اتنی دیر لگا دی ۔۔خیریت تو ہے ۔۔۔وہ جونہی اندر داخل ہوا حدید اس سے بغل گیر ہوتے ہوئے بولا ۔۔
پہنچ تو گیا نہ ۔۔۔۔اب اندر تو آنے دو ۔۔۔
ہاں ہاں چلو ۔۔حدید اسے اپنے ساتھ لئے اندر کی جانب بڑھا ۔۔
شام کے وقت سب نے مل کر تابی کے سالگرہ کے موقعے پر ایک چھوٹی سی پارٹی رکھی گئی ۔۔جہاں سب گھر والوں کے علاوہ تابی کے دوستوں نے بھی شرکت کی تھی ۔۔
سورج ڈھلنے لگا تھا چاندنی نے اپنے پر پھیلانا شروع کر دیئے تھے ۔۔
بلیک فراک میں ۔۔بالوں کو کھلا چھوڑے ۔۔۔وہ دیکھنے لائق لگ رہی تھی ۔۔
وہ امل کے ساتھ کھڑی کسی بات پر مسکرا رہی تھی جبھی حدید کے ساتھ آتے حزیفہ کی نظر اس پر پڑی ۔۔۔
اسکے قدم وہیں تھم گئے ۔۔
اک شام کے آنچل میں چھپا کہ تمہیں جاناں
خواہش ہے کہ دیکھوں۔تنہا تیری صورت
تو تابی سے مل میں ابھی آیا ۔۔حدید اسکے شانے کو تھپتھپاتا ہوا آگے بڑھ گیا ۔۔
جبھی تابی نے مسکراتے ہوئے اسی جانب دیکھ کر ہاتھ ہلایا ۔۔
ہولے ہولے سے مسکراتے ہوئے وہ اسکی جانب بڑھنے لگی ۔۔حزیفہ کو لگا ۔۔جیسے اس سے زیادہ حسین منظر اور کیا ہوگا ۔۔وہ بلکل تین سال کی تابین لگی جو اجلت میں مسکراتے ہوئے اسکی جانب بڑھتی تھی ۔۔سبھی منظر دھندلانے لگے ۔۔نظر تھی تو صرف تابی پر ۔۔
میری دھمکی کا اثر اتنی جلدی ہو گیا اس پر ۔۔۔وہ سوچنے لگا ۔۔چلو اچھی بات ہے ۔۔۔وہ بھی مسکراتے ہوئے ہاتھ میں پکڑے سرخ گلاب کو پشت کی جانب کئے آگے بڑھ گیا ۔۔۔
لمحے گزرنے لگے ۔۔فاصلے کم ہوتے گئے ۔۔وہ سر کو جھکائے منہ سے الفاظ جاری کرتا ۔۔۔جبھی تابی ایک ادا سے دوپٹے کو لہراتے ہوئے آگے بڑھ گئی ۔۔
ہیلو باسط ۔۔۔۔شکر ہے تم آگئے میں تمہارا ہی انتظار کر رہی تھی ۔۔۔حزیفہ کے پیچھے کھڑے باسط کی طرف جاتے ہوئے وہ کہنے لگی ۔۔
ایک پل کو تو حزیفہ سمجھ ہی نہ پایا ۔۔مگر جب تابین کو باسط کے ساتھ اس طرح بات کرتے دیکھ کر حزیفہ کے تن بدن میں آگ لگ گئی ۔۔
آ ۔۔اصل میں ۔۔میں آنا نہیں چاہتا تھا وہ تو زبردستی مناہل نے بھیجا تو اس لئے ۔۔
یہ تو اچھا کیا مناہل نے ۔۔اسکو بھی ساتھ لے آتے نہ ۔۔وہ باسط کی بات کاٹتے ہوئے بولی ۔۔
اچانک اسکی تابی کی نظر باسط کے ہاتھ میں پکڑے سفید بکے پر پڑی ۔۔۔یہ میرے لئے ۔۔۔؟ وہ پوچھ بیٹھی ۔
