یہ اکثر تلخ کلامی سی رہی کیا
محبت زک اٹھا کر آئی تھی کیا
نہ کثدم ہیں نہ افعی ہیں نہ اژدر
ملیں گے شہر میں انسان ہی کیا
میں اب ہر شخص سے اکتا چکا ہوں
فقط کچھ دوست ہیں اور دوست بھی کیا
یہ ربط بے شکایت اور یہ میں
جو شے سینے میں تھی وہ بجھ گئی کیا
محبت میں ہمیں پاس آنا تھا
بدن کی اشتہا نہ تھی کیا
نہیں ہے اب مجھے تم پر بھروسا
تمہیں مجھ سے محبت ہو گئی کیا
جواب بوسہ سچ انگڑائیاں سچ
تو پھر وہ بیوفائی جھوٹ تھی کیا
شکست اعتماد ذات کے وقت
قیامت آ رہی تھی آ گئ کیا۔
شاہ کمال لائبریری میں بیٹھا کسی کتاب پر نشان لگاتے نوٹ بک پر کچھ نوٹ کر رہا تھا۔۔ وہ اپنی اسائنمنٹ میں اتنا غرق تھا اسے کب سے خود پر مرکوز ادینہ کی نظر کی تپش محسوس ہی نہ ہوئی۔ مزید دو گھنٹے گزرنے کے بعد بھی جب شاہ کمال اپنی پڑھائی میں مصروف رہا تو ادینہ کو بوریت ہونے لگی اس لئے وہ خاموشی سے بنا اجازت اسکے سامنے والی چیئر پر بیٹھ گئی۔۔۔
ہیلو سردار شاہ کمال ادینہ نے مصاحفہ کے لئے ایک ادا سے اپنا ہاتھ آگے کیا۔۔ وہ چونکا ۔۔۔تھکاوٹ سے چیبتی آنکھوں کو دو سیکنڈ بند کر کے کھولاور ناگواری ضبط کرتے شاہ کمال نے اپنے دو گندمی رنگت والی انگلیاں اسکے سفید مومی ہاتھ سے مس کر کے ہٹالی۔۔ یہ صرف مروت نبھائی گئی تھی ادینہ سمجھ گئی تھی پھر بھی وہ ہار نہیں ماننا چاہتی تھی۔۔
“میں آپ کو مبارک دینے آئی تھی کل کے میچ کی لیکن آپ کافی مصروف ہیں” شاہ کمال کو دوبارہ کام پر جھکے دیکھ کر اس نے کہا۔۔
“اتنا بھی مصروف نہیں ہوں اپنی رعایا کی بات سن سکتا ہوں” وہ ادینہ کو بنا اجازت اسکے سامنے بیٹھنا جتا گیا تھا۔۔ اب کہ وہ اسکے برے بی ہیو کی وجہ سمجھ گئی تھی۔۔
خدانخواستہ مرد حاکم ہے کیا جو ہم لڑکیاں رعایا ہوگئیں؟؟
مرد حاکم ہو نہ ہو مگر ایک سردار حاکم ضرور ہوتا ہے وہ بلکل اسی طرح ہوتا ہے جیسے کسی سلطنت کا بادشاہ، وہ اپنی چیزیں سمیٹ کر کھڑا ہوا اور اکھڑے لہجے میں بول کر لمبے لمبے ڈگ بھرتا چلا گیا۔۔۔ ادینہ توہین سے سرخ ہوتی رہ گئی۔۔۔ اس نے سوچ لیا وہ اس بے عزتی کا بدلہ ضرور لے گی۔۔۔
*******
دلاور کالج کی چھٹیوں پر ادینہ کو گاؤں لایا تھا آج بہت دن بعد اسکا موڈ بحال ہوا تھا دونوں بہن بھائی پگنڈی کی طرف جا رہے تھے جب سامنے سردار شاہ کمال کے ردبانوں نے روک لیا۔۔۔۔
“کیا ہوا ہے اس طرف” ادینہ نے بد تمیزی سے پوچھا۔۔
“اس طرف سردار شاہ کمال اور دعا خان زادی ہیں وہ سیر کو گئے ہیں۔ ”
شاہ کمال کا کسی لڑکی کے ساتھ پگنڈی کی طرف اکیلا جانا ادینہ سے ہضم نہ ہوا دعا اسکی بہن تو نہیں ادینہ نے سوچا مگر یہ تو خان زادی بول رہا ہے “کیا شاہ کمال شادی شدہ ہے؟؟” ادینہ کے دل میں بے چینی ابھری۔۔
“ادی چلیں واپس” دلاور کی بات پر ادینہ چونکی “یہ دعا خان زادی کون ہے” ادینہ نے اس پہرےدار سے پوچھا۔۔
“لو دعا خان زادی کا نہیں پتا” پہرے دار ٹھٹھہ لگا کر ہنس دیا۔۔۔
“وہ اپنے سردار کی بچپن کی منگ ہے اور یہاں کی سردارنی بننے والی ہیں۔ بس اب کچھ مہینے رہ گئے انکی پڑھائی مکمل ہونے میں۔۔ ”
پہرے دار کی آنکھوں میں شاہ کمال کے لئے محبت اور عزت بیک وقت تھی۔۔
“ادی ہمیشہ شہر ہی رہی ہے چچا اسے نہیں پتہ ان باتوں کا” دلاور نے رسان سے کہا اور ادینہ کا ہاتھ پکڑ کر پلٹ گیا۔۔۔
