انگلستان میرا انگلستان
یعقو ب نظامی بنیادی طور پر صحافی ہیں تاہم ان کے ہاں ادبی رنگ غالب رہتا ہے۔برطانوی اردو صحافت میں ’عقاب‘،’آوازِملّت‘،اور ’راوی‘تک ان کی صحافتی سرگرمیوں کی روداد بکھری پڑی ہے۔ ان کی کتابیں ’’پاکستان سے انگلستان تک‘‘اور سفر نامہ’’پیغمبروں کی سر زمین‘‘ادب اور صحافت کے سنگم کا خوبصورت اظہار ہیں۔زیرِ نظر کتاب’’انگلستان میرا انگلستان‘‘ان کی تازہ ترین تصنیف و تالیف ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے برطانیہ میں ایشیائی تارکین وطن کی چار سو سالہ تاریخ کو انتہائی اختصار کے ساتھ پیش کرنے کے ساتھ بریڈ فورڈکے حوالے سے بطور خاص تحقیقی کام کیا ہے۔بیسویں صدی کے نصف اول تک آباد ہونے والے ایشیائیوںکے احوال،ساٹھ کی دہائی میں آکر بسنے والوں کے خیالات،نئی نسل کے رجحانات،خواتین کے مسائل اور ایشیائی آبادی کے مختلف معاملات کو اس کتاب میں بڑی عمدگی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ تحقیقی لحاظ سے یہ ایک انتہائی مشکل اور جان لیوا کام تھا جسے یعقوب نظامی نے بڑی آسانی سے کر لیا ہے۔اس کتاب میں عزم و عمل کی حیران کن داستانیں بھی ہیں،سیرابی و سرشاری بھی ہے،دکھ ، حسرتیں اور احساسِ تنہائی بھی ہے اور مختلف نوعیت کے دلچسپ قصے بھی۔
یعقوب نظامی نے کتاب میںشامل ’’اپنی بات‘‘میں ایک بڑی سچی بات یوں لکھی ہے:
’’برطانیہ ایسا ملک ہے جہاں ہر چیز کا ریکارڈ محفوظ ہے۔انسان تو انسان یہاں پرندوں، چرندوں ، حیوانوں، عمارتوں،سڑکوں کی تاریخ موجود ہے،اگر کوئی مکین یہ معلوم کرنا چاہے کہ جس مکان میں وہ رہتا ہے کب تعمیر ہوا تھا؟اُس وقت اس پر کتنے اخراجات آئے تھے؟اور آج تک کون کون اس مکان میں مقیم رہا؟تو یہ تمام ریکارڈ دستیاب ہے۔اگر ریکارڈ محفوظ نہیں ہے تو برطانیہ میں آباد ایشیائیوں کا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم مزاجاََ تاریخ پڑھنا اور اس سے عبرت حاصل کرنا پسند نہیں کرتے۔‘‘
مغربی ممالک میں فکشن کے نام پر ،بالخصوص ثقافتی کشمکش کے حوالے سے جو کچھ لکھا جا چکا ہے، اس میں سے گنتی کے چند افسانے ہی ایسے ہیں جو تخلیق کی اہم سطح پر پہنچتے ہیں،باقی سب کا بیان محض سطحی واقعہ نگاری سے آگے نہیں جاتا۔یعقوب نظامی کی اس کتاب کا طرزِ تحریر اتنا خوبصورت ہے کہ وہ مغربی ممالک کے ایسے بیشترمذکورہ افسانہ نگارں کے افسانوں سے کہیں آگے نکل گئے ہیں۔ بعض واقعات اور داستانیں اتنی حیران کن ہیں کہ ان میں یہاں کے عام افسانوں سے زیادہ ادبی اظہار ہوتا ہے۔اسی مقام پر مجھے یعقوب نظامی مغربی ممالک کے متعدد افسانہ نگاروں سے کہیں بہتراور بڑے تخلیق کار محسوس ہوئے ہیں۔انہوں نے تحقیق جیسے کام کو عمومی طور پر تحقیقی دیانت کا دامن چھوڑے بغیر تخلیق کے قریب تر کر دیا ہے۔یہ ان کی شاندار کامیابی ہے جس پر انہیں تہہ دل سے مبارکباد پیش کرتا ہوں!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پرندے اب کیوں نہیں اڑتے
دیویندرا سرنے ترقی پسندی سے جدیدیت تک کا ایک طویل سفر طے کیا ہے۔ سماجی انقلابی اور احتجاجی کہانیوں سے ہوتے ہوئے انہوںنے جدید افسانے کی منزل سر کی ہے۔ ان کے افسانوں کا تازہ مجموعہ’’پرندے اب کیوں نہیں اڑتے‘‘سترہ افسانوں پر مشتمل ہے۔کسی افسانہ نگار کے تازہ مجموعہ سے اس کی افسانہ نگاری کی تازہ صورت حال کا اندازہ کیا جاتا ہے لیکن زیرِ نظر مجموعہ میں دیویندراسر کے تازہ افسانوں کے ساتھ چند تھوڑے پرانے اور چند زیادہ پرانے افسانے بھی شامل ہیں۔ اس طرح یہ مجموعہ اپنے آپ میں دیویندراسر کی افسانہ نگاری کے ارتقائی عمل کی جھلکیاں بھی پیش کرتا ہے۔ زیادہ پرانے افسانوں میں ’’خونِ جگر ہونے تک ‘‘ اور شمع ہر رنگ میں جلتی ہے۔۔۔ ’’