جی ۔۔۔اصل میں مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا جبھی انکا انتخاب کیا ۔۔وہ اپنے چشمے کو ہاتھ سے سیدھا کرتے ہوئے صفائی پیش کرنے لگا ۔۔
آہ ۔۔۔۔نہیں ۔۔۔یہ تو بہت ہی خوبصورت ہے میرا پسندیدہ رنگ ۔۔بہت بہت شکریہ ۔۔۔
حزیفہ ۔۔۔۔جو نہ جانے کب سے تابی کی حرکتیں برداشت کر رہا تھا ۔۔اچانک تابی کی یہ بات اسے ماضی تک لے گئی ۔۔۔
تم یہ کیوں لائے مجھے سفید رنگ پسند نہیں ۔۔۔وہ ہاتھ باندھتے ہوئے ناراضگی سے کہنے لگی ۔۔
ارے نہیں ۔۔۔تابی ۔۔کیوں تمہیں یہ پسند نہیں ۔۔کتنا اچھا تو ہے سادہ سا ۔۔حدید نے اسکے ہاتھ سے پھول لیتے ہوئے کہا ۔۔
اسکا تو کوئی رنگ ہی نہیں ۔۔پھر مجھے کیسے پسند آئے گا ۔۔۔۔منہ پھلاتے ہوئے اس نے غصے میں پھول زمین پر اچھال دیا ۔۔
غلط بات ۔۔۔۔اپنے پاؤں میں پڑا پھول یوسف اٹھاتے ہوئے کہنے لگا ۔۔۔
یہ سب قدرت کے بنائے گئے رنگ ہیں ۔۔ہم میں اتنی اوقات کہاں کہ ہم انہیں نا پسند کریں ۔۔۔وہ تابی کے آگے گھٹنوں کے بل بیٹھتا ہوا اسے سمجھانے لگا ۔۔
اسکی بھی اپنی اہمیت ہے ۔۔۔ہمارے جھنڈے میں بھی تو سفید رنگ ہے ہمیں تو وہ پسند ہے ۔۔اسے چھاتی سے لگائے پھرتے ہیں ۔۔۔
لیکن تابی پھر بھی اسی طرح منہ بنائے کھڑی رہی ۔۔
اچھا تمہیں نہیں چاہئے یہ ۔۔۔تو نہ سہی ۔۔۔لیکن میں تمہارے لئے یہ لایا ہوں ۔۔اسنے مسکراتے ہوئے تابی کے سامنے گلاب کا پھول پیش کیا ۔۔
واؤ اٹس امیزنگ ۔۔۔اسکی آنکھوں میں خوشی کی لہر دیکھتے ہوئے وہ بھی مسکرا دیا ۔۔
تم میرے سب سے اچھے دوست ہو ۔۔آئی لائک یو ۔۔۔وہ اسکے گلے لگتے ہوئے خوشی سے جھوم اٹھی ۔۔۔
۔**************۔
آہ ہ ۔۔۔تم کیسے کر لیتی ہو یہ سب ۔۔وہ آنکھوں کی نمی صاف کرتے ہوئے کھانسنے میں مصروف تھی ۔۔۔
حالات کے ساتھ سمجھوتا ھر کسی کو کرنا پڑتا ہے ۔۔۔وہ اسے پانی کا گلاس آگے کرتے ہوئے کہنے لگی ۔۔
لیکن پھر بھی اتنے کچے مکان میں جہاں ھر طرف مٹی ہی مٹی ہو ۔۔رہنا بہت مشکل ہو جاتا ہے ۔۔خاص کر بارشوں کے موسم میں ۔۔۔نوشین جلدی سے کہنے لگی ۔۔
ہم میں سے کئی لوگ ایسے بھی ہیں جو جھونپڑی میں رہتے ہیں پھر بھی وہ ہمیشہ خوش رهتے ہیں ۔۔اللہ کا شکر کرتے ہیں۔۔پھر بھی اللہ کا شکر ہے کہ رہنے کے لئے چھت تو ہے نہ ۔۔مناہل نے جواب دیا ۔۔۔
لیکن میں تو کبھی نہ رہوں ایسے گھر میں ۔۔۔وہ منہ کے زاویئے بگاڑتے ہوئے بولی ۔۔
مناہل اسے تکتی رہ گئی ۔۔