“دل بھائی آپ نے دعا کو دیکھا ہے؟؟” ادینہ نے بہت ہمت جمع کر کے پوچھا۔۔
“نہیں دیکھا تو کسی نے نہیں ہے اسے حویلی سے نکلنے کی اجازت نہیں ہے مگر سنا ہے اکثر ان کے بارے میں۔۔۔ ”
“اسے اجازت کیوں نہیں ہے اور وہ سردار شاہ کمال کے ساتھ باہر ہے اس وقت” ادینہ چونک گئی۔۔
“بیوقوف” دلاور ہنس دیا۔۔ “سردار کی بیوی کو کوئی نہیں دیکھ سکتا دعا خان زادی انکی منگیتر ہیں اس لئے پردہ کی حفاظت وہ بچپن سے کر رہی ہیں۔۔ اور اسی لئے وہ باہر نہیں نکل سکتیں اور ہاں اس وقت وہ شاہ کمال کے ساتھ باہر ہیں یہ بات ہے تو بڑی حویلی کے اصولوں کے خلاف مگر جہاں تک میرا ذاتی خیال ہے شاہ کمال روائتی سرداروں کی طرح نہیں ہیں وہ شائد دعا خان زادی کو کھلی ہوا میں سانس لینے کی اجازت دے رہے ہیں مگر اپنے پہلو میں رکھ کر اگر میں ہوتا تو میں بھی یہی کرتا یا میں انکو اکیلے بھی جانے دیتا۔۔ اس کے علاوہ میں نہیں جانتا وہ کیوں ہیں یہاں۔۔”
دلاور بولتا جا رہا تھا ادینہ سنتی جا رہی تھی۔۔۔۔
“مجھ سے زیادہ خوبصورت نہیں ہو سکتی وہ اور دل بھائی کی باتوں سے لگتا ہے گوار ہے کوئی” ادینہ نے اپنے مومی ہاتھوں کو دیکھتے سوچا۔۔۔
اسی وقت کسی کا ریشم کا ہرا دوپٹہ اڑتا آیا اس سے پہلے وہ گر جاتا دلاور نے پکڑ لیا۔۔۔
یہ کس کا ہے یہاں تو کوئی لڑکی نہیں۔۔۔ دلاور یہاں وہاں دیکھ رہا تھا جب ہانپتا ہوا شاہ کمال آیا۔۔۔
“یہ میرا ہے” اتنا کہہ کر اس نے مسکراتے دلاور سے دوپٹہ لیا۔۔۔ اور اپنی گردن میں ڈال لیا۔۔
دلاور کی سلام کا جواب دے کر شاہ کمال کی نظر ادینہ پر پڑی جو شکوہ کناں آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔
“یہ میری چھوٹی بہن ہے” دلاور نے تعارف کروایا۔۔
“جانتا ہوں” شاہ کمال نے اکھڑے لہجے میں کہا ان کی باتیں جاری تھیں جب دعا اپنے کام دار چارد میں چھپی آئی اور چادر میں بہت سارے کچے پکے آم تھے چہرہ بہت اچھی طرح چھپایا گیا تھا۔۔۔
صرف ایک ہاتھ نظر آ رہا تھا جس سے آموں والا چادر کا پلو پکڑا گیا تھا۔۔۔
“شاہ جی میرا دوپٹہ ملا؟”
ہاں مل گیا اس میں ڈال لے پھل” شاہ کمال اسکی طرف متوجہ ہوا جب دلاور نے ادب کا تقاضہ کرتے رخ موڑ لیا۔۔۔ مگر ادینہ کی جائزہ لیتی آنکھیں دعا کے اس نازک ہاتھ کا رنگ دیکھ کر پھٹی کی پھٹی رہ گئیں جو بڑی محبت سے ایک ایک آم اس دوپٹے میں ڈال رہی تھی۔۔۔ جو کچھ دیر پہلے شاہ کمال کی گردن میں تھا۔
“کسی کا رنگ برف سے زیادہ سفید ہو سکتا ہے کیا؟؟” آم ڈالتے کچھ سیکنڈ کے لئے دعا کا ہاتھ چہرے پر ڈالے پلو سے ہٹا اور چھینکنے کے بعد ویسا ہو گیا مگر اس ایک پل کی جھلک نے ادینہ کو ہار کی اتھا گہرائیوں میں پھینک دیا۔۔ اگر وہ سمجھتی تھی وہ اپنی خوبصورتی سے شاہ کمال کو گھائل کرلے گی تو وہ منہ کے بل گری تھی۔
“ہاں یہ اس قابل ہے کہ اس سے منسلک مرد کسی اور عورت کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھے۔۔ تو یہ وجہ تھی”۔ ادینہ کو اپنے مومی ہاتھ اس وقت دھول سے اٹے لگے۔۔۔ آنکھیں حسد اور جلن سے نیلے پانیوں سے بھرنے لگیں۔۔۔ “کیا میں دعا نہیں ہو سکتی تھی ؟ کیا میں اس سے زیادہ خوبصورت نہیں ہو سکتی تھی؟” ادینہ نے ہاری ہوئی آخری نظر شاہ کمال کے مسکراتے چہرے کی طرف ڈالی۔۔ حلانکہ محبت کا تعلق نہ کبھی رنگ سے رہا نہ ذات سے اگر جو محبت کا رنگ گورا ہوتا تو لیلہ سیاہ نہ ہوتی۔۔ اگر جو محبت کا تعلق ذات سے ہوتا تو محبت کی قبر میں سوہنی نہ ہوتی۔۔۔