تھوڑے پُرانے افسانوں میں ’’میرا نام شنکر ہے‘‘اور ’’پرندے اب کیوں نہیں اُڑتے‘‘ جیسے افسانے شامل ہیں جب کہ تازہ افسانوںمیں ’’وے سائڈ ریلوے اسٹیشن۔‘‘آر کی ٹیکٹ‘‘ ’’جنگل ‘‘، ’’پرچھائیوں کا تعاقب‘‘اور ’’جیسلمیر‘‘جیسے افسانوں کے نام لئے جا سکتے ہیں۔’’پرچھائیوں کا تعاقب‘‘کا ایک اقتباس دیکھیں:
’’تلاش کے اس عمل میں اس نے گم شدہ لوگوں کی تصویریں جمع کرنا شروع کر دیں۔ ان تمام لوگوں کی تصویریں جولا پتہ ہو جاتے ہیں۔ کسی کا قتل کر دیتے ہیں۔ یا خود کشی کر لیتے ہیں۔ گھر بار چھوڑ دیتے ہیں۔ سنیاس لے لیتے ہیں، تارک الدنیا ہو جاتے ہیں، بھیس بدل کر دو سری زندگی بسر کرنے لگتے ہیں۔ اسکول کا لج چھوڑکر انقلابی بن جاتے ہیں یا اس عورت کی طرح کسی دُور افتادہ گائوں میں آدمی واسیوں میں کام کرتے ہیں۔وہ کیا چیز ہے جو لوگوں کو ایک زندگی بدل کر دوسری زندگی بسر کرنے پر مجبور کر دیتی ہے ۔یہ کیسا جنون ہے۔!‘‘
وہ کیا چیز ہے جو لوگوں کو ایک زندگی بدل کر دوسری زندگی بسر کرنے پر مجبور کر دیتی ہے اور کہیں بھ چین سے ٹکنے نہیں دیتی ____ اسی چیز اور اسی اضطراب کی کھوج کا سفر دیویندراسر کے افسانوں میں دکھائی دیتا ہے۔ جدید اور جدید تر افسانے سے دلچسپی رکھنے والے اصحاب کے لیے دیویندراسر کے اس مجموعے کو نظر انداز کرنا بے حد مشکل ہو گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابنِ بطوطہ کے خطوط(سفر نامہ)
ڈاکٹر ظہور احمد اعوان اردو کے ممتاز ادیب اور صحافی ہیں۔سفرا نامے،خاکے،رپورتاژ،کالم نگاری،اقبالیات و پاکستانیات،تنقید و تراجم،پشوریات پر ان کی مجموعی طور پر ۴۹ کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔زیرِ نظر سفر نامہ ابنِ بطوطہ کے خطوط کے ساتھ ان کی کتابوں کی ہاف سنچری مکمل ہو رہی ہے۔اس میں صرف تین کتابیں ترجمہ سے متعلق ہیں جبکہ باقی ساری کتابیں جینوئن ورک کے ذیل میں آتی ہیں۔آج کے دور میں جب کسی اونچی دوکان والے نام کی ساٹھ کتابوں کی حقیقت کھلتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ اوریجنل ورک کہلانے والی تو مشکل سے پانچ کتابیں نکلی ہیں۔باقی سب قینچی ورک کی مختلف اشکال ہیں۔کہیں ترتیب، کہیں تدوین،کہیں ترجمہ اور کہیں سرقہ۔ایسے ماحول میں ڈاکٹر ظہور احمد اعوان کے دامن میں پچاس کے لگ بھگ جینوئن ورک والی کتابوں کا ہونا بجائے خود ایک اعزاز ہے۔
ابنِ بطوطہ کے خطوط میں ہالینڈ،جرمنی،فرانس ،برطانیہ،امریکہ اور ترکی کے سفر کا احوال درج ہے۔ 8؍جولائی2007ء سے لے کر29 اگست 2007ء تک کے عرصہ پر محیط اس سفر کی روداد کو ڈاکٹر ظہور احمد اعوان نے اپنے سابقہ سفر ناموں سے مختلف انداز میں لکھا ہے۔انہوں نے مختلف ملکوں کے شہروں سے اپنے مختلف عزیزوں اور دوستوں کو خطوط لکھے،جن میں اپنے سفر کی روداد ساتھ ساتھ بیان کرتے گئے۔ یوں یہ سفر انہوں نے اکیلے نہیں کیا بلکہ ان کے وہ سارے عزیز و اقارب اور دوست احباب بھی ایک رنگ میں اس سفر میں ان کے ساتھ رہے جنہیں وہ ساتھ کے ساتھ اپنی روداد لکھ کر بھیج رہے تھے۔