۔***********۔
نہ جانے کب سے وہ منہ پر ہاتھ رکھے غصہ دبانے کی کوشش میں الگ تھلگ بیٹھا ۔۔تابی کی کارکردگی پر غور کر رہا تھا ۔۔۔
جبھی تابین کو اکیلے جاتے ہوئے دیکھ کر وہ اسکی جانب بڑھنے لگا ۔۔۔
وہ بے خیالی میں جارہی تھی جبھی کسی نے اسے بازو سے پکڑتے ہوئے اپنی جانب کھینچا ۔۔۔وہ لڑکھڑاتے ہوئے دیوار سے جا لگی ۔۔
سامنے حزیفہ پر نظر پڑتے ہی وہ حیران رہ گئی ۔۔۔کیا بد تمیزی ہے یہ ۔۔تمہیں شرم نہیں آتی ۔۔وہ اس پر پھٹ پڑی ۔۔
شرم تو تمہیں آنی چاہئے جو سر عام بےحیائی پھیلاتی پھر رہی ہو ۔۔وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے غصے سے غرایا ۔۔۔
وہ آنکھیں کھولے حیرانگی سے اسے تکنے لگی ۔۔۔
میں آخری بار تمہیں وارن کر رہا ہوں ۔۔دور رہو اس سے ورنہ چھوڑوں گا نہیں ۔۔نہ تمہیں اور نہ ہی اسے ۔۔وہ ایک جھٹکے سے اسکی کلائی کو جھٹکا دیتے ہوئے۔۔ایک گھوری سے نوازتا ہوا آگے بڑھ گیا ۔۔۔
۔**************۔
وہ سب سے الگ تھلگ ہتھیلی پر چہرہ گرائے کسی معصوم بچی کی طرح بیٹھی تھی ۔۔اسے پارٹیز وغیرہ تو بچپن سے نا پسند تھیں ۔۔زیادہ بھیڑ اور لوگوں سے اسے الجھن ہونے لگتی ۔۔وہ پر سکون ماحول تلاش کرتی ہوئی وہاں آکر بیٹھی تھی ۔۔۔
باسط تنہا کھڑا اسے تنہا پا کر اسکی جانب بڑھا ۔۔۔
کرسی کھینچتے ہوئے وہ اسکے سامنے بیٹھ گیا ۔۔۔
باسط کو اپنے سامنے پا کر وہ جلدی سے سیدھی ہوئی ۔۔۔
باسط اسکا جائزا لینے لگا ۔۔۔وہ اس محفل میں سب سے مختلف نظر آنے لگی ۔۔سادے سے فراک میں ہلکا پھلکا میک اپ اسکی شخصیت کو اور بھی نکھار رہا تھا ۔۔
کیا ہے ۔۔۔مسلسل اسکی نظریں خود پر محسوس کرتے ہوئے آخر اس نے پوچھ لیا ۔۔
وہ نفی میں سر ہلاتے ہوئے ارد گرد نظر دوڑانے لگا ۔۔۔
ویسے تم کرتے کیا ہو ۔۔؟ اسے سادے سے حلیے میں دیکھ کر امل نے پوچھا ۔۔۔
پڑھتا ہوں ۔۔۔۔اسنے رسانیت سے جواب دیا ۔۔۔
واہ ۔۔۔زبردست ۔۔۔بہت اچھا کام کرتے ہو ۔۔۔وہ طنزیہ کہنے لگی ۔۔
وہ حیرانگی سے اسے دیکھنے لگا ۔۔۔
واہ دو لوگ ایک جیسے ایک ساتھ بیٹھ کر بور نہیں ہو رہے ۔۔۔حدید کی بر وقت انٹری نے اسے چونکا دیا ۔۔۔
تنہائی بہتر ہے جھوٹے لوگوں سے ۔۔۔۔امل نے حدید پر چوٹ کرتے ہوئے کہا ۔۔۔
ارے نوبیتا بونگی ۔۔تمہیں کب سے بولنا آگیا ۔۔یا پھر کسی کی صحبت کا اثر ہے ۔۔آخر والا جملہ اس نے دھیمے لہجے میں کہا ۔۔۔