شاہ کمال دعا کے پاس گھٹنے کے بل بیٹھا بڑی محبت سے اسکا نخرے کرتے ایک ایک آم پھینکنا کیچ کر رہا تھا اور ارد گرد سے مکمل غافل تھا۔۔۔ جیسے کوئی اور یہاں ہے ہی نہیں۔۔ یہ وہی شاہ کمال تھا جو کچھ دن پہلے خود کو بادشاہ کہہ رہا تھا اب ایک عورت کے قدموں میں بیٹھا مسکرا رہا تھا کیا اب وہ بادشاہ نہیں تھا یا رانی بادشاہ پر حکومت کر رہی تھی؟ اسکی آنکھوں میں پا لینے کی چاہت تھی تو چہرے پر محبت ہو جانے کا سرور۔۔۔
مغرور ناک پاکیزہ محبت اپنے نام ہو جانے کی چاہ سے کھڑی تھی ۔
پیشانی پر بادشاہت کی لکیریں۔۔۔
ادینہ نے دیکھا دلاور کی بھی پشت تھی اور اب پہرے داروں کے بھی رخ دوسری طرف تھے اس عورت کو کسی نے میلی نگاہ سے نہ دیکھا تھا۔۔۔
ادینہ کو اسکے نصیب سے جلن ہوئی بدلے کا ایک لاوا اس کے اندر سرکش گھوڑے کی طرح لگام چھڑانے لگا۔۔۔
********
فیئرول پارٹی تھی ہر اسٹوڈنٹ بہت خوش تھا سب کی اپنی چمک دھمک تھی ادینہ کی متلاشی نگاہیں اپنی ریاست کے شہزادے کو تلاش کر رہی تھیں، بل آخری وہ شہزادہ بھی نظر آ گیا جو بلیک شلوار سوٹ پر گرم شام شال اوڑھے روایتی وڈیرہ لگ رہا تھا اس کے سفید ہیرے جیسے دانت اسکی گندمی رنگت پر چمک رہے تھے ہر مرد میں وہ واضح تھا۔۔۔ “یہ صرف میرا ہے میں اسے کسی دعا کو نہیں دے سکتی” ادینہ نے فیصلہ کن لہجے میں کہا۔۔۔ اور پوری پارٹی میں نظر اسکی ایک ایک چال پر رکھی مگر ادینہ کو کہیں بھی شاہ کمال کی چال میں لڑکھڑاہٹ نظر نہ آئی شاہ کمال کے کردار میں کوئی جھول نہیں تھا اس لئے ادینہ کو یہ جھول اپنے کرادر کو گرا کر پیدا کرنا پڑا۔۔۔
********
رات رفتہ رفتہ گزر رہی تھی سیاہ بادلوں میں سوئی ہوئی شطانیت انگڑائی لینے لگی تھی۔۔۔۔
لوگ آہستہ آہستہ جانے لگے تھے ادینہ بھی جا چکی تھی اب صرف چند ایک لڑکے ہی تھسے جن میں شاہ کمال بھی تھا
رات کا پچھلا پہر تھا شاہ کمال اپنے دوستوں کے ساتھ باہر آیا اسے درخت کے نیچے کسی کا کانپتہ ہیولہ نظر آیا۔۔۔
“کون ہے وہاں” موبائل ٹارچ کی روشنی میں وہ وہاں گیا تو ادینہ کانپ رہی تھی ۔۔ “کیا ہوا ہے تمہیں باہر آؤ۔۔۔”
شاہ کمال نے اسکی کلائی تھام کر اسے نکالا
اوہ شاہ آ جاؤ اسکے دوست نے کہا۔۔
“آتا ہوں” شاہ کمال نے وہیں سے ہانک لگائی۔۔۔
“تم تو کب سے گھر جا چکی ہو اب یہاں اس حالت میں کیا کر رہی ہو شاہ کمال کا اتنا کہنا تھا وہ سوکھے پتے کی طرح لرزتی اسکے کشادہ سینے سے لگ کر رونے لگی۔۔۔۔
“کیا ہوا ہے تمہیں ادینہ؟؟” شاہ کمال کو اب پریشانی ہونے لگی کہیں اسکے ساتھ کچھ غلط تو نہیں ہو گیا۔۔۔
“مم میں گھر جا رہی تھی یہاں کچھ لڑکے میرے ساتھ۔۔۔ ” وہ رونے لگی۔۔ شاہ کمال کا ہاتھ بے اختیار اسکے سر پر گیا۔۔۔” میں بہت مشکل سے یہاں چھپی تھی میں صبح چلی جاتی آپ آ گئے۔۔۔ مجھے چھوڑ کر نا جائیں سردار جی”
وہ اسکی چادر مٹھیوں میں بھر کر بولی۔۔۔
“کون لڑکے تھے کیا یونی کے تھے؟” شاہ کمال کو مردانگی کی اس سطحی سوچ سے نفرت تھی۔۔۔
“پتہ نہیں میں دیکھ نہیں پائی”۔۔۔ “اوکے صبح کرتے ہیں کچھ میں چھوڑ آتا ہوں تمہیں ہوسٹل۔”
” تھینک یو” ادینہ نے آنسو صاف کرتے کہا۔۔ پھر لرزتی آواز میں بولی “ہوسٹل میں بھی لڑکے آتے ہیں وارڈن نہیں روکتی۔۔”
