت کو پکوڑے بہت پسند ہیں۔ابھی میں نے کہا۔تو کہتے ابھی بزنس لنچ کر کے آیا ہوں۔رکھ لو ۔ٹھوڑی دیر بعد۔۔۔اس سے پہلے کہ ذریت ہونٹ کھولتا ۔اس نے پھر تیزی سے پکوڑے کو مختلف آئٹمز میں ڈِپ کرتے کہا تھا۔
جھوٹی۔۔۔پھر سے سوچا۔
جی دادی جان اصل میں آج اکمل سے ملنے چلا گیا تھا۔اسی لئے لنچ کر کے آیا ہوں۔اس نے مجبوراً کہا تھا۔وہ نہیں چاہتا تھا۔کہ دادی جان ان کے جگڑوں سے آشناں ہو تیں۔
ماہ نور کو زور سے ہنسی آئی تھی۔مگر وہ روکے بیٹھی رہی۔
اچھا چلو جیسے تمہاری مرضی۔اُنہوں نے سر اثبات میں ہلایا اور پھر خُد بھی مزے سے کھانے لگیں۔
بہت خوب ماہ نور بچے۔۔۔دادی جان کی تعریف پہ اس کا دل خوش ہوا تھا۔اس نے مسکرا کر سر جھکا دیا۔
دادی جان رات میں کھانا بھی میں بناؤں گی۔
نہیں اس کی ضرورت نہیں ہے۔ظفر کس لئے ہے۔وہ نہیں چاہتی تھیں کہ وہ کچن کے کاموں میں اُلجھے۔
نہیں پلیز۔۔۔میں بہت بور ہوتی ہوں۔کھانا وغیرہ مجھے بنانے دیا کریں۔ان کے قریب بیٹھ کر ان کا ہاتھ دباتے اس نے کہا تھا۔
مگر بچے ابھی تو آپ کی شادی کو دن ہی کتنے ہوئے ہیں۔جو ابھی سے کام کرنا ہے۔پھر بعد میں ساری زندگی بھی تو کرنے ہی ہیں کام۔
ذریت نے چونک کے انہیں دیکھا تھا۔یہ دادی جان کیا سوچے بیٹھیں تھیں۔اور وہ کیا سوچے بیٹھا تھا۔سب گُڈ مُڈ ہوا۔
ماہ نور نے سر نفی میں ہلا دیا۔اور برتن لے کر کمرے سے نکل گئی۔
بہت پیاری بچی ہے۔میں اس ایک ہفتے میں اللہ کا اتنی بار شکر ادا کر چکی ہوں ۔کہ اللہ نے میرے پوتے کا نصیب اس اتنے اچھے اخلاق کی لڑکی سے لکھ دیا۔دادی جان کی آنکھوں میں خوشی ہلکورے لے رہی تھی۔
دادی جان انسانوں سے اتنا متاثرنہیں ہوتے۔کچھ سوچ کر اس نے کہا۔اور ساتھ ہی اُٹھ بھی گیا ۔
تبھی فون کی گھنٹی بجی تھی۔دادی جان جو کچھ بولنے والیں تھیں اسے موبائل پہ آنے والا اہم میسج دیکھ کر سر جھٹک کر رہ گئیں۔
کبھی اس شیطان کی آنت کو چھوڑ بھی دیا کرو۔انہیں اس سے شکائت ہوئی تھی۔وہ مسکرا دیا۔
اچھا۔۔۔اسی شیطان کی آنت کی بدولت تو آپ کے پوتے کا کام چلتا ہے۔اس نے کہنے کے ساتھ نتاشا کی بھیجی تصا ویر کھولیں تھیں۔
نتاشا آج کسی دوست کی پارٹی پہ فیملی کے ساتھ انوائٹڈ تھی۔اور وہاں سے تصویریں اسے وٹس اِپ کر رہی تھی۔
پہلی تصویر کھولتے ہی ذریت نے نگاہ پھیر کر دادی جان کو دیکھا تھا۔ایسے ہی شک گُزرا کہ کہیں دیکھ تو نہیں رہیں۔
نتاشا بہت سوں کے درمیان کھڑی سفید میکسی میں تھی۔جس سے اس کے دونوں کندھے بر ہنہ ہو نے کی وجہ سے دیکھ رہے تھے۔اس قدر چُست لباس میں وہ ایک شہد کی مکھی کا سا کام کر رہی تھی۔ذریت ایک ہارٹ بیٹ مِس ہوئی تھی۔
کچھ دیر پہلے کا منظر اب کی بار دوبار جو چلا تھا۔
::::::::::::
آپی ان کا کہنا ہے۔کہ عورت نام ہی دھوکے کا ہے۔
تو آپی ان سے آپ پوچھیں کہ اُن مردوں کا کیا۔جو عورت کو لباس کی طرح بدلتے ہیں۔جو عور ت کو پاؤں کی جوتی سمجھتے ہیں۔جن کی نظر میں عورت نام ہی محض روسوائی کا ہے۔۔۔اور اگر جواب میں وہ کہیں کہ مرد ایک جیسے نہیں ہوتے ۔تو آپ بھی کہئے گا۔کہ تمام عورتیں بھی ایک سی نہیں ہوتیں۔آنسوں کو روکتے اس نے کہاتھا۔مریم آپی گہرہ سانس لے کر رہ گئیں۔
ماہ نور رو مت میری جان۔۔۔مجھے گلٹ ہو نے لگتا ہے۔میں نہیں جانتی تھی کہ میرا بھائی ایسا بھی بو ل سکتا ہے۔میں نے اور دادی نے اس کی تربیت ایسی بلکل بھی نہیں کی تھی۔میں۔۔۔میں بہت شرمندہ ہوں۔اتنی شرمندگی تو شائد ہی کہیں اُنہوں نے اُٹھائی ہو۔اس لئے آنسو ان کی آنکھوں میں بھی چمکنے لگے تھے۔