یہ بات حدید صاحب بول رہے ہیں جو ہر فلرٹی لڑکی کے ساتھ فلرٹ کرتے ہیں ۔۔۔امل نے اسے غیرت دلانا چاہی ۔۔۔
او نوبیتا ۔۔۔میں فلرٹی لڑکی کے ساتھ باتھ نہیں کرتا ۔۔۔کیوں کہ میں کسی لڑکی کو فلرٹی سمجھتا ہی نہیں ۔۔۔وہ کندھے اچکاتے ہوئے بولا ۔۔۔
کیسے جھوٹے اور مکار انسان ہو تم حدید ۔۔۔باسط تم ہی بتاؤ کیا یہ ہر لڑکی کے ساتھ ہنس ہنس کر بات نہیں کرتا کیا ۔۔
باسط جو انکی لڑائی سے لطف اٹھا رہا تھا امل کے پکارنے پر وہ چونک اٹھا ۔۔۔
ارے اسے کیا پتا ۔۔۔یار بیچارہ تو ابھی شامل ہوا ہے نہ ہمارے گروپ میں ۔۔۔حدید نے کہا ۔۔۔۔
ہمارے گروپ میں ۔۔۔؟ یہ کب شامل ہوا ۔۔یہ تو صرف تابی کا دوست ہے نہ ۔۔
تو تابی کا دوست بھی ہمارا۔ دوست ہوا نہ ۔۔۔؟ حدید نے جواب دیا ۔۔
کسی شخص کو دیکھ کر اسکی۔ شخصیت۔ کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا ۔۔اور پتا نہیں یہ کون ہے کہاں سے ہے ۔۔۔امل نے فوراً کہا ۔۔
جس پر باسط کے چہرے کے تاثرات سنجیدہ پڑگئے وہ اٹھ کر چلا گیا ۔۔۔
ارے ۔۔۔بسس ہو گیا وہ خفا ۔۔۔بونگی تمہاری وجہ سے ۔۔۔حدید بھی اٹھ کر چلا گیا ۔۔۔۔
میں نے ایسا کیا کہہ دیا۔۔۔وہ سوچنے لگی ۔۔۔۔
۔************۔
بھئی ۔۔۔نہ تمہارے پاس مکان ہے ۔۔نہ کوئی کام ۔۔اور نہ ہی تمہارے ابا کا کاروبار بچا ہے۔۔۔خالو نے صاف صاف باسط کو سامنے بٹھا کر بات کرنا چاہی ۔۔
وہ منہ پر ہاتھ رکھے توجہ سے انکی باتیں سمجھنے کی کوشش کرنے لگا ۔۔
نوشین کی پھوپھو کب سے یاسر کے لئے نوشین کا رشتہ مانگ رہی ہیں ۔۔۔لیکن تمہاری خالہ کی جان تو تم میں بسی تھی ۔۔باقی مجھے تو کوئی برائی نظر نہیں آتی یاسر میں ۔۔ماشاءللہ اچھا کماتا ہے ۔۔اکلوتا بیٹا ہے ۔۔مانا کے عمر میں نوشین سے دو تین سال بڑا ہے لیکن ویسے بھی لڑکا بڑا ہونا چاہئے لڑکی سے ۔۔بہت خوش رکھے گا نوشین کو ۔۔۔
خالو کی یہ بات ۔۔۔باسط اور اسکے گھر والوں پر کسی بم کی طرح آن گری ۔۔۔
لیکن بھائی صاحب ۔۔۔نوشین کی نسبت تو بچپن سے باسط کے ساتھ طے تھی وہ اسکی منگیتر ہے آپ ایسا کیسے کر سکتے ہیں ۔۔اماں کو گہرا صدمہ ہوا ۔۔۔
دیکھیں بہن ۔۔۔آپکے پاس کچھ ہے ہی نہیں کس بنا پر ہم اپنی بیٹی کو آپ کے گھر میں بیہا سکتے ہیں ۔۔۔یہ ناممکن ہے ۔۔۔
لیکن ۔۔