شاہ آئے نہیں۔۔ اس کا دوست جیپ سے نکل کر آیا ادینہ کو اسکے پاس روتے دیکھ کر چونکا۔۔۔
اور سوالیہ نظر سے شاہ کمال کو دیکھا۔۔۔
“اوکے تم ہوسٹل مت جاؤ آج رات میرے گھر رہ لو صبح دیکھتے ہیں کیا کرنا ہے۔۔”
ادینہ کے چہرے پر شیطانی چمک ابھر کر مدم ہو گئی۔۔۔ سیاہ اندھیرے نے سب چھیا لیا۔۔۔ دعا کا نصیب بھی سیاہ ہونے جا رہا تھا۔۔۔۔
“ایم سوری یار میں آج تم لوگوں کے ساتھ نہیں جا سکتا” شاہ کمال نے جیپ میں بیٹھے اپنے دوستوں سے کہا “کیا کوئی ضروری کام ہے”۔۔۔
ایک دوست نے ادینہ کو دیکھتے اوہ کہا۔۔۔ جب ایک اور شرارتی مسکراہٹ دیتا اتر گیا۔۔۔ سب کی معنی خیز شکل دیکھ کر شاہ کمال کو اس وقت ادینہ پر غصہ آیا مگر ایک سردار ہونے کے باعث اس پر فرض تھا اپنی رعایا کی حفاظت کرنا۔۔۔
*********
جیپ شہر کے بیچ میں موجود عالیشان بنگلے کے سامنے رکی ادینہ بھی نیچے آ گئی شاہ کمال کے پیچھے وہ بھی گھر میں داخل ہوئی۔۔۔
“تم اس کمرے میں جا کر سو جاؤ” شاہ کمال نے سامنے موجود چار کمروں میں سے ایک کی طرف اشارہ کیا اور اپنی چادر اتارتا صوفے پر گر گیا۔۔۔ اور سر تھام لیا۔۔۔ جانے دل میں کیسی گھبراہٹ اٹھی شاہ کمال نے اپنی سائڈ پاکٹ سے والٹ نکال کر دعا کی تصویر دیکھی جو شاہ کمال کو منہ چڑا رہی تھی۔۔۔ اسکی ایک چوٹی شاہ کمال کے ہاتھ میں تھی۔۔۔ ازلان نے اچانک یہ بنائی تھی اور کتنے ہی دن دونوں کو تنگ کیا تھا۔
شاہ کمال مسکرایا پیشانی پر آئی تفکر کی لکیریں غائب ہونے لگیں۔۔۔
شاہ کمال نے دعا کے ہونٹ کے قریب بنے مصر پر اپنا انگوٹھا رکھا جیسے اسے چھونے کی کوشش کر رہا ہو۔۔۔
“الھڑمٹیار” شاہ کمال کو دعا کا خود کا دیا خطاب یاد آیا۔۔ “میں الھڑمٹیار ہوں گاؤں کی گوری اور تم شہری بابو۔۔۔ بیوقوف ہو تم بس” شاہ کمال وہیں صوفے پر لیٹ گیا اور والٹ الٹا کرکے سینے پر رکھ لیا۔۔۔ وہ نیند کی وادی میں مکمل اتر چکا تھا۔۔۔ دعا اور وہ ہاتھ پکڑے گاؤں کی کچی سڑک پر چل رہے تھے ہوا تیز تھی دھوپ بھی چمک رہی تھی۔۔۔ موسم آبرو آلودہ تھا مگر دھوپ بھی جوبن پر تھی وہ ہنستی ہوئی قلقل کرتی دعا کا ہاتھ تھامے چل رہا تھا دعا کی ہنسی میں تمانت تھی۔۔۔ ایک کالا سایہ شاہ کمال کی پیشانی پر ابھرا دعا کی ہنسی کرب ناک چیخوں میں بدل گئی۔۔ خون دعا کی آنکھوں سے نکل رہا تھا۔۔۔۔ دعا شاہ کمال نے بھاگتی دعا کو پکارہ اچانک آگ جلنے لگ گئی شعلے ہوا میں اچھلنے لگے اور ایک خون کی الٹی شاہ کمال کو آئی ۔۔ وہی خون دعا کی آنکھوں سے نکل رہا تھا۔۔۔وہ روتے روتے ہنس دی۔۔۔ وہ ہنستی ہی جا رہی تھی۔ دعا تم ایسا نہیں کر سکتیں۔۔۔ شاہ کمال چیخا تھا۔۔۔
آہ آہ آہ آہ آہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہیلپ ہیلپ ادینہ کی چیخوں پر وہ ہڑبڑا کر اٹھا۔۔۔ یک دم صوفے سے اٹھتے نیند اور خواب میں مخمل ہوئے حواس کو قابو پائے بنا شاہ کمال اس کمرے کی طرف گیا جہاں سے ادینہ کے چیخنے کی آواز آ رہی تھی اندر کوئی نہ تھا اچانک کوئی اسپرے شاہ کمال کے چہرے پر ہوا اور وہ زمین پر چکرا کر گرا سب دھندلا دھندلا تھا غیر واضح وہ تاریکی میں ڈوب رہا تھا۔۔۔ ادینہ نے ٹیبل لیمپ بے دری سے کھینچا اور شاہ کمال کے سر پر مارا اور پھر اپنے آستین زرا پھاڑ کر چلاتے باہر نکل گئی صبح کا آغاز تھا مگر دعا کے نصیب پر سیاہی ملی جا رہی تھی۔۔