ہم م م!آپ کے افسوس سے کیا ہوگا۔میری زند گی مذاق ضرور بن گئی ہے۔اور میں یہ سب آپ کو شرمندہ کر نے کے لئے ہر گِز نہیں بول رہی پلیزآپ شرمندہ مت ہوں۔وہ ابھی ابھی گھر آئی تھی۔ اس نے ابھی دادی جان سے مل کر کمرے کا رُخ ہی کیا تھا۔جب اس کا موبائل بجا تھا۔
مریم آپی رات میں اکثر اسے کال کرتی تھیں۔حال احوال کے بعد وہ اس سے ذریت کے روئے کی بابت استفسار کرنے لگیں تو اس نے بھی چُھپانا مناسب نہیں جانا تھا۔بے شک ذریت لاکھ اسے منا کر تے۔مگر اس کی بہن کو پتا ہو نا چاہے کہ وہ کیا کر رہا تھا۔اس لئے اس نے بغیر ڈرے اور گھبرائے سب بتا دیا تھا۔اچھاتم اب رونا مت۔۔۔میں اسے بھی فون کرتی ہوں ابھی ۔تم اب آرام کر۔صبح وہ تمہیں تمہارے قدموں میں بیٹھا نہ ملے تو بے شک میرا نام بدل دینا۔آخر میں اُنہوں نے بات کو مزاح کا رنگ دیا تو۔وہ بھی دھیمے سے مسکرا دی تھی۔اگر چہ مسکرانے کو دل نہ چاہتا تھا۔
:::::::::::::
نتاشا میں نے تمہیں منع بھی کیا تھا۔کہ ابھی اس سب کے بارے میں کسی کو مت بتانا۔اس کے سامنے بیٹھے اس کا ہاتھ پکڑے وہ کہہ رہا تھا۔جبکہ نتاشا مزے سے کافی کے گھونٹ بھر رہی تھی۔ساتھ وقفے وقفے سے اسے دیکھ کر مسکرا بھی دیتی۔
ذریت میں بھئی زیادہ دیر چُھپا نہیں سکتی تھی۔اس لئے بتا کر پہلے ہی ان کا مائنڈ سیٹ کر دیا۔اب وہ مجھے دھمکی دے رہے تھے۔کہ مجھے چین بھیج دیں گے۔مگر میں نے پروا نہیں کی۔تم جو میرے پاس ہو گے ۔تو پرو ا کیسی۔
نتاشا میں نے تمہیں بتایا بھی ہے۔کہ میرے ایک انکل بیمار ہیں میں ان کو اس حال میں چھوڑ کر کہیں نہیں جا سکتا۔سوری۔۔۔روکھائی سے کہہ کر اس نے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا تھا۔
نتاشا کو اپنا ہاتھ خالی اور سونا لگنے لگا تھا۔اس نے خود جھٹکے سے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
ذریت تم م۔۔۔ میرے ساتھ ایسے نہیں کرسکتے۔تم جانتے ہو میں نے سب کچھ تمہاری وجہ سے چھوڑا ہے۔اب تم بہانے نہیں بنا سکتے اس کا رونا ذریت کو سکون دے گیا تھا۔وہ سر جھٹک گیا۔
تم نے کوئی قر بانی نہیں دی میرے لئے۔اس بات کو اپنے ذہن میں بیٹھا لو۔کہ میں انکل کو چھوڑ کر کہیں نہیں جانے والا۔
اور اگر انکل نے میری شادی وہا ں اپنے بیٹے سے کرو دی تو؟اندر کاخوف جاگ اُٹھا تھا۔وہاں جانے کا مقصد وہ اچھے سے سمجھتی تھی۔
او کم آن نتاشا!مجھے نہیں لگتا کہ وہ اتنے بے وقوف ہوں گے۔خیر تم خود دیکھ لو۔ویسے میرا مشورہ ہے۔کہ تم چلی جاؤ میں تمہیں وہاں سے لے آؤں گا۔پھر ہم شادی کر لیں گے۔وہاں بیٹھے بیٹھے ذہن نے نہ جانے کیا بات سُجھائی تھی۔کہ وہ کہہ گیا تھا۔نتاشا پُر سکون ہو گئی۔
ٹھیک ہے۔مگر جلدی آنا۔۔۔تم جانتے ہو میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتی۔اس کے ہاتھ میں اب بھی ذریت کا ہاتھ تھا۔جواب میں ذریت نے سر اثبات میں ہلایا۔اور اُٹھا کھڑا ہوا۔ابھی میں جا رہا ہوں۔کل بات ہوگی بائے۔وہ ابھی کچھ دیر پہلے ماہ نور کو چھوڑ کر خاص طور پہ نتاشا سے ملنے آ یا تھا۔اب کا فی پی کر اس کی فضول باتین سُننے سے زیادہ مناسب گھر جانا ہی تھا۔سو وہ اُٹھ گیا۔تو نتاشا بھی سر ہلاتی ساتھ ہی اُٹھ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...