اماں ۔۔۔بس کر دیں ۔۔باسط نے بیچ میں ماں کو ٹوک دیا ۔۔۔
کسی کو منتیں کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔جب ہم ہستی والے تھے تب ہر کوئی شہد کی مکھی کی طرح لپٹ جاتا تھا ۔۔۔اب جب ہم خالی ہاتھ کسی کے محتاج ہوئے ہیں تو سب ایسے دور بھاگ رہے ہیں جیسے اچھوت کی بیماری ہو ۔۔
ضبط سے وہ پھٹ پڑا ۔۔۔
خالو شرمندگی کے باعث کچھ بول ہی نہ پائے ۔۔
خیر آپکی بیٹی ہے ہم کچھ کہہ نہیں سکتے ۔۔اب تو آپ بڑے لوگ ہیں ۔۔ہم غریب ٹہرے غریب ۔۔شکر ہے اللّه امیروں کا نہیں ہوتا ۔۔۔وہ اپنے بندے کو تنہا نہیں چھوڑتا ۔۔آج آپکا وقت ہے کل ہمارا بھی دور آئے گا ۔۔۔یاد رکھئے گا ۔۔۔وہ کہتے ہی وہاں رکا نہیں ۔۔
بہت بدلحاظ بچہ ہے آپکا ۔۔۔میں اس بے عزتی کو کبھی بھول نہیں سکتا ۔۔۔
اماں سر پکڑ کر چار پائی پر بیٹھ گئیں ۔۔
۔***********۔
پیپر سر پر تھے ۔۔جسے دیکھو جہاں دیکھو کتاب ہاتھ میں لئے رٹا لگانے میں مصروف تھا ۔۔۔
ایک ظفر تھا جو وہاں آزاد بے فکر لوگوں کو تنگ کرنے میں مصروف تھا ۔۔۔
ابے اے بونگو ۔۔۔اسنے چپ چپ جاتے ہوئے باسط کو آواز لگا کر روکنا چاہا ۔۔
مگر وہ نظر انداز کئے آگے بڑھ گیا ۔۔۔
ارے ۔۔تیری ہمت کیسے ہوئی مجھے نظر انداز کرنے کی سنائی نہیں دیا کیا کہا میں نے ۔۔وہ اسکے بیگ کو پکڑتے ہوئے اسے جھٹکا دیتے ہوئے کہنے لگا ۔۔۔
میں۔ کو تماشا کھڑا کرنا نہیں چاہتا لہٰذا بہتری اسی میں ہے کہ مجھے جانے دو ۔۔باسط نے بھی سخت لہجے میں جواب دیا ۔۔
ارے واہ ۔۔تابین کی صحبت کا اثر ہے تم پر جو اتنی لمبی زبان بولنے لگے ہو ۔۔
اپنی اوقات میں رہو ۔۔۔۔باسط کا غصہ عروج پر پہنچنے لگا ۔۔۔
اوقات ۔۔۔اوقات کی بات کرتے ہو ۔۔۔چلو میرے جوتے صاف کرو چلو ۔۔۔ایک جھٹکے سے اس نے باسط کو اپنے پاؤں میں گراتے ہوئے کہا ۔۔۔
ہاہاہاہا ۔۔اوقات کی بات کرتا ہے ۔۔بونگو ۔۔۔وہ قہقہ لگاتے ہوئے باسط کے اوپر اپنی لات رکھ دی ۔۔
جبھی سامنے سے آتے حزیفہ کی نظر ان پر پڑی۔۔۔
تمہاری اتنی اوقات نہیں کہ کسی کو اپنی اوقات یاد دلاؤ ۔۔کم ظرف انسان ۔۔حزیفہ نے اسکے منہ پر مکا جڑتے ہوئے کہا ۔۔۔
ظفر جوابی حملہ کرتا اس سے پہلے پروفیسر کو گزرتے دیکھ رہے وہ پیچھے ہٹ گیا ۔۔۔۔
دیکھ لوں گا تمہیں بھی ۔۔۔وہ حزیفہ کو وارن کرتے ہوئے آگے بڑھ گیا ۔۔۔