گھر کی ہر چیز گرا کر وہ تسلی سے اپنے چہرے پر تھپڑ مارنے لگی۔۔ اور مصنوعی آنسو لاتی بچاؤ بچاؤ کا شور مچاتی وہ باہر نکل گئی اکا دکا لوگ تھے۔ جہنوں نے اسے روتے اور بھاگتے دیکھا۔۔۔ ادینہ نے گھر کی حالت تو من پسند کر دی تھی چہرے پر داغ بھی وہ لے آئی تھی۔ اور آئی وٹنس کے طور پر وہ شاہ کمال کے دوست اور یہ چند صبح خیز لوگ تھے۔ اب کوئی اس کے جھوٹ کو جھٹلا نہیں سکتا تھا۔۔
******
شاہ کمال دکھتے سر کے ساتھ اٹھا دوپہر کے ڈھائی بج رہے تھے مگر وہ زمین پر تھا ہاتھ لگانے سے پتہ چلا سر پر زخم ہے اچانک اسے ادینہ کی چیخیں یاد آئیں اوہ گاڈ کہیں اسے کچھ ہو تو نہیں گیا یہی سوچتے وہ ہڑبڑاہٹ میں اٹھا اور اسے تلاشنے لگا شاہ کمال کا گھر مکمل الٹا پلٹا تھا جس سے اسے یہی اندازہ ہوا کہ کافی ہاتھا پائی کے بعد وہ لوگ اسے لے گئے ہیں۔۔ شاہ کمال نے اپنے خون آلودہ سر پر ہاتھ رکھے ہی ہوسٹل کی وارڈن کا نمبر ملایا تاکہ انہیں یہاں ہونے والی واردات بتا دیں۔ اور وارڈن ادینہ کے گھر اطلاع کر سکے مگر وہ وارڈن فون اٹھاتے ہی اس پر برسنے لگ گئی الزام دینے لگ گئی شاہ کمال نے غصہ ضبط کرتے کال بند کردی۔۔۔۔ وارڈن کی باتوں سے اسے اندازہ ہو چکا تھا وہ ہوسٹل میں ہے۔۔۔ وہ لوگ اسے کیوں الزام دے رہے تھے وہ نہیں جانتا تھا۔۔ مگر شاہ کمال نے اس بات پر دھیان نہ دیا نہ ہی اسے کسی کا خوف تھا مگر ہسپتال سے جعلی رپورٹ اور جھوٹے آنسوں بہانے کے بعد ادینہ نے سوچا کے بھری بارات میں دعا کی جگہ وہ دلہن بن جائے گی مگر جانے دلاور کے اندر سویا روائتی خان زادہ کب جاگا کے بنا سوچے سمجھے بھری محفل میں دلہا بنے شاہ کمال کا سینہ چھلنی ہو گیا۔۔ ادینہ بھی ششد تھی وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی اسکی چال اس طرح الٹ جائے گگی دعا کے نصیب پر سیاہی ملتے وہ اپنے ہی بھائی کی نظر سے ایک دن گر جائے گی پھر قسمت کا ستم ادینہ پر ہوا اسے دعا کے بھائی کے ساتھ ونی کر کے نتھی کر دیا گیا اس وجود کے لئے جس کا کوئی وجود نہ تھا۔۔۔
اور دلاور اسکی اکلوتی امید وہ کیوں اب خفا تھا؟؟۔
*******
ادینہ والے حادثے کے بعد وہ یہ سوچنے پر مجبور ہو گئی تھی کہ وہ اس سے نفرت کیوں کرتی ہے اور آخر کیونکر دلاور نے شاہ کمال کو مارا یہی پوچھنے وہ ہمت پیدا کرتی ازلان کے کمرے تک گئی۔۔ وہ جانتی تھی سچ جو بھی ہوگا وہ بہت کڑوا ہوگا۔۔ مگر اسے سننا تھا تاکہ اسکی جلتی روح کو صبر آ جائے جو ہر وقت ادینہ اور دلاور سے نفرت میں جلتی رہتی تھی۔۔
دروازہ نوک کرتی وہ اندر گئی۔۔ ازلان اپنی کچھ پستولیں نکال کر ان کے ساتھ سر کھپائی کرنے میں مصروف تھا۔
ازو ہم آجائیں دعا نے اسکے شانے کو ہلاتے پوچھا۔۔
ابھی نازل ہونا باقی ہے ؟ ازلان نے چڑ کر کہا۔۔ اسے اس وقت کسی کی بھی مداخلت نہیں چاہئیے تھی۔۔
کیا ہوا کسی کا قتل کرنے جا رہے ہو ہم بابا سائیں کو بتائیں گے۔۔
قتل کرنے نہیں جا رہا بلکہ جس کا کرنا تھا وہ خود ہی آگئی ازلان کی بات پر دعا مصنوعی خوف سے کانپنے لگی، “ہاہ ازو ہمیں بہت ڈر لگ رہا ہے مت مارنا ہمیں۔۔”
آپ کو جان پیاری ہے خان زادی تو گاجر کا حلوہ بنا کر لائیں شہزادے ازلان وہ نوش فرمائیں گے۔۔ بندوق کی نال دعا کی کنپٹی پر رکھتے ازلان نے کہا تھا۔۔