اس انداز تحریر نے اس سفر نامہ کو ایک انفرادیت بھی عطا کر دی ہے۔اس سفر نامہ میں متعلقہ ممالک کے بارے میں اعداد و شمار والی معلومات سے زیادہ ڈاکٹر اعوان کے ذاتی تجربات،مشاہدات نے سفر کی روداد کو بے ھد دلچسپ بنا دیا ہے۔انہوں نے مغربی ممالک کے خوبصورت اور قابلِ تقلید رویوں کو بھی اجاگر کیا ہے اور ان معاشروں کے منفی اثرات کی بھی نشان دہی کی ہے۔یورپ کے مقابلہ میں انہیں امریکہ زیادہ اچھا لگا لیکن یورپ کی خوبیوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا۔ترکی کی روداد میں ان کے جذبات کا بہاؤ کئی بار ماضی اور حال میں مدغم ہوتا رہا۔جرمنی میں جن دنوں میں ڈاکٹر ظہور احمد اعوان تشریف لائے،اُن دنوں میں جرمنی میں گزشتہ بیس برسوں میں سب سے زیادہ گرمی پڑرہی تھی۔چنانچہ انہوں نے جرمنی کا نام گرمنی رکھ دیا اور اب جب میں یہ تبصرہ لکھ رہا ہوں،۷؍ جنوری ۲۰۰۹ء کو جرمنی میں ہمارے علاقہ میں ٹمپریچر منفی سولہ ڈگری تک پہنچ چکا ہے۔انہوں نے چار دنوں کا تجربہ لکھ دیا ہم پندرہ برسوں کے تجربات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔مجموعی طور پر یہ سفر نامہ اپنے انوکھے انداز تحریر کے ساتھ اپنے دلچسپ،معلوماتی اور خوبصورت تجربات و مشاہدات کی بنا پرخصوصی اہمیت کا حامل ہو گیا ہے۔ مغربی ممالک کی سفرنامہ نگاری میں ’’ابنِ بطوطہ کے خطوط‘‘کوایک منفرد و اہم حیثیت حاصل رہے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جذبۂ شاہین عالمہ ڈاکٹر نوہیرا شیخ
مطیع الرحمن عزیز انڈیا کے نوجوان صحافی ہیں۔میرا ان سے کئی برسوں سے رابطہ ہے۔ان کی شخصیت کی ایک اہم خوبی یہ ہے کہ ان کی کسی سے بھی وابستگی ان کے حق اور سچ کی بنیادپر ہوتی ہے اوراس معاملے میں وہ کسی ڈر،خوف یا لالچ کا شکار نہیں ہوتے۔کسی کے ساتھ بھی ان کا تعلق حق اور سچ کی بنیاد پرقائم ہوجائے تو پھر یہ آخر دم تک ساتھ نبھاتے ہیں۔ان کی اس خوبی کا میں خود گواہ ہوں۔گویا مطیع الرحمن عزیز ایسے لوگوں میں شامل ہیں جن کی دوستی،جن کا ساتھ اور جن کی وفاداری شک و شبہ سے بالا ہوتی ہے ۔
ان کی کتاب ’’جذبۂ شاہین عالمہ ڈاکٹر نوہیرا شیخ‘‘ سوانحی تصنیف ہے۔اس میں انہوں نے ڈاکٹر نوہیرا شیخ کی زندگی کی داستان بیان کر دی ہے۔ان کا خاندانی پس منظر،ذاتی زندگی، ان کا نصب العین اور اس کے حصول کے لئے جدوجہدیہ سب اس کتاب میں آ گئے ہیں۔ ڈاکٹر نوہیرا شیخ نے غریبوں کو اوپر اٹھانے کے لئے،عام انسانوں کو زندگی میں کامیاب بنانے کے لئے،سماجی فلاح و بہبود کے لئے جو نصب العین بنایا تھا اس کی تکمیل کے لئے انہیں بڑی آزمائشوں،ابتلاؤں اور مصیبتوں سے گزرنا پڑا لیکن وہ ہر مشکل کو سہتے ہوئے آگے بڑھتی رہیں اور ان کی زندگی کی جدوجہد اب بھی جاری ہے۔سات سو سے زیادہ صفحات پر مشتمل مطیع الرحمن عزیز کی تحریر کردہ یہ کتاب ڈاکٹر نوہیرا شیخ کے عزم و عمل کی دلچسپ اور ہمت افزا داستان ہے۔یہ کتاب خواتین میں عزم و ہمت پیدا کرے گی اور عام انسانوں کو بھی انسانیت کی فلاح و بہبود کی ترغیب دے کر اس کے لئے جدوجہد کا حوصلہ دے گی۔
اس کتاب کی اشاعت پر میں مطیع الرحمن عزیز اور عالمہ ڈاکٹر نوہیرا شیخ دونوں کو خلوصِ دل سے مبارک باد پیش کرتا ہوں اور ڈاکٹرنوہیرا شیخ کی شاندارکامیابیوں کا سفر جاری رہنے کی دعا کرتا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...