ہاتھ دو ۔۔۔حزیفہ نے باسط کی جانب ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے درشتگی سے کہا ۔۔۔
باسط حیران رہ گیا ۔۔کہاں تو وہ حزیفہ جو اس سے بات کرنا گوارہ نہیں کرتا تھا اور کہاں یہ حزیفہ جو اسکی مدد کو آیا تھا ۔۔۔
شکریہ ۔۔وہ لڑکھڑاتے ہوئے کھڑا ہو گیا ۔۔۔
وہ بنا جواب دیئے اسے نظر انداز کرتا ہوا آگے بڑھ گیا ۔۔۔
یہ شخص نہ سمجھ سے باھر ہے ۔۔۔وہ اسکی پشت کو گھور کے رہ گیا ۔۔۔۔
۔*************۔
بہت خوش لگ رہی تھی وہ ۔۔۔
چہرے سے سرخی تو جا ہی نہیں رہی تھی ۔۔۔مانو جیسے اسکی پسند کی شادی ہو ۔۔۔وہ جب سے نوشین کی شادی سے ہو آئی تھی تب سے ایک ہی رٹ لگائی ہوئی تھی ۔۔۔
تم چپ کر سکتی ہو ۔۔یا میں چلا جاؤں یہاں سے ۔۔وہ غصے میں کھڑا ہوتے ہوئے بولا ۔۔۔
کیا ہو گیا ہے بھائی ۔۔۔جب اسے کوئی فرق نہیں پڑتا تو آپکو کیوں فرق پڑ رہا ہے ۔۔وہ اپنی زندگی میں آگے بڑھ چکی ہے ۔۔۔اور آپ اب تاک وہیں کھڑے ہیں کہ اسکے بارے میں بات کرنے یا سننے سے بھی ڈرتے ہیں ۔۔وہ اسے بازو سے پکڑتے ہوئے کہنے لگی ۔۔
ڈرتا نہیں میں ۔۔۔۔سن لیا ۔۔۔ڈرتا نہیں میں ۔۔۔نفرت ہو گئی ہے مجھے اس سے اسکے نام سے اس سے جڑی ہر یاد سے ۔۔۔وہ ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہنے لگا ۔۔۔
مناہل آنکھیں کھولے حیرانگی سے باسط کو دیکھنے لگی ۔۔کہ اتنا بغض ۔۔۔
آئندہ اسکا نام اس گھر میں ۔۔میں اسکا نام دوبارہ نہ سنوں ۔۔۔۔وہ وارن کرتے ہوئے چلتا بنا ۔۔۔
۔***********۔
یونی لائف بڑے مزے کی ہوتی ہے ۔۔۔
با خدا یہ بات سراسر جھوٹی ہوتی ہے ۔۔۔
واہ ۔۔۔۔کیا بات ہے ۔۔۔قربان میری چپل تم پر ۔۔۔تابی نے دانت چباتے ہوئے کہا ۔۔
کیوں کہ مسلسل کینٹین میں بیٹھا حدید انھیں پڑھنے کے بجائے تنگ کئے ہوئے تھا ۔۔
دو سموسے چٹنی کے ساتھ ۔۔۔وہ کینٹین میں کام کرتے چھوٹو سے کہنے لگا ۔۔۔
کتنی تو فکر ہے اپنے پیٹ کی ۔۔۔اگر اتنی پڑھائی پر کرتے تو آج نہ جانے کہاں پہنچ چکے ہوتے ۔۔۔تابی اس پر طنز کے تیر چلاتے ہوئے بولی ۔۔
چلو ۔۔۔۔میں نے نہیں کی فکر ۔۔۔وہ ٹیبل پر کہنی ٹکاتے ہوئے گویا ہوا ۔۔۔
تم نے تو کی ہے نہ ۔۔۔کہاں پہنچی تم ۔۔۔۔؟ بتاؤ ۔۔۔۔
جہاں بھی پہنچی ۔۔۔لیکن ٹاپ پر رہی ہوں ہمیشہ ۔۔وہ گردن کو اونچا کرتے ہوئے ایک ادا سے کہنے لگی ۔۔۔