ہم نہیں بنا رہے ہم خان زادی ہیں اور شاہ جی کہتے ہیں چلا چوکا کرنے سے ہاتھ میلے ہو جاتے ہیں انکو ہمارے ہاتھ پر میل نہیں پسند ہنستے ہوئے یک دم دعا کی آنکھیں پانی سے بھر گئیں۔۔۔
ازلان لب بھنچ کر اسے دیکھنے لگا۔۔
اچھا ہم بناتے ہیں دعا نے اپنے دودھیا ہاتھوں کو دیکھتے کہا۔ اب کونسا شاہ جی ہیں دعا نے خود کو اپنے ہی لفظوں سے اذیت دی۔
ازلان نے یک دم بندوق سے راستہ بلاک کیا۔۔
نہیں بنانا تو مت بناؤ ڈرامے کیوں لگا رہی ہو اسکا موڈ بدلنے کو وہ خفا ہوا۔۔
جا تو رہے ہیں بنانے ہمیں منع کرنے والے اس وقت منوں مٹی تلے دفن ہیں اور یہ بات ہم جانتے ہی نہیں ازو وہ کیوں دفن ہیں ہمیں بتاتے کیوں نہیں۔؟ یک دم وہ روہانسی ہو گئی۔۔
“کیسے بتاؤں میری گڈی بتا دیا تو تمہارا سارا غرور چکنا چور ہو جائے گا۔۔ ایک پل میں سارا اعتبار ٹوٹ جائے گا پھر تم کسی اور پر اعتبار نہ کر پاؤگی دعا کے بھیگتے چہرے کو دیکھتے ازلان نے بے بسی سے سوچا۔۔
بتا دو ازلان اللہ کے لئے دعا نے ہاتھ جوڑے ازلان نے اسے اپنے شانے سے لگا کر رونے دیا۔۔ تم بھی برے ہو ہم تمہیں معاف نہیں کریں گے ہمیں کچھ کیوں نہیں بتاتے وہ شکوہ کناں لہجے میں بولی۔۔
ازلان نے آہستگی سے اسکے آنسو صاف کئے “بتاؤں گا چندا بتاؤں گا پہلے میں تیری شادی کسی اچھے انسان کروں گا پھر بتا دوں گا۔۔” ازلان کی بات پر دعا کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی۔۔ ازلان نے حیرانگی سے اسے دیکھا جیسے سمجھنے کی کوشش کر رہا ہو آیا کہ وہ پاگل تو نہیں ہو گئی ہے۔۔
” ہم جیسی سبز قدم سے شادی کوئی نہیں کرے گا ہمارے بھائی۔” دعا کی تلخ بات پر ازلان نے نفی میں سر ہلایا۔ میں تجھے غلط ثابت کرکے دکھاؤں گا دیکھ لینا ایک دن بہت خوبصورت اور بہت پیارا انسان میری گڈی کا گڈا بنے گا۔۔
دعا دل میں ہنس دی نہ وہ دوبارہ شادی کرنا چاہتی تھی نہ اسکی ہونی تھی۔
وہ شاہ کمال کی جگہ کیونکر کسی کو دیتی کیسے نہ اسکے نام پر مر جاتی؟۔۔
چلو آج باہر سے کچھ کھاتے ہیں ازلان نے اسے کھینچتے کہا۔۔۔
ازو ہمیں نہیں جانا گھر لے آؤ کچھ۔۔
اور رات بہت ہو چکی ہے سب دکان بند ہوگئ ہوگی۔۔
اف میری جھلی بہن یہ شہر ہے اور دن سے زیادہ یہاں رات کو لوگ باہر ہوتے ہیں۔
اور دکان نہیں فوڈ کارنر بول۔ ازلان کی بات دعا کے سر پر سے گزری۔۔
ہیں ہیں ہیں کونسی پارلر؟
دعا کی بات پر وہ قہقہہ لگاتا اسے باہر لے گیا۔۔ روٹی پارلر ازلان نے جیپ میں اسے پھینکتے شرارت سے کہا۔۔
“اچھا روٹی پارلر بھی ہوتا ہے” دعا نے احمقوں کی طرح ازلان کو دیکھا جو مسکراہٹ چھپائے ڈرائیو کر رہا تھا۔۔۔
******
جیپ ایک بہت اوپن ریسٹورنٹ کے سامنے رکی وہاں اتنی تعداد میں لوگ دیکھ کر دعا کا اعتماد جانے لگا اگر یہی گاؤں کے لوگ ہوتے تو فورا خان زادی بن جاتی مگر یہ شہر کے لوگ تھے انجان اجنبی اور الگ دنیا کے باسی وہ خود کو ان فٹ محسوس کرنے لگی کچھ سفید بے داغ لباس پر کالی چادر کا نقاب تھا۔۔
شہر آنے کے بعد بہت مشکل سے ازلان نے اسکا لاچا اور کڑتی ختم کروائی وہ کسی رنگ کو تو تن پر لگانے پر کفر سمجھ رہی تھی۔ مگر سفید لباس میں تبدیلی تو ہو سکتی تھی یوں ازلان کے لائے گئے سفید شلوار سوٹ اور فراک اور چوڑی دار پجامے پر وہ سمجھوتا کر رہی تھی اب بھی وہ سفید چوڑی دار اور لمبی سفید بے داغ فراک میں تھی اپنے گرد بڑی سے کالی چادر میں خود کو دنیا سے چھپائے۔۔ دعا کی کنفیوژن بڑھتی جا رہی تھی وہ ازلان کا ہاتھ دبا کر بولی۔
” مجھے لے جاؤ یہاں سے میرا دم گھٹ جائے گا مجھے ڈر لگتا ہے ان شہری لوگوں سے سب ہی لگتا ہے ادینہ اور دلاور ہیں یہ تمہیں اور مجھے بھی مار دیں گے۔۔
ریلیکس یار تم اوور ری ایکٹ کر رہی ہو دیکھو سب اپنے کھانے میں مصروف ہیں۔۔۔ کوئی ہمیں نہیں دیکھ رہا کسی کو ہم سے کچھ بھی لینا دینا نہیں ہے۔ سب یہاں کھانے پر آئے ہیں نہ کہ کسی کو ٹیس کرنے۔۔” ازلان کے حوصلہ دینے پر دعا نے نظر کی نظر دیکھا اور واقع سب اپنے کھانے میں مصروف تھے کچھ لوگ اپنے ساتھ بیٹھے اپنے کپل سے باتوں میں مصروف کھانا کھا رہے تھے۔ پھر بھی دعا کو لگا اسکا دل رک جائے گا وہ صرف ازلان کی خاطر اسکے ساتھ چل دی اسے ایک ٹیبل پر بٹھاتے ازلان کھانے کا آڈر دینے چلا گیا۔۔۔
“کم ان یار ٹیک اٹ ایزی” دعا کو ریلیکس کرتے ازلان نے کہا وہ جانتا تھا وہ شاہ کمال کی وجہ سے انگلش سمجھ تو لیتی ہے مگر بول نہیں پاتی اور انگلش میں کہنے کا فائدہ یہ تھا وہ اب اس کے لفظوں کا دماغ میں ترجمہ کرنے میں مصروف رہے گی جب تک اسے بات سمجھ میں آئے گی کھانا آ جائے گا اور کھاتے ہوئے وہ ماحول سے مانوس ہونے لگے گی۔ورنہ گھر رہ کر تو وہ گل سڑ جاتی۔۔۔ دعا ازلان کی دو لفظی انگلش کے تانے بانے میں مصروف تھی جب کھانا آ گیا جھجھک کے چہرے سے پلو گراتے دعا شرمندہ ہوئی” شاہ جی ہوتے تو کیا سوچتے وہ کبھی مجھے یہ نہ کرنے دیتے انکی دعا کو کوئی دیکھے” دعا نے پلو واپس چہرے پر کر لیا۔۔ ازلان نے سمجھتے اسے دیکھا۔۔ “دعا ہمیں کوئی نہیں دیکھے گا” ازلان اسے جان بوجھ کر اوپن ائیر ریسٹورنٹ میں لایا تھا تاکہ وہ خود کو اس خول سے نکال لے کیونکہ نا تو وہ اسے خان زادی بن کر زندہ جلتے دیکھنا چاہتا تھا نا ہی چھوٹی سی عمر میں شاہ کمال کے نام پہ زندہ لاش بنتے۔۔۔
یہ لو یہ کھا کر دیکھو کیسا ہے تم بھی ایسا نہیں بنا سکتی۔ ازلان نے جان بوجھ کر نوالہ اس کے سامنے کیا تاکہ وہ انکار نہ کر پائے دعا کی ایک آنکھ میں ہلکی سی نمی کی تحریر تھی تو چہرے پر ضبط کی سختی چھوٹی سی ناک لال ہو رہی تھی یہ اس کے اندر چلتے جھکڑ کی تحریر تھی جو پڑھ کر بھی ازلان انجان بن گیا۔ دعا نے منہ کھولا تو ازلان نے نوالہ اسے کھلاتے کہا اب خود ہی کھاؤ۔۔ اگر جو میں تمہیں کھلاتا رہا۔ تو جو ہماری طرف نہیں بھی دیکھنا چاہے گا وہ بھی دیکھے گا۔۔
دعا خاموشی سے چھوٹے چھوٹے نوالے کھاتی رہی اس دوران اسے بہت سی آنکھیں اپنے چہرے پر مرکوز لگیں جن میں دو ملٹیز آنکھوں کی تپش اس قدر جلتی تھی دعا سلگ اٹھی۔ ازلان کی کال آئی تو شور ہونے کے باعث وہ باہر نکل گیا دعا نے ان جلتی سلگتی ملٹیز آنکھوں کی تپش کی تعاقب میں دیکھا تو اسکی روح مچلنے لگی نفرت کی شدید لہر اس کے دل میں ٹیس اٹھانے لگی۔۔
دلاور اسے جانے کیوں چبتی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا وہ یہاں کیا کر رہا تھا اور کیونکر دعا نہیں جانتی تھی مگر اسے اسکے سوالوں کے جواب چاہیئے تھے اس لئے وہ ٹیبل گھسیٹتی قدم قدم اس تک گئی دلاور پہلے چیئر اس طرف موڑے اسے غصے سے گھور رہا تھا دعا کا اس طرح اچانک آنا اس میں اور اشتعال پیدا کر گیا دعا کی چادر سر سے بھی ڈھلک چکی تھی آوارہ لٹیں ہوا میں کبھی اسکے چہرے کے گرد احتجاج میں معروف تھی پیروں میں موجود موجھڑی(کھوسہ) الگ شور مچا رہی تھیں کہ یہ انکی سمت نہیں ہے ۔۔ مگر دعا کے سر پر کوئی جنون سوار تھا وہ آنکھیں سکوڑے اسے چبتی نظروں سے دیکھتی اس تک گئی۔۔