اتنا غرور بھی اچھا نہیں ۔۔جب انسان منہ کے بل گرتا ہے نہ تو کچھ نہیں بچتا سوائے پچھتاوے کے ۔۔۔حزیفہ اسکے برابر میں بیٹھتے ہوئے تابی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے کہنے لگا ۔۔۔
وہ دانت چباتے ہوئے کتابوں کو پٹختے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی ۔۔۔
ارے کہاں جارہی ہو ۔۔امل نے کتاب بند کرتے ہوئے کہا ۔۔
جہاں بھی جاؤں لیکن یہاں ہر گز نہیں بیٹھوں گی ۔۔وہ غصے میں حزیفہ کی جانب دیکھتے ہوئے اپنا بیگ اٹھاتے ہوئے آگے بڑھ گئی ۔۔۔
ابھی تک غصہ چڑھا ہے میڈم کی ناک پر ۔۔۔چل یار ۔۔کچھ کھانے کو منگا بہت بھوک لگ رہی ہے ۔۔وہ سوچتے ہوئے حدید کی جانب متوجہ ہوا ۔۔۔
او چھوٹو دس سموسے پارسل ۔۔۔اسنے بیٹھے بیٹھے وہیں سے ہانک لگائی ۔۔
ابے دس سموسے کیا تیرا باپ کھائے گا ۔۔؟حزیفہ نے اسے چپت رسید کرتے ہوئے کہا ۔۔۔۔
نہیں ۔۔۔لیکن باپ کا بیٹا تو ہے نہ ۔ ۔۔۔وہ بتیسی نکالتے ہوئے بولا ۔۔۔
بوکھڑ کہیں کا موٹو۔۔۔ ۔
۔***********۔
وہ کیفے سے واپسی پر گھر کی جانب پیدل بڑھ رہا تھا جبھی اسے اسے لگا جیسے کوئی اسکا پیچھا کر رہا ہو ۔۔۔
یکدم اسنے پشت کے بل دیکھا ۔۔۔جہاں ساری سڑک سنسان پڑی تھی ۔۔۔۔
رات کے اندھیرے میں وہ تیز تیز قدم اٹھانے لگا ۔۔۔
اچانک کوئی چیز اڑتی ہوئی اسکے سر پر جا لگی ۔۔۔
وہ کراہتا ہوا گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھتا گیا ۔۔۔
۔*************۔
یہ کیا واہیات حرکتیں کر رہے ہو کچھ تو شرم کرو ۔۔۔ایک آئس کریم کھلانے کو کہا تھا تمہیں اور یہ تم دس والی قلفی لائے ہو ۔۔۔وہ گاڑی سے ٹیک لگائے حدید کو کھا جانے والی نظروں سے گھورتے ہوئے بولی ۔۔۔
بہت ہی بوکھڑ ہو تم ۔۔۔۔ایک میں ٹہرا غریب ۔۔اور تم نے ڈیمانڈ بھی کارنیٹو کی کر دی ۔۔۔مائے والی قلفی کھانی ہے تو چپ کر کے کھاؤ ورنہ اپنے پیسے اٹھاؤ اور خود ہی آئس کریم لے کر کھاؤ ۔۔۔۔
اس سے اچھا ہے۔ تو میں یہ ہی کھاؤں ۔۔۔خود کے پیسوں کی بات آئی تو تابی کو سانپ سونگھ گیا تو چپ کر کے قلفی کھانے میں ہی اپنی عافیت سمجھی ۔۔۔
۔***********۔
اتنی دیر کر دی بھائی نے آج تو ۔۔۔پہلے تو ایسا کبھی نہیں ہوا ۔۔۔وہ بار بار دروازے کی جانب دیکھتے ہوئے بڑبڑانے لگی ۔۔
پوچھوں بھی تو کس سے ۔۔۔وہ پریشانی میں ٹہلنے لگی ۔۔۔۔
۔***********۔