دلاور ابھی تک سگریٹ سلگھائے اسے اپنے قریب آتا دیکھ رہا تھا جب اس تک پہنچ کر وہ پھولا ہوا سانس لئے دلاور پر جھکتی اسکے کالر کو پکڑ کر جھپٹی۔۔
دلاور ویسے ہی بیٹھا رہا۔ ہمارے خان کا قتل کر کے تم یہاں ہمیں تاڑ رہے تھے شرم نہیں آتی تمہیں، ہم جان سے مار دیں گے تمہیں، بولو کیوں مارا ہمارے شاہ جی کو؟؟ قاتل ہو تم دعا کی اس حرکت پر سب لوگ اس طرف متوجہ ہو گئے جبکہ دلاور اپنے تاثرات کو اور اکڑا کر کھڑا ہوا۔۔۔
” بہت دکھ ہے نا آپ کو شاہ جی کے جانے کا دلاور نے غصے سے اسے ہلا ڈالا اسی دکھ کو ختم کرنے آپ یہاں ریسٹورنٹ میں آئیں ہیں لاتعداد مردوں کے سامنے اپنے کھلے منہ سے کھا رہی ہیں تو کبھی اپنے دنیاوی بھائی کے ساتھ، ایسی شاہ جی کی دیوانی تھیں تو لے جاتی اس دنیاوی بھائی کو کسی بند کیبن ہوٹل میں۔۔۔دلاور کو دعا کا اس طرح یہاں آنا پسند نہیں آیا تھا۔ وہ ریسٹورنٹ میں داخل ہوا تو اسکے ساتھ والی ٹیبل پر بیٹھے دو لڑکے کسی لڑکی کی خوبصورتی، اسکے رنگ پر تبصرے کرتے بے ہودہ گفتگو کر رہے تھے دلاور نے اگنور کیا مگر جب بات ان مصر کے دانوں کی ہوئی تو دلاور کو دعا یاد آئی اسی لئے ان لڑکوں کی نظروں کی تعاقب میں جیسے ہی دلاور نے دیکھا دعا ازلان کے ہاتھ سے کھا رہی تھی اس پر ان لڑکوں کا ازلان کو دعا کا بوائے فرینڈ کہنا۔۔ دلاور کا اشتعال بڑھا گیا۔۔
اس نے غور کیا تو بہت سے لوگ اسے دیکھ رہے تھے۔
دلاور غصے سے کھولتا اسے چبتی نگاہ سے دیکھنے لگا جب وہ خود اس تک چلی آئی۔۔۔
دعا کا نازک ہاتھ اٹھا اور دلاور کے منہ پر چار انگلیوں کے نشان چھوڑ گیا۔۔
تم تمہاری ہمت کیسے ہوئی ایسی گھٹیا بات کرنے کی دعا نے بہت سارے پنچ اسکے کشادہ سینے پر مارے تم کیا جانو ہماری محبت تم تو بہن بھائی کے رشتے کو گندہ کر چکے ہو۔ قاتل ہو تم۔ اور ہم کچھ بھی کریں تم کون ہوتے ہو ہمیں کچھ کہنے والے ہمارے بارے میں ہمارے کردار پر ہاتھ اٹھانے والے۔ دعا اسے مارتی ہی جا رہی تھی جب لوگوں کو ہٹاتے ازلان اس طرف گیا اور اسکی کلائیاں پکڑ کر روکا۔ دلاور بت بنے اسکا نازک تشدد سہہ رہا تھا۔۔
کیا کر رہی ہو دعا پاگل ہو گئی ہو سب دیکھ رہے ہیں اس نے کیا کر دیا ہے جو تم بے قابو ہو رہی ہو۔
ہماری زندگی ہماری ساری ساخت تباہ کی ہے اس نے دعا کا رخ تو ازلان کی طرف تھا مگر اسکی مخروطی انگلی دلاور کی طرف اٹھی تھی۔ نفرت ہے ہمیں ان سے۔۔ ان سے کہو چلے جائیں یہاں سے۔۔ دعا کا حکم تھا دلاور کا ضبط کھوتا غصہ دلاور لمبے لمبے ڈگ بھرتا چلا گیا۔۔ وہ مزید یہاں رکتا تو دعا کو اٹھا کر حویلی پھینک آتا۔
“سنبھالیں خود کو خان زادی”۔ ازلان نے چبا چبا کر کہا تاکہ وہ اپنی پوزیش کا خیال کر لے دعا نے سنبھلتے اپنی چادر ٹھیک کی اور جیپ کی طرف چلی گئی۔اور ازلان بل دینے،
دعا جیپ میں چڑ رہی تھی جب اسے دلاور کی سوک دھول اڑاتی نظر آئی وہ صرف اسے گھور ہی سکی
*******
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...